تفسیر قرآن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(تفسیر سے رجوع مکرر)

مضامین بسلسلہ
تفسیر قرآن
زیادہ مشہور
سنی تفاسیر
شیعہ تفاسیر
معتزلی تفاسیر
دیگر تفاسیر
اصطلاحات
اسباب نزول

لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا [مادہ معینی] فسر ہے۔ یہ باب تفصیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔ قرآن کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کو مفسر۔[1][2] اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ [3] ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر][4] اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔[5] تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔

لغوی معنی[ترمیم]

تفسیر کا مادہ ف-س-ر=فسر ہے اور اس مادہ سے جو الفاظ بنتے ہیں۔ ان سے بالعموم شرح و ایضاح کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ فَسّرَ (ماضی) کے مصدری معنی ہیں: واضح کرنا، تشریح کرنا، مراد بتانا، پردا ہٹانا۔ جبکہ اسی سے تفسیر ہے کیونکہ اس میں بھی عبارت کھول کر معانی کی وضاحت کی جاتی ہے۔

تعریف[ترمیم]

وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے قرآن کے معانی کا بیان، اس کے استخراج کا بیان، اس کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں لغت، نحو، صرف، معانی و بیان وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس میں اسباب نزول، ناسخ و منسوخ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ علامہ امبہانی کہتے ہیں: تفسیر اصطلاح علما میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں، خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کلام تام اور جملوں کا مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔ امام ماتریدی کے نزدیک: تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی مراد اور اس قدر یقین ہو کہ خدا کو شاہد ٹھہرا کر کہا جائے کا خدا نے یہی مراد لیا ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ چند احتمالات میں سے کسی ایک کو یقین اور شہادت الہی کے بغیر ترجیح دی جائے۔ امام ابو نصر القشیری کہتے ہیں کہ تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر۔ علامہ ابو طالب شعلبی کہتے ہیں: تفسیر کے معنی لفظ کی وضع کا بیان کر دینا ہے، خواہ وہ حقیقت ہویا مجاز، مثلا صراط کے معنی راستہ، صیب کے معنی بارش اور کفر کے معنی انکار۔

قرآن میں جو بیان کیا گيا ہے اور صحیح سنت میں اس کی تعین کیا گیا ہے اس کو ظاہر کرنا تفسیر ہے۔ جو بیان ظاہر کے مطابق ہو وہ تفسیر ہے۔

علامة شیخ عثیمین کہتے ہے کہ تفسیر سے مراد قرآن پاک کا معانی کو بیان کر نا ہے “بيان معانى القرآن الكريم" أصول في التفسير، المؤلف: محمد بن صالح العثيمين، ص23۔

تاویل[ترمیم]

تاویل کا مادہ ا-و-ل=اول ہے۔ اس کے لغوی معنی تعبیر بتانا، کل بتانا۔ بیان حقیقت، اپنی اصل کی طرف لوٹنے کے ہیں۔ مرجع اور جائے بازگشت کو موؤل کہتے ہیں۔ کسی شے کو فعل ہو علم اس کی اصل کی طرف لوٹانے کا نام تاویل ہے۔ قرآن اور کلام عرب میں یہ لفظ بیان حقیقت، تفسیر، توضیح معانی، تبیین کے مترادف استعمال ہوا ہے۔ یعنی قرآن میں تاویل و تفسیر ایہم معنی استعمال ہوا ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے پہلے تک تاویل و تفسیر کا ایک ہی معنی لیا جاتا رہا ہے۔ اور اسی (تفسیر) کے مترادف کے طور پر تاویل کا لفظ مستعمل رہا۔ پھر اس میں شروع شروع میں تھوڑا فرق پایا جاتا تھا، عام طور پر علما ان دونوں لفظموں کے مفہوم میں یہ فرق کیا کرتے تھے کہ: تاویل کا استعمال جملوں اور معانی کی توضیح کے لیے استعمال کرتے اور تفسیر کا لفظ مشکل الفاظ اور مفردات کی تشریح کے لیے، مگر یہ تمام علما کے نزدیک مسلم نہیں تھا۔

پھر جب بعد میں علوم اسلامیہ کی باقاعدہ ترتیب و تدوین عام ہو گئی۔ تو تفسیر و تاویل کے اصطلاحی معانی بھی مقرر ہوئے اور دونوں میں واضح فرق کیا جانے لگا۔ اور فنی و اصطلاحی حیثیت سے تفسیر و تاویل الگ الگ چیزیں ہو گیئں۔ {اس{قرآنیات}کو اسان بناو اور قران مجید کا ایک معنی ہے تحقیق کرو یہ قران مجید میں تماری بہتری اور کامیابی ہے}

اصطلاحی تعریف[ترمیم]

علامہ زرکشی نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے: "ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ"۔[6] وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے۔ علامہ آلوسی تعریف میں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك"۔[7] وہ علم ہے جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ و منسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔

اس تعریف کی روشنی میں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے :

  1. "الفاظِ قرآن کی ادائیگی کے طریقے" یعنی الفاظ قرآن کو کس کس طرح پڑھا جا سکتا ہے؟ اس کی توضیح کے لیے قدیم عربی مفسرین اپنی تفسیروں میں ہر آیت کے ساتھ اس کی قرأتیں بھی تفصیل سے واضح کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے ایک مستقل علم" علم قرأت" کے نام سے بھی موجود ہے۔
  2. "الفاظ قرآنی کے مفہوم" یعنی ان کی لغوی معنی، اس کام کے لیے علم لغت سے پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی بنا پر تفسیر کی کتابوں میں علما لغت کے حوالے عربی ادب کے شواہد بکثرت ملتے ہیں۔
  3. "الفاظ کے انفرادی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادہ کیا ہے، یہ موجودہ صورت میں کس طرح آیا ہے، اس کا وزن کیا ہے اور اس وزن کے معانی و خواص کیا ہیں؟ ان باتوں کے لیے علم صرف کی ضرورت پڑتی ہے۔
  4. "الفاظ کے ترکیبی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ وہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر کیا معنی دے رہا ہے؟ اس کی نحوی ترکیب (Grammatical Analysis) کیا ہیں؟ اس پر موجودہ حرکات کیوں آئی ہیں اور کن معانی پر دلالت کر رہی ہیں؟ اس کام کے لیے علم نحو اور علم معانی سے مدد لی جاتی ہے۔
  5. "ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی" یعنی پوری آیت اپنے سیاق و سباق میں کیا معنی دے رہی ہے؟ اس مقصد کے لیے آیت کے مضامین کے لحاظ سے مختلف علوم سے مدد لی جاتی ہے، مذکورہ علوم کے علاوہ بعض اوقات علم ادب اور علم بلاغت سے کام لیا جاتا ہے، بعض اوقات علم حدیث اور بعض اوقات علم اصول ِ فقہ سے۔
  6. "معانی کے تکملے"یعنی آیات قرآنی کا پس منظر اور جوبات قرآن کریم میں مجمل ہے اس کی تفصیل، اس غرض کے لیے زیادہ تر علمِ حدیث سے کام لیا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی یہ میدان اتنا وسیع ہے کہ اس دنیا کے ہر علم و فن کی معلومات کھپ سکتی ہیں کیونکہ بسا اوقات قرآن کریم ایک مختصر سا جملہ فرماتا ہے مگر اس کی میں حقائق و اسرار کی ایک غیر متناہی کائنات پوشیدہ ہوتی ہے مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے :

وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات:21)

اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔

غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح و تفصیل میں پورا علم الابدان (Physiology) اور پورا علمِ نفسیات (Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہو گئے ہیں؛ چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز میں عقل و تدبر، تجربات و مشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل ہیں۔[8]

تفسیرالقرآن کے اصول[ترمیم]

چونکہ ہرکام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے، بے اصولی تو کسی بھی شعبہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی؛ اسی اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں؛ تاکہ اس میں دلچسپی پیدا ہو، اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیاد پر قرآن کریم کی تفسیر کی جاسکے، یقیناً ہم کو اس کے لیے حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رہبری کی گئی ہے؛ چنانچہ فرمایا: "ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ"۔(آل عمران:7)

اے رسول!وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ گویا اس آیت کی رو سے آیات کی اولین تقسیم دوطرح پر کی گئی ہے۔ حسنا کا معنی کیا ہے

آیات محکمات

(2)[ترمیم]

