یوسف ہمدانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یوسف ہمدانی
(عربی میں: يوسف الحمدني ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1039ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ھمدان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 نومبر 1140ء (100–101 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مرو  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ عبد اللہ انصاری،  ابو اسحاق شیرازی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص خواجہ عبدالخالق غجدوانی،  ابن عساکر،  خواجہ احمد یسوی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مرشد  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خواجہ یوسف ہمدانی سلسلہ نقشبندیہ کے اکابرین اور اہم بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں۔

نام[ترمیم]

یوسف ہمدانی یا ابو یعقوب محمدیوسف بن ایوب ہمدانی کا نام گرامی یوسف اور کنیت ابویعقوب ہے۔

مقام و مرتبہ[ترمیم]

خواجہ یوسف بن ایوب ہمدانی علم، عامل، عارف، زاہد، پرہیز گار، صاحب احوال جلیلہ اور علوم و معارف میں قدم راسخ رکھتے تھے۔ اپنے وقت میں یگانہ شیخ تھے۔ آپ کی مجلس میں علماء و فقہا و صلحاء کا بڑا مجمع ہوتا۔ خراسان میں مریدین کی تربیت آپ پر ختم تھی۔ آپ کی مجلس میں علما فقہا اور صلحاء کا بڑا مجمع رہا کرتا تھا جو آپ کے کلام سے مستفیض ہوتا تھا۔ آپ ساٹھ سال سے زیادہ مسند ارشاد پرمتمکن رہے۔ کچھ عرصہ کوہ زرا [مضافات حوزان سے ہے جو خراسان میں نواح مردِ رود سے ہے] میں بھی مقیم رہے اور سوائے نماز جمعہ کے کبھی باہر نہ نکلتے تھے[1]

ولادت[ترمیم]

آپ موضع بوزنجرد (ہمدان کے دیہات میں سے شہر سادہ کی طرف ایک منزل کے فاصلے پر واقع ہے)میں 431ھ بمطابق 1039ء میں پیدا ہوئے۔"آپ کے آبا و اجداد ہمدان کے تھے"[2]

ظاہری علوم کا حصول[ترمیم]

اٹھارہ سال کی عمر میں بغداد آئے۔ وہاں ابو اسحاق شیرازی سے فقہ پڑھی۔ قاضی ابو الحسین محمد بن علی بن مھتدی باللہ، ابو الغنائم عبد الصمد بن علی بن مامون اور ابو جعفر محمد بن احمد بن مسلمہ سے سماع حدیث کیا اور اصفہان و سمرقند میں بھی سماع کیا۔

القابات[ترمیم]

امام ارباب طریقت، مستغرق در بحر حقیقت، عارف ربانی، پیشوائے قوم۔

باطنی علوم کا حصول[ترمیم]

ظاہری علوم کے بعد باطنی علوم کی طرف متوجہ ہوئے، تصوف میں آپ کی نسبت شیخ ابو علی فارمدی سے ہے جبکہ شیخ عبد اللہ جوینی نیشا پوری اور شیخ حسن سمنانی کی صحبت میں بھی رہے اور مقدم الذکر سے خرقہ پہنا۔ پہلے مرو میں رہے وہاں سے ہرات آئے پھر مرو چلے گئے و ہیں پر وصال ہوا۔

شیخ عبد القادر جیلانی کی ملاقات[ترمیم]

جب شیخ عبد القادر جیلانی تحصیل علم سے فارغ ہوئے تو بغداد میں خواجہ یوسف ہمدانی سے ملاقات ہوئی فرماتے ہیں "بغداد میں ایک شخص ہمدان سے آیا جسے یوسف ہمدانی کہتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ قطب ہیں وہ ایک مسافر خانے میں اترے میں وہاں گیا مگر معلوم ہوا کہ وہ سرداب میں ہیں وہاں گیا تو مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے مجھے اپنے پاس بٹھایا میرے تمام حالات مجھ سے ذکر کیے اور میری تمام مشکلات کو حل فرمایا پھر فرمایا اے عبد القادر تم لوگوں کو وعظ سنایا کرو میں نے عرض کی میں عجمی ہوں فصحائے بغداد کے سامنے کیسے گفتگو کروں یہ سن کر فرمایا کہ تم کو فقہ، اصول فقہ اختلاف مذاہب، نحو، لغت اور تفسیر قرآن یاد ہے تم میں وعظ کہنے کی صلاحیت و قابلیت بھی موجود ہے بر سر منبر لوگوں کو وعظ سنایا کرو کیونکہ میں تم میں ایک جڑ دیکھتا ہوں جو عنقریب درخت ہو جائے گی"[3]

کرامات[ترمیم]

آپ سید الکاملین صاحب کرامت ولی تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت روتی ہوئی آپ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ فرنگی میرے لڑکے کوپکڑکے لے گئے ہیں دعافرمایئے کہ وہ آجائے۔ آپ نے فرمایا صبرکرو اور گھر واپس جاکر دیکھو تمھارا لڑکاتوگھرمیں موجودہے۔ وہ عورت جب واپس گھر پہنچی تو دیکھاواقعی اس کالڑکاگھرمیں موجود تھا۔ لڑکے سے حال دریافت کیاتواس نے بتایامیں ابھی قسطنطنیہ میں قیدتھا۔ پہرے دار اردگردموجود تھے کہ اچانک ایک نامعلوم شخص آیا اورمجھ کو آنکھ جھپکتے ہی گھر پہنچادیا۔ اس عورت نے آپ کے پاس آکرتمام واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا تجھے حکم خدا سے تعجب آتاہے۔ ایک دفعہ آپ وعظ فرما رہے تھے وعظ کی تاثیرسے تمام مجمع مسحورتھا۔ دو فقہیہ بھی حاضرین میں موجود تھے۔ وہ یہ منظربرداشت نہ کرسکے اور آپ سے کہنے لگے چپ رہو کہ تم بدعتی ہو۔ آپ نے ارشاد کیاتم خاموش رہو کہ تمھیں موت آنے والی ہے۔ چنانچہ وہ دونوں اسی وقت اسی جگہ مرگئے۔[4]

وصال مبارک[ترمیم]

اخیر سفر مبارک ہرات سے مرو کو آ رہے تھے کہ راستے میں ہرات اور بغشور کے درمیان موضع بامئین میں بروز دو شنبہ 22 ربیع الاول، 535ھ بمطابق 1140ء میں وصال فرمایا اور وہیں دفن ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ کے مریدین میں سے ابن النجار آپ کے جسد اطہر کو مرو لے گیا اور وہاں خطیرہ میں دفن کیا جو آپ کے نام سے موسوم ہے۔[5]

فقہی مسلک[ترمیم]

فقہا اربعہ میں سے آپ امام الآئمہ سرج الامہ امام ابو حنیفہ کے مقلد اور حنفی تھے۔

تصنیفات[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ضیائے طیبہ[مردہ ربط]
  2. سفینۃ الاولیاء صفحہ108
  3. بہجۃ الاسرار 396
  4. http://www.hazratmuradali.com/_ur/naqshbandia/10%20abdul%20khaliq.htm
  5. تذکرہ مشائخ نقشبندیہ محمد نو ر بخش توکلی صفحہ 93 تا 96 مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور
  6. نفحات الانس408