علی جمعہ
علی جمعہ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: علي جمعة) | |||||||
مصر کے سابق مفتی اعظم | |||||||
مدت منصب 28 ستمبر 2003ء – 11 فروری 2013ء | |||||||
صدر | حسنی مبارک محمد حسین طنطاوی (اداکاری) محمد مرسی | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 3 مارچ 1952 (69 سال) بنی سویف |
||||||
شہریت | ![]() |
||||||
مذہب | سنی اسلام (اشعری);[1][2] صوفی; شافعی[3] | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ الازہر جامعہ عین شمس |
||||||
پیشہ | مفتی | ||||||
مادری زبان | مصری عربی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی، مصری عربی | ||||||
ملازمت | جامعہ الازہر | ||||||
ویب سائٹ | |||||||
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ | ||||||
درستی - ترمیم ![]() |
ڈاکٹر علی جمعہ [4] (علی گوما) جامعہ الازہر، مصر میں ایک استاد، مفسر، فقیہہ محقق اور سنی عالمِ دین ہیں۔ وہ شافعی مذہب [3] اور اشعری عقیدے کے پیروکار ہیں [1][2] اور صوفیانہ نظریات رکھتے ہیں۔[5] انہوں نے 2003ء سے 2013ء مصر کے اٹھارویں مفتیِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 2008ء میں "یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ[6]" اور "دی نیشنل[7]" کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ قابل احترام اسلامی فقہا میں سے ایک قرار دیا گیا اور دی نیویارکر کے مطابق ایک انتہائی جدید اعتدال پسند مسلم قائد، صنفی مساوات اور "شدت پسندوں کے لیے نفرت کی علامت " قرار دیا گیا۔[8] مارشل لا (2013ء مصری فوجی تاخت) کے دوران میں انہیں عوامی مقبولیت کی وجہ سے توجہ حاصل ہوئی۔
پس منظر[ترمیم]
علی جمعہ 3 مارچ 1952ء (7 جمادی الثانی 1371ھ) پر بینی سویف کے بالائی مصری صوبے میں پیدا ہوا ئے وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بالغ بچے ہیں۔[9]
تعلیم[ترمیم]
علی جمعہ نے 1969ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کیا اور جس وقت مصر کے دار الحکومت قاہرہ میں عین شمس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اس سے پہلے سے ہی انہوں نے قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں اپنے فارغ وقت میں حدیث اور فقہ شافعی کا مطالعہ کرتے تھے۔ 1973ء میں جامعہ عین شمس سے بی کام پاس کرنے کے بعد انہوں نے دنیا میں اعلیٰ اسلامی تعلیم کے قدیم ترین فعال اسلامی ادارے جامعہ الازہر، قاہرہ میں داخلہ لے لیا۔ وہاں سے انہوں نے اسلامی علوم میں بی اے کی دوسری ڈگری حاصل کی، پھر ایم اے اور آخر کار 1988ء اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی۔[10] تب تک انہوں نے جامعہ الازہر کے ہائی اسکول کا نصاب نہیں پڑھا تھا پھر ان بنیادی متون کو حفظ کرنے کے لیے انہوں نے خود سے وہ نصاب پڑھ ڈالا جس کو دیگر طلبہ وہاں پہلے سالوں میں پڑھتے تھے۔
تدریس[ترمیم]
انہوں نے ایم پاس کرنے کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم کی فیکلٹی میں پہلے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، پھر ایک مکمل پروفیسر کے طور پر تدریس کی جہاں تک کہ وہ مفتی اعظم مقرر ہو گئے۔ علی جمعہ عقیدہ، تفسیر، حدیث، فقہ اور اسلامی تاریخ کے استاد ہونے [11] کے علاوہ ایک صوفی کے طور پر ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔[12][13][14]