آیات متشابہات؛ پھرمتشابہات دوقسم پر ہیں:

(1)[ترمیم]

جو لفظ بھی سمجھ سے باہر ہو جیسے حروف مقطعات

(2)[ترمیم]

لفظ تو سمجھ میں آتے ہوں؛ لیکن مفہوم ان کا قابل فہم نہ ہو۔ پھرآیاتِ محکمات کو مفسرین نے دوطرح پر تقسیم کیا ہے:

  • (1)وہ آیتیں جن کے سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو جو بالکل واضح ہوں یعنی جس زبان میں بھی ان کا ترجمہ کیا جائے سمجھنے والے کو مشکل معلوم نہ ہوں اور بظاہر مفسرین کے پاس کوئی اختلاف رائے نہ ہو، جیسے پچھلی قوموں سے متعلق واقعات اور جنت وجہنم سے متعلق آیات۔
  • (2)دوسری وہ آیتیں ہیں جن کے سمجھنے میں کوئی ابہام یااجمال یا کوئی دشواری پائی جائے یا اُن آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کے منظر وپس منظر کو سمجھنا ضروری ہو جیسے وہ آیتیں جن سے دقیق مسائل اور احکام نکلتے ہوں یااسرار ومعارف اُن سے نکلتے ہوں، ایسی آیات کو سمجھنے کے لیے انسان کو صرف زبان اور اس کی باریکیوں کو جاننا کافی نہیں ہوتا؛ بلکہ اور بھی بہت سی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے، انھیں معلومات میں سے ایک "ماخذِ" تفسیر کہلاتا ہے

تفسیری مآخذ[ترمیم]

یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہو سکتی ہے، یہ تقریباً چھ قسم کی بتلائی گئی ہیں:

  • (1)تفسیر القرآن بالقرآن۔(قرآن کریم کی کسی آیت یا لفظ کی تشریح قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا لفظ سے کی جائے)
  • (2)تفسیر القرآن بالاحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا فعل سے کی جائے)
  • (3)تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم اجمعین۔(قرآن پاک کے کسی آیت کی تشریح حضرات صحابہ کرام میں سے کسی صحابی کے قول سے کی جائے، تفسیری شرائط کے ساتھ)
  • (4)تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم اللہ۔(قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت حضرات تابعین میں سے کسی تابعی کے قول سے کی جائے، تفسیری شرائط کے ساتھ)
  • (5)تفسیر القرآن بلغۃ العرب۔(قرآن مجید کے کسی آیت یا کسی لفظ کی تشریح اہل عرب کے اشعار اور عربی محاورات کے مطابق کی جائے، تفسیری شرائط کے ساتھ)
  • (6)تفسیرالقرآن بعقل السلیم۔(قرآن مجید کی تشریح وتوضیح اپنی صحیح سمجھ بوجھ اور منشائے خدا وندی کو ملحوظ رکھ کرعلوم اسلامیہ کی روشنی میں، حالات وواقعات، مواقع ومسائل پر اس کا صحیح انطباق کرنا اور اس کے اسرار ورموز کو کھولنا اور بیان کرنا تفسیرالقرآن بعقل سلیم کہلاتا ہے)

ہرایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:

پہلا ماخذ، تفسیرالقرآن بالقرآن[ترمیم]

اختصار کی غرض سے اس کی صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

پہلی مثال[ترمیم]

سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے، اِس کی دونوں آیتیں اس طرح ہیں: "اهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ"۔(الفاتحۃ:6،7)

ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ جن پر انعام کیا گیا ہے اس کی تفسیر"سورۃالنساء" کی درجِ ذیل آیت میں کی گئی ہے: "وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا"۔ (النساء:69)

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہداءاور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔

دوسری مثال[ترمیم]

"فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِoاِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ"۔ (البقرۃ:37)

پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے )کچھ الفاظ سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انھوں نے توبہ مانگی)چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی، بے شک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ اس آیت میں کلمات کا تذکرہ ہے مگر وہ کلمات کیا تھے؟ دوسری آیت میں اس کی تفسیرموجود ہے: "قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا، وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ"۔(الاعراف:23)

دونوں بول اٹھے کہ:اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گذرے ہیں اور اگرآپ نے ہمیں معاف نہ فرمایااور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اللہ ہم۔پر رحم فرما میں تیری پاک کلام پڑی ہے میں بہت بھٹکا ہوا تھا میرے اللہ مجے اپنی اس حدایت کے رستے پر چلنے کی توفیک عطا فرما اور باقی سب امیر المومنین پر بی حدایت پہچانے کی توفیق عطافرما میرے اللہ میں اس تیری دنیاہ کو محبت والے رستے پر چل کر عدل اور انصاف سے بھر دینہ چاہتہ ہوں۔اے اللہ میری مدد فرما آمین ثم آمین

تیسری مثال[ترمیم]

"سورۃ الانعام" کی آیت نازل ہوئی: "الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولِٰئکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ"۔(الانعام:82)

جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا، امن وچین تو بس ان ہی کا حق ہے اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔ توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس سے ( کسی نہ کسی طرح کا) ظلم صادر نہ ہوا ہو، تو اللہ نے ظلم کی تفسیر ومراد کو واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی: " إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ"۔(لقمان:13)

کہ شرک ظلم عظیم ہے۔ یعنی آیت بالا میں ایمان کے ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیا ہے وہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔[9]

تفسیر القرآن بالقرآن کے موضوع پرایک گرانقدر کتاب مدینہ منورہ کے ایک عالم شیخ محمد امین بن محمد مختار کی تالیف ہے جو "اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن" کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

دوسرا ماخذ، تفسیرالقرآن بالحدیث والسیرۃ[ترمیم]

قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث والسیرۃ کہلاتا ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال اور عملی زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔ (النحل:44)

تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کے لیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا، اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ ﷺکے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کرکے دکھلایا اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سے ایک نمایا خصوصیت ہے، خواہ وہ حکم ایمان، توحید، نماز، روزہ، زکوۃ، حج، صدقہ وخیرات، جنگ وجدال، ایثار وقربانی، عزم واستقلال، صبر و شکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے، ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ وآئیڈیل کے طور پر آنحضرت ﷺ ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ وآیات کی تفسیر وتوضیح ہے جن کی مراد خدا وندی واضح نہیں تو ان کی مراد واجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب ﷺ نے واضح فرمادیا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے، یعنی قرآن حکیم کی وہ آیات جن میں واضح احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے، خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آپ نہ وہ کمال درجہ کی عبد یت اور اطاعت وفرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر وتصویر امت کے سامنے پیش فرمائی جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے، دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے؛ بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں جن کی مثالوں کو یہاں ذکر نہیں کیا جا رہا ہے اگر دیکھنا چاہیں تو ہمارے ہوم پیج کے عنوان"سیرت طیبہ" میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں اور پہلی قسم کی مثالیں کتب احادیث وتفسیر میں بکثرت ملیں گی ان میں سے بغرض اختصار صرف تین مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:

پہلی مثال[ترمیم]

سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ: "وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ"۔(البقرۃ:187) اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح (نہ) ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک سے واضح فرمایا : " إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَار"۔[10] کہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔

دوسری مثال[ترمیم]

سورہ نور کی آیت: "اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ، وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ"۔ (النور:2)

زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئے اور یہ بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔

ظاہر ہے کہ اس آیت سے زانیہ اور زانی کی سزامیں سو کوڑے مارنے کاذکر ہے، اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا کوئی فرق نہیں کیا گیا؛اس کی تفسیر احادیثِ پاک سے واضح ہوتی ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑوں کی سزا دی جائے گی جیسا کے بخاری شریف میں ہے: "عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ"۔[11]

زید بن خالد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے غیر شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کاحکم دیا۔

اور شادی شدہ مرد وعورت کو سنگسار کیا جائے گا: "الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَازَنَيَا فَارُجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ، رَجَمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهٗ"۔[12] شادی شدہ مرد وعورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرو، یعنی سنگسار کردو، راوی کہتے ہیں کہ خود حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ایسی سزادی ہے اور بعد میں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔

تیسری مثال[ترمیم]

قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے کی مثال میں یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے: "غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ"۔ (الفاتحۃ:7)

نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔ قرآن پاک میں المغضوب اور الضال کا مصداق متعین نہیں کیا گیا ہے ؛لیکن ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَلْيَهُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّيْنَ النَّصَارَىٰ"۔[13] جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں اور اس نقطۂ نظر سے بھی کئی تفاسیر لکھی گئی ہیں، اُن میں سے چند تفاسیر یہ ہیں۔

تیسرا ماخذ، تفسیرالقرآن باقوال الصحابہ[ترمیم]

حضرات صحابہ چونکہ بجا طور پر خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم و تربیت حاصل کی، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیں کہ قرآن کریم اوراس کی تفسیر وتاویل کو بلاواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں، اہل زبان ہونے کے باوجود ان کو صرف زبان دانی پر بھروسا نہ تھا؛ چنانچہ بعضے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقاً سبقاً قرآن کریم کو پڑھا، مشہور تابعی ابوعبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں: "حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّﷺ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ"۔[14]

صحابہ میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے، مثلاًعثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود وغیرہ انھوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔

یہ ہے حضرات صحابہ کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم و تربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتے شاید اسی وجہ سے مسند احمد میں انس کا یہ اثرمنقول ہے: "كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا"۔[15] یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا اور موطا مالک کی روایت میں ہے: "أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا"۔[16] عبد اللہ ابنِ عمر کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابن عمر اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے، جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزور طالب علم اتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے، دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت ابن عمر کو سورۂ بقرہ کے الفاظ اور اس کی تفسیر وتاویل اور اس کے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی، اس کی تائید ابن مسعود کے اس اثر سے ہوتی ہے جس کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے: "والذي لا إلہ غيرہ، ما نزلت آية من، كتاب اللہ إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ"۔[17]

قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہنچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔

یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں پیش کیے گئے، یوں تو بہت سی آیات کی تفسیر حضرات صحابہ کے اقوال سے ثابت ہیں ان میں سے کچھ برائے نمونہ پیش ہیں۔

پہلی مثال[ترمیم]

ایک دفعہ ابن عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریافت کی: "أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا"۔(الانبیاء:30) کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ ابن عمرنے اس سے فرمایا کہ تم ابن عباس کے پاس جاؤ اور ان سے اس کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ مجھے بھی بتاتے جانا، وہ شخص ابن عباس ke پاس پہنچااور درج بالا آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا، بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے اگانے سے۔ اس شخص نے ابن عمر کو جب یہ تفسیر بتائی تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی جانب سے ان کو خصوصی علم عطا ہوا ہے۔[18]

دوسری مثال[ترمیم]

" وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ، وَاَحْسِنُوْا، اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِـنِیْنَ"۔(البقرۃ:195) اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو، بے شک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔ اس آیت کی تشریح میں مفسرین نے ابوایوب انصاری کا ارشاد نقل کیا ہے کہ: "التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد"۔(تفسیر ابن کثیر، تحت قولہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ)

"التھلکۃ "سے مراد گھر اور مال کی مصروفیات میں لگا رہنا اور جہاد کو چھوڑ بیٹھنا ہے۔ عام مفسرین نے اپنی اپنی تفاسیر میں اس تفسیر کو خاص طور سے نقل کیا ہے۔

تیسری مثال[ترمیم]

علامہ طبری روایت کرتے ہیں کہ عمرنے صحابہ سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت کیا : "أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ"۔(البقرۃ:266)

کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ میں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آپکڑا ہواور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے میں ایک آگ سے بھرا بگولا آکر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے۔

کوئی بھی اس کا شافی جواب نہ دے سکے، ابن عباس نے عرض کیا کہ میرے دل میں ایک بات آ رہی ہے، عمر نے فرمایا کہ آپ بلا جھجک برملا بیان کیجیے، ابن عباس نے فرمایا: "اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک مثال بیان کی ہے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہے اور جب اس کا آخری وقت آئے جب کے نیکیوں کی اسے زیادہ ضرورت ہوتو بُرا کام کرکے سب نیکیوں کو برباد کر دے"۔[19] ایک اہم بات اس بارے میں اہل اصول نے بتلائی ہے کہ جن صحابہ کے تفسیری اقوال میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو ان اقوال کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیے جانے سے پہلے اصول ِحدیث کے اعتبار سے ان کی جانچ ضروری ہے۔ 2۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ کے اقوال تفسیر اسی وقت حجت، دلیل سمجھے جائیں گے جبکہ آپﷺ سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند طور پر ثابت نہ ہو؛چنانچہ اگر آپ ﷺ سے تفسیر منقول ہو تو پھر صحابہ سے اقوال محض اس تفسیر کی تائید شمار کیے جائنگے اور اگر آپ ﷺ کے معارض کوئی قول صحابی ہوتو اس کو قبول نہ کیا جائے گا۔ 3۔ تیسرے یہ کہ صحابہ کے اقوال تفسیر میں اگر تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہو سکے ان کے اقوال میں مطابقت پیداکی جائے گی اگر مطابقت نہ ہو سکے تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ دلائل کی روشنی میں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مضبوط ہے اس کو اختیار کرلے۔[20] اس موضوع پر مستقل کتاب، تنویرالمقباس فی [21] / تفسیر ابن عباس]"ہے اور اس کے علاوہ دیگر کتب تفاسیر میں صحابہ کی تفسیری روایات مذکور ہیں۔

چوتھا ماخذ:تفسیر القرآن باقوال التابعین[ترمیم]

واضح ہونا چاہیے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنھوں نے حضرات صحابہ کی صحبت اٹھائی ہواور ان کی صحبت سے علمی استفادہ کیا ہو، اہل علم میں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین حجت ہیں یا نہیں، اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائے گا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائے گا؛ بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ اورلغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائے گا، ہاں اگر تابعین کے درمیان میں کوئی اختلاف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قراردیا جائے گا۔[22]

جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جا سکتی ہے تو اس کے کچھ نمونے بھی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :

پہلی مثال[ترمیم]

ارشاد باری تعالی ہے: "وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ، رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ"۔(التوبہ:100)

اور جولوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مددکرنے والے اور جو ان کے پیروہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیار کررکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔ اس آیت شریفہ میں حضرات صحابہ کے مختلف درجاتِ فضیلت بیان کیے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا، دوسرے ان کے بعد والوں کا، اب سابقین اولین کون ہیں، اس میں مفسرین کے مختلف اقوال نقل کیے جاتے ہیں، کبار تابعین سعید بن المسیب، ابن سیرین اور قتادہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنھوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ قول ہے کہ سابقین اولین سے مرادبدرمیں شریک ہونے والے صحابہ ہیں اورشعبی نے فرمایا کہ وہ جو حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل رہے۔[23]

اس آیت میں تابعین کے مختلف اقوال سامنے آئے، مفسرین نے کسی قول کو رد نہیں کیااور ان کے درمیان میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔

دوسری مثال[ترمیم]

ارشاد باری تعالی ہے: " اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنََ"۔ (التوبہ:112)

توبہ کرنے والے، اللہ کی بندگی کرنے والے، اس کی حمد کرنے والے، روزے رکھنے والے، رکوع میں جھکنے والے، سجدہ گزارنے والے، نیکی کی تلقین کرنے والے، برائی سے روکنے والے اوراللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دے دو۔

آیت میں ایک لفظ "أَلسَّائِحُوْنَ" آیا ہے، جس کا مطلب جمہور مفسرین کے ہاں"صَائِمُوْنَ"یعنی روزہ دار مراد ہیں اور عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیا ہے وہاں صائمین مراد ہیں، عکرمہ جو کبارِ تابعین میں سے ہیں انھوں نے کہا سیاحت کرنے والوں سے مرادطالب علم ہیں جو علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے ہیں۔[24]

اس تفسیر کو مفسرین نے رد نہیں کیا ہے اگرچہ عکرمہ اس تفسیر میں منفرد ہیں۔

تیسری مثال[ترمیم]

ارشاد باری تعالی ہے: "اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ(التوبہ:60)

صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں۔۔الخ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمیان میں فرق کو واضح کیا ہے، غنی سے متعلق امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوۃ مال باقی رہے۔[25] عام مفسرین نے امام ابو حنیفہ کے ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر میں بلا کسی نکیر کے ذکر فرمایا ہے۔

