مظہر جان جاناں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مظہر جان جاناں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 13 مارچ 1699ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مالوا  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 جنوری 1781ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ہندوستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

میرزا مظہر جانِ جاناں (پیدائش: 13 مارچ 1699ء— وفات: 6 جنوری 1781ء) سادات علوی میں سے تھے۔ آپ سلسلہ نسب محمد بن حنفیہ کی وساطت سے حضرت علی تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد میرزا جان سلطان اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں صاحب منصب تھے۔ 11رمضان 1111ھ یا 1113ھ کو جب میرزا مظہر کی پیدائش کی خبر عالمگیر کو ملی تو اس نے کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے، چونکہ باپ کا نام میرزا جان ہے، ہم نے ان کے بیٹے کا نام جانِ جان رکھا لیکن عوام میں جانِ جاناں مشہور ہوا۔ آپ کے والد میرزا جان جو سلسلہ قادریہ میں شاہ عبد الرحمٰن قادری کے مرید تھے، آپ کی پیدائش مبارک کے بعد دنیا سے کنارہ کش ہو گئے اور باقی عمر فقر و قناعت میں بسر کی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی تعلیم کے لیے نہایت اہتمام فرمایا۔ ابتدا میں رسائل محاورہ فارسی اپنے والد ماجد سے پڑھے، کلام اللہ شریف مع تجوید و قرأت قاری عبد الرحیم اور علم الحدیث و تفسیر حاجی محمد افضل سیالکوٹی شاگرد شِخ المحدیثین شیخ عبد اللہ بن سالم مکی سے حاصل کی۔ ان علوم کے علاوہ میرزا صاحب کو دیگر فنون میں بھی کافی مہارت حاصل تھی، بالخصوص فن سپاہ گری میں آپ کو اس قدر مہارت حاصل تھی، فرماتے تھے کہ اگر بیس آدمی تلواریں کھینچ کر مجھ پر حملہ کریں اور میرے پاس ہاتھ میں صرف ایک لاٹھی ہو تو ایک آدمی بھی مجھے زخم نہیں پہنچا سکتا۔ نیز فرماتے ہیں کہ ایک بار مست ہاتھی راہ میں آ رہا تھا، میں گھوڑے پر سوار سامنے سے آگیا۔ فیل بان نے شور مچایا کہ ہٹ جاؤ، دل نے گوارا نہیں کیا کہ ایک بے جگر حیوان کے مقابلے سے ہٹ جاؤں۔ چنانچہ ہاتھی نے نہایت غضب کی حالت میں مجھے سونڈ میں لپیٹ لیا۔ میں نے خنجر نکال کر اس کی سونڈ میں مارا، اس نے چیخ مارکر مجھے دور پھینک دیا اور میں بفضل تعالٰیٰ محفوظ رہا۔

سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج[ترمیم]

جانِ جاناں مشہور صوفی سلسلہ نقشبندیہ جو شیخ الانوار سمر قند و بخارا بہاؤ الدین نقشبند کا قائم کردہ ہے ہندوستان میں اس سلسلہ کے مشہور موئد مانے جاتے ہیں۔

آثار رشد و ہدایت[ترمیم]

میرزا صاحب فرماتے تھے کہ شور عشق و محبت اور رغبت اتباع سنت میری طینت کے خمیر میں تھے۔ میں نو سال کا تھا کہ ابراہیم خلیل اللہ کو خواب میں دیکھا کہ بکمال عنایت پیش آئے۔ ان ہی ایام میں جب کبھی صدیق اکبر کا ذکر مبارک آتا تھا تو ان کی صورت مبارک میرے سامنے آجاتی تھی۔ میں نے با رہا ان کو چشم ظاہر سے دیکھا اور اپنے حال پر بہت مہربان پایا۔ ایک مرتبہ آپ کے والد آپ کو اپنے پیر شاہ عبد الرحمٰن قادری کی خدمت میں لے گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ شاہ صاحب سے کرامتیں ظاہر ہوتی تھیں، مگر نماز میں تساہل فرمایا کرتے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ مبادا میرے والد صاحب مجھے ان سے بیعت نہ کروا دیں۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ عبد الرحمٰن نماز میں تساہل کس لیے کرتے ہیں۔ والد صاحب نے فرمایا ان پر سکر غالب ہے وہ معذور ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ادائے نماز میں سکر غالب ہوجاتا ہے، مگر دوسرے امور میں ہوشیار رہتے ہیں۔ یہ سن کر میرے والد صاحب خفا ہو گئے، مگر میرے دل سے بیعت کرانے کا کھٹکا نکل گیا۔

