شیخ رکن الدین ابو الفتح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(رکن الدین سے رجوع مکرر)
شیخ رکن الدین ابو الفتح
معلومات شخصیت
پیدائش 24 نومبر 1251ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملتان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 مارچ 1335ء (84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملتان  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ شاہ رکن عالم  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
مکتب فکر اہل سنت حنفی سہروردی
والد صدر الدین عارف  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آپ کا اسم گرامی رکن الدین ، لقب فضل اللہ اور کنیت ابو الفتح ہے. [1] آپ شیخ صدر الدین عارف کے بڑے صاحبزادے اور خلیفہ تھے۔ آپ کے دادا بہاؤ الدین زکریا ملتانی تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی راستی والدہ شاہ رکن عالم ہے جو فرغانہ کے شاہ جمال الدین کی صاحبزادی تھیں،اور بہاؤ الدین زکریا سے غیر معمولی عقیدت رکھتی تھیں۔ حافظ قرآن مجید تھیں ، تلاوت قرآن مجید سے غیر معمولی شغف رکھتی تھیں روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتی تھیں۔ [2]

سلسلہ نسب[ترمیم]

آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے رکن الدین عالم بن صدرالدین عارف بن بہاو الدین زکریا بن شیخ وجیہ الدین المقلب بہ شیخ محمد غوث بن سلطان ابا بکر بن سلطان جلال الدین بن سلطان علی قاضی بن سلطان حسین بن سلطان عبد اللہ بن سلطان مطرفہ بن سلطان خذیمہ بن امیر ہازم بن امیر تاج الدین بن عبد الرحمن بن عبد الرحیم بن امیر مہار بن اسد بن ہاشم بن عبد مناف [3]

بشارت[ترمیم]

خزینۃ الاصفیاء میں ہے کہ ایک دفعہ چاند رات کو بی بی راستی سلام کے لیے اپنے خسر شیخ بہاو الدین زکریا کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اس وقت شیخ رکن الدین عالم شکم مادر میں تھے۔ شیخ بہاو الدین ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور غیر معمولی تکریم سے پیش آئے۔ بی بی راستی خسر کا خلاف معمول طرز عمل دیکھ کر متعجب ہوئیں۔ شیخ نے ان کا استعجاب کو محسوس کر کے فرمایا : بی بی یہ تمھاری تعظیم نہیں ہے بلکہ یہ اس بچے کی تعظیم ہے جو تمھارے پیٹ میں ہے اور جو ہمارے خاندان کا روشن چراغ ہو گا۔ [4]

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت باسعادت 9 رمضان المبارک 649ھ بروز جمعتہ المبارک کو ہوئی۔ آپ کی ولادت کی خوشی میں آپ کے دادا جان شیخ الاسلام بہاو الدین نے ملتان کے غرباء اور مساکین کے دامن زر و جواہر سے بھر دیے۔ عقیقہ کے موقع پر آپ کے سر کے بال تراشے گئے جو اب تک تبرکات میں محفوظ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت خاندان غوثیہ کے لیے کتنی زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ شیخ الاسلام بہاو الدین زکریا ملتانی نے مولود مسعود کا نام رکن الدین رکھا جو بعد میں آپ شاہ رکن عالم کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بی بی راستی آپ کو دودھ پلانے سے پہلے وضو کر لیتی تھیں۔ والدہ حافظہ قرآن تھیں اسی لیے لوری کی بجائے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ اگر اس دوران اذان کی آواز سنائی دیتی تو حضرت رکن الدین دودھ پینا چھوڑ دیتے اور غور سے اذان سننے لگتے۔ رات کو جب بی بی صاحبہ تہجد کے لیے بیدار ہوتیں تو آپ بھی جاگ پڑتے۔ ام المریدین بی بی راستی نے گھر کی نوکرانیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ ننھے رکن الدین کو سوائے اسم ذات کے اور کسی لفظ کی تلقین نہ کریں اور نہ کوئی دوسرا لفظ ان کی موجودگی میں بولیں۔ اس احتیاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب شاہ عالم بولنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے جو لفظ زبان مبارک سے نکلا وہ اللہ عزوجل کا اسم گرامی تھا۔

بچپن[ترمیم]

ایک دن جب شاہ رکن الدین کی عمر مبارک چار سال تھی شیخ الاسلام بہاو الدین چار پائی پر بیٹھے تھے اور دستار مبارک سر سے اتار کر چار پائی پر رکھ دی تھی۔ حضرت صدر الدین عارف پاس ہی مودب بیٹھے تھے کہ ننھے رکن الدین کھیلتے کھیلتے دستار مبارک کے قریب آئے اور اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔ والد ماجد نے ڈانٹا کہ یہ بے ادبی ہے مگر دادا حضور نے فرمایا کہ صدر الدین پگڑی پہننے سے اس کو نہ روکو وہ اس کا مستحق ہے اور یہ پگڑی میں اس کو عطا کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ دستار مبارک محفوظ کر دی گئی اور شاہ رکن الدین عالم اپنے والد بزرگوار کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو وہ دستار مبارک آپ کے سر پر رکھی گئی۔ [5]

