جاوید نامہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جاوید نامہ طبع خاص 1982ء کا سرورق جس میں جمی انجنیئر کے مصور کردہ مناظر بھی شامل ہیں۔

جاوید نامہ فارسی شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے خالق علامہ اقبال کی تصنیف ہے اور مثنوی کی شکل میں ہے اور تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1932ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتب میں سے ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔[1]

پس منظر[ترمیم]

یہ کتاب دراصل علامہ اقبال کا افلاک کا خیالی سفر نامہ ہے جس میں ان کے راہبر مولانا رومی انھیں مخلتف سیاروں اور افلاک کی دوسری جانب (آں سوئے افلاک) کی سیر کرواتے ہیں۔ اقبال نے اس کتاب میں اپنے آپ کو زندہ رود کے نام سے متعارف کروایا ہے۔ اس سفر میں وہ مختلف مشاہیر اور لوگوں سے ملتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کے خیالات کے بارے میں جانتے ہیں۔

جب یہ کتاب شائع ہوئی تو عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ علامہ اقبال نے یہ کتاب مشہور اطالوی شاعر دانتے کی کتاب ڈیوائن کامیڈی سے متاثر ہو کر لکھی ہے، (جس کا اقبال نے خود بھی اقرار کیا ہے) لیکن اسے ڈیوائن کامیڈی کی نقل سمجھنا محض ایک مغالطہ ہے کیونکہ دانتے کے جدید یورپی محققین نے ثابت کیا ہے کہ دانتے کی اپنی کتاب واقعۂ معراج اور اس پر ملنے والی مختف احادیث سے متاثر ہو کر لکھی گئی اور ان کی نقل ہے۔[2] انسانی (خیالی) معراج کا موضوع نیا نہیں ہے، سب سے پہلے قرونِ اولٰی کے ملحد نابینا شاعر ابوالعلا معری نے اس موضوع پر ایک کتاب بعنوان "رسالۃ الغفران" لکھی تھی، پھر ابن عربی نے اینی مشہور کتاب "فتوحاتِ مکیہ" میں اس کا ذکر کیا ہے، ان کے علاوہ مغلیہ دور کے ایک صوفی غوث گوالیاری نے بھی اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا تھا۔

تعارف[ترمیم]

اس کتاب کا تعارف علامہ اقبال کی اپنی زبانی ہی سنیے۔

دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر لندن میں انڈیا سوسائٹی کی طرف سے 4 نومبر 1931ء کو ایک تقریب منقعد کی گئی جس میں علامہ نے تقریر کرتے ہوئے اپنی فارسی کتب کا تعارف حاضرین سے کروایا، آخر میں جاوید نامہ کے متعلق فرماتے ہیں۔

"میری تازہ تصنیف جاوید نامہ مطبع میں جا چکی ہے اور غالباً ایک دو مہینے میں چھپ جائے گی۔ یہ حقیقت میں ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی ہے جیسے دانتے کی تصنیف یورپ کی ڈیوائن کامیڈی ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف ستاروں کی سیر کرتا ہے، مختلف مشاہیر کی روحوں سے مل کر باتیں کرتا ہے، پھر جنت میں جاتا ہے اور آخر میں خدا کے سامنے پہنچتا ہے۔

اس تصنیف میں دورِ حاضر کے تمام جماعتی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور اصلاحی مسائل زیرِ بحث آ گئے ہیں۔ اس میں صرف دو شخصیتیں یورپ کی آئی ہیں۔ اول کچنر دوم نٹشے باقی تمام شخصیتیں ایشیا کی ہیں۔ دانتے نے اپنا رفیقِ سفر یا خضرِ طریق ورجل کو بنایا تھا، میرے رفیقِ سفر یا خضرِ طریق مولائے روم ہیں۔

آپ حیران ہوں گے کہ کچنر اس ضمن میں کیسے آ گیا۔ جاوید نامہ میں کچنر اور فرعون آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ فرعون کجنر کو طعنہ دیتا ہے کہ یورپ کے لوگ بڑے بے رحم ہیں اور بے درد ہیں انھوں نے ہماری قبریں تک کھود ڈالیں۔ کچنر جواب دیتا ہے کہ ہمارا مقصد سائنس کی خدمت اور علم الآثار کی خدمت ہے، قبریں اس لیے کھودی ہیں کہ معلوم ہو آج سے تین چار ہزار سال قبل دنیا کی حالت کیا تھا۔ فرعون اس تشریح کے جواب میں کہتا ہے

قبرِ ما علم و حکمت بر کشود
لیکن اندر تربتِ مہدی چہ بود؟

(یعنی ہماری قبر تو تم لوگوں نے علم و حکمت کے لیے کھودیں لیکن مہدی کی قبر میں کیا تھا، اشارہ ہے مشہور سوڈانی مجاہد مہدی سوڈانی کی طرف جس کی قبر جنرل کچنر نے کھود اس کی لاش کو سزا دی تھی اور ہڈیاں جلا دی تھیں)

ایک مقام پر میں نے چار الواح لکھے ہیں۔ لوحِ بدھ، لوحِ مسیح، لوحِ زرطشت اور لوحِ محمد (ص)۔ لوحِ مسیح میں ٹالسٹائی کا ایک خواب ہے۔ لوحِ زرطشت میں اسلامی تصوف کے مشہور مسئلہ فضیلتِ نبوت بر ولایت یا ولایت بر نبوت کے متعلق بحث ہے۔ لوحِ محمد کا مضمون یہ ہے کہ کعبہ میں بت ٹوٹے پڑے ہیں، ابو جہل کی روح گریہ و زاری کر رہی ہے اور رسول اللہ (ص) سے کہہ رہی ہے کہ انھوں نے ہمارے دین کو برباد کر دیا، ہماری خاندانی بلند پائگی زائل کر ڈالی اور مساوات کی تعلیم دینی شروع کر دی جو مزدکیوں سے حاصل کی گئی ہے۔" [3]

جاوید نامہ کے کردار[ترمیم]