میرزا مظہر کی عمر مبارک جب سولہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار نے اس جہان فانی سے کوچ فرمایا۔ والد کی وفات کے بعد آپ کے رشتہ دار شاہی منصب کے حصول کے لیے مغل بادشاہ فرخ سیر کے دربار میں لے گئے۔ اتفاق سے بادشاہ کو عارضہ زکام تھا، وہ دربار میں نہیں آیا۔ اسی رات آپ نے خواب دیکھا کہ ایک درویش نے اپنے مزار سے نکل کر اپنی کلاہ آپ کے سر پر رکھ دی۔ اس خواب کے بعد منصب و جاہ کی رغبت آپ کے دل میں بالکل نہ رہی اور درویشوں کی زیارت کا شوق غالب ہوا۔ جہاں کہیں کسی صاحب کمال کا نام سنتے اس کی زیارت کو تشریف لے جاتے۔

مظہر جان کے اربعہ مشائخ[ترمیم]

اٹھارہ سال کی عمر میں کچھ احباب سے سید نور محمد بدایونی کے کمالات سن کر ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد فرمایا۔ میرزا مظہر فرماتے ہیں کہ ” سید کے اوصاف حمیدہ سن کر میرا دل بے اختیار ان کی قدم بوسی کا مشتاق ہو گیا۔ اگرچہ سید کی عادت مبارکہ تھی کہ بغیر استخارہ مسنونہ کے کسی کو تلقین طریقہ نہ فرماتے تھے، مگر اس وقت بغیر درخواست کے مجھ سے فرمایا کہ آنکھیں بند کرکے قلب کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور ایک ہی توجہ میں میرے لطائف خمسہ کو ذاکر بناکر رخصت کر دیا۔ آپ کی توجہ کی تاثیر نے باطن کو ایسا متاثر کر دیا کہ دوسرے روز صبح کو جو میں نے سید کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کیا اور حسب عادت آتے وقت آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو بعینہ سید کی صورت پائی۔ اس سے محبت اور عقیدت اور زیادہ ہو گئی۔ بالجملہ چار سال آپ نے معاملہ کو ولایت علیا تک پہنچادیا اور مجھے اجازت معہ خرقہ عنایت فرمائی۔“

سید نور محمد بدایونی کے وصال کے بعد میرزا مظہر نے چھ برس تک سید کے مزار مقدس سے اقتباس انوار کا طریقہ اختیار کیا۔ بعد ازاں سید نے بار بار خواب میں یہ تاکید کی کہ کمالات الٰہی بے نہایت ہیں، اپنی عمر متناہی کو طلب میں صرف کرنا چاہیے۔ قبور سے استفادہ معمول نہیں، کسی زندہ بزرگ سے مقامات قرب کی تحصیل کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں میرزا نے بزرگان وقت کی طرف رجوع کیا۔ پہلے شاہ گلشن کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس کے بعد محمد زبیر قیوم رابع کی خدمت میں پہنچ کر فیضیاب ہوئے، پھر حاجی محمد افضل اورحافظ سعداللہ کی خدمت اقدس میں سالوں رہ کر باطنی دولت سے مالامال ہوئے۔ آخر میں آپ نے محمد عابد سنامی خلیفہ عبد الاحد سرہندی کی طرف رجوع فرمایا۔ عرصہ سات سال تک ان کی توجہات کی بدولت میرزا نے کمالات ثلاثہ و حقائق سبعہ وغیرہ ختم کیے۔ میرزا کو محمد عابد سنامی سے سلسلہ قادریہ کے علاوہ طریقہ چشتیہ اور سہروردیہ میں بھی اجازت ملی۔

