تحسین فراقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تحسین فراقی
معلومات شخصیت
پیدائش 17 ستمبر 1950ء (74 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پتوكى،  ضلع قصور،  پنجاب،  پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی اورینٹل کالج لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے،  پی ایچ ڈی  ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر،  پروفیسر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ڈاکٹر تحسین فراقی (پیدائش: 17 ستمبر، 1950ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے بقید حیات اردو کے ممتاز نقاد، شاعر اور محقق ہیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

پیدائش و تعلیم[ترمیم]

ڈاکٹر تحسین فراقی کی پیدائش 17 ستمبر،1950ء کو پتوکی، ضلع قصور، پاکستان میں ان کے ننھیال کے ہاں ہوئی۔ ان کے والد شیخ محمد اختر بصیر پور میں اسکول ٹیچر تھے، ادب کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ فارسی ادب اور اقبال سے ان کو محبت تھی۔ تحسین فراقی نے میٹرک تک کے مدارج بصیر پور میں ہی طے کیے۔ اساتذہ میں علامہ ولی محمد اور حافظ بصیر پوری کا ان کی شخصیت پر گہرا اثر ہے بی اے میں انھوں نے گلستان اور بوستان پڑھی۔ جامعہ پنجاب سے ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کی۔[2]

ملازمت[ترمیم]

جامعہ پنجاب سے ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے ایم اے او کالج میں لیکچرار تعینات ہو گئے۔ ادھر آٹھ برس رہنے کے بعد جامعہ پنجاب اورینٹل کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے، یہاں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ 16 ستمبر، 2010ء میں ریٹائر ہوئے تو جامعہ پنجاب نے اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے لیے بطور پروفیسر ان کی خدمات حاصل کر لیں۔[2] اس کے بعد مجلس ترقی ادب لاہور کے ڈائریکٹر (18 مارچ 2013ء – 22 فروری 2021ء) رہے۔ 30 مئی 2023ء سے بزم اقبال لاہور کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

شادی اور اولاد[ترمیم]

ڈاکٹر تحسین فراقی 1975ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ طیبہ تحسین اور حمیرا تحسین ان کی بیٹیاں ہیں، عثمان نوید بیٹا ہے۔ چند برس قبل انھیں سب سے بڑے بیٹے عمر فاروق جو جامعہ پنجاب سے ایم اے کر چکا تھا، حادثاتی موت کا دکھ برداشت کرنا پڑا۔ اسی کا اظہار انھوں نے شاعری میں کیا ہے جو ان کے شعری مجموعے "شاخ زریاب (2012)" میں شائع ہو چکا ہے ۔[2]

ادبی خدمات[ترمیم]

سرزمین پاکستان میں موجود گنے چنے افراد میں سے وہ ایک ہیں جو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبان پر دسترس رکھتے ہیں اور انھوں نے ان زبانوں کے ادب کا گہرا مطالعہ بھی کررکھا ہے۔ تدریس، تنقید، تحقیق، شاعری اور ترجمہ نگاری میں ڈاکٹر تحسین فراقی کا کام ان کی شخصیت کے پہلو دار ہونے کا غماز ہے [3]۔ ادبی حلقوں میں ان کی شاعری و تحقیقی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے[2]۔ آپ کی تحریروں میں جو علمیت ہے اس سے ذہن میں، ان کے متبحر عالم ہونے کا جو تاثر ابھرتا ہے وہ اس وقت اور بھی گہرا ہو جاتا ہے جب کوئی ان سے ملتا ہے۔ جستجو آپ کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے۔ معاصر اردو ادب، افادات بھی ان کے تنقیدی مجموعے ہیں۔ حال ہی میں ن م راشد پر آپ کی کتاب حسن کوزہ گر کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ تحقیق کے میدان میں ان کا ایک علمی کارنامہ عبد الماجد دریابادی۔ احوال و آثار پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے جس کو علمی حلقوں میں بہت زیادہ پزیرائی ملی۔ یوسف خان کمبل پوش کے قدیم ترین سفر نامہعجائبات فرنگ کی تدوین و ترتیب کا جوکھم بھی انھیں نے اٹھایا۔ چند برس قبل فکریات کے نام سے ان کی فکر افروز کتاب سامنے آئی، جس میں انھوں نے دور جدید کی قابل قدرعلمی شخصیات کے اہم ترین مضمون کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ کتاب کا عالمانہ مقدمہ قلمبند کیا اور ہر تحریر کے آغاز میں تعارفی مضمون لکھا۔ اس کتاب میں آپ کی ملاقات جن صاحبان فکر و نظر سے ہوتی ہے ان میں ایڈورڈ سعید، میلان کنڈیرا، این میری شمل، حسین نصر، جوز اورٹیگا گیسیٹ، الفریڈ گیوم، گائی ایٹن، سید علی اشرف اور سید محمد حسینی شامل ہیں۔[3]۔