اقبال کے راہبر و مرشد مولانا رومی
زندہ رود، علامہ محمد اقبال

اس "آفاقی ڈرامے" میں علامہ اقبال نے جو کردار پیش کیے ہیں وہ نیچے درج کیے جا رہے ہیں، ان سب کرداروں کا کسی نہ کسی طریقے سے انسانی زندگی سے تعلق ہے اور سبھی حقیقی کردار ہیں اور اس کتاب میں ان کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ علامہ نے اس میں کچھ غیر حقیقی کردار بھی تخلیق کیے ہیں اور کئی ایک مشہور بتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ حقیقی زندگی سے ستر کے قریب شخصیات کا ضمنی طور پر بھی اس کتاب میں ذکر آیا ہے۔[4]


جاوید نامہ کے کردار بلحاظ حروفِ تہجی

مناجات[ترمیم]

فہرستِ مضامین طبع 1973ء۔
فہرستِ مضامین طبع 1973ء۔
فہرستِ مضامین طبع 1973ء۔
فہرستِ مضامین طبع 1973ء۔

کتاب اقبال کی انتہائی خوبصورت اور پُر از درد مناجات سے شروع ہوتی ہے، اس مناجات میں جہاں اقبال بحیثیتِ مجموعی نوعِ انسانی کی ازلی تنہائی کا ذکر کرتے ہیں وہیں انسان کو اس کی عظمت بھی یاد دلاتے ہیں مثلاً یہ اشعار

آیۂ تسخیر اندر شانِ کیست؟
ایں ِ سپہرِ نیلگوں حیرانِ کیست؟

آیۂ تسخیر کس کی شان میں ہے (یعنی انسان کی شان میں ہے) اور یہ نیلا آسمان کس (کی عظمت) پر حیران ہے یعنی انسان کہ جو ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے۔

راز دانِ علم الاسما کہ بود؟
مستِ آں ساقی و آں صہبا کہ بود؟

علم الاسما کا راز دان کون تھا (یعنی انسان تھا)، اُس ساقی اور صہبا کا مست کون تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ علامہ جو اپنی کتاب کی قدر و قیمت سے واقف تھے، اپنی کتاب کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں۔

آں چہ گفتم از جہانے دیگر است
ایں کتاب از آسمانے دیگر است

میں نے جو کچھ کہا ہے وہ کسی اور ہی جہان کی باتیں ہیں، یہ کتاب کسی اور ہی آسمان سے ہے یعنی منفرد ہے۔

اس مناجات کا اختتام اقبال، حسبِ معمول، اس دعا پر کرتے ہیں کہ یا رب نوجوانوں پر میرا یہ کلام آسان کر دے۔

اس مناجات کے بعد اقبال روزِ اول کا ایک منظر دکھاتے ہیں جب اس زمین کی تخلیق ہوئی تھی، اُس وقت آسمان زمین کو طعنہ دیتا ہے کہ ایک پست چیز وجود میں آتی ہے، زمین جب اس طعنے سے ملول ہوتی ہے تو اُسے آسمان کی دوسری طرف سے صدا آتی ہے کہ تو کیوں ملول ہوتی ہے تُو تو انسان کا مسکن بنے گی سو تیرا مقام بہت بلند ہے یعنی یہاں بھی بنیادی طور پر اقبال انسان کی عظمت ہی دکھا رہے ہیں۔

اس کے بعد علامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن وہ بہت اداس ہوتے ہیں اور شام کے وقت سمندر کے کنارے چلے جاتے ہیں جہاں اسی اداسی میں مولانا رومی کی ایک غزل پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، جب وہ غزل ختم کرتے ہیں تو ان پر ایک پہاڑ کی اوٹ سے رومی کی روح آشکار ہوتی ہے، جس سے وہ بات چیت کرتے ہیں اور وہ روح ان پر معراج کی حقیقت آشکار کرتی ہے۔ اور اس کو بعد رومی کی روح ان کو افلاک کے سفر پر اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔

افلاک کا سفر[ترمیم]

فلکِ قمر[ترمیم]

اقبال اور رومی جب آسمانوں کے سفر پر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں۔ فلک قمر پر ان کی ملاقات ایک "جہاں دوست" سے ہوتی ہے، جہاں دوست دراصل ایک قدیم ہندو رشی "وشوامتر" ہے۔ وشوامتر سے باتیں کر کے وہ چاند کی ایک وادی یرغمید کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادیِ طواسین کا نام دے رکھا تھا۔

طواسین، دراصل طاسین کی جمع ہے اور منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے، منصور نے طواسین سے مراد تجلیات لیا ہے جبکہ علامہ نے یہاں اس سے مراد تعلیمات لیا ہے۔ وادیِ طواسین میں علامہ نے گوتم بدھ، زرطشت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات بیان کی ہیں۔

طاسینِ گوتم[ترمیم]

جاوید نامہ کا ایک کردار - گوتم بدھ

ان طواسین کو بیان کرنے کا انداز بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ گوتم بدھ کی تعلیمات "توبہ آوردن زنِ رقاصۂ عشوہ فروش" ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا کے تحت گوتم اور رقاصہ کا ایک مکالمہ ہے اور غزلوں کی شکل میں ہے اور انتہائی خوبصورت غزلیں ہیں، گوتم رقاصہ سے بات کرتے ہوئے اسے زندگی کی حقیقت کے متعلق بتاتا ہے۔

مئے دیرینہ و معشوقِ جواں چیزے نیست
پیشِ صاحب نظراں حور جناں چیزے نیست

پرانی شراب اور جوان معشوق کوئی چیز نہیں ہے یعنی ان کی کوئی اصل نہیں ہے، نظر والوں کے نزدیک جنت کی حور بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

دانشِ مغربیاں، فلسفۂ مشرقیاں
ہمہ بتخانہ و در طوفِ بتاں چیزے نیست

مغرب والوں کی دانش (یعنی علم و عقل جس نے انسان کو مذہب سے دور کر دیا) اور مشرق والوں کا فلسفہ (یعنی یاسیت و قنوطیت جس نے انسان کو اِس دنیا اور اس کی بہتری سے دور کر دیا) یہ سب ایسے ہی ہے جیسے بتخانہ اور بتخانہ کے بتوں کے طواف میں کچھ نہیں ہے۔