  1. آپ کے خلیفہ اول سلطان التارکین حمید الدین حاکم سالہا سال سے مومبارک میں اپنے پیرومرشد کے ظہور کا انتظار فرما رہے تھے جو نہی قطب الاقطاب کے عالم وجود میں آنے کا مژدہ سنا تو حاجیوں کی طرح احرام باندھ کر ملتان کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہ مست باہ الست حضرت رکن الدین ابو الفتح کی زیارت سے جو ابھی طفل شیر خوار تھے مشرف ہوئے تو افزدنی جوش و شوق سے کہ شاید اس شیر پیشہ ولایت کی حد بلوغت تک عمر فرصت نہ دے حضرت غوث العالمین سے عرض کی حضور مجھے ابھی سے ہی غلاموں میں شرکت کا شرف بخشیں۔ حضرت غوث العالمین بہاو الدین زکریا ملتانی نے حمید الدین حاکم کا ہاتھ پکڑ کر رکن الدین کے ہاتھ میں دے دیا۔ حمید الدین حاکم شکرانہ الہی بجا لائے۔
  2. ایک مرتبہ رکن الدین جد بزرگوار کے حضور میں پلنگ کے عین سامنے مولانا محمد موذن مسجد کے ساتھ خوش طبعی فرما رہے تھے کہ نماز کا وقت آ گیا۔ مولانا اٹھ کر جانے لگے تا کہ مسجد میں جا کر اذان دیں لیکن شیخ رکن الدین نے ان کا دامن پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچا دو تین مرتبہ انھوں نے دامن چھڑانے کی کوشش کی لیکن ہر دفعہ قطب الاقطاب پکڑ لیتے۔ دفعتاً حضرت بہاو الدین زکریا کی نظر پڑھ گئی پوچھا مولانا کیا بات ہے؟ عرض کیا حضور نماز کا وقت ہو چکا ہے اذان دینے کے لیے اٹھتا ہوں مگر مخدوم زادہ دامن نہیں چھوڑتے۔ حضرت شیخ الاسلام نے فرمایا کہ وہ کس طرح چھوڑے ابھی تو عرش کے موذن نے بھی اذان نہیں دی۔
  3. جب غوث العالمین نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے تو یہ نونہال بھی ہمراہ ہوتا۔ نماز شروع ہوتی تو آپ دروازے میں کھیلتے رہتے۔ ایک دن غوث العالمین نماز سے فارغ ہو کر دروازے کے قریب آئے تو دیکھا کہ قطب الاقطاب نے دوزخی اور جنتی نمازیوں کے جوتوں کی الگ الگ قطاریں لگا رکھی ہیں۔ عوام تو اس نکتہ کو کیا جانتے تھے ، خواص نے البتہ اپنے ذہنوں پر زور دینے کی کوشش کی لیکن قبل اس کے کہ وہ نتیجہ نکالتے بہاو الدین زکریا ملتانی نے جوتے غلط ملط کرا دیے اور باہر نکل کر پیار سے سمجھایا کہ بابا ایسا نہ کرو اللہ جل شانہ کے راز فاش کرنا ہمارے نزدیک گناہ ہے۔
  4. منقول ہے کہ آپ کے خلیفہ اعظم سلطان حمید الدین حاکم مومبارک سے گاہے بگاہے اپنے شیخ طریقت کو ملنے آیا کرتے تھے۔ ان کے ملنے کا طریقہ عجیب ہوتا ، آپ ڈیوڑھی میں بیٹھ جاتے اور دایہ رکن الدین کو اٹھا لے آتی۔ حضرت مرشد کو گود میں لے کر پیار کرنے ان کے قدموں کو سر آنکھوں سے لگاتے اور خوبصورت پیڑھی میں بیٹھا کر دونوں دروازے بند کر دیتے اور کافی دیر تک تخلیہ رہتا پھر دروازے کھول دیے جاتے اور دایہ شیخ رکن الدین کو واپس لے جاتی۔ ایک مرتبہ دایہ کو خدا معلوم کیا سوجھی کہ اس نے دروازے سے جھانک کر اندر دیکھنے کی کوشش کی اور وہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ڈیوڑھی میں رکن الدین تو تشریف نہیں رکھتے لیکن ایک سفید ریش بزرگ بیٹھے سلطان حمید الدین سے مصروف گفتگو ہیں۔ دایہ گھبرا گئی اور بھاگ کر بی بی صاحبہ سے یہ واقعہ عرض کیا۔ انھوں نے قریب بلا کر کہا نیک بخت تو ایک قطب کی دیکھ بھال کر رہی ہے یہ راز کی بات ہے کسی سے ذکر نہ کرنا۔ اتنے میں دروازہ کھل گیا۔ ام المریدین بی بی راستی ڈیوڑھی تک تشریف لے گئیں۔ سلطان التارکین تو رخصت ہو چکے تھے اور چار سال کا رکن الدین ہاتھ میں کھلونا لیے مسکراتا ہوا گھر کو چلا آ رہا تھا۔ بی بی جی نے آگے بڑھ کر کر نور نظر کو اٹھا لیا اور پیار کرتیں اندر تشریف لے آئیں۔ [6]
  5. ایک روز آپ کے والد ماجد دریا کے کنارے تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ شیخ رکن الدین ابو الفتح تھے۔ شیخ صدر الدین نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ اتنے میں ایک ہرن کا غول ادھر سے گذرا، اس میں ہرنی کا ایک بچہ بھی تھا۔ حضرت شیخ رکن الدین جن کی عمر اس وقت سات سال تھی، اس بچے کو پکڑنا چاہتے تھے لیکن وہ بچہ ہاتھ نہ آیا۔ نماز سے فارغ ہو کر شیخ عارف نے اپنے بیٹے کو قرآن شریف کا سبق دیا، ان کو دس مرتبہ پڑھنے پر بھی سبق یاد نہیں ہوا حالانکہ وہ تین مرتبہ پڑھ کے یاد کر لیتے تھے۔ آپ نے وجہ معلوم کی، جب آپ کو ہرن کے غول اور بچے کا اس طرف آنا معلوم ہوا تو آپ نے پوچھا کہ وہ غول کس سمت گیا۔ بیٹے نے سمت بتائی۔ آپ نے اس طرف کچھ پڑھ کر پھونکا تو غول واپس آگیا۔ رکن الدین نے دوڑ کر اس بچے کو پکڑ لیا اور بہت خوش ہوئے اور اسی خوشی میں ایک سیپارہ حفظ کر لیا۔ ہرنی کو مع بچے کے خانقاہ لے آئے۔ [7]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

شیخ رکن الدین نے علوم ظاہری کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی اور روحانی فیوض اپنے دادا حضور بہاو الدین زکریا سے حاصل کیے۔ یہ دونوں بزرگ آپ سے بے حد محبت رکھتے تھے اور شیخ رکن الدین بھی ان دونوں بزرگوں کا اس قدر ادب کرتے تھے کہ کبھی ان سے آنکھ اٹھا کر بات نہ کرتے اور نہ ان کے سامنے بلند آواز سے بولتے ، آپ کے اس ادب کو دیکھ کر حضرت شمس الدین تبریزی نے آپ کو عالم کا خطاب عطا کیا جس کی وجہ سے آپ رکن عالم کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھیں دونوں سے آپ نے ظاہری و باطنی کمال حاصل کیے۔ [8]

بیعت و خلافت[ترمیم]

شیخ رکن الدین عالم اپنے والد محترم صدر الدین عارف کے مرید و خلیفہ اعظم تھے۔ آپ کے مرید اور خلیفہ حضرت جہانیاں جہاں گشت اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ جب شیخ رکن الدین قدس سرہ کا کام کمال کو پہنچا تھا تو تہجد کے وقت سے دوپہر تک ریاضت و عبادت میں مشغول رہتے ، 36 سال کی عمر میں جب اپنے والد بزرگوار کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے تو ہر گوشہ سے لوگ خدمت میں حاضر ہو کر فیض یاب ہوئے۔ جو بھی سائل آتا حاجت روائی ضرور فرماتے۔ مجلس میں جس کے دل میں کوئی بات آتی تو آپ کو اس کا کشف حاصل ہو جاتا اور اس کی دلجوئی فرماتے۔ [9]

شجرہ طریقت[ترمیم]

آپ کا سلسلہ طریقت یہ ہے۔

صدر الدین عارف، بہاؤ الدین زکریا ملتانی، ابو الفتوح شہاب الدین سہروردی، ضیاء الدین سہروردی، شیخ ابو عبد اللہ، شیخ اسود احمد نیوری، شیخ ممتاز علی دنیوری، خواجہ جنید بغدادی، خواجہ سری سقطی، خواجہ معروف کرخی، خواجہ داؤد طائی، خواجہ حبیبب عجمی، خواجہ حسن بصری، حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ، جناب رسول اللہ[10]