غالب و اقبال بھی ڈاکٹر تحسین فراقی کی تنقید کا اہم حوالہ ہے۔ غالب نے شعر ونثر میں اردو میں جو لکھا ہے، اس پر اردو میں بہت خامہ فرسائی کی گئی ہے، ڈاکٹر تحسین فراقی نے اردو کے نقاد ہونے کے باوجود، غالب کی فارسی تخلیقات پرجم کر لکھا ہے۔ اس موضوع پر ان کے متفرق مضامین کا مجموعہ غالب - فکروفرہنگ کے نام سے غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سے چھپا۔ دیوان غالب، نسخہ خواجہ، اصل حقائق آپ کا ایک اور تحقیقی کارنامہ ہے۔اقبال پر ان کے مضامین پر مشتمل کتابیں جہات اقبال اور اقبال، چند نئے مباحث کے نام سے ہیں۔ علامہ اقبال کی شخصیت و فن پر ان مضامین کوجو علامہ اقبال کی زندگی میں ہی منصۂ شہود پر آئے آپ نقد اقبال، حیات اقبال میں کے نام سے ترتیب دے چکے ہیں۔ ڈاکٹر تحسین فراقی اس بات کے پرزور حامی ہیں کہ ادب میں کسی بھی تخلیق کار کا مطالعہ کلیت میں کیے بغیر درست نتائج تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ آپ کا موقف ہے کہ غالب اور اقبال کی نگارشات کا معتدبہ حصہ فارسی میں ہے جس سے اعتنا کیے بغیر اقبال اور غالب شناسی کے تقاضے پورے ہی نہیں ہو سکتے۔ مرزا عبدالقادر بیدل بھی آپ کے محبوب شاعر ہیں ۔اقبال کی انگریزی تحریر’’Bedil in the light of Bergson‘‘کا اردو میں یہ مطالعہ بیدل، فکربرگساں کی روشنی میں کے عنوان سے ترجمہ کرچکے ہیں۔ نقش اول کے نام سے بھی آپ کا شعری مجموعہ چھپ چکا ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ شاخ زریاب کے نام سے اسی سال (2012ء) میں شائع ہو چکا ہے۔ ان کی اب تک اکتیس تنقیدی، تحقیقی اور علمی کتب شائع ہو چکی ہیں۔[3]۔

تصانیف[ترمیم]

تنقید[ترمیم]

  • اقبال: چند نئے مباحث
  • جہات اقبال
  • غالب۔ فکروفرہنگ
  • جستجو
  • معاصر اردو ادب
  • افادات
  • حسن کوزہ گر

تحقیق[ترمیم]

  • مولانا عبد الماجد دریابادی، احوال و آثار
  • دیوان غالب، نسخہ خواجہ، اصل حقائق

ادارت[ترمیم]

  • مباحث (ادبی جریدہ)

شاعری[ترمیم]

  • نقش اول
  • شاخ زریاب

تدوین[ترمیم]

  • عجائبات فرنگ

تراجم[ترمیم]

  • مطالعہ بیدل، فکربرگساں کی روشنی میں
  • فکریات

اعزازات[ترمیم]

ڈاکٹر تحسین فراقی کو وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اقبال: چند نئے مباحث پر وزیر اعظم ادبی ایوارڈ برائے سال 1997ء عطا کیا ہے۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.rekhta.org/authors/tahseen-firaqi
  2. ^ ا ب پ ت ٹ "ڈاکٹر تحسین فراقی، پاکستانی کنیکشنز، برطانیہ"۔ 23 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2015 
  3. ^ ا ب پ ممتاز نقاد، ادیب‘ محقق، شاعر، مترجم اور استاد ڈاکٹر تحسین فراقی، اسلم لودھی، ہماری ویب، پاکستان