اس موضوع پر بھی بہت سی تفاسیرلکھی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ نیشاپوری کی تفسیر"غرائب القرآن اور رغائب الفرقان" قابل ذکر ہے اور علامہ نسفی کی مدارک التزیل بھی قابل ذکر ہے اور علامہ آلوسی کی روح المعانی بھی ایک وقیع تفسیر ہے۔ نیز اردو تفاسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر معارف القرآنآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com (Error: unknown archive URL) بھی اہم تفاسیر میں سے ایک ہے۔

پانچواں ماخذ: تفسیر القرآن بلغۃ العرب[ترمیم]

لغت عرب کو تفسیر کا ماخذ ماننے میں اگرچہ اہل علم کے یہاں اختلاف ہے، جیسے کہ امام محمد نے لغۃ عرب سے قرآن کی تفسیر کو مکروہ قراردیا ہے[26] کیونکہ؛ عربی زبان ایک وسیع زبان ہے اور بعض اوقات ایک لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک جملے کے بھی متعدد اور کئی مفہوم ہو سکتے ہیں تو ایسے مواقع پر صرف لغت عرب کو بنیاد بناکر ان میں سے کوئی ایک مفہوم متعین کرنا تفسیر میں مغالطہ کا سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو مکروہ بھی کہا گیا ہے مگر محققین کا کہنا ہے کہ مغالطہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لغت کے کثیر الاستعمال معانی کو چھوڑکر انتہائی قلیل الاستعمال معنی مراد لیے جائیں اس لیے ایسی جگہ جہاں قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین میں سے کوئی صراحت نہ ملے تو آیت کی تفسیر لغت عرب کے عام محاورات(جن کا چل چلاؤہو) کے مطابق کی جائے گی۔

پہلی مثال[ترمیم]

ایک مرتبہ خلیفہ ثانی عمر فاروق نے صحابہ کرام سے درج ذیل آیت کے معنی دریافت کیے: "أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ"۔(النحل:47)

یا انھیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔ یہ سن کر قبیلہ بنو ھذیل کا ایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگاکہ ہماری زبان میں"تخوف"کمی اور نقصان کو کہتے ہیں، امیر المؤمنین عمر نے پوچھا عربی اشعار میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے؟اس نے کہا جی ہاں اور فوراً یہ شعر پڑھ دیا:

  • تَخَوَّفَ الرَّحُلُ منها تامِكاً قَرِداً * كما تَخَوَّفَ عُودَ النبعةِ السَّفِنُ*

ترجمہ:کجاوہ کی رسی اونٹنی کے کوہان کے بال کو کم کرتی رہتی ہے، جیسا کہ لوہا کشتی کی لکڑی کو کم کرتا رہتا ہے۔

یہ سن کر عمرنے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا اپنے دیوان کو تھامے رکھو، صحابہ نے عرض کیا دیوان سے کیا مراد ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جاہلی شاعری، اس میں قرآن کی تفسیر اور تمھاری زبان کے معانی موجود ہیں۔[27]

دوسری مثال[ترمیم]

علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن عباس صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے سوال کرنے والوں کا ایک ہجوم تھادو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے تفسیر قرآن کے متعلق کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں، ابن عباس نے فرمایا دل کھول کر پوچھیے، انھوں نے پوچھا کہ آپ اس آیت باری تعالی کی تفسیر بتائیے: "عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ"۔ (المعارج:37)

دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔ ابن عباس نے فرمایا عزین کے معنی ہیں ساتھیوں کے حلقے، انھوں نے پھر سوال کیا کہ کیا اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں؟ ابن عباس نے فرمایا :جی ہاں پھر آپ نے عبید بن الابرص کا شعر پڑھا فَجَاؤُا يُهْرَعُوْنَ إِلَيْهِ حَتً يَكُوْنُوْا حَوْلَ مِنْبَرِهِ عِزِيْنًاوہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں[28] دیکھیے یہاں ابن عباس نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب کی مدد سے کی ہے۔

تیسری مثال[ترمیم]

اُسی صاحب نے آپ سے درج ذیل آیت کی تفسیردریافت کی: "وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ"۔ (المائدۃ:35)

اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ ابن عباس نے فرمایا کہ وسیلہ حاجت اور ضرورت کو کہتے ہیں اس نے پوچھا کہ اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں:آپ ﷺ نے فرمایا کیا آپ نے عنترۃ نامی شاعر کا شعر نہیں سناہے؟پھر شعر پڑھا: إنَّ الرِّجَالَ لَهُمْ إِلَيْكِ وَسِيلَةٌ إِنْ يَأْخُذُوكِ، تكَحَّلِي وتَخَضَّبي[29]

اس شعر میں وسیلہ کا لفظ حاجت وضرورت کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ ابن عباسؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب سے کی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے بہت سی تفاسیر لکھی گئی ہیں، ان میں تفسیر خازن جس کا اصل نام "لباب التاویل فی معانی التنزیل(2)السراج المنیر فی الاعانۃ علی معرفۃ بعض معانی کلام ربنا الحکیم الخبیر، للخطیب شربینی"قابل ذکر ہیں۔

چھٹا ماخذ، تفسیر القرآن بعقل سلیم[ترمیم]

عقل سلیم جس کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں، دنیا کے ہر کام میں اس کی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں اس ماخذ کو علاحدہ لکھنے کی ضرورت محض اس لیے پڑتی ہے کہ قرآن کریم کے معارف ومسائل، اسرارورموز یقینا ًایک بحر بیکراں ہیں اور پچھلے مآخذ سے ان کو ایک حد تک سمجھا جا سکتا ہے ؛لیکن کسی نے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف کی انتہا ہو گئی اور مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی، یہ بات خود قرآن کریم کی صریح آیتوں کے خلاف ہوگی، فرمان خدا وندی ہے: "قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ، الخ"۔ (الکہف:109)

کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر ختم ہو چکا ہوگا، چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔

گویا اس آیت میں وضاحت ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں سارا سامان تسوید ختم ہوجائیگا اور لامتناہی کسی طرح بھی متناہیوں کی گرفت میں نہ آسکے گا، متناہی صفات والے لا متنا ہی صفات والی ہستی کو کیونکر اپنی گرفت میں لاسکتے ہیں اور یقیناً قرآن کریم بھی صفات باری میں سے ایک ہے لہذا عقل سلیم کے ذریعہ ان حقائق اور اسرار پر غور و فکر کا دروازہ قیامت تک کھلاہوا رہے گا اور جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے علم و عقل اور خشیت و تقوی اور رجوع الی اللہ کی صفات سے مالا مال کیا وہ تدبیرکے ذریعہ نئے نئے حقائق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؛چنانچہ ہر دور کے مفسرین کی تفسریں اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اور نبی اکرمﷺ کی دعاجو ابن عباس کے لیے تھی:

"اَللّٰھُمَّ عِلْمُہٗ الْکِتَابَ وَفقہُ فِی الدِّیْنِ"۔[30]

ترجمہ: اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ عطا فرما۔ یہ دعا بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس باب میں راہیں کھلی ہیں البتہ اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اس کی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔ ہم کو ایمان رکھنا چاہیے کہ کل کائنات خدا کی بنائی ہوئی اور اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، لہذاقرآن کریم کی بعض آیتوں سے اگرکوئی ڈاکٹریا سائنس داں معلومات کو اخذ کرتا ہے اور وہ معلومات مذکورہ اصولوں سے متصادم نہ ہوں توایسی تفسیر بھی قابل اعتبار ہوگی۔

پہلی مثال[ترمیم]

"لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَايَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَo أَوْيُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيماً إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ" (الشوری:49،50)

سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ جس کوچاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملاکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیاں بھی اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے، یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں خنثیٰ(ایسا شخص جو نہ مرد ہو نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن ابن العربیؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خلاف بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتدا ہی میں فرمادیا"يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ"وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، لہذااس میں خنثیٰ بھی شامل ہے۔[31]

دوسری مثال[ترمیم]

موسی جب کوہ طور پر تیس دن کے لیے تشریف لے گئے تھے اور انھیں چالیس یوم تک وہاں رہنا پڑا تھاتو ان کے غائبانہ ان کی قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی اس واقعہ سے متعلق ایک حصہ کو قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے : "وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا"۔ (الاعراف:148)

موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے ایک بچھڑا بنالیا۔ اس آیت کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ بچھڑے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی محبت میں گرفتار ہوکر انسان اللہ سے منہ موڑلے ؛مثلاً اہل واولاد اور مال وغیرہ انسان تمام خواہشات کو ختم کر دے جس طرح بچھڑے کے پجاری اس سے اسی حالت میں چھٹکارا پاسکتے ہیں جب وہ اپنی جانوں کو تلف کر دیں۔[32]

