تحویل قبلہ
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
تحویل قبلہ کا حکم رجب یا شعبان 2ھ میں نازل ہوا۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بشر بن براء بن معرور رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے۔ وہاں ظہر کا وقت ہو گیا اور لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے۔ دو رکعتیں پڑھ چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعے تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا اور اسی وقت آپ اور آپ کی اقتدا میں تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کے رخ پھر گئے۔ اس کے بعد مدینہ اور اطراف مدینہ میں اس کی عام منادی کی گئی۔ کیونکہ بیت المقدس مدینے کے شمال میں ہے جبکہ کعبہ جنوب میں اس لیے قبلہ تبدیل کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہوگا اور مقتدیوں کو صرف رخ ہی نہ بدلنا پڑا ہوگا بلکہ کچھ نہ کچھ انھیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنا پڑی ہوں گی چنانچہ بعض روایات میں یہ تفصیل مذکور بھی ہے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تبارک تعالٰی کا ارشاد ہے کہ
فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
سو ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں پس اب اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔—
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے منتظر تھے۔ آپ خود بھی محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دور ختم ہو چکا اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی مرکزیت بھی ختم ہوئی لہٰذا اب اصل مرکز ابراہیمی کی طرف رخ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
جس مسجد میں عبادت کے دوران تحویل قبلہ کا حکم آیا اسے مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا گیا جو آج بھی قائم ہے۔
بعض جدید مفکرین جن میں:# غلام احمد پرویز# محمد حنیف# حسن عباس رضوی شامل ہیں، تحویل قبلہ کی آیات سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہا جا رہا ہے کہ اپنی قوتیں خانہ کعبہ کو غیر خداوندی قوتوں سے آزاد کرانے کے لیے وقف کر دیجیے۔