یہ بتانے کے بعد کہ کن چیزوں کی کوئی وقعت نہیں ہے، گوتم رقاصہ کو مزید بتاتا ہے کہ کون سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، مثلاً

چشم مخمور و نگاہِ غلط انداز و سرود
ہمہ خوبست ولے خوشتر از آں چیزے ہست

مخمور نگاہیں، غلط انداز نظر اور راگ رنگ، سبھی کچھ خوب ہے لیکن ان سے بھی خوب تر چیزیں موجود ہیں۔

حسنِ رخسار دمے ہست و دمے دیگر نیست
حسنِ کردار و خیالات خوشاں چیزے ہست

رخساروں کا حسن ایک پل ہے اور دوسرے پل نہیں ہے جبکہ حسنِ کردار اور اچھے خیالات اصل قائم رہنے والی چیزیں تو یہ ہیں۔

رقاصہ، گوتم بدھ کی یہ باتیں سن کر ایک جوابی غزل پڑھتی ہے اور توبہ کر لیتی ہے۔

طاسینِ زرطشت[ترمیم]

جاوید نامہ کا ایک کردار - زرطشت

طاسینِ زرطشت کا عنوان ہے۔ "آزمائش کردن اہرمن زرطشت را: یعنی اہرمن (شیطان) کا زرطشت کی آزمائش کرنا۔ یہ بھی ایک مکالمہ ہے جو اہرمن اور زرطشت کے درمیان میں ہے، اہرمن زرطشت کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے اور اسے یزداں (خدا) سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتا ہے

تکیہ بر میثاقِ یزداں ابلہیست
بر مرادش راہ رفتن گم رہی ست

خدا کے وعدے پر بھروسا کرنا جہالت ہے اور اس کے بتائے ہوئے رستے پر چلنا گمراہی ہے۔

اہرمن کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے

تا نبوت از ولایت کمتر است
عشق را پیغمبری درد سر است

چونکہ نبوت کا درجہ ولایت سے کمتر ہے اس لیے عشق کے لیے پیغمبری کے کام (یعنی تبلیغ و جد و جہد) دردِ سر ہیں۔ لہذا

خیز و در کاشانۂ وحدت نشیں
ترک جلوت گوی و در خلوت نشین

اُٹھ اور وحدت کے گھر میں آ کر بیٹھ جا، جلوت ترک کر دے اور خلوت نشیں ہو جا (یعنی تبلیغ چھوڑ دے اور کسی غار میں بیٹھ کر اللہ اللہ کر)۔

زرطشت اہرمن کے پیغام کی اصل جان جاتا ہے اور اسے مسکت جواب دیتا ہے۔

گرچہ اندر خلوت و جلوت خداست
خلوت آغازست و جلوت انتہاست

اگرچہ خدا خلوت اور جلوت دونوں میں موجود ہے لیکن خلوت تو فقط آغاز ہے اور جلوت انتہا ہے (اس شعر میں بلاواسطہ اقبال حضرت محمد کی زندگی کے بارے میں بھی اشارہ کر رہے ہیں)۔

گفتہ ای پیغمبری دردِ سر است
عشق چوں کامل شود آدم گر است

تُو نے کہا کہ پیغمبری سر درد ہے حالانکہ عشق جب کامل ہو جاتا ہے تو وہ آدم بنانے شروع کر دیتا ہے یعنی اپنی تبلیغ و حسنِ کردار سے انسانوں کو صحیح معنوں میں انسان بناتا ہے۔

زرطشت اہرمن کے وسوسوں میں نہیں آتا اور بالآخر اس آزمائش میں کامیاب رہتا ہے۔

طاسینِ مسیح (ع)[ترمیم]

اس حصے میں جس کا عنوان "طاسینِ مسیح، رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مسیح (ع) کی تعلیمات، حکیم ٹالسٹائی کا خواب، ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بیان کی ہیں۔ اس میں مشہور روسی ناول نگار اور مذہبی مصلح، ٹالسٹائی کا ایک خواب علامہ نے دکھایا ہے کہ ایک شخص چاندی کی ندی کے پارے میں کمر تک غرق ہے جو دراصل استعارہ ہے یہودیوں کا اور ندی کے کنارے پر ایک ساحر اور حسین عورت کھڑی ہے جسے علامہ نے افرنگیں کا نام دیا ہے اور وہ استعارہ ہے مغربی تہذیب کا اور دونوں کے درمیان میں ایک مکالمہ ہوتا ہے۔ وہ عورت اس مرد (یہودی) کو طعنہ مارتی ہے کہ تم لوگوں نے مسیح کے ساتھ کیا کیا کہ ان کو سولی پر لٹکا دیا اور اب چاندی کے (یعنی میرے پجاری) بنے ہوئے ہو اور جواب میں وہ شخص اس پر جوابی اعتراضات کرتا ہے کہ تم نے ہم لوگوں کو گمراہ کر دیا اور ہم نے تو فقط عیسیٰ علیہ السلام کے جسم کے ساتھ ظلم کیا تھا تم لوگوں (یعنی مسیحیوں اور مغرب والوں نے) تو ان کی روح کے ساتھ ظلم کیا ہے۔

جاوید نامہ کا ایک کردار - لیو ٹالسٹائی

آنچہ ما کردیم با ناسوتِ اُو
ملّتِ اُو کرد با لاہوتِ اُو

ہم نے جو کچھ بھی اُس (عیسیٰ ع) کے جسم (ناسوت) کے ساتھ کیا، ان کی ملّت نے وہی کچھ ان کی روح (لاہوت) کے ساتھ کیا، یعنی ہم نے تو فقط عیسیٰ کے جسم کو سولی پر چڑھایا تھا، ان کی قوم نے ان کی روح کو سولی پر چڑھا دیا۔

