خودی (اقبال)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محمد اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

لیکن اقبا ل کے سوالات و جوابات کی نوعیت اس سلسلے میں غالب سے بہت مختلف ہے، یہ غالب نے ”عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے“ اور ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔“ کے عقیدے سے قطع نظر کرکے، وجدانی طور پر ایک لمحے کے لیے محسوس کیا ہے اسے بیان کر دیا ہے اقبال نے ان سوالوں کے جواب میں دلائل و ب رہان سے کام لیا ہے۔ اور اسے ایک مستقل فلسفہ حیات میں ڈھال دیا ہے۔

اگر گوئی کہ من وہم و گماں است
نمودش چوں نود ایں و آں است

یہی فلسفہ حیات ہے جو بعض عناصرِخاص سے ترکیب پا کر اقبال کے یہاں مغرب و مشرق کے حکمائے جدید سے بالکل الگ ہو گیا ہے اس کا نام فلسفہ خودی ہے اور اقبال اسی کے مفسر و پیغامبر ہیں۔ اس فلسفے میں خدابینی و خودبینی لازم و ملزوم ہیں۔ خود بینی، خدابینی میں سے خارج نہیں بلکہ معاون ہے۔ خودی کا احساس ذات خداوند ی کا ادراک اور ذات ِ خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے خدا کو فاش تر دیکھنے کے لیے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے۔ اگر خواہی خُدارا فاش دیدن
خودی رافاش تر دیدن بیا موز

اقبال کا تصور ِ خودی[ترمیم]

تصو ر خودی کو اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر سعید عبد اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔

”خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔ خودی عشق کے مترادف ہے۔ خودی ذوق تسخیر کا نام ہے۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔ خودی ذوق طلب ہے۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔ خودی سرچشمہ جدت و ندرت ہے۔ خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوز حیات کا سرچشمہ ہے اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے۔“ خودی

اقبال کے ہاں خودی سے مراد[ترمیم]

خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل معانی رکھتا ہے ١) انانیت ٢) خود پرستی ٣) خود مختاری ٤) خود سری ٥) خود رائی ٦) خود غرضی ٧) نخوت، تکبر ٨)اپنے اوپر بھرپور بھروسا کرتے ہوئے سب کچھ حاصل کر لینا.

”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغا م یا فلسفہ حیات میں تکبر و غروریا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی اقبال کے نزدیک نا م ہے احساسِ غیرت مندی کا ،جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ”خودی“ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام، زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔

خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک ِ آدم میں صورت پزیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید، خودی کی تلوارکو آب دار بناتی ہے اور خودی، توحید کی محافظ ہے۔

خودی کا سرِ نہاں لاالہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اللہ

کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشائی کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے۔

خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی
ہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر

ڈاکٹر افتخار صدیقی” فروغِ اقبال “ میں اقبال کے نظریہ خودی کے بارے میں رقمطراز ہیں۔

” نظریہ خودی، حضرت علامہ اقبال کی فکر کا موضوع بنا رہا۔ جس کے تما م پہلوئوں پر انھوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اقبال نے ابتداءہی میں اس بات کو واضح کر دیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہر گز نہیں بلکہ اس سے عرفان ِ نفس اور خود شناسی مراد ہے۔“

چنانچہ ”اسرار خودی“ کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھتے ہیں،

” ہاں لفظ”خودی “ کے متعلق ناظرین کو آگاہ کردینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی ”غرور “استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اُردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعینِ ذات ہے۔“ تقریباً یہی مفہوم اقبال کے اس شعر میں ادا ہوا ہے۔