یونیورسٹی کے باہر کلاسز[ترمیم]
یونیورسٹی میں کورس کے علاوہ، علی جمعہ نے ایک مسجد میں منعقد کھلی کلاس کی روایت کو زندہ کیا، وہ طلوع آفتاب سے دوپہر تک طالب علموں کے ایک حلقے کو ہفتے میں چھ دن اسلامی علوم سکھاتے جس سے ان کا مقصد اسلامی دانشورانہ روایت کو زندہ رکھنا اور اسلامی متون کو غلط تشریح سے محفوظ رکھنا تھا۔[15] ان اسباق کا آغاز 1998ء سے کیا گیا۔[16] اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے 1998ء سے قاہرہ کی سلطان حسن مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینا شروع کر دیا جس کے بعد وہ اسلامی فقہ میں ایک مختصردرس دیتے جو عوام الناس کے لیے سوال و جواب کی ایک نشست کے طور پر ہوتا تھا۔ وہ انگریزی روانی کے ساتھ بولتے ہیں اور الازہر یونیورسٹی کے اسلامی فقہ کے سیکشن کے سابق چیئرمین ہیں۔
جہادی قیدیوں کے ساتھ مکالمات[ترمیم]
2 جون 2008ء کے دی نیویارکر کے مطابق علی جمعہ نے امریکی صحافی لارن رائٹ کو بتایا کہ وہ "مصری الجماعۃ الاسلامیۃ" کے قیدیوں سے بحث مباحثہ کرنے 1990ء کی دہائی سے جیلوں میں جاتے رہے ہیں، تین سال کی ان کوششوں سے اس گروپ نے عدم تشدد کے نظریے کو قبول کر لیا۔ "[8]
حوالہ جات[ترمیم]
- ^ ا ب Maged، Amani (3 نومبر 2011). "Salafis vs Sufis". Al-Ahram Weekly Online. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2014.
- ^ ا ب el-Beheri، Ahmed (9 مئی 2010). "Azhar sheikh warns West against double standards". Egypt Independent. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2014.
- ^ ا ب Asthana، N. C.؛ Nirmal، Anjali (2009). Urban Terrorism: Myths and Realities. Pointer Publishers. صفحہ 117. ISBN 817132598X.
- ↑ Ethar El-Katatney The People's Mufti آرکائیو شدہ [Date missing] بذریعہ egypttoday.com [Error: unknown archive URL] Egypt Today اکتوبر 2007.
- ↑ Islamopedia: "Ali Goma" آرکائیو شدہ [Date missing] بذریعہ islamopediaonline.org [Error: unknown archive URL] retrieved جنوری 20, 2015
- ↑ Jay Tolson (2 اپریل 2008). "Finding the Voices of Moderate Islam". US News & World Report.
- ↑ al-Hashemi، Bushra Alkaff؛ Rym Ghaza (فروری 2012). "Grand Mufti calls for dialogue about the internet". The National. 2012-02-21 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2012.
- ^ ا ب "The Rebellion Within". The New Yorker. 2 جون 2008. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2015.
- ↑ al-Kalim al-Tayyib vol. 2, p. 417
- ↑ Grewal، Zareena (2010). Islam Is a Foreign Country: American Muslims and the Global Crisis of Authority. New York University Press. صفحہ 191. ISBN 1-4798-0090-2.
- ↑ Marranci، Gabriele (2013). Studying Islam in Practice. Routledge. صفحہ 54. ISBN 1-317-91424-4.
- ↑ Egypt Independent: "Opposing currents: Internal rifts may risk the credibility of Egypt’s religious institutions" by Mai Shams El-Din 25 فروری 2013
- ↑ Carnegie Endowment: "Salafis and Sufis in Egypt" by Jonathan Brown دسمبر 2011 | p 12 | "۔.۔the current Grand Mufti of Egypt and senior al-Azhar scholar Ali Gomaa is also a highly respected Sufi master.