یہ دراصل وہ اعتراضات ہیں جو ٹالسٹائی نے اپنی تصانیف میں مسیحی مذہب پر کیے تھے۔

اس مکالمے کا اختتام اس شعر پر ہوتا ہے اور اس میں اس چیز کی بازگشت ہے جو علامہ کے کلام میں جگہ جگہ موجود ہے کہ مغربی تہذیب بالآخر اپنی موت آپ مر کے رہے گی۔

مرگِ تو اہلِ جہاں را زندگیست
باش تا بینی کہ انجامِ تو چیست

تیری یعنی مغربی تہذیب کی موت دنیا والوں کے لیے زندگی ہے، انتظار کر اور دیکھتی رہ کہ تیرا انجام کیا ہوتا ہے۔

طاسینِ محمد (ص)[ترمیم]

اقبال نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات "نوحہ رُوحِ ابو جہل در حرمِ کعبہ" یعنی ابوجہل کی روح کا حرم کعبہ میں نوحے کی صورت میں بیان کی ہیں۔ ایک بار پھر یہاں اقبال کی عظمت اور اوجِ خیال اور انفرادیت کو سلام کرتے ہی بن پڑتی ہے۔ اقبال نے یہاں اس انسانی اور نفسیاتی نکتے سے کام لیا ہے کہ آپ کا دشمن آپ پر جو جو الزام لگائے گا اور جو جو آپ کے نقائص بیان کرے گا وہ دراصل آپ کی خوبیاں ہیں۔ اس منظر میں علامہ نے دکھایا ہے کہ حرمِ کعبہ ہے، سارے بت ٹوٹے ہوئے پڑے ہیں اور ابوجہل کی روح وہاں نوحہ کر رہی ہے۔

سینۂ ما از مُحمّد داغ داغ
از دمِ اُو کعبہ را گل شُد چراغ

ہمارا سینہ محمد (ص) کی وجہ سے داغ داغ ہے، اس کے دم (پھونک) سے کعبہ کا چراغ بجھ گیا۔

حرمِ کعبہ کا ایک منظر - اقبال نے دکھایا ہے کہ یہاں ابوجہل کی روح نوحہ کرتی ہے۔

وہ مزید کہتا ہے کہ محمد (ص) نے قیصر و کسریٰ کی بربادی کی باتیں اور نوجوانوں کو (ورغلا کر) ہمارے ہاتھوں سے چھین کر لے گیا، وہ تو اصل میں ساحر ہے اور لوگوں پر (کلامِ ربانی سے ) جادو کر دیتا ہے، اس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابلِ بیان ہے، اس کی ضربوں سے لات و منات پاش پاش ہو گئے، اس کا مذہب ملک اور نسب کو مٹاتا ہے، وہ قریش اور عرب کی فضلیت کا منکر ہے (یعنی مساوات کی تعلیم دیتا ہے)، اس کی نگاہ میں بلند اور پست برابر ہیں اور غلاموں کے ساتھ بیٹھ کو کھانا کھاتا ہے، وہ عرب کے سرخ لوگوں کی قدر نہیں جانتا اور افریقہ کے بد صورتوں سے موافقت پیدا کرتا ہے اور یہ مساوات و مواخات کی باتیں سب عجم کی باتیں ہیں۔

ایں مساوات ایں مواخات اعجمی است
خوب می دانَم کہ سلماں مزدکی است

یہ مساوات اور بھائی چارے کی باتیں عجمی ہیں، میں خوب جانتا ہوں کہ سلمان مزدکی ہے۔ مزدک پانچویں صدی عیسوی کے آخر اور چھٹی صدی کے قبل کا ایک ایرانی مصلح تھا جس نے مساوات کی بات کی، ایرانی بادشاہ صباد نے اس کے نظریات قبول بھی کر لیے لیکن بعد میں اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد خسرو نوشیرواں کے ہاتھوں مزدک اور اس کے لاکھوں معتقدین کا قتلِ عام کروا دیا۔ ابو جہل یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ سلمان فارسی (رض) بھی مزدکی ہیں اور انھوں ہی نے ہی حضرت محمد (ص) کو مساوات کی باتیں سکھائی ہیں وگرنہ عرب میں ان باتوں کا کیا کام۔

بہرحال ابوجہل اس قسم کا رونا وہاں روتا ہے اور پھر کوسنوں پر اتر آتا ہے اور اختتام پر اپنے بتوں کو پکارنا شروع کر دیتا ہے کہ اس (محمد ص) سے اپنا بدلہ لو۔

اے ہبَل، اے بندہ را پوزش پزیر
خانۂ خود را ز بے کیشاں بگیر

اے ہبل (قریش کا مشہور بت و معبود) اے بندوں کے عذر قبول کرنے والے، اپنے گھر (کعبہ) کو ان بے دینوں سے واپس لے لے۔

اس نوحے کے اختتام پرعلامہ فلکِ قمر پر اپنا قیام تمام کرتے ہیں اور رومی کے ساتھ فلکِ عطارد کی طرف پرواز کر جاتے ہیں۔

فلکِ عطارد[ترمیم]

جاوید نامہ کا ایک کردار - سعید حلیم پاشا ع۔ ترک سالار آں حلیمِ دردمند

فلکِ قمر سے رومی و علامہ، فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں اور وہاں سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح کی زیارت کرتے ہیں۔ علامہ ان دونوں مصلحان سے اہم اسلامی اور عالمی امور پر گفتگو کرتے ہیں جن کی کچھ تفصیل نیچے دی جا رہی ہے۔

علامہ و رومی جب فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں تو علامہ رومی سے دریافت کرتے ہیں کہ یہاں زندگی کے آثار تو نظر نہیں آ رہے لیکن اذان کی آواز سنائی دے رہی ہے تو رومی فرماتے ہیں کہ یہ دراصل اولیاء اللہ کا مقام ہے اور پھر علامہ سے کہتے ہیں کہ جلدی کرو کہ ہمیں ان بزرگوں کے ساتھ نماز مل جائے اور سوز و گداز کی نعمت ہاتھ آئے جب وہ آگے بڑھتے ہیں تو انھیں دو آدمی نماز کی حالت میں دکھائی دیتے ہیں، جمال الدین افغانی امام تھے اور سعید حلیم پاشا مقتدی۔ رومی علامہ سے فرماتے ہیں کہ مشرق نے ان آدمیوں سے بہتر کسی کو نہیں جنا کہ جن کے ناخنوں (تدبیر) نے ہمارے عقدے کھولے ہوں۔ رومی مزید کہتے ہیں