سلاطین سے تعلقات[ترمیم]

شیخ رکن الدین کے عوام کے علاوہ بادشاہوں سے بھی تعلقات تھے اور امرا بھی آپ کے معتقد اور غلام تھے۔

علاؤ الدین خلجی[ترمیم]

شیخ رکن الدین کے دور میں سلطان علاؤ الدین خلجی دہلی کے تخت پر متمکن تھے۔ شیخ رکن الدین ایک مرتبہ ملتان سے دہلی تشریف لے گئے تو سلطان نے شاہان شان و شوکت سے آپ کا استقبال کیا اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنے عمل میں لے گیا ، بہت سا روپیہ نذر کیا۔ رخصت کے وقت مزید رقم پیش کی۔ شیخ نے رقم قبول تو فرما لی مگر ساری وہی فقراء میں تقسیم کر دی اور ساتھ کچھ نہ لائے۔

سلطان قطب الدین خلجی[ترمیم]

علاؤ الدین خلجی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ہندوستان کے تخت و تاج کا ملک بنا اور قطب الدین خلجی کے نام سے مشہور ہوا۔ قطب الدین خلجی کے تخت نشین ہوتے ہی درباری خوشامدیوں نے اسے یوں گھیرے میں لے لیا کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو گیا۔ جو درباریوں نے کان میں ڈالا آنکھ بند کر کے اس کی حقیقت یہ ایمان لے آیا۔ شاہی درباریوں نے دلی میں خواجہ نظام الدین اولیاء کی شہرت و دبدبہ دیکھا تو آپ پر لوٹنے لگے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ہم شاہی دربار سے وابستہ ہیں لہذا عوام ہماری زیادہ عزت کرے گی اور اپنی مشکلات و مصائب ہمارے آگے آ کر بیان کرے گی تا کہ ہم اسے شہنشاہ ہند تک پہنچا سکیں یا اپنے اختیارات سے کام لے کر انھیں دور کر دیں لیکن یہ لوگ تو بھولے سے بھی ہمارے پاس نہیں آتے اور خواجہ صاحب کے گرد گھیر ڈالے بیٹھے رہتے ہیں تو انھوں نے بادشاہ کو خواجہ کے خلاف بھڑکانہ شروع کر دیا۔ قطب الدین بھی اب خواجہ سے عناد رکھنے لگا اور ان کا وجود اپنی اور اپنی سلطنت کی سالمیت کے لیے حد درجہ خطرناک سمجھنے لگا چاہتا تھا کہ کسی طرح خواجہ نظام الدین کو زک پہنچا کر دلی سے نکلوا دے لیکن پھر ان کی درویشی و عظمت کے آگے بے بس ہو جاتا اور سوچتا کہیں یہ میرے حق میں ایسی بدعا نہ کر دیں کہ مجھ ہی کو دلی کی مسند چھوڑنی پڑ جائے۔ چالاک اور مفسد درباریوں نے جب بادشاہ کو اس کش مکش میں دیکھا تو اسے کہنے لگے اگر آپ ملتان سے شاہ رکن عالم کو دہلی بلائیں تو وہی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جو آپ کے ذہن میں ہیں۔ بادشاہ نے سوالیہ انداز میں درباریوں کی طرف دیکھ کر پوچھا وہ کیسے؟ ان مفسد درباریوں نے عیاری سے کہا شاہ رکن عالم اور خواخہ نظام الدین اولیاء کی آپس میں بہت کم بنتی ہے۔ اس طرح جب ایک شہر میں دونوں یکجا ہو جائیں گے تو دونوں میں رنجش بڑھے گی اور پھر ہم اسی رنجش سے بھرپور فائدہ اٹھا لیں گے۔ بادشاہ کو یہ تجویز بڑی بھائی۔ اس نے فوراً شاہ رکن عالم کی طرف ایک دعوت نامہ بھیجا اور دلی آنے کے لیے پر زور اصرار کیا۔ شیخ رکن عالم کو اچھی طرح علم تھا کہ اس وقت دعوت نامہ کے پس پردہ کیا عوامل ہیں۔ آپ بادشاہ کی عیاری کو بھی سمجھتے تھے لیکن دلی جانا بھی ضروری خیال کیا۔ چنانچہ آپ نے فوراً اپنے عقیدت مندوں اور ارادت مندوں کو ساتھ لیا اور دلی کا سفر شروع کر دیا۔ ادھر نظام الدین اولیاء کو معلوم ہو چکا تھا کہ بادشاہ اور اس کے خوشامد پسند کھلاڑی کیا کھیل کھیل رہے ہیں تو انھوں نے اس کے توڑ کا یہی حل نکالا کہ پہلے خود شاہ رکن عالم کے استقبال کے لیے جائیں اس لیے انھیں جیسے ہی اطلاع ملی ہے کہ شاہ رکن عالم دہلی کے نزدیک پہنچ چکے ہیں تو آپ بھی اپنے ارادت مندوں ، عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ دلی شہر سے نکل کر ذرا آگے جا کر رکن عالم کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے اور جیسے ہی شاہ رکن عالم دلی کے نزدیک پہنچے آپ کا انھوں نے پرجوش خیرمقدم کیا۔ رات بھر دونوں بزرگ ایک خیمے میں بیٹھے شرعی مسائل پر گفتگو کرتے رہے۔ صبح ہوئی تو نظام الدین اولیاء نے شاہ رکن عالم سے الودعی مصافحہ کیا اور پھر اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ دہلی واپس کوچ کر گئے۔ شاہ رکن عالم نے بھی نظام الدین اولیاء کے جاتے ہی دلی شہر کی طرف کوچ کرنے کا حکم صادر کیا۔ بادشاہ شہر کی فصیل کے پاس شاہی افراد کے ساتھ کھڑا آپ کے استقبال کے لیے تیار تھا۔ چنانچہ جیسے ہی اسے شاہ رکن عالم کی آمد کی اطلاع ملی وہ آگے بڑھ کر آپ کے استقبال کرنے والوں میں شامل ہو گیا اور آپ کے گھوڑے کی لگام تھام کر کچھ فاصلہ آگے بڑھنے کے بعد آپ کو گھوڑے سے اتار کر ایک دوسری آرام دہ سواری پر بٹھایا گیا۔ پھر یہ قافلہ شاہی محل کی طرف روانہ ہوا۔ شاہی محل کے پھاٹک پر پہنچ کر بادشاہ نے جو پیچھے نظر دوڑائی تو اسے انسانوں کے سروں کا اژدھم نظر آیا جو شاہ رکن عالم کے استقبال کی خاطر ان کے پیچھے چلا آیا تھا۔ بادشاہ نے یہ موقع مناسب گردانا اور شیخ رکن کو وہیں ٹھہرا کر آپ سے عوام کے سامنے مخاطب ہوا حضرت آپ کا دلی شہر میں سب سے پہلے کس نے استقبال کیا۔ شیخ رکن الدین ملتانی بھی دلی کے تاجدار کی بات خوب سمجھ رہے تھے لہذا انھوں نے بلند آواز سے مجمع کی طرف دیکھ کر کہا کہ لوگو تمھارے اس شہر میں مجھ ملتانی درویش کا سب سے پہلے سواگت اس نے کیا جو تمھارے شہر کا سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار انسان ہے جو خدا کا محبوب بندہ ہے۔ بادشاہ جو اپنی دانست میں آپ کا استقبال کرنے والوں میں سب سے آگے تھا یہ سن کر پھولا نہ سمایا جا رہا تھا اس نے پھر بھی مزید تصدیق کے لیے آپ سے کہا کہ حضرت وہ خوش نصیب کون تھا اس کے نام سے بھی تو مطلع فرمائیں تا کہ دلی کے لوگ جان لیں کہ ان کے شہر کا سب سے پرہیزگار اور عبادت گزار انسان کون ہے۔ یہ سن کر شاہ رکن عالم ملتانی نے مجمع عام کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا کر کہا لوگو تمھارے شہر میں داخل ہونے سے پہلے میرا جس شخص نے سب سے پہلے استقبال کیا وہ محبوب الہی خواجہ نظام الدین بدایونی تھے اور تم لوگ اچھی طرح سے جان لو کہ وہ دلی کے سب سے اچھے بندے اور خدا کے نزدیک محبوب ترین بشر ہیں۔ شاہ رکن عالم کا معمول تھا کہ جب کبھی بھی بادشاہ کے ہاں جاتے تو راستے میں اپنی سواری ٹھہراتے جاتے تا کہ جو لوگ بادشاہ کی خدمت میں عرضیاں دینا چاہتے ہیں وہ ان کے حوالے کر دیں۔ بعض کی معروضات زبانی بھی سنتے اور بادشاہ سے بیان کرتے۔ شاہی محل کے پاس پہنچ کر دو دروازوں تک سوار ہی چلے جاتے اور تیسرے دروازے پر سلطان بڑی عزت کے ساتھ انھیں دربار میں لے جاتا اور مودب دوزانو ہو کر بیٹھ جاتا پھر شیخ ان کے سامنے لوگوں کی درخواستیں پیش کرتے۔ بادشاہ ہر درخواست کو غور سے پڑھتا اور سنتا اور اس کے اوپر اسی وقت حکم لکھ دیتا۔ واپسی پر شیخ ان تمام درخواستوں کو ساتھ لے جاتا اور راستے میں درخواست دینے والوں کو دیتے جاتے۔