ارشاد و تلقین[ترمیم]

میرزا پورے گیارہ سال محمد عابد کی خدمت میں رہے۔ ان کی وفات کے بعد آپ نے مسند خلافت کو زینت بخشی۔ طالبانِ خدا نے ہر طرف سے آپ کی طرف رجوع کیا۔ علما و صلحاء کسب فیوض کے لیے آپ کی خانقاہ میں جمع ہو گئے اور آپ کے کمالات کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ ابتدائے حال میں آپ کی توجہ کی تاثیر سے لوگوں میں بے تابی پیدا ہوجاتی اور کمال استغراق کے سبب بیخود ہوجایا کرتے۔ طالبوں کی تہذیب نفوس جیسا کہ آپ کی خدمت میں ہوتی تھی، بزرگان سلف کے وقت میں کبھی ہوتی ہوگی۔ مشائخ کرام آپ کی نسبت فرماتے تھے کہ جو فیض طالب خدا کو فقط آپ کی صحبت سے پہنچتا تھا وہ دوسروں کی ہمت و توجہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر خواجہ میر درد کی زیارت کے لیے گیا۔ خواجہ نے دیکھتے ہی فرمایا ”تم شاید میرزا کے مرید ہو گئے ہو کیونکہ تمھارا باطن نسبت مجددیہ کے انوار سے معمور ہے۔“ اس نے عرض کیا کہ نہیں میں تو صرف ان کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے تھے اللہ تعالٰیٰ نے ہمیں کشف صحیح عطا کیا ہے کہ روئے زمین کے تمام حالات ہم سے پوشیدہ نہیں اور ہتھیلی کے خطوط کے مانند عیاں ہیں۔ اس وقت میرزا جان جاناں کا مثل کسی اقلیم و شہر میں نہیں ہے۔ جس شخص کو سلوک مقامات کی آرزو ہو وہ ان کی خدمت میں جائے۔ چنانچہ شاہ صاحب کے احباب نے حسب الامر میرزا کی خدمت میں استفادہ کے لیے رجوع کیا۔

میرزا مظہرکی توجہ عالی اس پر مصروف تھی کہ سلسلہ مجددیہ تمام عالم میں پھیل جائے اور اس طریقہ مجددیہ کی نسبتوں سے جہان منور ہو جائے۔ چنانچہ ہزا رہا آدمی آپ سے بیعت ہوکر دوام ذکر خدا میں مشغول ہوئے اور قریب دو سو نیک نفوس آپ سے اجازت تعلیم ذکر پاکر خلق خدا کی ہدایت میں مشغول ہوئے۔ غرض کہ میرزا تیس سال اپنے مشائخ کی خدمت میں کسب انوار و برکات کرکے نہایت کمال و تکمیل کے مرتبہ پر پہنچ گئے اور 35سال طالبان خدا کی تلقین میں مشغول رہ کر نیک آثار صفحہ روزگار پر چھوڑ گئے۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

میرزا کمال زہد و توکل سے متصف تھے اور دنیا اور اہل دنیا کی کچھ پروا نہیں کرتے تھے اور دنیا داروں کے ہدیے قبول نہ فرماتے۔ ایک دفعہ محمد شاہ مغل بادشاہ نے اپنے وزیر قمرالدین کی زبانی کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ملک عطا فرمایا ہے، جس قدر دل مبارک میں آئے بطور ہدیہ قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ارشاد باری تعالیٰ یوں ہے ”“ اللہ تعالٰیٰ نے ہفت اقلیم کو قلیل فرمایا ہے، تمھارے پاس اس قلیل کا ساتواں حصہ یعنی ایک اقلیم ہندوستان ہے، اس میں سے کیا قبول کروں۔