سیّد السادت مولانا جمال
زندہ از گفتارِ اُو سنگ و سفال

سیدوں کے سید مولانا جمال کہ جن کی باتوں سے پتھر اور مٹی بھی جاندار ہو گئے اور

ترک سالار آں حلیمِ دردمند
فکرِ اُو مثلِ مقامِ او بلند

ترکوں کے سالار دردمند حلیم کہ جن کی فکر ان کے مرتبے کی طرح بلند ہے۔

با چنیں مرداں دو رکعت طاعت است
ورنہ آں کارے کہ مزدش جنت است

ان جیسے مَردوں کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرنا ہی اصل اطاعت ہے ورنہ وہ کام جس کو نماز کہا جاتا ہے اس کی مزدوری تو جنت ہے (یعنی جنت کے لیے نماز پڑھی جاتی ہے)۔

اور علامہ و رومی دونوں، سعید حلیم پاشا کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں اورجمال الدین افغانی کی امامت میں نماز ادا کرتے ہیں۔

نماز کے خاتمے پر رومی، جمال الدین افغانی سے علامہ اقبال کا تعارف کرواتے ہیں اور اس تعارف کے بعد ان تمام اصحاب کے درمیان میں چند اہم موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے، علامہ ان سے دین و وطن، اشتراکیت و ملوکیت، مشرق و مغرب کے متعلق استفسار کرتے ہیں جن کا جواب جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا دیتے ہیں۔

دین و وطن[ترمیم]

دین و وطن کے متعلق استفسار پر جمال الدین افغانی، علامہ کو جواب دیتے ہیں کہ

لردِ مغرب آں سراپا مکر و فن
اہلِ دیں را داد تعلیمِ وطن

مغرب کا لارڈ جو سراپا مکر و فن ہے، اُس نے اہلِ دین کو وطن کی تعلیم دی ہے یعنی ملت کی اساس دین کو چھوڑ کر وطن کو بنا دیا ہے۔

اُو بہ فکرِ مرکز و تو در نفاق
بگزر از شام و فلسطین و عراق

وہ خود تو ایک مرکز کی فکر میں ہے یعنی تمام یورپ کو اکٹھا اور متحد کر رہا ہے اور تو نفاق میں ہے، لہذا شام و فلسطین و عراق سے گذر جا یعنی ملکوں اور اوطان کو چھوڑ کر امتِ مسلمہ کا اتحاد قائم کرو۔

اور یہ ہو بہو وہی خیالات ہیں جو علامہ کی تمام شاعری میں بکھرے پڑے ہیں اور یہاں وہیں خیالات جمال الدین افغانی کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ تجھے اگر اچھے اور برے کی تمیز ہے تو ڈھیلوں، اینٹوں اور پتھروں سے دل نہ لگا۔ دین کیا ہے؟ خاک سے بلند ہونے اور اوپر اٹھنے کا نام ہے تا کہ جانِ پاک اپنے آپ سے آگاہ ہو جائے۔

می نہ گنجد آں کہ گفت اللہ ھو
در حدودِ ایں نظامِ چار سو

جس نے (دل سے ) اللہ ھو کہا وہ اس نظام کے چار سو یعنی زمان و مکان کی حدود میں نہیں سماتا بلکہ ان سے بلند ہو جاتا ہے۔

گرچہ آدم بردمید از آب و گِل
رنگ و نم چوں گُل کشید از آب و گِل
اگرچہ آدم پانی اور مٹی سے بنا ہے لیکن پھول کی طرح اس نے پانی اور مٹی سے رنگ اور خوشبو بھی حاصل کیے ہیں

گھاس کا تنکا اگرچہ خاک سے پیدا ہوتاہے لیکن وہ خاک میں رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ خاک سے اوپر اٹھتا ہے، افسوس ہے اے مسلمان اگر تیری پاک جان خاک میں مر جائے، اگرچہ آدم پانی اور مٹی سے یعنی عناصر سے بنا ہے لیکن اس نے پھول کی طرح پانی اور مٹی سے رنگ اور خوشبو بھی حاصل کی ہے یعنی وہ فقط جسم نہیں روح بھی ہے، افسوس ہے اگر وہ ہمیشہ پانی اور مٹی میں ہی لوٹتا رہے یا پڑا رہے، افسوس صد افسوس وہ اگر عالمِ خاک سے بلند نہ ہو۔ تن یا جسم انسان سے کہتا ہے کہ راستے کی خاک بن جا جب کہ جان یا روح کہتی ہے کہ تو عالم کی وسعتوں کو دیکھ اور ان کی طرف پرواز کر۔

جاں نہ گنجد در جہات اے ہوشمند
مردِ حُر بیگانہ از ہر قید و بند

اے ہوش مند انسان یہ جان اس زمان و مکان میں نہیں سما سکتی، آزاد آدمی ہر قید و بند سے آزاد ہوتا ہے۔

وہ مٹی کی مٹھی جس کو تو نے وطن کا نام دیا ہے اور اسے مصر اور ایران اور یمن کہتا ہے اور اگر نظریۂ وطن کی نسبت ہی سے کوئی قوم وجود میں آتی ہے تو پھر اس بال سے بھی باریک نقطہ اور رمز کی طرف غور کر کہ اگرچہ سورج مشرق سے اپنی تمام تر تجلیوں کے ساتھ نکلتا ہے لیکن اپنے اندرونی سوز کی بنا پر اسی کشمکش میں ہوتا ہے کہ وہ مشرق و مغرب کی قید سے نکل جائے، وہ نکلتا تو مشرق سے ہے لیکن ساری کائنات کو اپنی کرنوں کی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس کی فطرت مشرق و مغرب سے آزاد ہے اگرچہ نسبت کے لحاظ سے وہ مشرقی ہے۔

اشتراکیت و ملوکیت[ترمیم]