سلطان غیاث الدین تغلق[ترمیم]

سلطان غیاث الدین تغلق سے بھی شیخ رکن الدین کے تعلقات خوشگوار رہے۔ ایک مرتبہ جب بادشاہ بنگلہ کی مہم سے کامیاب و کامران ہو کر واپس آ رہا تھا تو شیخ رکن عالم خاصی دور تک اس کے استقبال کے لیے گئے تھے۔ رات کو سلطان کے ساتھ جس جگہ کھانا کھا رہے تھے اس جگہ کے متعلق کشف باطن سے شیخ کو معلوم ہوا کہ اس کی دیوار اچانک گر جائے گی ، چنانچہ شیخ کھانا چھوڑ کر باہر چلے آئے اور سلطان سے بھی کہا کہ باہر آ جائے مگر اس نے باہر آنے میں دیر کر دی اور دیوار گر گئی جس کے نیچے آ کر سلطان دب کر ہلاک ہو گئے۔

سلطان محمد تغلق[ترمیم]

غیاث الدین تغلق کی وفات کے بعد سلطان محمد تغلق سریر آرائے سلطنت ہوا اس سے بھی حضرت رکن الدین کے تعلقات قائم تھے۔ ایک بار اس کے یہاں آکر مہمان ہوئے تو وہ زمانہ محبوب الہی کے مرض الموت کا تھا۔

خواجہ نظام الدین اولیاء سے تعلقات[ترمیم]

شاہ رکن عالم کو نظام الدین اولیاء سے بہت محبت تھی اور خواجہ نظام الدین اولیاء بھی آپ کی بہت عزت کیا کرتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں میں ملتان سے دہلی صرف خواجہ کی زیارت کے لیے گیا تھا چنانچہ جب سلطان علاؤ الدین استقبال کو آیا تو خواجہ نظام الدین بھی آپ کی عزت افزائی کے لیے وہاں تشریف لائے تھے۔ اگرچہ آپ سلطان کے ہاں مہمان ٹھہرے مگر زیادہ وقت خواجہ نظام الدین اولیاء کے ساتھ بسر کیا کرتے تھے۔