- ↑ Ali Gomaa website: Fatwa on Sufism آرکائیو شدہ [Date missing] بذریعہ ali-gomaa.com [Error: unknown archive URL] retrieved 29 جون 2013
- ↑ Islamica Magazine, Issue #12, Spring 2005
- ↑ al-Ahram 1 Oct 2005
بیرونی روابط[ترمیم]
- عزت مآب الشیخ علی جمعہ (مفتی اعظم، مصر)
- مصری مفتی علی جمعہ کا اخوان کو خوارج قرار دینے کا فتویٰ[مردہ ربط]
- مصری مفتی اعظم علی جمعہ کا فتویٰ شعائر اسلام اور سنت رسول کی توہین ہے: منیر یوسفیآرکائیو شدہ [Date missing] بذریعہ nawaiwaqt.com.pk [Error: unknown archive URL]*
فہرست
(اشاعرہ)مالکی - Ibn Abi Zayd al-Qayrawani (d. 386 AH)
- Al-Baqillani (d. 403 AH)
- Abu Imran al-Fasi (d. 430 AH)
- ابن سیدہ (d. 458 AH)
- Abu al-Walid al-Baji (d. 474 AH)
- Abu Bakr al-Turtushi (d. 520 AH)
- Al-Maziri (d. 536 AH)
- Ibn Barrajan (d. 536 AH)
- ابو بکر ابن العربی (d. 543 AH)
- قاضی عیاض (d. 544 AH)
- Al-Suhayli (d. 581 AH)
- Ibn al-Qattan (d. 628 AH)
- ابن مالک (d. 672 AH)
- Shihab al-Din al-Qarafi (d. 684 AH)
- ابن دقیق العید (d. 702 AH)
- Ibn 'Ata' Allah al-Iskandari (d. 709 AH)
- Ibn Adjurrum (d. 723 AH)
- Ibn al-Hajj al-'Abdari (d. 737 AH)
- Ibn Juzayy (d. 741 AH)
- Khalil ibn Ishaq al-Jundi (d. 776 AH)
- ابو اسحاق شاطبی (d. 790 AH)
- Ibn 'Arafa (d. 803 AH)
- ابن خلدون (d. 808 AH)
- عبدالرحمن الثعالبی (d. 876 AH)
- Ahmad Zarruq (d. 899 AH)
- Ahmad al-Wansharisi (d. 914 AH)
- Al-Akhdari (d. 953 AH)
- Al-Hattab (d. 954 AH)
- Ahmad Baba al-Timbukti (d. 1036 AH)
- احمد محمد مقری تلمسانی (d. 1041 AH)
- Ibrahim al-Laqani (d. 1041 AH)
- Muhammad Mayyara (d. 1072 AH)
- Ibn 'Ashir (d. 1090 AH)
- Al-Hasan al-Yusi (d. 1102 AH)
- Muhammad al-Zurqani (d. 1122 AH)
- Ahmad al-Dardir (d. 1201 AH)
- احمد بن عجیبہ (d. 1224 AH)
- Ahmad al-Tijani (d. 1230 AH)
- Muhammad Arafa al-Desouki (d. 1230 AH)
- محمد بن علی سنوسی (d. 1276 AH)
- Muhammad 'Ilish (d. 1299 AH)
- Ahmad al-Ghumari (d. 1380 AH)
- Muhammad al-Tahir ibn 'Ashur (d. 1393 AH)
- Abdel-Halim Mahmoud (d. 1397 AH)
- Muhammad Metwalli al-Sha'rawi (d. 1419 AH)
- سید محمد علوی مالکی (d. 1425 AH)
- Ahmad al-Tayyeb
- حمزہ یوسف
شافعی - ابن حبان (d. 354 AH)
- Ibn Khafif (d. 371 AH)
- حاکم نیشاپوری (d. 405 AH)
- Ibn Furak (d. 406 AH)
- Abu Ishaq al-Isfarayini (d. 418 AH)
- احمد بن محمد ثعلبی (d. 427 AH)
- ابن طاہر البغدادی (d. 429 AH)
- ابو نعیم اصفہانی (d. 430 AH)
- ابو بکر بیہقی (d. 458 AH)
- خطیب بغدادی (d. 463 AH)
- ابو القاسم قشیری (d. 465 AH)
- Abd al-Qahir al-Jurjani (d. 471 AH)
- امام الحرمین جوینی (d. 478 AH)
- راغب اصفہانی (d. 502 AH)
- غزالی (d. 505 AH)
