اسلام اور سکھ مت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسلام اور دیگر مذاہب
تخطيط كلمة الإسلام

باب:اسلام

اسلام ایک ابراہیمی مذہب ہے جس کی ابتدا جزیرہ نما عرب میں ہوئی جبکہ سکھ مت برصغیر میں شروع ہونے والے دھرمی مذاہب میں سے ایک ہے۔ اسلام کا مطلب (اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے) "اطاعت و فرماں برداری" ہے[1][2] اور لفظ سکھ سنسکرت زبان سے نکلا ہے جس کے معنیٰ "شاگرد، چیلا یا طالب علم" کے ہیں۔[3] دونوں مذاہب کی تعلیمات مواحدانہ ہیں اور ان کے پیروکار خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں۔ صوفی مسلم اور سکھ مت دونوں کا عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق "ایک" ہے۔[4][5][6]

صوفیا سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ننانوے صفات اپنی مخلوق میں گاہے بگاہے ظاہر اور تقسیم کرتا ہے[4] جبکہ سلفی مسلمانوں کا عقیدہ مختلف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حضوصیات اور صفات اس کی مخلوق سے الگ ہیں اور اللہ صرف اپنے تخت پہ براجمان ہے۔[7] اسلامی عقیدہ ہے کہ پیغمبر محمد آخری نبی تھے جن پر ساتویں صدی عیسوی میں قرآن نازل ہوا۔ سکھ مت کی بنیاد بابا گرو نانک نے پندرھویں صدی عیسوی میں رکھی۔ گرنتھ صاحب سکھ مت کی مقدس کتاب اور صحیفہ ہے اور سکھ گرنتھ صاحب کو زندہ گرو مانتے ہیں۔[5][8] اسلامی قوانین کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے جسے شریعت کہتے ہیں۔ دوسری طرف گرنتھ صاحب میں کوئی مخصوص احکامات نہیں۔ ہر مسلمان پر روزانہ پانچ نمازیں ادا کرنا فرض ہے[9] اور نماز اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے۔ اسلام میں سالانہ زکوۃ دینا لازمی ہے۔[10] سکھ مت میں ایک رسم نت نام ہے جس میں پنج بنی (عبادت) کا پڑھنا شامل ہے۔ گرو نانک کے وضع کردہ چند عقائد "کِرت کرتا" (بغیر کسی بے ایمانی اور برائی کے زندگی بسر کرنا)، "نام جپنا" (خدائے واحد کا ذکر کرنا) اور "ونڈ چکر" (خدمتِ خلق) سکھ مت کے بنیادی عقائد میں سے ہیں۔ حج کرنا اسلام میں بہت اہم ہے جبکہ سکھ مت میں حج اور ختنہ کی رسم کی سخت مخالفت ملتی ہے۔[11] سکھ مت کے دسویں گرو گوبند سنگھ کے مطابق تمام رسومات و زیارات سکھ اپنے گرودوارے میں سر انجام دیں۔ تاریخ میں سکھ مت اور اسلام کے درمیان میں تعمیری مماثلت اور تخریبی محاذ آرائیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ سکھوں کی روحانی کتاب گرنتھ صاحب میں مسلمان صوفی سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھنے والے بزرگ بابا فرید الدین گنج شکر اور کبیر کی تعلیمات اور اشعار درج ہیں۔[12][13][14] جبکہ سکھ مت کے دس گروؤں[15][16][17][18] میں سے دو گرو گرو ارجن دیو اور گرو تیغ بہادر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں اسلام قبول نہ کرنے کے جُرم میں قتل کر دیا گیا تھا۔[19][20] نیز گرو گوبند سنگھ کے بچوں،[21][22] ان کے چند ساتھیوں بندہ سنگھ بہادر، متی داس، بھائی ستی داس اور بھائی دیالا[18][21][22] کو اسلام قبول کرنے سے انکار[23][15][22][21] اور برصغیر میں ہندوؤں اور سکھوں پر مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا۔[24][20][16][18] بعض روایات کے مطابق یہ تمام باتیں من گھڑت قصے ہین جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔[25]

تقابل[ترمیم]

عقائد[ترمیم]

خدا[ترمیم]

سکھ مت کا ماننا ہے کہ خدا (نرنکار) بے ہیئت اور کسی واضح شکل کے بغیر ہے۔[5][26] یہ عقیدہ وحدت الوجود[6] اور عقیدہ توحید کی ایک قسم ہے۔[5]

"نرگن" کے مطابق خدا ایک غیر صفاتی، مبہم، نادیدہ مگر ہرجہ موجود اثرپذیر شے کا نام ہے جبکہ "سرگن" کے مطابق خدا کی خوبیاں، صفات تمام مخلوق میں آشکار ہیں۔ (اِک اونکار۔ خدا ایک ہے وہی لازوال حقیقت ہے وہ بے خوف و نفرت ہے پیدائش و موت سے ماورا غیر فانی خدا)۔

اسلام سختی سے خد اتعالیٰ کی وحدانیت پر زور دیتا ہے۔ اسلام کے مطابق خدا ایک ہے اور محمد خدا کے رسول ہیں۔ اسلام بت پرستی یا دیوی دیوتاؤں کے ماننے سے بیزار ہے۔ یہ توحیدی نظریہ اسلام میں شہادت (گواہی) کہلاتا ہے۔[27][28] یہ اسلامی عقیدے شہادت کا حصہ ہے۔[28]

کہہ دو اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نا اُس نے کسی کو جنا اور نا وہ جنا گیا۔ اور اُسکا کوئی ہمسر نہیں۔ (قرآن۔ سورہ اخلاص)[29]

روحانی پیشوا/رسول[ترمیم]

سکھ مذہب کا ماننا ہے کہ گرو نانک عظیم پیشوا اور سب سے بڑے گرو یا اُستاد ہیں جنھوں نے خدائے عظیم کی تعلیمات دُنیا میں پھیلائیں اور سکھوں کے دس گروؤں کی شکل میں خدا کی صفات و خصوصیات کا ظہور ہوا۔ سکھ مت کا ماننا ہے کہ دوسرے مذاہب میں بھی روحانی پیشوا گذرے ہیں مثلاً کرشن، حضرت موسٰی علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ و سلم۔[5]

اسلام کا ماننا ہے کہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پہلے بہت سے انبیا کرام دُنیا میں آئے۔ اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ آخری کتاب ہے۔[30][31]

قوانینِ مذاہب[ترمیم]

اسلام میں پانچ بنیادی ارکان/قانون ہیں جن پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔ یہ ارکان 1-شہادت (گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں)[32] 2-نماز، 3-روزہ، 4-زکوۃ اور 5-حج شامل ہیں۔ یہ ارکانِ اسلام شیعہ اور سنی مسلم دونوں میں یکساں رائج ہیں۔[33][34]

سکھ مت میں تین بنیادی قوانین ہیں۔ نام 1-جپنا، 2-کِرت کرنی اور 3-ونڈ چکھنا۔[35]

اصطباغی امرت دھاری سکھ خالصہ فرقہ ہے جس کی بنیاد1699 میں سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ نے رکھی تھی ان کے عقیدہ میں کاف مذہب سکھ کا لازمی جُز ہیں۔

1-کیس (غیرتراشیدہ بال) 2-کنگھا 3-کرپان 4-کڑا 5-کچھا

امرت دھاری سکھ دن میں سات مختلف عبادتوں کے مجموعے کو ادا کرتے ہیں ان لازمی عبادتوں کو "نت نام" کہا جاتا ہے۔

معاشرتی عقائد[ترمیم]