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں

اقبال کے تصور ِ خودی میں صوفیانہ فکر کے بیشتر عناصر ملتے ہیں لیکن صوفیوں کی خودی کا تصور روحانی ہوتا ہے ان کی روحانی انا اس درجہ محکم ہے کہ وہ مادی خودی کو وجود ِ مطلق کا جز قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اقبال خودی کے مادی لوازم کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس مادی خودی کو بھی بر حق اگرچہ تغیر پزیر جانتے ہیں، صوفی وجود اور خودی کو تسلیم کرلینے کے بعد فنائے خودی میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔ اُس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس خودی کو بے خودی میں بد ل دے تاکہ وہ اپنی اصل سے مل جائے۔ صوفی اسے ترکِ خود یا نفی خود کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ اقبال عارضی خودی کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور بے خودی تک پہنچنے کے لیے خودی کو ہی ذریعہ اور وسیلہ بناتے ہیں۔

اقبال کے تصور خودی کے ماخذ[ترمیم]

اقبال کے تصور خودی کا ماخذ ڈھونڈنے کے لیے نقادوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں۔ اس سلسلے میں نطشے، برگساں، ہیگل اور لائڈ ماتھر وغیر ہ کا نام لیا گیا۔ جبکہ خود اقبال نے اس قسم کے استفادے سے انکار کیا۔ خلیفہ عبد الحکیم کے خیال میں اقبال نطشے سے نہیں فشٹے سے متاثر تھے۔ کیونکہ نطشے تو منکر خدا ہے۔ اقبال کو نطشے کی تعلیم کا وہی پہلو پسند ہے جو اسلام کی تعلیم کا ایک امتیازی عنصر ہے۔ اگرچہ ”اسرار خودی“ کے اکثر اجزاءفلسفہ مغرب سے ماخوذ ہیں اور یہاں مسلمان فلسفیوں کے خیالات بہت کم ہیں لیکن اسلامی تصوف میں عشق کا نظریہ اقبال نے مولانا روم سے لیا ہے۔ اور اقبال کی شاعری کا انقلاب انگیز پیغام دراصل رومی کے فیض کا نتیجہ ہے۔ اس بارے میں عبد ا لسلام ندوی لکھتے ہیں کہ،

” خودی کا تصور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ کی اساس ہے اور اسی پر ان تما م فلسفیانہ خیالات کی بنیاد ہے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ یورپین فلسفہ بالخصوص نطشے سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل کو ڈاکٹر صاحب نے مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔“

بقول خلیفہ عبد الحکیم ،

”رومی انفرادی بقا ءکا قائل ہے اور کہتا ہے کہ خدا میں انسان اس طرح محو نہیں ہو جاتا جس طرح کہ قطرہ سمندر میں محو ہو جاتا ہے۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں چراغ جل رہا ہے جیسے لوہا آگ میں پڑ کر آگ ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی انفرادیت باقی رہتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ خودی کے لیے بھی یہی نظریہ مناسب تھا اس لیے انھوں نے اس کو مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔“ اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کی اپنی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اُن کے فلسفہ خودی کے تمام اساسی مضامین درحقیقت قرآن سے ماخوذ ہیں۔

خودی اور فطرت[ترمیم]

اقبال کے نزدیک خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لیے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئی شے خودی میں مستحکم اور غیر خو د پر غالب ہے اُسی نسبت سے اُس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے۔ مخلوقات میں انسان اس لیے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے۔ اور اس خودی سے فطرت ِ انسانی مشاہدہ کی پابند ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشمِ تخیل انسان کی جدوجہد و عمل کے لیے نئے نئے میدان دکھاتا ہے۔

خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے تو جہاں سے نہیں

خودی اور عشق[ترمیم]

خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقبال نے اسے کبھی آرزو اور کبھی عشق کا نام دیا ہے۔ ارتقائے خودی میں عشق سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم
اقبال نے عشق کے کئی مدارج بیان کیے ہیں،
عشق فقیہہ حرم، عشق امیر جنود
عشق ہے ابن اسبیل، اس کے ہزاروں مقام

چنانچہ کہیں عشق جمالی صورت اختیار کر لیتا ہے اور کہیں جلالی رنگ میں جھلک دکھاتا ہے۔

عشق کے مضراب سے نغمہ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات عشق سے نارِ حیات

ڈاکٹر عابد حسین ”خودی اور عشق کا راستہ واضح کرتے ہوئے اپنے مضمون’ ’ اقبال کا تصور خودی میں لکھتے ہیں،

” اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ رہنما عشق ہے عشق اُس مرد ِکامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گذر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔“

مردِ خدا کاعمل، عشق سے صاحب فرو غ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام

خودی اور فقر[ترمیم]

طلب و ہدایت کے لیے کسی مرد ِ کامل کے آگے سرِ نیاز جھکانا توخودی کو مستحکم کرتا ہے۔ لیکن مال و دولت و منصب کے لیے دست نگر ہونا اس ضعیف بناتا ہے۔ گدائی صرف اِ سی کا نام نہیں کہ مفلس دولت مند کا طفیلی بن جائے بلکہ دولت جمع کرنے کا ہروہ طریقہ جس میں انسان محنت نہ کرے بلکہ دوسروں کی محنت سے فائدہ اُٹھائے اقبال کے نزدیک گداگری ہے۔ حتیٰ کہ بادشا ہ جو غریبوں کی کمائی پر بسر کرتا ہے سوال و گداگر ی کا مجرم ہے

میکدے میں ایک دن ایک مرد زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا سلطان گدائے بے نوا

اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے مرد ِ غریب و بے نوا

گدائی اور فقر میں زمین و آسمان کا فرق ہے گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا تا ہے جبکہ فقر مادی لذتوں سے بے نیاز کائنات کی تسخیر کرنا، فطرت پر حکمرانی اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلانا ہے۔

ایک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچھری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت ِ اکسیری

تربیت خودی کے تین مراحل[ترمیم]

خودی سے تعمیری کام لینے کے لیے اس کی تربیت ضروری ہے بے قید و بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے۔ اقبال بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ہیں جو صراط ِ مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔ خودی کی منازل کے علاوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم ہیں یہ مراحل تین ہیں ۔

1) اطاعت الہٰی:۔ اقبال کے نزدیک خودی کا پہلا درجہ اطاعت ہے یعنی کہ اللہ کے قانون ِ حیات کی پابندی کرنا

2) ضبط نفس:۔ دوسرا درجہ ضبط نفس ہے انسان نفس کو جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں لائے

3) نیابت الہٰی:۔ ان دونوں مدار ج سے گزرنے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو جائے گا ۔

جسے انسانیت کا اوج کمال سمجھنا چاہیے۔ یہ نیابت الہٰی کا درجہ ارتقائے خودی کا بلند ترین نصب العین ہے۔

خودی اور خدا کا تعلق[ترمیم]

طالب خودی ”مرد خدا“ کی محبت اس قدر برتر اور سرشار ہوتی ہے اور کیف و سرور کی وجہ سے خدا کی اتنی محبت اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ کو ناتمام محسوس کرتا ہے اسی کشش کا نام عشق ِ حقیقی ہے۔

عشق بھی ہو حجاب میں، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیطِ بیکراں، میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنا ر کر

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام ِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

بندگی میں انسان کو سکون ملتا ہے بحرحال یہ جدائی انسان کے لیے مبارک ہے کیونکہ یہی خودی وجہ حیات ہے۔

بے خودی[ترمیم]

اقبال کے فلسفہ خودی کی تفصیلات اور جزئیات کے مطالعہ سے اس قانون کا علم ہوتا ہے جس پر عمل کرکے انسان اس درجہ کو پالینے کے قابل ہو جاتا ہے جو اسے حقیقتاً خلیفتہ اللہ کے منصب کا اہل بنا دیتا ہے۔ اس قانون کی پابندی خودی کی تکمیل کے لیے لازمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارتا وہ لازماً کسی معاشرہ، کسی قوم اور کسی ملت کا فرد ہوتا ہے۔ فرد اور ملت کے درمیان رابطہ کے بھی کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں اسی رابطے اور قوانین و اصولوں کواقبال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے

اس رابطہ کو واضح کرنے کے لیے اقبال نے تصوف کی ایک مشہور اصطلاح استعمال کی ہے۔ فارسی اور اردو کے صوفی شعرا نفس انسانی کو قطرے سے اور ذات ایزدی کو دریا سے تشبیہ دیتے آئے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ” عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا“ لیکن اقبال نے اس تمثیل کو فرد اور ملت کے درمیان ربط و تعلق ظاہر کرنے کے لیے استعما ل کیا ہے۔ فرد کی مثال ایک قطرہ کی ہے اور ملت دریا کی طرح ہے۔ مگر اقبال کی نظر میں یہ قطرہ، دریا میں مل جانے کے بعد اپنی ہستی کو فنا نہیں کر ڈالتا بلکہ اس طریقہ سے اس کی ہستی مزید استحکام حاصل کر لیتی ہے۔ وہ بلند اور دائمی مقاصد سے آشنا ہو جاتا ہے۔ اس کی قوتیں منظم اور منضبط ہو جاتی ہیں اور اس کی خودی پائیدار اور لازوال بن جاتی ہے۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

دراصل ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے خودی سے اقبال کی مراد اجتماعی خودی ہے۔

انفرادی خودی اور اجتماعی خودی کا تعلق[ترمیم]

ڈاکٹر سید عبد اللہ ”طیف اقبال ‘ ‘ میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں

”خودی کی ایسی صورت جو اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کو نظر انداز کر ے وہ تخریب اور بگاڑ کی ایک شکل ہے۔ لہٰذا انسانی تجربے نے بتا یا کہ خودی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم رنگ قسم کی خودی، شعور، سے متحد ہو جاتی ہے۔ یہاں سے ایک اجتماعی خودی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح افراد کا شعور ایک جزو ہوتا ہے، اسی طرح اجتماعی خودی کا شعور بھی انفرادی خودی کے مانند ہم رنگ کے ساتھ شیرازہ بند ہوتا ہے۔

گویا انفرادی خودی اور اجتماعی خودی ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم نہیں ہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ فرد اپنی خودی کے ارتقاءاو ر استحکام کے بعد ملت کا ایک بیش قیمت سرمایہ بنتا ہے۔ اور ملت اپنے آئین اور قوانین کو فرد پر لاگو کرکے اُس کی خودی کو تعمیری اور تخلیقی حدود کی پابند رکھتی ہے۔ یہی وہ حقیقی ربط ہے جو فرد اور ملت کے درمیان لازماً موجود ہونا چاہیے۔ یعنی اقبال کی بے خودی دراصل ملت اسلامیہ یا اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ جس کے قانون کے اندر رہتے ہوئے خودی کے مکمل اور بہترین تربیت ہو سکتی ہے۔

تکمیل خودی کے لیے ملت اسلامیہ کی ضرورت[ترمیم]

مندرجہ بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خالص فلسفیانہ نظریے کی حد تک انسانیت کا ایک عالمگیر تصور ممکن ہے۔ لیکن جب اس تصور کو ایک معین اور زندہ نصب العین کی صورت دی جائے تو وسیع سے وسیع نظر رکھنے والا شخص بھی اس بات پر مجبور ہو جاتا ہے کہ انسانیت کی تکمیل کا معیار کسی خاص ملت کو بنائے۔ اقبال کے نزدیک ملت بیضائے اسلام اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ ان کی نظر میں انسان کی خودی کی حقیقی تکمیل اور فرد و ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کی ذریعہ ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں فرد اور ملت کا رشتہ نسل یا وطن کے روابط کی بنیاد پر استوار نہیں ہوتا بلکہ توحید اور رسالت کا وسیع اور ہمہ گیر عقیدہ اس کی بنیاد بنتا ہے۔

جہاں تک فرد کا تعلق ہے اسے حقیقی آزادی ملت اسلامیہ کے اندر ہی حاصل ہوئی کیونکہ اسی ملت نے نوع انسان کو حقیقی معنوں میں حریت، مساوات اور اخوات کا نمونہ دکھایا۔ توحید کے عقیدہ نے نسل و انسب کے امتیاز کو مٹا دیا۔ غریبوں کو امیروں اور زیر دستوں کو زبردستوں کے تسلط سے آزاد کرکے عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین معیار کو قائم کیے اور اسلام کے رشتوں سے انسانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ دوسری جانب جماعت کے بارے میں بھی یہی ملت اعلیٰ ترین معیار قائم کرتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں

”ملت محمد کوانسانی اجتماعی خودی کے لیے ایک مثالی جماعت کہا جا سکتا ہے۔

بے خودی سے خودی کا استحکام[ترمیم]

آخر ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ فرد کے لیے جس طرح اپنی خودی کی تربیت، ارتقاءاور استحکام ضروری ہے اسی طرح اس خودی کو ایک آئین اور قانون کی حدود میں لانا بھی ضروری ہے۔ یہ آئین اور قانون وہ ملت مہیا کرتی ہے۔ جس میں وہ فرد رکن ہوتا ہے۔ اس آئین کی حدود میں آنے کے بعد وہ تمام افراد جن کی انفرادی خودی تربیت کے مراحل سے گذر چکی ہے، ایک اجتماعی خودی کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ اجتماعی خودی مربوط ہو جانے کے بعد ایک جگہ پھر افراد کی انفرادی خودی کے تحفظ اور استحکام کے وسائل پیدا کرتی ہے۔

لیکن ایسی ملت جو انفرادی اور اجتماعی طور پر خودی کی تربیت اور استحکام کے وسائل پیدا کر سکے اور دنیا میں منشائے خداوندی کو پورا کرنے کا باعث بن سکے۔ وہ صرف ملتِ اسلامیہ ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی قوم میں وہ خصوصیات موجود نہیں جو ایک عالمگیر انسانی برادری کی تشکیل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ صرف ملت اسلامیہ ہی وہ قوم ہے جو رنگ، نسل، زبان، ملک، علاقہ اور قبیلہ جیسے محدود امتیازات کو ختم کرکے ایک وسیع انسانی برادری کا تصور دیتی ہے۔ ایسا ہمہ گیر اور وسیع تصور دنیا کی اور کسی قوم کے پاس موجود نہیں ہے۔

احساسِ خودی کی توسیع[ترمیم]

بے خودی یا اجتماعی خودی کی تشکیل کے بعد ملت کے احساس خودی کی تو سیع کے لیے جن ذرائع کی ضرورت ہے وہ علم ِ کائنات اور تسخیر کائنات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ ملت اپنی تاریخ اور روایات کی حفاظت کرے۔ تاریخ اقوام کی زندگی کے لیے قوتِ حافظہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اور حافظہ ہی وہ چیز ہے جس سے مختلف ادراکات کے درمیان ربط اور تسلسل پیداہوتا ہے۔ خارجی حیات کے ہجوم میں ”میں “ یا ”ان “ کا مرکز حافظہ کے ذریعے ہی ہاتھ آٹا ہے۔ گویا حافظہ کے ذریعے فرد اپنے احساس ِ خودی کی حفاظت کرتا ہے اس طرح تاریخ کے ذریعہ ملت کی زندگی کے مختلف ادوار میں ربط اور تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ یہی شیرازہ بندی ہے اس کے شعورِ خودی کی کفیل اور اس کے بقائے دوام کی ضامن بنتی ہے۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے حال کا رشتہ ایک طرف ماضی سے اور دوسری طرف مستقبل سے استوار رکھتی ہے۔

تمام بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اقبال بے خودی یا اجتماعی خودی کی صورت میں ایک ایسی ملت یا ریاست کا تصور پیش کرتے ہیں جس کے زیر اثر رہتے ہوئے انفرادی خودی کو استحکام اور دوام حاصل ہو سکے۔اور اپنی روح کو زندہ رکھ سکیں۔

مجموعی جائزہ[ترمیم]

الغرض خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور بھی نہیں کرسکتے یہ اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیادی اینٹ ہے خودی کا لفظ اقبال نے غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم احساسِ نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے یہ ایک چیز ہے، جس کے بارے میں احادیث میں بھی موجود ہے۔

ترجمہ:۔ ”یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا“

یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال ہمیں اپنی ذات کے عرفان کا جو درس دے رہے ہیں وہ دراصل اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے