عبادت (اسلام)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عبادت عاجزی و تعظیم کی آخری حد کا نام ہے۔

لفظی معنی[ترمیم]

عبادت عربی زبان کے لفظ ’’عبد ‘‘ سے مشتق ہے اور اس کا معنی آخری درجے کی عاجزی و انکسار ہے۔

امام راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:

العبادةُ أَبْلَغُ مِنْهَا لِأَنَّهَا غَايَةُ التَّذُلَّلِ۔ (راغب اصفهانی، المفردات : 319)

ترجمہ: عبادت عاجزی و فروتنی کی انتہا کا نام ہے۔

اصطلاحی معنی[ترمیم]

شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’’عبادت، صرف ایسے فعل کا نام ہے جو کسی کی نسبت معبود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے لیے تعظیم، عاجزی اور فروتنی کے اظہار کی خاطر صادر ہو۔‘‘ اصطلاحی معنی == شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’’عبادت، صرف ایسے فعل کا نام ہے جو کسی کی نسبت معبود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے لیے تعظیم، عاجزی اور فروتنی کے اظہار کی خاطر صادر ہو۔‘‘ {اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ:ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔} ا س سے پہلی آیات میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہے جو سب جہانوں کا پالنے والا، بہت مہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے اور اس آیت سے بندوں کو سکھایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عبادت کی جا سکے اور حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے۔ تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی کسی قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی روحانی، چھوٹی بڑی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔

نتیجہ[ترمیم]

    قرآن شریف کی اصطلاحوں میں عبادت بھی بہت اہم اور نازک اصطلاح ہے۔ کیونکہ یہ لفظ قرآن شریف میں بہت کثرت سے آیا ہے اور اس کے معنے میں نہایت باریکی ہے۔ اطاعت، تعظیم، عبادت ان تینوں میں نہایت لطیف فرق ہے بعض لوگ اس نازک فرق کا اعتبار نہیں کرتے۔ ہر تعظیم کو بلکہ ہر اطاعت کو عبادت کہہ کر سارے مسلمانوں بلکہ اپنے بزرگوں کو بھی مشرک وکافر کہہ دیتے ہیں۔ اس لیے اس کا مفہوم، اس کا مقصو د، بہت غور سے سنیئے ۔

  عبادت عبد ٌ سے بنا ہے بمعنی بندہ، عبادت کے لغوی معنی ہیں بندہ بننا یا اپنی بندگی کا اظہار کرنا جس سے لازم آتا ہے معبود کی الوہیت کا اقرار کرنا مفسرین نے اس کی تعریف انتہائی تعظیم بھی کی ہے اورانتہائی عاجزی بھی۔ دونوں تعریفیں درست ہیں کیونکہ عابدکی انتہائی عاجزی سے معبودکی انتہائی تعظیم لازم ہے اور معبود کی انتہائی تعظیم سے عابد کی انتہائی عاجزی مستلزم۔ انتہائی تعظیم کی حد یہ ہے کہ معبود کی وہ تعظیم کی جاوے جس سے زیادہ تعظیم ناممکن ہو او راپنی ایسی عاجزی کی جاوے جس سے نیچے کوئی درجہ متصور نہ ہو اس لیے عبادت کی شرط یہ ہے کہ بندگی کر نیوالا معبود کو الٰہ اور اپنے کو اس کا بندہ سمجھے یہ سمجھ کر جو تعظیم بھی اس کی کریگا عبادت ہوگی۔ اگر اسے الٰہ نہیں سمجھتا۔ بلکہ نبی، ولی، باپ، استاد، پیر، حاکم، بادشاہ سمجھ کر تعظیم کرے تو اس کا نام اطا عت ہوگا۔ توقیر، تعظیم، تبجیل ہوگا، عبادت نہ ہوگا غرض کہ اطاعت وتعظیم تو اللہ تعالیٰ اور بندوں سب کی ہو سکتی ہے لیکن عبادت اللہ تعالیٰ ہی کی ہو سکتی ہے بندے کی نہیں اگر بندے کی عبادت کی تو شرک ہو گیا اور اگر بندے کی تعظیم کی تو جیسا بندہ ویسا اس کی تعظیم کا حکم۔ کوئی تعظیم کفر ہے، جیسے گنگا جمنا، ہولی، دیوالی کی تعظیم۔ کوئی تعظیم ایمان ہے جیسے پیغمبر کی تعظیم، کوئی تعظیم ثواب ہے، کوئی گناہ ۔

اسی لیے قرآن کریم میں عبادت کے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ یا رب یاالٰہ کا ذکر ہے اور اطاعت وتعظیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے اورنبی کا بھی، ماں باپ کا بھی حاکم کا بھی فرماتا ہے :

  1. وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا[1]

آپ کے رب نے فیصلہ فرمادیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ۔

  1. مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیۡ وَرَبَّکُمْ[2]

نہیں کہا تھا میں نے ان سے مگر وہ'' ہی'' جس کاتو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارارب ہے ۔

  1. یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمْ[3]

اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کر و جس نے تمھیں پیدا کیا ۔

  1. نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ[4]

ہم عبادت کر ینگے آپ کے الٰہ کی اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسمٰعیل اور اسحق کے الٰہ کی۔ علیہم السلام

  1. قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿1﴾لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوۡنَ ۙ﴿2﴾[5]

فرمادو اے کافر و جن کی تم پوجا کرتے ہو ان کی پوجا میں نہیں کرتا ۔

   ان جیسی ساری عبادت کی آیتو ں میں صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوگا لیکن اطاعت وتعظیم میں سب کا ذکر ہوگا۔

  1. اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمْرِ مِنۡکُمْ[6]

اطا عت کرواللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور اپنے میں سے حکم والوں کی ۔

  1. مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ[7]

جس نے رسول کی فرماں برداری کی اس نے اللہ کی فرماں برداری کی ۔

  1. وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ ﴿32﴾[8]

اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلی پرہیز گاری ہے ۔

        • عبادت اور تعظیم میں فرق:
            عبادت کامفہوم بہت واضح ہے، سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اُس کی کسی قسم کی تعظیم کرنا’’ عبادت‘‘ کہلاتاہے اور اگر عبادت کے لائق نہ سمجھیں تو وہ محض’’ تعظیم‘‘ ہوگی عبادت نہیں کہلائے گی، جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے لیکن یہی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا اُستاد، پیر یا ماں باپ کے لیے ہو تومحض تعظیم ہے عبادت نہیں اوردو نوں میں فرق وہی ہے جو ابھی بیان کیا گیا ہے۔

آیت’’اِیَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ سے معلوم ہونے والی اہم باتیں :

           آیت میں جمع کے صیغے ہیں جیسے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے اور دوسروں کو بھی عبادت کرنے میں شریک کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ گناہگاروں کی عبادتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے محبوب اور مقبول بندوں کی عبادتوں کے ساتھ جمع ہو کر قبولیت کادرجہ پالیتی ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہیے۔  امام عبد اللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :عبادت کو مدد طلب کرنے سے پہلے ذکر کیا گیا کیونکہ  حاجت طلب کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔(مدارک، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: 4، ص14)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. پ15،بنیۤ اسرآء یل:23
  2. (پ7،المائدۃ:117)
  3. پ1،البقرۃ:21
  4. پ1،البقرۃ:133
  5. پ30،الکا فرون:1۔2
  6. پ5،النسآء:59
  7. پ5،النسآء:80
  8. پ17،الحج:32