یہ تفسیر بھی عقل سلیم کی روشنی میں کی جانے والی تفسیر کے قبیل سے ہے اور یہ اصول شرعیہ کے مخالف بھی نہیں ہے۔

تیسری مثال[ترمیم]

قرآن پاک نے ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالی نے ان کو اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا قرآن پاک میں یوں ہے: "وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ "۔(الصافات:107)

اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔ اس کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آزمائش کے طور پر اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا، منشأ خدا وندی دراصل یہ نہ تھا کہ ابراھیمؑ بیٹے کو ذبح کرڈالیں؛ بلکہ مقصود یہ تھا کہ غیر اللہ کی محبت کو دل سے نکال دیا جائے، جب یہ بات پوری ہو گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت سے باز آ گئے تو اسماعیل کے عوض ذبح عظیم عطا ہوئی۔[33] یہ تفسیر بھی اسی قبیل سے ہے اور اصول شرعیہ کے معارض بھی نہیں ہے اس لیے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس عنوان پر تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں، علامہ ابوالسعودکی"ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم" اور" تفسیر التستری"قابل ذکر ہیں۔

تفسیر کے لیے ضروری علوم[ترمیم]

قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں، جنت ودوزخ کا تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے؛بلکہ مستند ترجمہ کی مدد سے اپنی مادری زبان میں بھی ان آیات کو سمجھ سکتا ہے، ان آیات کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر"۔ٍ (القمر:17)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے؛ اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔ دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں، اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح سمجھنے اوران سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کے لیے علم تفسیرکاجانناضروری ہے، صرف عربی زبان کا سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے، صحابہ کرامؓ اہل عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے رسولﷺسے معلوم کیا کرتے تھے، اس کی تفصیلی مثالیں اس مقالہ میں آچکی ہیں؛یہاں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر اکتفا کیا جا رہا ہے، روزوں سے متعلق جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: "وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔(البقرۃ:187)

اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمھیں فرق معلوم ہونے لگے۔ اس آیت کو سننے کے بعدعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(67ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتدا کر لیا کریں؛اسی طرح اور ایک روایت میں سہل بن سعد(951ھ) کہتے ہیں:کچھ لوگ جنھوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔[34] الغرض!قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے، کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے، خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا، قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علما سے استفادہ کرنا چاہیے، اس مضمون کے آخر میں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر کیے گئے ہیں، درج ذیل احادیث میں تفسیر قرآن کی باریکی کا اندازہ ہوتا ہے :

تفسیر بالرائے کا حکم[ترمیم]

"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔ جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔[35]

علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے میں کوئی بات فکر ورائے کی بنیا دپر کہنا جائز نہیں؛ یہاں تک کہ اجتہاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جا سکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں؛ لیکن یہ خیال درست نہیں؛ کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر وتدبر پر بالکل پابندی لگادی جائے توقرآن وسنت سے شرعی احکام وقونین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا ؛لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے۔[36]

چنانچہ اس بات پر جمہور علما متفق ہیں کہ خود قرآن وسنت کے دوسرے دلائل کی روشنی میں اس حدیث کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ معاملہ میں غور و فکر اور عقل ورائے کو بالکل استعمال نہیں کیا جا سکتا ؛بلکہ اس کا اصل منشا یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کے لیے جو اصول اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہیں ان کو نظر انداز کرکے جو تفسیر محض رائے کی بنیاد پر کی جائے وہ ناجائز ہوگی اور اگر اس طرح تفسیر کے معاملہ میں دخل دے کر کوئی شخص اتفاقاً کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے تو وہ خطا کار ہے، اب اصول تفسیر کو نظر انداز کرنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً: 1۔ جو شخص تفسیر قرآن کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کر دے۔ 2۔ کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کرنے لگے۔ 3۔ جن آیات میں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی صر یح تفسیر منقول نہیں ان میں لغت اور زبان و ادب کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیان کرے۔ 4۔ قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی اجتہاد شروع کر دے 5۔ قرآن کریم کے متشابہ آیات (جن کے بارے میں قرآن نے خود کہے دیا ہے کہ ان کی سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا) ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیان کرے اور اس پر مصر ہو۔ 6۔ قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کرے جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یا احکام مجروح ہوتے ہوں 7۔ تفسیر کے معاملہ میں جہاں عقل وفکر کا استعمال جائز ہے وہاں کسی قطعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔ یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو اس مختصر جملے میں سمیٹ دیا گیا ہے : من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من لنار (ترمذی، باب ماجاء یفسر القرآن، حدیث نمبر:2874)

جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علما نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الب رہان فی علوم القرآن کی نوع 41 میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:164۔170)بیان فرمایا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے ؛لیکن چونکہ عربی زبان وعلوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے جو عربی داں حضرات چاہیں وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہواکہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آلات کے صناعی کرنا کہ جیسے کوئی بھی فن بغیر آلاتِ ضروریہ کے نہیں آتا ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے؛ چنانچہ مفسرین اوراہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں بتلائی ہے:علم لغت، صرف ونحو، معانی، بیان، بدیع، عربی ادب، علم کلام، منطق، حکمت وفلسفہ، علم عقائد، علم تفسیر، پھر اس میں درجات اہل علم کے ہاں مانے گئے ہیں، چنانچہ ابتدائی لغت وصرف نحو ادب یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے ہیں؛ کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا نیز معانی بیان وبدیع وغیرہ اس کی رعنایوں کو سمجھنے ک لیے اورمنطق حکمت وفلسفہ کلام، دوسری زبانوں سے مستعا رعلوم کے ذریعہ جو گمراہیاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے، پھر علم تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیلات بتلائی گئی ہے؛ مثلا وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی اقسام مثلاً، وحی قلبی، وحی ملکی، پھر وحی کی مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ الجرس اورفرشتے کاانسانی شکل میں آنا، رویائے صادقہ، نفث فی الروع، پھر وحی متلو وغیر متلو، پھر قرآن کریم کے نزول کے متعلق تفصیلات اورسورتوں کی تدوین مکی ومدنی ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں میں مکی آیتیں اوربعض مکی سورتوں میں مدنی آیتیں کونسی ہیں اس کا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر نازل ہونے کا کیا مطلب ہے؛ پھر ناسخ و منسوخ آیتوں کی تفصیلات، سبعہ احرف سے کیا مراد ہے اورحفاظت قرآن اورجمع قرآن کی تفصیلات پھر اس کے اندر دیے ہوئے علامات وقف کی تفصیلات اوراسی میں پاروں کی تقسیم اوراس کے اعراب وحرکات سے متعلق تفصیلات پھر قرآن کریم میں جو مضامین ذکرکئے گئے ہیں، مثلا عقائد، واقعات اورایام اللہ وانعم اللہ، پھر آیات مقطعات و متشابھات ومحکمات وغیرہ کی تفصیلات، بہرحال یہ تو چندضروری علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان کی تفصیل میں جائیں تو بہت وقت لگ جائے۔

اہم مفسرین کے نام مع تاریخ وفات[ترمیم]

جب اہم مفسرین کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے قرن اول یعنی صحابہ و تابعین کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اہم مفسرین کے نام آتے ہیں اور ان میں سے بھی پہلے عبد اللہ بن عباسؓ ہیں جو مفسر اول کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے جو تفسیر فی زمانہ منظر عام پر آئی ہے تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباسآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com (Error: unknown archive URL) حتی کہ اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا؛ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں مانی گئی ہے ؛کیونکہ یہ کتاب "محمد بن مروان السّدّی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ"کی سند سے مروی ہے اور اس سلسلہ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب قرار دیا ہے۔ (دیکھیے الاتقان:188/2)

بہرحال قرن اول کے مفسرین میں پہلا نام عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ 68ھ۔

دوسرا نام علی بن ابی طالب وفات سنہ40ھ۔ پہلے تین خلفاء کی نسبت علی سے تفسیری روایات زیادہ مروی ہیں؛ چنانچہ علامہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علیؓ نے اپنے خطبے میں یوں فرمایا کہ لوگو! مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں سوالات کیا کرو؛ کیونکہ قسم خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت رات کو نازل ہوئی یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑ پر۔(الاتقان:187/2)