دین اور وطن کے متعلق خیالات کا اظہار کرنے کے بعد جمال الدین افغانی اشتراکیت اور ملوکیت کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی ابتدا کارل مارکس کو زیرِ بحث لا کر کرتے ہیں۔

کارل مارکس علامہ نے ان کا ذکر پیغمبرِ بے جبرئیل، حق ناشناس پیغمبر، دل کا مومن اور دماغ کا کافر جیسے الفاظ سے کیا ہے

صاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیل
یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل

صاحبِ سرمایہ (یعنی سرمایہ کتاب کا مصنف) جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ (ع) کی نسل سے ہے (یہودی ہے) یعنی وہ پیغمبر کے جو بے جبریل کے ہے۔ یہ ذکر کارل مارکس کا ہو رہا ہے جس کے متعلق علامہ اس کے نظریات اور سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کی وجہ سے حسنِ ظن رکھتے تھے لیکن مارکس کی دین سے بیزاری کی وجہ سے اسے کافر ہی سمجھتے تھے جیسا کہ اگلے شعر میں مذکور ہے۔

زانکہ حق و باطلِ او مضمر است
قلبِ او مومن، دماغش کافر است

چونکہ اس کا حق اور باطل چھپا ہوا ہے (اور میں اس کو ظاہر کر دیتا ہوں کہ) اس کا دل تو مومن ہے (انسانیت کی تکلیفوں کو دور کرنے کی وجہ سے ) لیکن اس کا دماغ کافر ہے (مذہب سے بیزاری کی وجہ سے )۔

اہلِ مغرب نے افلاک (یا روحانی دنیا) کو گم کر دیا ہے اور پاک جان کو شکم میں ڈھونڈتے ہیں، جانِ پاک (روح) تن سے رنگ و بُو حاصل نہیں کرتی لیکن اشتراکیت کو تن کے سوا کسی اور چیز سے کام نہیں ہے۔

دینِ آں پیغمبرِ حق ناشناس
بر مساواتِ شکم دارد اساس

اس حق ناشناس پیغمبر یعنی کارل مارکس کا دین صرف اور صرف پیٹ کی مساوات پر قائم ہے۔

لیکن چونکہ اخوت کا مقام (پیٹ کی بجائے) دل میں ہے، لہذا اس کی جڑ دل میں ہے نہ کہ آب و گِل یعنی جسم یا پیٹ میں۔ یہاں علامہ نے اسلامی مساوات اور اشتراکی مساوات کا فرق صاف صاف ظاہر کر دیا ہے کہ اشتراکیت کا اساس شکم پر ہے جب کہ اخوت کی بنیاد جذبہ پر ہے۔

اشتراکیت کی اصل بیان کرنے کے بعد اب ملوکیت کا پردہ چاک ہوتا ہے کہ ملوکیت بھی بدن کو موٹا کرتی ہے اور اس کا بے نور سینہ دل سے خالی ہے، اس شہد کی مکھی کی مانند جو پھول سے رس لے جاتی ہے (یعنی ملوکیت بھی انسانوں سے ان کا اصل چھین لیتی ہے)، ملوکیت میں انسان غلامی کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کی باطنی موت ہو جاتی ہے۔

اب ان دونوں نظاموں کا لبِ لباب علامہ، جمال الدین افغانی کی زبان سے پانچ اشعار میں بیان کرتے ہیں اور کیا خوب بیان کرتے ہیں۔

ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب
ہر دو را یزداں ناشناس، آدم فریب

دونوں نظاموں یعنی اشتراکیت اور ملوکیت میں جان یا روح غیر مطمئن اور بے چین رہتی ہے، دونوں نظام ہی خدا نا آشنا اور آدمیوں کو فریب دینے والے ہیں۔

زندگی ایں را خروج، آں را خراج
درمیانِ ایں دو سنگ آدم زجاج

زندگی اِس (اشتراکیت) کے لیے خروج یعنی بغاوت اور جنگ و جدل کا نام ہے اور اُس (ملوکیت) کے لیے خراج (کہ لوگوں کا خون چوس لیتی ہے) اور ان دونوں پتھروں کے درمیان میں آدمی شیشہ ہے۔

ایں بہ علم و دین و فن آرد شکست
آں برد جاں را ز تن، ناں را ز دست

یہ (اشتراکیت) علم، مذہب اور فن کے ذریعے معاشرے کی توڑ پھوڑ کرتی ہے اور وہ (ملوکیت) جسم سے جان اور ہاتھ سے روٹی چھین کر لے جاتی ہے۔

غرق دیدم ہر دو را در آب و گِل
ہر دو را تن روشن و تاریک دل

میں ان دونوں کو آب و گِل (مادیت) میں غرق دیکھتا ہوں، ان دونوں کے جسم روشن جبکہ دل تاریک ہیں۔

زندگانی سوختن با ساختن
در گِلے تخمِ دلے انداختن

حالانکہ زندگی نام ہے سوختن کے ساتھ ساختن کا یعنی سوز و ساز کا، زندگی نام ہے مٹی میں دل کا تخم بونے کا، یعنی مادیت ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ مادیت کے ساتھ عالمِ روحانی کا قائم کرنا ہی اصل انسانی زندگی ہے جس سے یہ دونوں نظام محروم ہیں سو دونوں باطل ہیں۔

شرق و غرب[ترمیم]

یہاں علامہ مشرق اور مغرب کے خیالات اور ان کے فلسفوں کے متعلق سعید حلیم پاشا کی زبانی اپنی ملاقات کو آگے بڑھاتے ہیں اور اپنے ان خیالات کو دہراتے ہیں جو ان کی شاعری کے آخری دور میں جا بجا موجود ہیں، جن میں مغرب اور مشرق کے تقابل کے ساتھ ساتھ علم اور عشق پر بحث ہے۔ اس حصے میں مصطفیٰ کمال اتاترک کا ذکر بھی آیا ہے اور جس کے متعلق اقبال اس کتاب کی تصنیف تک اپنا یہ نتیجہ نکال چکے تھے کہ اس نے کوئی نیا نظام نہیں دیا بلکہ مغرب کی ہی پرانی چیزیں ہیں۔ سعید حلیم پاشا کچھ یوں آغاز کرتے ہیں:

غربیاں را زیرکی سازِ حیات
شرقیاں را عشق رازِ کائنات

مغرب والوں کے لیے زیرکی یعنی دانش و حکمت ہی زندگی کا ساز و سامان ہے جبکہ مشرق والوں کے لیے کائنات کا راز عشق ہے۔

اور یہ کہ عقل عشق کی وجہ سے حق شناس بن جاتی ہے اور عشق کا کام عقل کی مدد سے مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جاتا ہے، عشق جب عقل کے ساتھ ہم پہلو ہو جاتا ہے تو وہ ایک نیا ہی عالم پیدا کر دیتا ہے، لہذا اے مسلمان اُٹھ اور ایک نیا جہان بنا، عشق کو عقل کے ساتھ ملا دے۔ یہاں اقبال عقل کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا عشق کے ساتھ اتحاد چاہتے ہیں تا کہ ایک جہانِ تازہ پیدا ہو کیونکہ فرنگیوں کا شعلہ نم خوردہ ہو چکا ہے، ان کی آنکھ تو دیکھتی ہے لیکن دل مردہ ہے۔ وہ اپنی ہی تلوار سے زخم کھائے ہوئے ہیں اور اپنے ہی شکار کی طرح بسمل پڑے ہیں۔

علامہ کے مغرب کے متعلق ان خیالات کو پہلی جنگ عظیم کے تناظر اور اس وقت کے یورپ کے سیاسی حالات اور ان کی روشنی میں دوسری جنگ عظیم کی بیش بینی کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ مزید فرماتے ہیں کہ مغرب کی انگور کی بیل سے سوز و ساز و مستی تلاش نہ کر ان کے افلاک میں کوئی اور یعنی نیا زمانہ نہیں ہے۔ لہذا

زندگی را سوز و ساز از نارِ تُست
عالمِ نو آفریدن کارِ تُست

اے مشرق والے، زندگی کا سوز و ساز تیرے جذبے کی آگ سے ہے، نیا جہان پیدا کرنا تیرا ہی کام ہے۔

سعید حلیم پاشا کی زبانی علامہ، مصطفیٰ کمال اتاترک کے متعلق فرماتے ہیں۔
سینۂ اُو را دمے دیگر نہ بود
در ضمیرش عالمے دیگر نہ بود
اس کے سینے میں کوئی نیا سانس نہیں تھا، اس کے ضمیر میں کوئی نیا جہان نہیں تھا۔

یہاں سے گفتگو کا رُخ مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرف مُڑ جاتا ہے اور سعید حلیم پاشا کہتے ہیں کہ گو مصطفیٰ کمال نے تجدد یعنی تجدید کا راگ الاپا ہے اور اس نے کہا کہ (اسلامی اقدار و روایات) کے ہر نقشِ کہن کو مٹا دینا چاہیے لیکن کعبہ میں اگر افرنگ کے نئے لات و منات آ بھی جائیں تو اس سے کعبہ کا رختِ حیات نیا نہیں ہو جاتا، لہذا اس نے ترکی کو جدید بنانے کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے اور جو راگ بھی الاپا ہے اس میں کوئی نیا آہنگ اور سُر نہیں ہے بلکہ اُسکی ہر نئی چیز میں وہی پرانی افرنگی باتیں ہیں۔ اُس کے سینے میں کوئی نیا سانس نہیں تھا اور اس کے ضمیر میں کوئی نیا جہان نہیں تھا۔

اور یہاں سے گفتگو اس نہج پر پہنچتی ہے کہ پھر نیا جہان کیسے پیدا کیا جائے تو علامہ فرماتے ہیں کہ کائنات میں جو طرفگی یا عجائبات یا جدیدیت ہے وہ زندگی کی تقویم کی اندھا دھند پیروی میں نہیں ہے بلکہ ایک زندہ دل زمانوں اور اقدار کی تخلیق کرتا ہے اور (اندھی) تقلید سے جان بے حضور ہو جاتی ہے۔

چوں مسلماناں اگر داری جگر
در ضمیرِ خویش و در قرآں نگر

اگر تو مسلمانوں کا سا جگر رکھتا ہے تو پھر صرف اپنے ضمیر اور قرآن پر نگاہ رکھ (اور کسی کا دستِ نگر نہ بن کیونکہ) قرآن کی آیات میں سینکڑوں نئے جہان ہیں اور اُس پر غور و فکر کرنے سے نئے جہان سامنے آتے ہیں۔

یک جہانَش عصرِ حاضر را بس است
گیر اگر در سینہ دل معنی رس است

اُس (قرآن میں موجود جہانوں) کا فقط ایک جہان ہی موجودہ عصر کے لیے کافی ہے، اگر سینے میں معنی رس (حقیقت تک رسائی والا) دل رکھتا ہے تو قرآن میں سے اس جہان کو حاصل کر لے اور چونکہ بندۂ مومن بھی خدا کی آیات (نشانیوں) میں سے ایک نشان ہے سو قرآن کی آیات میں جو بھی نئے جہان موجود ہیں وہ بندۂ مومن کے لیے قبا کی مانند ہیں کہ جسطرح قبا بدن پر پورا اترتی ہے اسی طرح بندۂ مومن اپنے اجتہاد سے جو بھی جہان قرآن سے لے گا وہ اس کے لیے موزوں ہوگا کیونکہ

چوں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانے دیگرش

جب کسی بندۂ مومن کے پہلو میں کوئی جہان پرانا ہو جاتا ہے تو قرآن اس کو دیگر (نیا) جہان دے دیتا ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یوں کر سکتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ پرانے نظام فرسودہ ہو چکے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے پرانے نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ مغرب کے پرانے ہی نظام کو نافذ کر دیا جائے اور اسے جدیدیت کا نام دے دیا جائے بلکہ تجدید کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس سے اجتہاد کر کے نیا نظام لانا چاہیے۔

فلکِ زھرہ[ترمیم]

قدیم عرب کی مشہور دیوی "لات"، جس کا ذکر علامہ نے جاوید نامہ میں کیا ہے

فلکِ عطارد سے رومی اور علامہ فلکِ زھرہ پر پہنچتے ہیں، فلک زہرہ کی فضا کی منظر کشی کرنے کے بعد علامہ نے اس فلک پر دو خوبصورت منظر دکھائے ہیں۔ پہلے منظر میں قدیم قوموں کے بتوں کی ایک مجلس دکھائی ہے جب کہ دوسرے منظر میں فرعون، لارڈ کچنر اور مہدی سوڈانی کی ارواح سے ملاقات دکھائی ہے۔

مجلس خدایان اقوام قدیم[ترمیم]

اس منظر میں علامہ نے دکھایا ہے کہ بتوں کی ایک محفل جمی ہے جس کو انھوں نے "مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم" کا عنوان دیا ہے یعنی قدیم اقوام کے بتوں کی مجلس اور اس میں دکھایا ہے کہ سارے بت جمع ہیں اور باتیں کر رہے ہیں۔ علامہ نے ان بتوں کے نام بھی لکھے ہیں۔

بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر
رم خن و لات و منات و عسر و غسر

یہ سب بت اس محفل میں "ذکرِ جمیل" اور "ضربِ خلیل" سے ڈرے ہوئے بیٹھے تھے لیکن ایک بت "مردوخ" کہتا ہے کہ آج کا یعنی جدید انسان خدا سے نالاں ہو گیا ہے اور اپنی عقل و ادراک کو بڑھانے کے لیے ہماری طرف یعنی قدیم زمانے کی طرف دیکھ ہے وہ پرانے آثار سے لذت حاصل کرتا ہے اور ہمارے ہی بارے میں گفتگو کرتا ہے۔

مردوخ کی یہ باتیں سن کر "بعل" خوش ہوتا ہے اور اسی خوشی میں ایک نغمہ گاتا ہے کہ انسان افلاک کی تسخیر کر کے ستاروں تک پہنچ گیا ہے لیکن اسے کہیں خدا نہیں ملا، آج کا انسان فقط عقل کا غلام ہے اور اس کے افکار وقتی ہیں، وہ حواس خمسہ کا اسیر ہے۔ آلِ ابراہیم یعنی مسلمان توحید کا سبق بھول چکے اور وہ ذوقِ الست سے بیگانہ ہو گئے، وہ جو کبھی بادۂ جبریل سے مست تھے آج ان کے جام ریزہ ریزہ ہیں، آزاد مرد حواسِ خمسہ کا اسیر ہو گیا اس نے وطن و ملک سے اپنا ناتا جوڑ لیا جب کہ خدا سے رشتہ توڑ دیا ہے اور

از چراغِ مصطفیٰ اندیشہ چیست؟
زاں کہ او را پف زند صد بولہب

اب ہمیں چراغِ مصطفیٰ (یعنی اسلام سے ) کیا ڈر اور خطرہ کہ اس چراغ کو بجھانے کے لیے سینکڑوں ابولہب پھونکیں مار رہے ہیں۔

اگرچہ اب بھی لا الٰہ کی صدا سنائی دیتی ہے لیکن جو چیز دلوں سے محو ہو چکی وہ لبوں پر بھی کب تک رہے گی؟ مغرب کے جادو نے اہرمن یعنی شیطان کو زندہ کر دیا ہے اور مشرق شناس فرنگی زندہ رہے کہ اس نے ایک بار پھر ہمیں ہماری قبروں سے باہر نکالا ہے یعنی ہمیں دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت

اے پرانے خداؤ یہی وقت ہے، یہی وقت ہے پھر سے دنیا پر چھا جانے کا۔

جاوید نامہ کی حیثیت اقبال کی اپنی نظر میں[ترمیم]

ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی نے اقبال کو ایک خط میں بتایا کہ ان (صوفی صاحب) کا ایک دوست "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کا انگریزی منظوم ترجمہ کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں 30 مارچ 1933ء کو اقبال نے لکھا۔

"بانگِ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب علمی کے زمانے کی ہیں، زیادہ پختہ کلام افسوس کہ فارسی میں ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اس (بانگِ درا) سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ[5] کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے، یہ نظم ایک قسم کی "ڈیوائن کامیڈی" ہے۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے اگر وہ ترجمے میں کامیاب ہو جائے اور اگر اس ترجمہ کا کوئی عمدہ مصوّر (السٹریٹ) بھی کر دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہوگا۔ اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اور مصوّر کے لیے بہت عمدہ مسالا ہے۔"[1]

اسی طرح 25 جون 1935ء کو علامہ اقبال ایک مصوّر ضرار احمد کاظمی کو جو "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کو مصوّر کر رہے تھے، لکھتے ہیں۔

"میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف "جاوید نامہ" ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصوّر طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے مگر اس کے لیے پوری مہارتِ فن کے علاوہ الہامِ الٰہی اور صرفِ کثیر کی ضرورت ہے۔"[1]

اسی مصور کو اپنی وفات سے صرف تین دن پہلے 18 اپریل 1938ء کو لکھتے ہیں: "پوری مہارتِ فن کے بعد اگر آپ نے "جاوید نامہ" پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہو گے۔"[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ڈاکٹر محمد اقبال (1982)۔ جاوید نامہ۔ اقبال اکادمی 
  2. جاوید نامہ پر ایک نظر از چوہدری محمد حسین، اقبال اکیڈمی (پرائیوٹ)، لاہور، 1946ء
  3. گفتارِ اقبال، انقلاب 22 نومبر 1931ء بحوالہ جاوید نامہ، مقدمہ، حواشی و تعلیقات از پروفیسر ارشاد احمد شاکر، پی ایچ ڈی مقالہ برائے سال 1999ء، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
  4. جاوید نامہ، مقدمہ، حواشی و تعلیقات از پروفیسر ارشاد احمد شاکر، پی ایچ ڈی مقالہ برائے سال 1999ء، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
  5. https://quranwahadith.com/product/javed-nama/

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]