نواب نظام الملک نے تیس روپیہ بطور نیاز پیش کیا، آپ نے قبول نہ فرمایا۔ نواب نے عرض کیا آپ راہ خدا میں تقسیم فرمادیں۔ فرمایا کہ میں تمھارا خانساماں نہیں، یہاں سے تقسیم کرنا شروع کردو گھر تک ختم ہو جائے گا۔ فرماتے تھے کہ اگرچہ ہدیہ کے رد کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اس کے قبول کرنے کو واجب بھی نہیں بتایا گیا۔ جو مال کہ یقینی طور پر حلال ہو اس کے لینے میں برکت ہے۔ فقیر اپنے اصحاب کے ہدیئے جو اخلاص سے لاتے ہیں قبول کرلیتا ہے، امیروں کا مال اکثر مشتبہ ہوتا ہے اور لوگوں کے حقوق اس سے متعلق ہوتے ہیں، قیامت کے دن اس کا حساب دینا دشوار ہوگا۔

ایک دفعہ ایک امیر نے آموں کا ہدیہ آپ کی خدمت میں بھیجا، آپ نے واپس کر دیا۔ اس نے بڑی منت سماجت کے بعد دوبارہ بھیجے، آپ نے دو آم رکھ لیے اور باقی واپس کر دیے اور فرمایا کہ فقیر کا دل اس ہدیہ کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اسی وقت ایک باغبان آپ کی خدمت میں شکایت لایا کہ فلاں امیر نے میرے آم ظلم سے لے لیے، ان میں سے کچھ آپ کی خدمت میں بھیجے ہیں، میری مدد کیجئے۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ یہ ناعاقبت اندیش لوگ چھینے ہوئے ہدیوں سے فقیر کا باطن سیاہ کرنا چاہتے ہیں۔

مکاشفات و کرامات[ترمیم]

میرزا اپنے وقت میں دیگر مشائخ خاندان سے اس امر میں ممتاز تھے کہ آپ کا کشف مقامات الٰہیہ صحیح و مطابق نفس الامر ہوتا تھا اور طالبوں کو طریقہ مجددیہ کے مقامات کی غایت تک سلوک طے کراتے تھے۔ آپ اپنے مریدوں کو مقامات عالیہ کی بشارتیں دیا کرتے تھے، اس پر بعض افغانوں نے دل میں انکار کیا۔ آپ نے نور فراست سے دریافت کرکے فرمایا اگر تمھیں اعتبار نہیں تو گذشتہ اکابرین میں سے کسی کو مقرر کرلو تاکہ اس کی روح ظاہر ہوکر ان بشارتوں کے صحیح ہونے کی شہادت دے۔ انھوں نے عرض کیا کہ اگر حضور سرور عالم ﷺ تصدیق فرمائیں تو یہ تصدیق معتبر ترین ہے۔ چنانچہ آپ مع احباب کے ساتھ جناب پیغمبر خدا ﷺ کی روح مبارکہ پر فاتحہ پڑھ کر متوجہ ہوکر بیٹھ گئے۔ حضورسرور کائنات ﷺ نے ظاہر ہوکر منکرین کی سرزنش فرمائی اور فرمایا کہ میرزا صاحب کی بشارتیں سب صحیح ہیں۔

ایک روزایک فاحشہ عورت کی قبر پر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ فرمایا کہ اس کی قبر میں دوزخ کی آگ شعلہ زن ہے اور وہ عورت شعلوں کے ساتھ اوپر جاتی ہے اور نیچے آتی ہے۔ اس کے ایمان میں مجھے شک ہے مگر کلمہ طیبہ کا ختم اس کی روح کو بخشتا ہوں، اگر ایمان کے ساتھ مری ہے تو بخشی جائے گی۔ چنانچہ کلمہ طیبہ کے ختم کا ثواب پہنچاکر فرمایا کہ الحمد للہ ایمان کے ساتھ مری تھی، اس کلمہ کی برکت سے عذاب سے نجات پاگئی۔ ایک بے ادب شخص نے حضرت کے مکشوفات سے انکار کرکے بطور امتحان عرض کیا کہ یہ میرے ایک دوست کی قبر ہے، اس کا حال دریافت کیجئے۔ آپ نے سکوت کے بعد فرمایا کہ جھوٹ نہ بول، یہ تو ایک عورت کی قبر ہے تمھارے دوست کی قبر نہیں ہے۔ میرزا کے کشف و کرامات بہت ہیں۔ ہم نے یہاں صرف چند ایک نقل کردینے پر اکتفا کیا ہے، کیونکہ حقیقی کرامت آقائے دوجہاں ﷺکی اتباع پر استقامت اور طالبوں کو قرب خدا کے مراتب پر پہنچانا ہے۔ اور میرزاسے اس طرح کی کرامتوں کا ظہور اظہر من الشمس ہے۔

حضرت میرزا کی وفات[ترمیم]

جب میرزا مظہر کی عمر مبارک اسی (80) سال سے تجاوز کرگئی تو آپ پر رفیق اعلیٰ کا شوق غالب ہوا۔ آپ نے اپنے ایک خلیفہ ملا نسیم کو ان کے وطن رخصت کرتے وقت فرمایا کہ اس کے بعد ہماری تمھاری ملاقات معلوم نہیں ہوتی۔ یہ سن کر آپ کے خدام بہت روئے۔ ایک روز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار میں فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت سے فقیر کے دل میں کوئی ایسی آرزو نہیں چھوڑی جو حاصل نہ ہوئی ہو، اس قادر مطلق نے فقیر کو اسلام حقیقی سے مشرف کیا، علم سے حصہ وافر دیا، نیک عمل پر استقامت بخشی، لوازم طریقہ یعنی کشف و تصرف و کرامات عنایت کیے، صالحین کو کسب فیض کے لیے بندہ کے پاس بھیجا، دنیا اور اہل دنیا سے علاحدہ رکھا، اب صرف شہادت ظاہری کے کوئی آرزو باقی نہیں۔ فقیر کے اکثر بزرگ شہید ہوئے ہیں مگر فقیر نہایت کمزور و ضعیف ہے اور قوت جہاد نہیں رکھتا، بظاہر اس مرتبہ کا حصول مشکل ہے۔“ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ خواہش بھی پوری کردی اور آپ کو باطنی شہادت کے ساتھ ساتھ ظاہری شہادت سے بھی سرفراز فرمایا۔ قصہ شہادت کچھ یوں ہے کہ مغل بادشاہ شاہ عالم کے دور میں ایرانی شیعہ پارٹی نے اتنا عروج حاصل کیا کہ ایرانیوں کے قائد نجف خاں کو دہلی کی مسند وزارت پر فائز کرنا پڑا۔ نجف خاں کے بر سر اقتدار آنے سے جہاں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے وہاں شیعہ سنّی جھگڑا بھی اپنے عروج کو پہنچا۔ اس دور میں علما اہل سنت کو خاصی پریشانی و تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، بالخصوص دو فعال ترین شخصیتوں یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورمیرزا مظہر کی خانقاہیں جو سنی طاقتوں کا مرکز تھیں، نجف خاں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنیں۔ شاہ ولی اللہ کی جائداد کو ضبط کرکے شاہ عبدالعزیز دہلوی اور شاہ رفیع الدین کو دہلی سے پاپیادہ نکال دیا گیا۔ اب دہلی میں صرف مظہرکی ذات اقدس سنیوں کی داد رسی کے لیے باقی رہ گئی۔ بالآخر آپ کو بھی راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔

7 محرم 1195ھ کو جب کہ کچھ ہی رات گذری تھی، چند آدمیوں نے مظہر کے دروازے پر دستک دی۔ خادم نے جاکر عرض کی کہ کچھ لوگ زیارت کے لیے آئے ہیں۔ آپ کی اجازت سے تین آدمی اندر آئے، ان میں سے ایک ایرانی نژاد مغل بھی تھا۔ آپ خوابگاہ سے نکل کر ان کے برابر کھڑے ہو گئے۔ مغل نے پوچھا کہ میرزا جان جاناں آپ ہیں، پس اس پر بدبخت ایرانی مغل نے طبانچہ کی گولی داغ دی جو آپ کے دل کے بائیں طرف لگی۔ آپ ناتوانی اور بڑھاپے کے باعث گر پڑے اور قاتل فرار ہو گئے۔ لوگوں کو خبر ہوئی تو جراح کو بلایا گیا۔ صبح نجف خاں نے ایک جراح کو بھیجا اور کہا کہ قاتل معلوم نہیں، اگر معلوم ہوگا تو قصاص جاری کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا اگر ارادہ الٰہیہ میں شفا ہے تو بہرصورت ہو جائے گی، دوسرے جراح کی ضرورت نہیں، اگر قاتل معلوم ہو جائے تو ہم نے معاف کیا تم بھی معاف کردینا۔ قاتلانہ حملہ کے بعد آپ تین روز زندہ رہے۔ اس حالت میں اپنا یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے

بناکردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

غرض کہ دس محرم کو جسے شہادت کی رات کہا جاتا ہے، آپنے تین بار زور زور سے سانس لیا اور واصل بحق ہو گئے۔آپ کا جنازہ دہلی کی مشہور و معروف شخصیت سلسلہ چشتیہ کے بزرگ اور آپ کے دوست حضرت شاہ فخر الدین دہلوی رحمہ اللہ نے پڑھا۔


آپ کے خلیفہ ملا نسیم کی خانقاہ واقع نور محل اوچ ریاست دیر صوبہ سرحد میں اب بھی وہ خون آلود کپڑے موجود ہیں جو آپ نے شہادت کے وقت پہن رکھے تھے۔ اس کے علاوہ وہ خون آلود دھجیاں بھی محفوظ ہیں جن سے حضرت کا خون پونچھا گیا تھا۔

آپ کی تجہیز و تکفین آپ کی اہلیہ محترمہ کی نگرانی میں ہوئی۔ آپ کو بی بی صاحبہ کی حویلی میں جو چتلی قبر دہلی سے متصل تھی دفن کیا گیا۔ آپ کے مزار مبارک جس چبوترے پر ہے اسی پر آپ کے ساتھ سلسلہ نقشبندیہ کی تین اور عظیم ہستیاں بھی محو خواب ہیں، یعنی شاہ غلام علی، شاہ ابو سعید مجددی اور شاہ ابوالخیر مجددی۔ خانقاہ کے موجودہ جانشین مولانا زید ابو الحسن فاروق نے اس چبوترے پر 1980ء میں ایک شاندار گنبذ تعمیر کروایا ہے۔

تصانیف[ترمیم]

میرزا مظہر کی نہایت معروف زندگی تھی، لیکن اس کے باوجود آپ مطالعہ کتب میں مصروف رہتے تھے۔ مظہر کی جو تصانیف اب تک ملی ہیں وہ یہ ہیں

1. دیوان مظہر (فارسی)

2. خریطہ جواہر (فارسی کے معروف اور غیر معروف شعرا کے کلام کا انتخاب)

3. مکاتیب کے مختلف مجموعے

4. مجموعہ اردو اشعار

5. متفرق اور مختصر نثری تحریریں

6. ملفوظات[1]

سلسله شیوخ[ترمیم]

  • حضرت شیخ مرزا مظهر جان جاناں شهید
  • حضرت شیخ سید نور محمد بدایوانی
  • حضرت شیخ حافظ محمد حسن
  • حضرت شیخ سیف الدین سرهندی
  • حضرت شیخ محمد معصوم عروة الوثقی
  • حضرت شیخ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرهندی

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 23 مئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2009