تیسرا نام عبد اللہ بن مسعود متوفی سنہ 32ھ۔ ان کی بھی کئی روایات تفسیر میں منقول ہیں؛ بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ منقول ہیں۔

چوتھا نام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ متوفی سنہ 39ھ۔ ابی بن کعب اُن صحابہ میں سے ہیں جو تفسیر اور علم قرأت میں مشہور ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا، اَقْرَأُ کُمْ اُبَیْ ابْنُ کَعْبٍ، تم میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ للذھبی:38/2) ابی بن کعب کی علمی وقعت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ معمر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: "عَامَّۃُ عِلْمِ ابنِ عَبَّاسٍ مِنْ ثَلٰثَہٍ، عُمَر وَ عَلِی وَ اُبَیْ بنُ کَعبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ"۔(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:38/2) عبد اللہ بن عباس کے بیشتر علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں، عمر و علی و ابی بن کعب

ان حضرات صحابہ کے علاوہ اور بھی کچھ نام تفسیر کے سلسلہ میں منقول ہیں مثلاً زید بن ثابتؓ، معاذ بن جبل، عبد اللہ بن عمرو، عبد اللہ بن عمر، عائشہ، جابر، ابو موسیٰ اشعری، انس اور ابو ھریرہ۔

تابعین[ترمیم]

حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے چونکہ مختلف علاقوں اورمقامات میں پھیل کر قرآن کریم کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا، جس کی وجہ سے تابعین کی ایک بڑی جماعت اس کام کے لیے تیار ہوئی، جس نے علم تفسیر کو محفوظ رکھنے میں نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں سے کچھ برائے تعارف پیش کیے جاتے ہیں:

  1. مجاہدؒ یہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں پورا نام ہے ابوالحجاج مجاہد بن جبر المخزومی، ولادت سنہ21 ھ اور وفات سنہ 103ھ۔
  2. سعید بن جبیرؒ، وفات 94ھ
  3. عکرمہؒ
  4. طاؤسؒ، وفات 105ھ
  5. عطاء بن ابی رباح، وفات 114ھ
  6. سعید بن المسیبؒ، وفات 91ھ یا 105ھ
  7. محمد بن سیرینؒ، وفات110ھ
  8. زید بن اسلمؒ (منقول از علوم القرآن:461)

تفاسیر کی اہم کتابیں[ترمیم]

مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کئی نقطۂ نظر سے تفسیریں لکھی ہیں؛ مثلاًادبی، عقلی اور کلامی وغیرہ، بعض نے تفسیر بالماثور بھی لکھی، بعض نے تفسیر اشاری یعنی صوفیانہ انداز پر تفسیرلکھی، غرض مختلف نقاط نظر سے قرآن کی خدمت کی گئی ہے۔

تفسیر بالماثور میں اہم تفاسیر

تفسیر طبری، تفسیر بحرالعلوم ازسمر قندی، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی، معالم التنزیل ازبغوی، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب لابن عطیہ، تفسیر ابن کثیر، الدر المنثور فی تفسیر الماثور ازسیوطی، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن ازثعالبی- خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

تفسیر بالرائے کے نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں مفاتیح الغیب ازرازی، انوارالتنزیل واسرار التاویل ازبیضاوی، مدارک التنزیلآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com (Error: unknown archive URL) وحقائق التاویل فی معانی التنزیل از خازن، غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نیسا پوری، تفسیر جلالینآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com (Error: unknown archive URL)، السراج المنیراز خطیب شربینی، روح المعانی از آلوسی۔ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

صوفیانہ نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی تفاسیر میں تفسیر ابن عربی، تفسیر فیضی، تفسیر القرآن العظیم از تستری، حقائق التفسیر ازسلمی، عرائس البیان فی حقائق القرآن وغیرہ ہیں۔

فقہی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں احکام القرآن ازکیاہراسی، احکام القرآن ازابن العربی، الجامع لاحکام القرآن از قرطبی، کنزا لعرفان فی فقہ القرآن، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن للتھانوی اور اردو میں ایک مختصر سی کتاب مولانا عبد المالک صاحب کاندھلوی کی فقہ القرآن کے نام سے آئی ہے۔

چند اردو تفاسیر :

• تفسیر صراط الجنان

• تفسیر بیان القرآن

• معارف القرآن

• ہدایت القرآن

• معالم العرفان

• تفسیر مظہری

• تفسیر ماجدی

• تفسیر عثمانی

• اشرف التفاسیر

اسرائیلیات کی حیثیت[ترمیم]

قرآن مجید کے نزول سے قبل دیگر آسمانی کتابیں مثلاًتورات وانجیل وغیرہ نازل ہو چکی تھی اور نزولِ قرآن کے زمانہ میں اہل کتاب کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو قرآن میں بیان کردہ انبیا کرام کے واقعات کو اپنی کتابوں کے حوالہ سے بھی پیش کرتے تھے اوربعض اوقات من گھڑت حکایات بھی نقل کردیتے ؛لیکن اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ نہایت قیمتی اصول بیان فرمائے جو آگے پیش کیے جائیں گے تو آئیے قرآن کریم میں اسرائیلیات کی حیثیت اوران کا مقام و مرتبہ کیا ہے، اس کو فرامین رسول کی روشنی میں اور علمائے امت کی تحریروں کے آئینہ میں ملاحظہ کرتے ہیں:

اسرائیلی روایات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

"{{ }}الاسرائیلیات: الاخبار المنقولۃ عن بنی اسرائیل من الیھود وھو الاکثر اومن النصاری"۔ (قسم التفسیر واصولہ:1/47[37])

اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ:

"اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا مسیحیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راست بائبل یا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں"۔ (علوم القرآن:345)

اسرائیلیات کی ابتدا[ترمیم]

جب قرآن مجید نازل ہونے لگا اوراس میں حضرات انبیا کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیان کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنی عبرانی زبان میں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس سے واقعات عربی میں حضرات صحابہ کرام ؓسے بیان کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان اہل کتاب کے بیان کردہ واقعات کی نہ ہی تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیا ہے ہمارا اس پر ایمان ہے؛چنانچہ ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ: "كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا"۔ (بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا، حدیث نمبر:4125)

اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی:853 ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں، اگر فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔ (فتح الباری، حدیث نمبر:4125،شاملہ)

دومتعارض حدیثوں کا جواب: اسرائیلیات کے عنوان میں دوحدیثیں ہیں ایک جو ابھی اوپر مذکور ہوئی دوسری حدیث ہے کہ: "حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ"۔ (ابو داؤد، بَاب الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، حدیث نمبر:3177)

اس حدیث سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات وغیرہ کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے چہ جائیکہ ان کو بیان کیا جائے بظاہر دوحدیثوں میں باہم تعارض دکھائی دے رہا ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ محمد حسین الذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو بنی اسرائیل سے بیان کرنے کی اجازت نظر آتی ہے وہ وہ واقعات اور عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات ہیں جن کے بارے میں معلوم بھی ہو کہ وہ سچ ہیں توان کو بیان کیا جا سکتا ہے اورپہلی حدیث میں توقف ہے کہ ان کے بیان کرنے میں احتیاط کی جائے تاکہ سچ اور جھوٹ میں اختلاط نہ ہو جائے اوراس خلط ملط کے نتیجہ میں حرج میں نہ پڑ جائے، خلاصہ یہ ہے کہ دوسری حدیث عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات کی اباحت پردلالت کرتی ہے اورپہلی حدیث ان مضامین کے بارے میں توقف پردلالت کرتی ہے جن میں عبرت ونصیحت سے ہٹ کر دیگر مضامین ہوں؛اس طرح کوئی بھی حدیث متعارض نہیں۔

اسرائیلیات کا حکم[ترمیم]

اس سلسلہ میں تقریباً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا، الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علما کرام کی تحریریں پیش کریں گے، سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انھوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:#پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہو چکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔#دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے، مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہو گئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔#تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جا سکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ (علوم القرآن:364)

یہی بات علامہ محمد حسینی ذہبیؒ اور علامہ ابن تیمیہؒ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔ (التفسیر و المفسرون للذھبی، باب ثانیا:الااسرائیلیات:4/14)