- بغوی (d. 516 AH)
- عبد الکریم شہرستانی (d. 548 AH)
- ابن عساکر (d. 571 AH)
- شیخ احمد الرفاعی (d. 578 AH)
- فخر الدین رازی (d. 606 AH)
- ابن الصلاح (d. 643 AH)
- Izz al-Din ibn 'Abd al-Salam (d. 660 AH)
- یحییٰ بن شرف نووی (d. 676 AH)
- قاضی بیضاوی (d. 685 AH)
- ابن دقیق العید (d. 702 AH)
- Nizam al-Din al-Nisapuri (d. 728 AH)
- Jamal al-Din al-Mizzi (d. 742 AH)
- تقی الدین سبکی (d. 756 AH)
- Al-Safadi (d. 764 AH)
- تاج الدین سبکی (d. 771 AH)
- Shams al-Din al-Kirmani (d. 786 AH)
- Al-Zarkashi (d. 794 AH)
- عبد الرحیم عراقی (d. 806 AH)
- Nur al-Din al-Haythami (d. 807 AH)
- ابن الجزری (d. 833 AH)
- تقی الدین مقریزی (d. 845 AH)
- ابن حجر عسقلانی (d. 852 AH)
- شمس الدین سخاوی (d. 902 AH)
- جلال الدین سیوطی (d. 911 AH)
- علی بن احمد سمہودی (d. 911 AH)
- جلال الدین دوانی (d. 918 AH)
- شہاب الدین قسطلانی (d. 923 AH)
- Zakariyya al-Ansari (d. 926 AH)
- عبد الوہاب الشعرانی (d. 973 AH)
- ابن حجر ہیتمی (d. 974 AH)
- Al-Khatib al-Shirbini (d. 977 AH)
- Al-Munawi (d. 1031 AH)
- 'Abdallah ibn 'Alawi al-Haddad (d. 1132 AH)
- Hasan al-Attar (d. 1230 AH)
- احمد بن زینی دحلان مکی (d. 1304 AH)
- بدیع الزماں سعید نورسی (d. 1379 AH)
- Noah al-Qudah (d. 1432 AH)
- 'Abdallah al-Harari (d. 1432 AH)
- Al-Bouti (d. 1434 AH)
- علی جمعہ
- Ali al-Jifri
- Gibril Haddad
حنبلی - ابو الوفاء بن عقیل (d. 508 AH)
- ابن جوزی (d. 534 AH)
- Al-Bahuti (d. 537 AH)
ظاہریت - محمد بن تومرت (d. 524 AH)
- Ibn Mada' (d. 592 AH)
- Abu Hayyan al-Andalusi (d. 745 AH)
اشعری رہنما - الپ ارسلان (d. 465 AH)
- نظام الملک طوسی (d. 485 AH)
- یوسف بن تاشفین (d. 500 AH)
- عبدالمومن (d. 558 AH)
- صلاح الدین ایوبی (d. 589 AH)
- ملک عادل (d. 615 AH)
- الملک الکامل ناصر الدین محمد (d. 635 AH)
- Al-Ashraf Musa (d. 635 AH)
- سیف الدین قطز (d. 658 AH)
- Al-Nasir ibn Qalawun (d. 741 AH)
- عبدالقادر الجزائری (d. 1300 AH)
- عمر مختار (d. 1350 AH)
- 'Izz al-Din al-Qassam (d. 1354 AH)
- Ibn Abdelkarim al-Khattabi (d. 1382 AH)
- دولت موحدین
- ایوبی سلطنت
- مملوک
- سلاجقہ روم
- سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی فہرست
متون مزید دیکھیے
- Webarchive template warnings
- Webarchive template unknown archives
- 1952ء کی پیدائشیں
- 3 مارچ کی پیدائشیں
- اشاعرہ
- 1953ء کی پیدائشیں
- اکیسویں صدی کے ائمہ کرام
- بقید حیات شخصیات
- جامعہ عین شمس کے فضلا
- سنی صوفیاء
- سنی مسلم شخصیات
- شافعیہ
- شوافع
- فاضل جامعہ الازہر
- مسلم فلاسفہ
- مسلم مذہبی شخصیات
- مسلم مصنفین
- مسلمان مصلحین
- مصری ائمہ کرام
- مصری سنی مسلمان
- مصری صوفیاء
- مفتی اعظم مصر
- مفتیان اعظم