  • ایک اور موقع پر جب آپ دہلی تشریف لائے تو نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے۔ خواجہ نظام الدین اولیاء وہاں پہلے سے موجود تھے۔ نماز ختم ہو گئی تو خواجہ نظام الدین اولیاء اپنی جگہ سے اٹھے اور شاہ رکن عالم کے پاس آئے جب نماز سے فارغ ہوئے تو دونوں بزرگوں نے بڑی گرم جوشی سے معانقہ کیا۔ باتیں ہوتی رہیں ، پھر دونوں بزرگ اپنے اپنے ڈولے میں سوار ہو کر چلے گئے۔
  • ایک مرتبہ شاہ رکن عالم خواجہ صاحب سے ملاقات کے لیے ان کی خانقاہ میں تشریف لے گئے۔ شیخ کے پاؤں میں تکلیف تھی اس لیے جب ڈولے سے باہر آنے لگے تو خواجہ نے انھیں باہر آنے سے روک دیا اور خود اپنے مریدوں کے ساتھ ڈولے کے پاس ہی بیٹھے رہے اور باتیں ہوتی رہیں۔ اس گفتگو کا حال بزم صوفیہ میں اس طرح بیان ہے۔ شیخ رکن الدین کے بھائی شیخ عماد الدین اسماعیل کے دل میں بعض عملی نکات حل کرنے کا سوال پیدا ہوا اور دونوں بزرگوں سے اجازت لے کر عرض کیا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا مصلحت تھی۔ حضرت شیخ رکن الدین نے فرمایا کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض کمالات کی تکمیل مدینہ منورہ کی ہجرت ہی پر موقوف و منحصر تھی۔ اس لیے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی جانب جلوہ فرما ہوئے۔ حضرت محبوب الہی نے فرمایا کہ اس مسئلہ میں میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ اللہ عزوجل شانہ نے اپنے محبوب کو مدینہ طیبہ اس لیے بھیجا کہ وہ اصحاب مدینہ جو اپنی بضاعتی کی وجہ سے مکہ معظمہ حاضر ہونے کی استعاطت نہیں رکھتے تھے وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات سے مستفیض و مستفید ہو کر ظاہری و باطنی کمالات میں مکمل ہو جائیں۔
  • شیخ رکن الدین کے قیام دہلی کے زمانہ میں بابا فرید الدین گنج شکر کے عرس کے دن آگئے چنانچہ پاکپتن کی طرح دہلی میں بھی عرس منایا گیا۔ عرس میں شاہ رکن عالم اور خوجا نظام الدین اولیاء دونوں شریک تھے۔ مجلس سماع میں خواجہ صاحب پر وجد طاری ہو گیا اور اضطراب کی حالت میں کھڑا ہونے لگے لیکن شاہ رکن عالم نے انھیں پکڑ کر بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد خوجا صاحب پر وہی کفیت طاری ہو گئی اور کھڑے ہو گئے۔ اس مرتبہ رکن الدین عالم نے انھیں نہیں بٹھایا بلکہ دوسرے بزرگوں کی طرح خود بھی دست بستہ مودب کھڑے ہو گئے۔ جب محفل سماع ختم ہو گئی تو کسی نے شاہ رکن عالم سے دریافت کیا کہ کیا وجہ تھی پہلی مرتبہ جب خواجہ صاحب اٹھنے لگے تو آپ نے انھیں بٹھا دیا لیکن دوسری بار آپ نے ایسا نہیں کیا۔ شیخ نے فرمایا پہلی مرتبہ خواجہ صاحب کی رسائی عالم ملکوت تک ہوئی جہاں تک میرا بھی گذر ممکن تھا اس لیے میرا ہاتھ وہاں تک پہنچ گیا اور انھیں بٹھا دیا لیکن دوسری مرتبہ ان کی رسائی عالم جبروت میں ہوئی اور وہاں تک میں نہیں پہنچ سکا اسی لیے خاموش رہا۔
  • ایک اور موقع پر شیخ رکن الدین ملتان سے دہلی آئے تو خواجہ نظام الدین اولیاء سے بھی ملنے گئے۔ عشرہ ذی الحجہ کا دن تھا۔ جب ملاقات ہوئی تو شیخ نے خواجہ صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ حج کا زمانہ ہے میں حج سے بہرہ ور تو نہیں ہو سکا مگر آپ کی زیارت سے مجھے حج کا ثواب ضرور پہنچ سکتا ہے۔ خواجہ نظام الدین اولیاء یہ سن کر آبدیدہ ہو گئے اور شرمندگی کا اظہار کیا۔

دلی میں اگرچہ شاہ رکن عالم جب بھی تشریف لاتے تو شاہی دربار کے مہمان کی حثیت میں رکھتے اور انھیں محل میں ہی قیام کے لیے مجبور کیا جاتا لیکن آپ اپنا زیادہ وقت نظام الدین اولیاء کی صحبت میں گزارنا پسند فرماتے۔ اکثر گھنٹوں دونوں بزرگ سر جوڑے سیر حاصل گفتگو میں محو پائے جاتے ہیں اور لوگ دونوں بزرگان دین کی یہ مثالی سنگت اور دوستی رشک سے دیکھتے جو ایک دوسرے کے عہدے سے بے نیاز آپس میں دو دوستوں کی طرح باتیں کرتے رہتے۔ اکثر یوں بھی ہوتا کہ نظام الدین اولیاء اور شاہ رکن عالم دلی کی کسی مسجد میں نماز کے لیے جاتے اور جب نظام الدین اولیاء نماز ختم کر پاتے تو اس جگہ آن کھڑے ہوتے جہاں شاہ رکن عالم عبادت الہی میں مشغول ہوتے۔ انھیں عبادت میں مصروف دیکھ کر خواجہ صاحب چپ چاپ خاموشی سے ان کے پیچھے بیٹھ جاتے اور ان کی نماز ختم کرنے تک وہیں بیٹھے رہتے۔

  • غیاث الدین تغلق کے بعد سلطان محمد تغلق سریر آرائے سلطنت ہوا اس سے بھی شاہ رکن عالم کے تعلقات قائم تھے اور اس کے یہاں آ کر مہمان ہوئے یہ زمانہ محبوب الہی کے مرض الموت کا تھا۔ شاہ رکن عالم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو خواجہ صاحب عالم تحیر میں تھے۔ مریدین پریشان ہوئے کہ اس عالم تحیر میں دونوں کی ملاقات کیسے ہو گی لیکن محبوب الہی کا تحیر جاتا رہا اور شاہ رکن عالم کو دیکھ کر چارپائی سے نیچے اترنا چاہتے تھے مگر غایت جوش کی وجہ سے نیچے نہ اتر سکے ، اس لیے شاہ رکن عالم کو چارپائی پر بیٹھنے کا کہا لیکن رکن عالم نے چارپائی پر بیٹھنا پسند نہیں فرمایا بلکہ ایک کرسی لائی گئی تو آپ اس پر بیٹھے۔ شاہ رکن عالم نے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی حیات کچھ دنوں اور ہوتی کہ ناقص کو آپ کمال تک پہنچا سکتے۔ محبوب الہی نے یہ سنا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے تھے کہ نظام تم سے ملنے کا بڑا اشتیاق ہے۔ شاہ رکن عالم نے یہ سنا تو ان پر گریہ طاری ہو گیا۔ ان کے ساتھ حاضرین بھی رونے لگے۔ اس ملاقات کے بعد حضرت محبوب الہی نے رحلت فرمائی۔ ان کے جنازہ کی نماز حضرت شیخ رکن الدین نے پڑھائی اور اس سعادت پر آپ ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ [11]

وصال مبارک[ترمیم]

حضرت محبوب الہی کی وفات کے دس سال بعد حضرت شیخ رکن الدین اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے۔ وفات سے تین ماہ پہلے لوگوں سے ملنا جلنا اور بولنا بالکل ترک کر دیا۔ صرف نماز کے لیے حجرہ سے باہر آتے تھے اور پھر واپس لوٹ جاتے۔ 735ھ رجب کی 16 تاریخ بروز جمعرات نماز مغرب کے بعد اوابین پڑھ رہے تھے کہ سجدہ کی حالت میں جان جانہ آفرین کے سپرد کر دی۔ مرقد مبارک آپ کا ملتان میں آپ کے جد امجد اور والد ماجد کے مزار قریب ہی ہے۔ آپ کی غذا بہت ہی قلیل تھی۔ ایک پیالہ دودھ میں کچھ میوے ڈال کر دیے جاتے تھے اسی سے چند لقمے تناول فرمائے تو گھر والوں نے ایک طبیب سے قلت غذا کی شکایت کی طبیب نے غذا مانگوا کر دیکھی اور اس میں سے چند لقمے خود کھائے ، کھانے کے بعد اس نے گرانی محسوس کی اور کہا اب سات دن کھانے کی حاجت نہ ہو گی کونکہ بزرگوں کے کھانے میں کمیت سے زیادہ کیفیت ہوتی ہے۔ آپ وضو فرماتے تو اس کے بعد دعا پڑھتے ایک روز وضو سے فارغ ہوئے تو دعا نہیں پڑھی بلکہ صرف الحمد للہ کہا۔ خادم خاص نے آپ کے نانا سے عرض کر دیا کہ آج حضرت نے صرف الحمد للہ کہا اور کوئی دعا نہیں پڑھی۔ وہ حضرت شاہ رکن عالم کے پاس آئے اور واقعہ دریافت کیا۔ شاہ رکن عالم نے فرمایا آج وضو میں دنیا اور آخرت کا خیال دل میں نہیں آیا تو میں سمجھا کہ آج میرے وصال کا دن ہے اس لیے صرف الحمد للہ کہا۔ [12]

