اشرف جہانگیر سمنانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اشرف جہانگیر سمنانی

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1309ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سمنان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 26 جولا‎ئی 1405ء (95–96 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اشرف پور، کچھوچھہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ متصوف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

غوث العالم محبوب یزدانی تارک السلطنت سلطان مخدوم میر اوحد الدین سید اشرف جہانگیر سمنانی جو بانی سلسلہ اشرفیہ ہیں، آٹھویں صدی ہجری کے چشتیہ سلسلہ کے مشہور و معروف بزرگ ہیں۔[1][2][3]

ولادت[ترمیم]

آپ ملک سمنان کے صوبہ خراسان کے دار السلطنت شہر سمنان میں سن 707ھ کو ایک بزرگ کامل اور سمنان کے بادشاہ سلطان سید ابراہیم کے گھر پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

مخدوم سمنانی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ سات برس کی عمر میں سات قراءتوں کے ساتھ پورا قرآن کریم حفظ کیا اور چودہ برس کی عمرمیں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کر لیا۔

سمنان کی بادشاہت[ترمیم]

17 سال کی عمر میں سمنان کے بادشاہ بنائے گئے۔ آپ کے دور حکومت میں سمنان عدل و انصاف اور علم و فن کا مرکز بن گیا۔ آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ ہونے لگا اور راہ سلوک و معرفت کی طرف طبیعت مائل رہنے لگی۔ شیخ رکن الدین علا الدین سمنانی متوفی 736ھ شیخ عبد الرزاق کاشی، امام عبد اللہ یافعی، سید علی ہمدانی، شیخ عمادالدین تبریزی اور دیگر اکابر صوفیا و علما سے علوم شریعت و طریقت سے بہرہ مند ہوئے۔

ہندوستان آمد[ترمیم]

25 سال کی عمر میں اشارہ غیبی پر سمنان چھوڑ کر سلطنت اپنے چھوٹے بھائی سید محمد اعرف کے سپرد کرکے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔ ہندوستان کے مشہور قدیم ہندی وفارسی ادیب ملک محمد جائسی کا قول ہے :’’ امت محمدیہ کے صدقین میں دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ایک سلطان التارکین خواجہ ابراہیم بن ادہم، دوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ سمنانی رحمۃ اللہ علیہما۔[4]

حصول تصوف[ترمیم]

مخدوم سمنانی سمنان سے نکل کر سمرقند کے راستے ملتان میں اوچ شریف پہنچے۔ یہ مقام اس وقت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری متوفی 780ھ کی وجہ سے رشد و ہدایت کا مرکز تھا۔ مخدوم جہاں کی خانقاہ میں تین روز تک مہمان رہے۔ مخدوم سمنانی کا بیان ہے کہ مخدوم جہاں نے آپ کو اکابر مشائخ سے حاصل ہونے والے تمام روحانی فیوض وبرکات اور سلسلہ سہروردی کی اجازت و خلافت سے نوازدیا۔ وقت رخصت مخدوم جہاں نے فرمایا : فرزند اشرف جلدی کرو اور دربار شیخ علا الحق میں حاضر ہوجاؤ۔ وہ شدت سے تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔[5] مخدوم سمنانی دہلی ہوتے ہوئے بہار شریف، پھر وہاں سے بنگال پہنچے۔ صوبہ بنگال میں ضلع مالدہ میں مقام پنڈوہ شریف کا مرکز شیخ علا الحق والدین لاہور رشد و ہدایت بنا ہوا تھا۔ شیخ علا الحق پنڈوی نے شاہانہ انداز میں مخدوم سمنانی کا استقبال کیا۔شیخ نے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں مرید فرمایا اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ مخدوم سمنانی شیخ کی خدمت میں 12 سال رہ کر کثیر مجاہدات و ریاضیات کے ذریعہ منازل سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی۔ 832ھ تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے لیے بنگال سے اور، شیراز ہند، جونپوراور بنارس کے راستے سے ہندؤوں کے مقدس مقام اجودھیا کے قریب مقام کچھوچھہ (جواس وقت یوپی کے ضلع جونپور میں تھا اور اب ضلع امبیڈکرنگر میں ہے ) پہنچے اور کچھوچھہ شریف میں اپنی خانقاہ قائم کی-

اردو کے پہلے مصنف[ترمیم]

مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کے پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں۔ چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ اردو نثر میں ’’ اخلاق و تصوف‘‘ بھی تھا۔ پروفیسر حامد حسن قادری کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو 758ھ مطابق 1308 ء میں تصنیف کیا گیا۔ یہ قلمی نسخہ ایک بزرگ مولانا وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے 28 صفحات ہیں۔ قادری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے۔ اردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں-

تصنیفات[ترمیم]

آپ نے 31تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ ناپید ہو گئیں، لیکن اب بھی 10کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں۔ اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ہیں۔ اکثر کتابیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا۔

  • فوائد العقائد یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت سید عبد الرزاق نورالعین فرماتے ہیں کہ جب آپ عرب میں تشریف لے گئے تو بدوؤں نے تصوف کے مسائل جاننے کی خواہش کی تو آپ نے فوائد العقائد کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔
  • لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں۔ طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ یہ کتاب دیگر جامعات کے علاوہ جامعہ کراچی کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
  • مکتوبات اشرفی
  • بشارت المریدین
  • اشرف البیان : شاہ محمد اشرف جہانگیر سمنانی ؒ نے 727 ھ میں قرآن کریم کا عظیم نسخہ اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا اور اس کا فارسی ترجمہ بھی تحریر فرمایا۔

وفات[ترمیم]

آپ نے 28محرم الحرام 828ھ کو داعئ اجل کو لبیک کہا۔ [1]

مزار اور عرس[ترمیم]

آپ کا مزار کچھوچھہ، ضلع امبیڈکر نگر، صوبہ اترپردیش، بھارت میں ہے۔ اُن کا عرس اسلامی ماہ محرم کی 28 تاریخ کو ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں سلسلہ اشرفیہ کے سب سے بڑے مرکز درگاہ عالیہ اشرفیہ، فردوس کالونی، کراچی میں بھی ہر سال محرم الحرام کی 26، 27 اور 28 تاریخ کو ان کا عرس منعقد ہوتا ہے جس میں جید علما اور معروف قوال شرکت کرتے ہیں

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب حیات مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی ازسید وحید اشرف، آئی ایس بی این 978-93-85295-54-6، مکتبہ جامعہ لیمیٹد
  2. HAYATE MAKHDOOM SYED ASHRAF JAHANGIR SEMNANI (2nd Ed.)، 2017 
  3. http://www.shamstimes.com/articles/life-of-makhdoom-:2649 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shamstimes.com (Error: unknown archive URL)]]
  4. (صحائف اشرفی 113
  5. لطائف اشرفی ج2ص94 ، خزینۃ الاصفیان ج2ص57