مسند الہند امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (المتوفی:1176) نے نہایت اختصار کے ساتھ مگر جامع بات لکھی ہے کہ تفسیر میں اسرائیلی روایتوں کو بیان کرنا دراصل یہ بھی ایک سازش ہے جبکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ ان کی تکذیب کرو؛ لہٰذا اس قاعدہ کی بنیاد پر دوباتیں نہایت ضروری ہیں:#جب حدیث میں قرآن کریم کے اشارہ کی تفصیل موجود ہو تو اسرائیلی روایات کو تفسیر میں نقل نہیں کرنا چاہیے۔#قرآن کریم میں جس واقعہ کی طرف اشارہ آیا ہو اس کی تفصیل ضرورت کے بقدر ہی بیان کرنی چاہیے تاکہ قرآن کریم کی گواہی سے اس کی تصدیق ہو کیونکہ یہ بھی قاعدہ ہے کہ ضروری بات بقدر ضرورت مانی جاتی ہے۔ (الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر:453)

اسرائیلی روایات کی مثالیں[ترمیم]

"وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ"۔ (یوسف:18)

اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔#اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ حضرت یوسف کو ایک بھیڑیے نے ہی کھا لیا ہے، ایک بھیڑیے کو باندھ کر حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ: ابا جان! یہی وہ بھیڑیا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ میں آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے، ہمارا خیال ہے کہ اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیا ہے، بحضرت یعقوب نے بھیڑیے سے کہا قریب آؤ، قریب آؤ، وہ قریب آ گیا، اس سے کہا تم نے میرے بیٹے کو مار کر تکلیف پہنچائی اور مسلسل غم میں مبتلا کر دیا ہے، پھر حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہا اللہ! تو اس کو گویائی دے، اللہ نے اس کو بولنا سکھا دیا، بھیڑیے نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایا ہے، نہ میں نے اس کا گوشت کھایا نہ میں نے اس کی کھال ادھیڑی ہے، نہ میں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے، قسم خدا کی آپ کے لڑکے سے میرا کوئی سروکار نہیں، میں ایک پردیسی بھیڑیا ہوں میں مصر کے اطراف سے اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آیا ہوا ہوں، میں اس کی جستجو میں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے میرا شکار کر لیا، ہم لوگوں پر انبیا اور رسولوں کا گوشت حرام کر دیا گیا ہے۔الخ۔ (تفسیر ثعلبی:4/21)

"فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی"۔ (طٰہٰ:20)

انھوں نے اسے پھینک دیا، وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔ اس آیت کے سلسلہ میں وہب بن منبہ کی ایک روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت موسی نے جب عصا کو زمین پر ڈالا تو دیکھا کہ وہ ایک عظیم الجثہ اژدہا بن گیا، لوگ حیرت و استعجاب اور خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، اژدہا اِدھر اُدھر رینگ رہا ہے، جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو، اژدہا رینگتا ہوا پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیا تو بھوکے اونٹ کی طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیا، جب وہ اپنا منہ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگا دیتا تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا، اس کی دونوں آنکھیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛ اس کے بال نیزوں کی طرح تھے۔الخ۔ (تفسیر ابن کثیر:5/279)

"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك"۔ (البقرۃ:258)

کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے: ایک مچھر نمرود کی ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال تک بھنبھناتا رہا، اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں مبتلا تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ جاتی تھی تو لوہے کی سلاخ سے یا ہتھوڑے سے اس کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت کچھ ہلکی پڑتی تھی، اسی عذاب میں نمرود چار سو سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مر گیا۔ (تفسیر ابن کثیر:1/313)

یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں، جیسا کے علما امت نے اس کی تصریح کی ہے۔(تفسیروں میں اسرائیلی روایات:444)

قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اور مقدس ترین کلام ہے اور رسول کریمﷺ کا حیرت انگیز ابدی و دائمی معجزہ ہے، جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمی، ادبی حلاوتوں، روحانی راحتوں اور معانی و مفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اور مرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خداداد ذہانت اور تمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیا جاس کا، یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا۔ آج انہی علما کرام اور مفسرین عظام کی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے، ذیل میں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں کے نام مع اسمائے مصنفین و سنہ وفات پیش ہیں، جو شروع سے لے کر آج تک امت میں مقبول و متداول ہیں اور لاتعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کر رہے ہیں، پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر رقم کی جا رہی ہیں۔

اہل کتاب کی روایات نقل کرنے والے حضرات[ترمیم]

عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی تفسیر قرآن کے ماخذ کے طور پر یہودونصاریٰ رہے ہیں؛ کیونکہ قرآن کریم بعض مسائل میں عموماً اورقصص انبیا اور اقوام سابقہ کے کوائف واحوال میں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں؛ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ اوران کے معجزات وغیرہ۔ البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیار کیا ہے وہ تورات وانجیل کے اسلوب بیان سے بڑی حد تک مختلف ہے، قرآن کریم کسی واقعہ کی جزئیات وتفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ واقعہ کے صرف اسی جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت وموعظت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اوربعد کے ادوار میں تابعین اور تبع تابعین حضرات اہل کتاب کے ان اہل علم سے جو حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے قرآن میں ذکر کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیا کرتے تھے، اسرائیلی روایات کا مدار وانحصار زیادہ تر حسب ذیل چار راویوں پر ہے: عبد اللہ بن سلامؓ، کعب احبار، وھب بن منبہ، عبد الملک بن عبد العزیزابن جریج، جہاں تک عبد اللہ بن سلام کی بات ہے تو آپ کے علم و فضل میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت و عدالت میں آپ اہل علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، آپ ؓ کے بارے میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں، امام بخاری ؒ اورامام مسلمؒ اوردیگر محدثین نے آپ کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔ کعب احبار بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں، ا نہوں نے زمانہ جاہلیت کا زمانہ پایا اورخلافت صدیقی یا فاروقی میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خلافت فاروقی میں آپ کے اسلام لانے کی بات مشہور تر ہے۔[38]

آپ کے ثقہ اورعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی جلالت قدر اورعلمی عظمت کے باوجود آپ سے استفادہ کرتے تھے، امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں کتاب الایمان کے آخر میں کعب سے متعدد روایات نقل کی ہیں، اسی طرح ابوداؤد، ترمذی اورنسائی نے بھی آپ سے روایت کی ہیں؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کعب احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔

اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین اورخصوصاً امام بخاری ؒ نے توثیق و تعدیل کی ہے، ان کے زہد وتقوی کے بارے میں بڑے بلند کلمات ذکر کیے ہیں، فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ؛البتہ بہت سے لوگوں نے ان کی علمی شہرت وعظمت سے غلط فائدہ اٹھایا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف منسوب کرکے اپنے قد کو اونچا کیا اورلوگوں نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ابن جریج اصلاً رومی تھے، مکہ کے محدثین میں سے تھے، عہد تابعین میں اسرائیلی روایات کے مرکز ومحور تھے، تفسیر طبری میں نصاری سے متعلق آیات کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے، ان کے بارے میں علما کے خیالات مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے تضعیف بھی کی ہے، بکثرت علما آپ کو مدلس قرار دیتے ہیں اورآپ کی مرویات پر اعتماد نہیں کرتے، مگر بایں ہمہ امام احمد بن حنبلؒ ان کوعلم کا خزانہ قرار دیتے ہیں؛ بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری روایات کو حزم واحتیاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔

اہل کتاب کی روایات پر مشتمل کتب تفاسیر[ترمیم]

کوئی ایسی کتاب جس میں خاص اسرائیلی(اہل کتاب کی) روایات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی توکوئی تفسیر نہیں ہے؛ البتہ آیات کی تفسیر میں عموماً کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی ذکر کی گئی ہیں، جس کا علم راوی کو دیکھ کر یا پھر ان کی بیان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی میں پرکھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے، مولانا اسیر ادروی صاحب کی ایک کتاب اردو میں" تفسیروں میں اسرائیلی روایات" کے نام سے آچکی ہے، جس کے مقدمہ میں اسرائیلی روایات سے متعلق عمدہ بحث اکٹھا کردی ہے اورپھر جو اسرائیلی روایات ان کو معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کلام کیا ہے اورمعتبر تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایات کے قبیل سے ہونا بھی ظاہر کیاہے، تفصیل کے لیے اسی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہاں پر چند عربی اور اردو تفاسیرکے نام لکھے جا رہے ہیں اور اردومیں صرف مستند تفاسیر کے نام لکھے گئے ہیں۔