مقبرہ[ترمیم]

آپ کا مقبرہ تاریخی اور تعمیری خصوصیات کے باعث بجا طور پر ملتان کی قدیم عظمت کا نشان کہا جاتا ہے۔ یہ گنبد کے اعتبار سے ایشیا کا دوسرا سب سے بڑا گنبد ہے۔ یہ عظیم الشان عمارت اسلامی تعمیر کا حسین امتزاج ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث زائرین کی نگاہیں خیرہ کر دیتی ہے۔ یہ مقبرہ سلطان غیاث الدین تغلق نے حضرت غوث العالمین کے قرب میں دفن ہونے کی خاطر اپنے ذاتی خرچ سے تعمیر کرایا تھا مگر اتفاق سے سلطان کی موت دہلی میں واقع ہوئی۔ سلطان کو دہلی میں دفن کیا گیا۔ سلطان کے جانشین محمد شاہ تغلق نے جو شاہ رکن عالم کا معتقد تھا مقبرہ حضرت شاہ عالم کو دے دیا۔ شاہ رکن عالم اسے عبادت گاہ کے طور پر استعمال فرماتے رہے مگر محض اس خیال سے کہ ممکن ہے اس کی تعمیر بیت المال کے روپے سے کی گئی ہو دفن ہونا پسند نہ فرمایا۔ زندگی کے آخری لمحات میں آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے جد امجد حضرت غوث العالمین کے قدموں میں دفن کیا جائے۔ وصیت کے مطابق آپ کو حضرت بہاو الدین زکریا جدبزرگوار کو پائنتی دفن کیا گیا۔ مگر بعد میں حضرت سلطان فیروز شاہ تغلق دہلی سے ملتان آیا تو اس نے تمام حال معلوم کر کے صاحب سجادہ حضرت کے حقیقی برادر کو اس بات کا یقین دلایا کہ اس مقبرہ کی تعمیر بیت المال سے نہیں ہوئی بلکہ سلطان غیاث الدین تغلق نے اپنی ذاتی آمدنی سے جب کہ وہ دیپال پور کے گورنر تھے تعمیر کرایا تھا لہذا فیروز شاہ تغلق نے حضرت شاہ عالم کے تابوت کو خود کندھا دے کر اس مقبرہ میں منتقل کیا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں مریدین و عوام موجود تھے۔

کرامات[ترمیم]