سکھ مذہب میں معجزوں کے متعلق متضاد اور ملا جلا رد عمل پایا جاتا ہے۔ خود سکھ مت میں اور دوسرے مذاہب کے خلاف تفریق کو سختی سے رد کیا جاتا ہے۔[36][36] مذہبی رسومات کی اجازت نہیں مگر معاشرتی یا علاقائی رسم و رواج سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔[8] سکھ مت میں ناکتخدائی اور رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔[37] بانی سکھ مت گُرو نانک نے ہندو مت کے عقیدہ حیاتِ نو کو اپنایا اور تناسخ کی تعلیم دی۔[37] مذہبی کتاب آدی گر نتھ دوسرے مذاہب کی روحانی تعلیمات کو مانتا اور اپنانے کی تعلیم دیتی ہے۔[8][38] اسلام اپنے آپ کو مکمل اور آخری مذہب قرار دیتا ہے[38] اور قرآن و سنت کے خلاف کسی بھی تعلیم کو بدعت قرار دے کر سخت مخالفت کرتا ہے۔[8] اسلام میں معجزات کی بہت اہمیت ہے اور یومِ آخر (قیامت) پر یقین ایمان کا حصہ کہلاتا ہے۔[39]

تبدیلئ مذہب[ترمیم]

کسی بھی مسلمان کی مذہب سے کنارہ کشی، دہریت یا مذہب کی تبدیلی کو ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا ہے جس کی سزا موت ہوتی ہے۔[32][40] جان ایسپوسیٹو کے مطابق "حدیث میں ہے کہ مذہب کی تبدیلی کی سزا سر قلم کرنا یا تصلیب یا جلاوطنی ہے مزید یہ کہ ایسے شخص کا سر تلوار سے قلم کرنا چاہیے۔ جبکہ جدید مفکر قرآن کی سورہ البقرہ آیت دو سو ستاون کی رو سے (لا اکرہ فی الدین) تبدیلئ مذہب کے بارے میں تمام سزاؤں کو غلط اور من گھڑت قرار دیتے ہیں۔"[32]

سکھ مذہب میں اپنی من پسند راہ چننے اور ضمیر کے مطابق عمل کرنے کی مکمل آذادی ہے۔[41]

دوسرے مذاہب کے متعلق خیال[ترمیم]

سکھ مذہب کے مطابق تمام مذاہب اُنکی روایات مستند ہیں جو اُسی واحد "واہ گرو" کی طرف لے جاتی ہیں۔ اور انسانیت پر کسی ایک مذہب کی اجاراداری نہیں۔[42]