ناسخ اور منسوخ[ترمیم]

"نسخ" کے لغوی معنی ہیں مٹانا، ازالہ کرنا، اوراصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے : رَفْعُ الْحُکْمِ الشَّرَعِیِّ بِدَلِیْلٍ شَرَعِیٍّ(مناہل العرفان:ماھو النسخ2/176)"کسی حکم شرعی کو کسی شرعی دلیل سے ختم کردینا" مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں۔ نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے، ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے؛بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کر دے اور یہ بتادے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ تووہی مناسب تھا لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے، جو شخص بھی سلامتِ فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہٰیہ کے عین مطابق ہے، حکیم وہ نہیں جو ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلاتا رہے بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے حالات پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلیاں کرتا رہے۔

منسوخ آیات قرآنی[ترمیم]

متقدمین کی اصطلاح میں نسخ کا مفہوم بہت وسیع تھا، اسی لیے انھوں نے منسوخ آیات کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے لیکن علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے متأخرین کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔ (الاتقان، علامہ سیوطی:2،22)

پھر آخری دور میں شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ آیتوں میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے مطابق انھیں منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان میں سے اکثر آیتوں کے بارے میں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، جن پانچ آیات کو انھوں نے منسوخ تسلیم کیا ہے وہ یہ ہیں :#کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔ (البقرۃ: 180)

جب تم میں سے کسی کے سامنے موت حاضر ہو جائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے، یہ حکم متقیوں پر لازم ہے۔ یہ آیت اس زمانے میں لازم تھی جب میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور اس میں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرکے جائے کہ اس کے والدین یا دوسرے رشتہ دار کو کتنا کتنا مال تقسیم کیا جائے؟بعد میں آیات میراث یعنی یوصیکم اللہ فی اولادکم، الخ (النساء:11) نے اس کو منسوخ کر دیا اور اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں میں ترکے کی تقسیم کا ایک ضابطہ خود متعین کر دیا اب کسی شخص پر مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔ سورہ ٔ انفال میں ارشاد ہے : إِنْ یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔ (الأنفال:65)

اگر تم میں سے بیس آدمی استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔

یہ آیت اگرچہ بظاہر ایک خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے ایک حکم ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے سے دس گنازائددشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں یہ حکم اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا : اَلآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔ (الأنفال:66)

اب اللہ نے تمھارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت نہ پہلی آیت کے حکم میں تبدیلی پیدا کردی اور دس گنے دشمن کی بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس حد تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں۔ تیسری آیت جسے شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیا ہے سورۂ احزاب کی یہ آیت ہے : لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن۔ (الاحزاب:52)

(اے نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ ان(موجودہ ازواج) کو بدل کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا حسن پسند آئے۔

اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے منع فرمادیا گیا تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کر دیا گیا اور اس کی ناسخ آیت وہ ہے جو قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں مذکور بالا آیت سے پہلے مذکور ہے یعنی: "یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ"۔ (الاحزاب:50)

(اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حلال کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیا ہو۔

شاہ صاحب وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ ممانعت منسوخ ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں نسخ یقینی نہیں ہے’ بلکہ اس کی وہ تفسیر بھی بڑی حد تک بے تکلف اور سادہ ہے جو حافظ ابن جریر نے اختیار کی ہے یعنی یہ کہ یہ دونوں آیتیں اپنی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی نازل ہوئی ہیں: یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ۔ (الاحزاب:50)

والی آیت میں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے پھر اگلی آیت لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْد(احزاب:) میں ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔ (تفسیر ابن جریر)

  1. چوتھی آیت جو شاہ صاحب کے نزدیک منسوخ ہے، سورۂ مجادلہ کی یہ آیت :

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ذَلِکَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَأَطْہَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ (المجادلہ: 12)

اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کر دیا کرو یہ تمھارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمھارے پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے، یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہو گئی۔

أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللہ وَرَسُولَہُ۔ (المجادلہ:13)

کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقات پیش کرو پس جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمھاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو"اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ قرار دیا گیا۔ پانچویں آیت سورۂ مزمل کی مندرجہ ذیل آیات ہے :# یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ#قُمِ اللَّیْْلَ إِلَّا قَلِیْلاً#نِصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اے مزمل(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد میں) کھڑے رہی ے مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کردیجیے"اس آیت میں رات کے کم از کم آدھے حصہ میں تہجد کی نماز کا حکم دیا گیا تھا، بعد میں اگلی آیتوں نے اس میں آسانی پیدا کرکے سابقہ حکم منسوخ کر دیا وہ آیتیں یہ ہیں:

عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہُ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ :الخ (المزمل: 20)"

اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمھیں معاف کر دیا پس تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمھارے لیے آسا ن ہو۔ شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس میں زیادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیادہ وسیع تھا بعد میں تاکید بھی کم ہو گئی اور وقت کی اتنی پابندی بھی نہ رہی۔

یہ ہیں وہ پانچ آیتیں جن میں شاہ صاحب کے قول کے مطابق نسخ ہوا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ پانچ مثالیں صرف اسصورت کی ہیں جس میں ناسخ اور منسوخ دونوں قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اس کے علاوہ ایسی مثالیں قرآن کریم میں باتفاق بہت سی ہیں جن میں ناسخ تو قرآن کریم میں موجود ہے لیکن منسوخ موجود نہیں ہے مثلاً تحویل قبلہ کی آیات وغیرہ۔ (علوم القرآن:172)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفہیم القرآن، القرآن و علوم القرآن، پروفیسر جواد احمد خاکوانی صفحہ 107
  2. یک عربی آن لائن لغت میں [ لفظ فسر] کا اندراج۔۔
  3. crulp.org – Resources and Information
  4. crulp.org – Resources and Information
  5. crulp.org – Resources and Information
  6. البرھان فی علوم القرآن:131
  7. روح المعانی:4/1
  8. علوم القرآن:323۔325
  9. بخاری، باب ظلم دون ظلم، حدیث نمبر:31
  10. بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا، حدیث نمبر:1783،
  11. بخاری، بَاب شَهَادَةِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي، حدیث نمبر:2455،
  12. ابن ماجہ، باب الجرم، حدیث نمبر:2543
  13. مسند احمد بن حنبل، بقیۃ حدیث بن حاتم، حدیث نمبر:9400
  14. الاتقان فی علوم لقرآن، الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:2/468،، المؤلف:عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي
  15. مسند احمد، مسند انس بن مالک، حدیث نمبر:11769
  16. مؤطا مالک، کِتَابُ النِّداءِ لِلصّلاةِ، بَاب مَاجَاءَ فِي الْقُرْآنِ، حدیث نمبر:428
  17. ابن کثیر:1/3
  18. روح المعانی، 12/369
  19. تفسیر طبری، 5/454
  20. مقدمہ تفسیر ابن کثیر1/3
  21. [مردہ ربط] Tafseer Ibn -e- Abbas [r.a] Urdu Translation By Shaykh Muhammad Saeed Ahmad Atif |
  22. تفسیر ابن کثیر، 1-5،مطبوعہ المکتبہ التجاریۃ الکبری
  23. تفسیرروح المعانی، تفسیر سورۂ توبہ، آیت نمبر10
  24. تفسیر روح المعانی، تفسیر سورۂ توبہ، آیت نمبر:112
  25. تفسیر روح المعانی، سورۂ توبہ:آیت نمبر:60
  26. البرھان 2/160 نوع 41
  27. روح المعانی10/179
  28. الاتقان، 2/68
  29. الاتقان:2/69
  30. کنزالعمال فی سنن الأقول والأفعال:13/458،المؤلف:علي بن حسام الدين المتقي الهندي۔ بخاری، كِتَاب الْوُضُوءِ، بَاب وَضْعِ الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلَاءِ، حدیث نمبر:140
  31. الجامع لاحکام القرآن:16/52
  32. التفسیر التستری:1/169
  33. التفسیر التستری:1/439
  34. بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا، حدیث نمبر:1783
  35. ترمذی، باب ماجاء فی یفسر القرآن، حدیث نمبر:2874۔ ابو داؤد، الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم، حدیث نمبر:3167
  36. الاتقان :2/18
  37. ڑ
  38. فتح الباری، 158/1 حدیث نمبر:95