  1. ایک مرتبہ سلطان غیاث الدین تغلق نے مولانا ظہیر الدین بیگ سے سے پوچھا کہ کیا تم نے شیخ رکن الدین کی کوئی کرامت بھی دیکھی ہے۔ مولانا نے کہا ہاں ایک دفعہ جمعہ کے دن ہم ان سے ملاقات کے لیے گئے۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ میں بھی عالم ہوں مگر میری طرف کوئی رجوع نہیں کرتا ، شاید رکن الدین کے پاس کوئی عمل ہے۔ میں نے سوچا کہ دوسرے دن صبح شیخ سے پوچھوں گا کہ وضو میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے میں کیا حکمت ہے۔ چنانچہ میں رات کو سو گیا تو خواب میں دیکھا کہ شیخ رکن الدین مجھے حلوہ کھلا رہے ہیں اور اس کی شیرینی صبح تک میری زبان پر قائم رہی۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ اگر یہی کرامت ہے تو اس طرح تو شیطان بھی گمراہ کر سکتا ہے پھر جب میں شیخ کی خدمت میں پہنچا تو دیکھتے ہی فرمایا میں تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ گفتگو شروع ہو ئی تو فرمایا جنابت دو طرح کی ہے ، جسم کی جنابت اور دل کی جنابت۔ جسم کی جنابت کا سبب تو صاف ظاہر ہی ہے مگر دل کی جنابت نا ہموار لوگوں کی صحبت سے پیدا ہوتی ہے۔ جسم تو پانی سے پاک ہو جاتا ہے مگر دل کی جنابت آنکھوں کے پانی سے دور ہوتی ہے۔ پھر فرمایا جس طرح شیطان کسی نبی کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ اس طرح وہ شیخ حقیقی کی صورت بھی اختیار نہیں کر سکتا کیونکہ شیخ حقیقی کو نبی کی کامل مطابقت حاصل ہوتی ہے۔
  2. ملتان میں ایک ہندو عورت رہا کرتی تھی۔ بیوہ تھی اور سوائے ایک اکلوتے بیٹے کے اس کا اس دنیا میں کوئی سہارا نہ تھا مگر وہ نصیبوں جلی اس بیٹے کی رفاقت سے بھی محروم تھی۔ دنیا جہاں کی محنت مشقت اٹھا کر اس نے بیٹے کی پرورش کی اور وہ بیٹا جس کے لیے اس نے سب کچھ کیا۔ ایک دن تجارت کی غرض سے خراسان کے سفر پر ایسا روانہ ہوا کہ دوبارہ ملتان کی راہ ہی بھول گیا نہ تو خود آیا اور نہ کوئی خیریت کا پتہ ماں کو بھیجا۔ وہ بیچاری ممتا کی ماری اس کی یاد میں رات بھر روتی رہتی اور دن بھر لوگوں کی منتیں کرتی کہ کسی طرح وہ اس کے بیٹے کو واپس لا دیں۔ لوگ بھی اسے رحم کی نظر سے دیکھتے اور بے بسی کا اظہار کر کے اپنی راہ لیتے۔ آخر جب کچھ ہمدردوں نے دیکھا کہ یہ تو ممتا کی ماری اب پاگل ہونے کو آئی ہے تو کسی نے اسے مشورہ دیا کہ تو ملتان کے مسلمان درویش کے پاس جا ، ان پر ایشور کی بڑی کرپا ہے اور وہ تجھے تیرے بیٹھے سے ملا سکتے ہیں۔ ڈوبتے کو تنکا کا سہارا بھی کافی ہوتا ہے تو اس نے فوراً دوڑ لگائی اور سیدھی شاہ رکن عالم کے حجرے میں پہنچ کر فریاد کرنے لگی کہ شریمان ہی مجھ ابھاگن پہ دیا کریں۔ میرا اکلوتا بیٹا بڑے سمے سے مجھ سے الگ ہے نجانے کدھر ہو گا۔ جذبات کے شدت سے وہ عورت روتی بھی جاتی تھی اور زبان سے فریاد بھی کرتی جاتی۔ آپ نے رحم دلی سے اسے دیکھتے ہوئے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کر کے مراقبے میں چلے گئے۔ پھر کچھ دیر بعد آنکھیں کھولے ہوئے اس عورت سے بولے گھر جاؤ تمھارا بیٹا اللہ کی رضا سے گھر پہنچ چکا ہو گا۔
  3. تواضع کے بارے میں شاہ رکن عالم کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک عرب درویش آپ کی خانقاہ میں ٹھہرا۔ آپ نے اسے اپنے خادم خاص کے ذریعے اسے کھانا بجھوایا۔ خادم نے درویش سے پوچھا کیا تم حضرت شیخ کو دیکھنا چاہتے ہو۔ اس نے کہا میری کیا مجال کہ میں انھیں دیکھوں۔ خادم واپس آیا تو شاہ عالم سے یہ سارا ماجرہ بیان کیا۔ شیخ نے فرمایا میں خود اس کے پاس جاؤں گا۔ چنانچہ جب دیکھا کہ درویش فارغ بیٹھا ہے تو اس کے پاس تشریف لے گئے اور اسے منزل مقصود تک پہنچا کر سرفراز فرمایا۔
  4. سندھ کا ایک درویش جب ایک مرتبہ حج کی نیت سے شاہ رکن عالم کی خانقاہ سے نکل کر مکہ مکرمہ کے سفر پر روانہ ہوا اور وہاں غلے کو گراں دیکھ کر سخت پریشان ہوا۔ غلہ کی گرانی کے سبب اسے مکہ میں صرف ایک روٹی کھانے کو ملتی جبکہ اسے شاہ رکن عالم کی خانقاہ میں چار چار روٹیاں کھانے کو مل جاتی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہ شخص سخت برداشتہ ہو گیا۔ اس کی پریشانی وہاں ٹھہرے ایک بزرگ سے چھپی نہ رہ سکی۔ انھوں نے سندھی سے کہا: جناب آپ جس خانقاہ سے آئے ہیں وہاں کا نگران و مالک بہت سخی و فیاض ہے۔ جس کی بدولت خانقاہ کا لنگر دن رات جاری رہتا ہے لیکن یہاں یہ صورت نہیں۔ میں آپ کی پریشانی کافی دنوں سے محسوس کر رہا ہوں اور آپ کو اس بات کی خوش خبری دوں کہ آپ کے فیاض و سخی مرشد ہر جمعہ کو یہاں تشریف لاتے ہیں۔ چنانچہ جب جمعہ کی شب شاہ رکن عالم مکہ معظمہ تشریف لائے تو ان سے سب سے پہلے ملنے والوں میں وہ سندھی عابد بھی تھا۔ اس نے رکن عالم کے حضور اپنی مشکل بیان کی تو آپ مسکرا پڑے اور فرمایا کہ چار روٹیوں کے لیے اس قدر پریشانی۔ خیر جاؤ ، اطمینان رکھو تمھیں تمھاری خواہش کے مطابق کھانا ملتا رہے گا۔ پھر کچھ دیر بعد ہی اس سندھی عابد کے حجرے میں ایک شخص خوان لے کر آیا جو انواع اقسام کے کھانوں سے لبالب بھرا تھا۔ کھانا لانے والے نے اس سندھی عابد سے کہا کہ شاہ رکن عالم کے حکم سے آج سے تمھیں دن رات تمھاری قیام گاہ پر کھانا پہنچتا رہے گا ، تم اطمینان رکھو۔
  5. ایک شخص شاہ رکن عالم کی خدمت میں آیا اور کہا میں آپ کے دوست کے لڑکوں میں سے ایک لڑکا ہوں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس لڑکے کے باپ سے آپ نے سورہ اخلاص پڑھی تھی۔ شاہ رکن عالم نے فرمایا کہ تم میرے آقا زادے ہو تم مجھے اس طرح حکم دو جس طرح ایک آقا اپنے غلام کو حکم دیتا ہے۔ اس نے کہا مجھے دنیا کا مال چاہیے۔ آپ نے اسی وقت اسے بہت سا مال دے کر رخصت کیا۔ [13]
  6. ایک مرتبہ مغل ملتان کے قریب آ پہنچے۔ لوگ آپ سے دعا کے طالب ہوئے۔ آپ نے کچھ دیر مراقبہ کیا اور پھر فرمایا کہ مغل چلے گئے۔ دریا کے کنارے پہنچ کر وہ منتشر ہو گئے۔ وجہ دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا کہ خدا تعالی نے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا اور ان کو منتشر کر دیا۔
  7. آپ کا ایک مرید خانقاہ کے حجرہ میں عبادت میں مشغول تھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص اس سے حج کو جانے کے لیے کہتا ہے۔ وہ جب شاہ رکن عالم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کو دیکھتے ہی فرمایا کہ وہ خواب شیطان کی وجہ سے تھا۔ مشغولی سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ حج اس پر فرض نہیں ہے ، کیونکہ وہ ایک فقیر ہے۔

سیرت و تعلیمات[ترمیم]

سیرت[ترمیم]

آپ سات سال کی عمر سے نماز اور روزہ کے پابند تھے۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے تھے ، نماز تہجد ، اشراق و چاشت اور نوافل کے پابند تھے۔ رمضان کے علاوہ عاشورہ محرم میں بھی روزے رکھتے تھے۔ ذکر خفی و جلی و مراقبہ محاسبہ آپ کے معمولات میں سے تھے۔ ریاضت ، عبادت اور مجاہدہ میں مشغول رہتے تھے۔ کشف قلوب ، طے ارض و طے لسان میں دس سال کی عمر سے ممتاز تھے ، کمالات صوری و معنوی آپ کو پچیس سال کی عمر سے حاصل تھے۔ غرض و عبادت ، ریاضت ، زہد و تقوی ، تفرید و عفو وفا ، جو دو سخا ، نصیحت و شفقت ، الفت و مروت ، بردباری ، کسر نفی اور اخلاق میں بے نظیر تھے۔ خوراک آپ کی کم تھی لیکن کھانا اچھا کھاتے تھے۔ جو حاجت مند آپ کے پاس آتا خالی ہاتھ نہیں جاتا چونکہ آپ لوگوں کی حاجت پوری کرتے تھے اس واسطے لوگوں میں آپ قبلہ حاجات مشہور ہوئے۔ جو نذرانہ آتا آپ اس کو خرچ کر دیتے تھے۔ اس میں سے کچھ نہیں بچاتے تھے۔ کسر نفی کا یہ عالم تھا کہ جب پالکی میں نکلتے تو آپ کے دونوں ہاتھ باہر نکلے ہوئے ہوتے اور اس لیے ایسا کرتے کہ شاید کسی بخشے ہوئے کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے لگ جائے تو آپ بھی بخشے ہوئے ہو جائیں۔ آپ علما ، فضلاء اور درویشوں کا بہت خیال رکھتے تھے ، ان کی بہت عزت اور خاطر مدارت کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا کر نہیں رکھتے تھے۔ آپ کسی حد تک لوگوں کی امداد کرنے پر آمادہ رہتے تھے ، وہ اس سے ظاہر ہے کہ ایک امیر آدمی آپ کی خدمت میں آیا ، مرید ہوا اور گناہوں سے توبہ کی۔ شاہ رکن عالم نے اس کو کلاہ عطا فرمائی۔ ایک درویش نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا

  • اے عزیز! اگر وہ بوجہ ایک کلاہ کے گناہ سے باز آ جائے اور اس کی جہت سے بخشا جائے تو میں کس لیے اس کو کلاہ نہ دوں۔

تعلیمات[ترمیم]

آپ فرماتے ہیں کہ

  1. آدمی دو چیزوں سے عبارت ہے صورت اور صفت اور حکم صرف صفت پر ہے ، نہ کہ صورت پر لیکن حکم صفت کی تخلیق صرف دار الاخرت میں ظہور پزیر ہوتی ہے کیوں کہ وہاں اشیاء کے حقائق ظاہر ہوتے ہیں اور یہ شکل و صورت نیست و نابود ہو جاتی ہے۔ وہاں ہر شخص کو اس صورت میں جمع کرتے ہیں جو اس کی صفت کے موافق ہو۔
  2. اعمال پر متابعت یہ کہ اعضاء و جوارح کو شرعی ممنوعات و مکروہات سے قولاً و فعلاً باز رکھے۔ لا یعنی مجلس سے بھی پرہیز لازم ہے۔ وہ چیز جو طالب کو حق تعالی سے برگشتہ کر کے دنیا کی طرف مائل کرتی ہے ، اس کے اوقات کو بہیودہ ضائع کرتی ہے۔ بطالوں کی صحبت سے بھی احتراز ضروری ہے۔

اقوال[ترمیم]

  1. قیامت کے دن ہر شخص کو اس صورت میں اٹھائیں گے جو اس کی صفت کے مطابق ہو۔ بلعم باعور اتنی عبادت کے باوجود کتے کی صورت میں اٹھائیں گے۔ ظلم و تعدی کرنے والا شخص اپنے آپ کو بھیڑیئے کی شکل میں دیکھے گا اور صاحب کبر چیتے کی صورت میں ظاہر ہو گا اور بخل و حریص خنزیر کی شکل میں۔
  2. جب تک کوئی شخص اوصاف ذھیمہ سے پاک نہیں ہوتا اس کا شمار جانوروں اور درندوں میں سے ہے۔
  3. تزکیہ نفس اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک بندہ حضرت عزت کی بارگاہ میں التجا و استعانت نہ کرے۔
  4. جب تک اللہ کا فضل و رحمت دست گیری نہ کرے تزکیہ نفس حاصل نہیں ہوتا۔
  5. جو شخص کہ طالب حق نہیں ہے ، حقیقت میں وہ بطال ہے۔
  6. فضل و رحمت کے ظہور کی علامت یہ ہے کہ بندے کی چشم بینا میں اس کے عیوب ظاہر ہو جاتے ہیں اور عظمت الہی کے انوار کے پر تو سے جس کے سامنے تمام اسرار معدوم ہو جاتے ہیں ، اس کا باطن منور ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ تمام دنیا اور اس کی شان و شوکت اس کی نظر میں خاک معلوم ہوتی ہے اور اہل دنیا کی اس کے دل میں کوئی قدر نہیں رہتی۔ جب اس کے باطن پر یہ کفیت مستولی ہو جاتی ہے تو ناچار اس کو ارباب دنیا کے حیوانی اوصاف سے نفرت آتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ اوصاف فرشتوں میں تبدیل ہو جائیں۔ چنانچہ اس میں ظلم کی بجائے عفو ، غضب کی بجائے حلم ، کبر کی بجائے تواضع ، بخل کی بجائے سخاوت اور حرص کی بجائے ایثار کی خوبیاں پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر یہ معاملہ عقبی کے طلب کرنے والوں کے لیے ہے۔ طالبان حق کا کام اس سے بالا تر ہے۔

خلفاء[ترمیم]

شاہ رکن عالم کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے آپ کی وفات کے بعد آپ کے بھائی حضرت عماد الدین اسماعیل آپ کے سجادہ نشین ہوئے۔ ان کے علاوہ آپ کے مشہور خلفاء میں سید جلال الدین بخاری ملقب بہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت ، شیخ عثمان سیاح ، حاجی شیخ صدر الدین عارف ، حاجی چراغ دین ، شیخ حمید الدین ملقب بہ سلطان التارکین قرشی وغیرہ شامل ہیں۔ [14]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اولیائے پاک و ہند مولف ڈاکٹر ظہور الحسن شارب صفحہ 109
  2. تذکرہ صوفیائے پنجاب مولف اعجاز الحق قدوسی صفحہ 290
  3. حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی مصنف و مولف حمید اللہ شاہ ہاشمی صفحہ 16
  4. تذکرہ صوفیائے پنجاب مولف اعجاز الحق قدوسی صفحہ 290 اور 291
  5. تذکرہ اولیائے پاکستان مولف علامہ عالم فقری جلد اول صفحہ 97 اور 98
  6. تذکرہ اولیائے ملتان مولف امتیاز حسین شاہ صفحہ 58 تا 60
  7. تذکرہ اولیائے پاک و ہند مولف ڈاکٹر ظہور الحسن شارب صفحہ 71 اور 72
  8. تذکرہ صوفیائے پنجاب مولف اعجاز الحق قدوسی صفحہ 291
  9. تذکرہ اولیائے پاکستان مولف علامہ عالم فقری جلد اول صفحہ 99
  10. تذکرہ اولیائے پاکستان مولف علامہ عالم فقری جلد اول صفحہ 71
  11. تذکرہ اولیائے پاکستان مولف علامہ عالم فقری جلد اول صفحہ 99 تا 104
  12. تذکرہ اولیائے ملتان مولف امتیاز حسین شاہ صفحہ 52
  13. تذکرہ اولیائے پاکستان مولف علامہ عالم فقری جلد اول صفحہ 105 تا 110
  14. تذکرہ اولیائے پاک و ہند مولف ڈاکٹر ظہور الحسن شارب صفحہ 112 تا 115