اسلام کے مطابق دوسرے تمام مذاہب میں انسانوں نے اپنی دلی خواہشات کے ترمیم اور ردوبدل کر دی ہے۔[43][44]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Online Etymology Dictionary"۔ www.etymonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2015 
  2. Lewis, Barnard، Churchill, Buntzie Ellis (2009)۔ Islam: The Religion and The People۔ Wharton۔ صفحہ: 8۔ ISBN 9780132230858 
  3. "Online Etymology Dictionary"۔ www.etymonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2015 
  4. ^ ا ب William Chittick، Sufism: A Short Introduction 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ Jagbir Johal (2011)۔ Sikhism today۔ Continuum۔ صفحہ: 1–2۔ ISBN 978-1-4411-8140-4 
  6. ^ ا ب Sikhism in Its Relation to Muhammadanism، ص 12، گوگل کتب پر
  7. Alexander Stewart (2016-07-01)، Chinese Muslims and the Global Ummah: Islamic Revival and Ethnic Identity، صفحہ: 43، ISBN 9781317238478 
  8. ^ ا ب پ ت Gurapreet Singh (2003)۔ The soul of Sikhism۔ صفحہ: 18۔ ISBN 978-81-288-0085-6 
  9. Mary Fisher (1997)۔ Living religions : an encyclopedia of the world's faiths۔ صفحہ: 353۔ ISBN 978-1-86064-148-0 
  10. Priya Rai (1989)۔ Sikhism and the Sikhs۔ Greenwood Press۔ صفحہ: 230–233۔ ISBN 978-0-313-26130-5 
  11. D.S Chahal (Editors: John Peppin etc.) (2004)۔ Religious perspectives in bioethics۔ London u.a: Taylor & Francis۔ ISBN 978-0-415-54413-9 
  12. Michael Shapiro (2002)۔ Songs of the Saints from the Adi Granth۔ Journal of the American Oriental Society۔ صفحہ: 924, 925 
  13. Pashaura Singh (2000)۔ The Guru Granth Sahib: Canon, Meaning and Authority۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 174–180۔ ISBN 978-0-19-564894-2 
  14. ^ ا ب
  15. ^ ا ب
  16. ^ ا ب پ
  17. ^ ا ب
  18. ^ ا ب پ
  19. ^ ا ب پ
  20. Pashaura Singh (2005), Understanding the Martyrdom of Dhan Dhan Sri Guru Arjan Dev Ji, Journal of Punjab Studies, 12(1), pages 29-62
  21. Hew McLeod (1987)۔ "Sikhs and Muslims in the Punjab"۔ South Asia: Journal of South Asian Studies۔ 22 (s1): 155–165۔ doi:10.1080/00856408708723379 
  22. Christopher V. Hill (2008)، South Asia: An Environmental History، quote: "He did not, however, introduce forced conversion..."، صفحہ: 73، ISBN 9781851099252 
  23. Eleanor Nesbitt (2016)۔ Sikhism: A Very Short Introduction۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 24۔ ISBN 978-0-19-106276-6 
  24. "From the article on Tawhid in Oxford Islamic Studies Online"۔ Oxfordislamicstudies.com۔ 2008-05-06۔ 20 نومبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  25. ^ ا ب Malise Ruthven (2004)۔ Historical Atlas of Islam۔ Harvard University Press۔ صفحہ: 14۔ ISBN 978-0-674-01385-8 
  26. "112. The Unity, Sincerity, Oneness Of Allah"۔ Islam101.com۔ 05 ستمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اپریل 2019 
  27. Fethullah Gülen (2005)۔ The Messenger of God Muhammad : an analysis of the Prophet's life۔ صفحہ: 204۔ ISBN 978-1-932099-83-6 
  28. Scott Noegel، Brannon M. Wheeler (2002)۔ Historical dictionary of prophets in Islam and Judaism۔ Scarecrow۔ صفحہ: 227–229۔ ISBN 978-0-8108-4305-9 
  29. ^ ا ب پ John Esposito (2003)۔ The Oxford dictionary of Islam۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 22۔ ISBN 978-0-19-512559-7 
  30. See: * Mumen (1987), p.178, "Pillars of Islam"۔ Encyclopaedia Britannica Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2016 
  31. Ian Knight، Scollins (23 March 1990)۔ مدیر: Richard۔ Queen Victoria's Enemies: India No.3۔ Men-at-arms (Paperback ایڈیشن)۔ Osprey Publishing; illustrated edition۔ صفحہ: 15۔ ISBN 978-0-85045-943-2 
  32. "Religion: Sikhism"۔ BBC۔ 1970-01-01۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2015 
  33. ^ ا ب Kaiyume Baksh (1 January 2007)۔ Islam and Other Major World Religions۔ Trafford Publishing۔ ISBN 9781425113032 – Google Books سے 
  34. ^ ا ب Denise Carmody (2013)۔ Ways to the center : an introduction to world religions۔ صفحہ: 339۔ ISBN 978-1-133-94225-2 
  35. ^ ا ب Mark Juergensmeyer (2006)۔ The Oxford handbook of global religions۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-976764-9 
  36. John Esposito (2004)۔ The Islamic world : past and present۔ New York: Oxford University Press۔ صفحہ: 121–122۔ ISBN 978-0-19-516520-3 
  37. Kecia Ali (2008)۔ Islam : the key concepts۔ Routledge۔ صفحہ: 10–11۔ ISBN 978-0-415-39638-7 
  38. Pal Kaur, Apostasy: A sociological perspective, Sikh Review, 45(1), 1997, pp. 37-40
  39. Kristen Haar (2005)۔ Sikhism۔ San Val۔ صفحہ: 43–44۔ ISBN 978-1417638536 
  40. Andrew Rippin (2010)۔ The Islamic world۔ London: Routledge۔ صفحہ: 252–258۔ ISBN 978-0-415-60191-7 
  41. Munim Sirry (2014)۔ Scriptural polemics : the Qur'an and other religions۔ Oxford New York: Oxford University Press۔ صفحہ: 43–64۔ ISBN 978-0-19-935936-3