محمد بن اسماعیل بخاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امام  ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
محمد بن اسماعيل بخاری
محمد بن اسماعيل البخاری

معلومات شخصیت
پیدائشی نام ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری
پیدائش 20 جولا‎ئی 810ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بخارا، خراسان کبیر، وسطی ایشیاء، ازبکستان
وفات جمعرات 30 رمضان 256ھ/ 31 اگست 870ء
(60 سال)

خرتنگ، نزد سمرقند، ازبکستان
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل فارسی
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک اجتہاد
والد اسماعیل بن ابراہیم  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ احمد بن حنبل،  علی بن مدینی،  یحییٰ بن معین،  اسحاق بن راہویہ،  عبدالرحمن دارمی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص مسلم بن حجاج،  ابو عیسیٰ محمد ترمذی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث،  شاعر،  عالم،  فقیہ،  مورخ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں صحیح بخاری،  الادب المفرد،  تاریخ کبیر  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر احمد بن حنبل
علی بن المدینی
یحییٰ بن معین
اسحاق بن راہویہ[3]
متاثر مسلم بن الحجاج
ابن ابی عاصم

محمد بن اسماعيل بخاری (پیدائش: 19 جولائی 810ء، بخارا - وفات: 1 ستمبر 870ء) مشہور ترین محدث اور حدیث کی سب سے معروف کتاب صحیح بخاری کے مولف تھے۔ ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصحیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔

نام و ولادت

امام بخاری کے اسفار علمی کا نقشہ

امام بخاری کا نام محمد، کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ والد اسماعیل بن ابراہیم بن ابراہیم بن مغیرہ ہیں۔ امام بخاری کے پردادا مغیرہ حاکم بخارا امام جعفی کے ہاتھ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ امام بخاری کی ولادت جمعہ 13 شوال المکرم 194ھ بمطابق 19 جولائی 810ء کو بخارا شہر میں بعد از نمازِ جمعہ کو ہوئی۔

حسب و نسب

امام بخاری کا سلسلہ نسب یہ ہے : ابو عبد اللہ محمد (امام بخاری) بن اسما عیل بن ابراہیم بن مغیرہ بردزبہ البخاری الجعفی۔ آپ کے والد ماجد حضرت العلام مولانا اسماعیل صاحب اکابر محدثین میں سے ہیں۔ کنیت ابو الحسن ہے۔ حضرت امام مالک کے اخص تلامذہ میں سے ہیں اور حضرت امام مالک کے علاوہ حماد بن زید اور ابو معاویہ ”عبد اللہ بن مبارک “ وغیرہ سے آپ نے احادیث روایت کی ہیں۔ احمد بن حفص، نصر بن حسین وغیرہ آپ کے شاگرد ہیں۔ اس قدر پاکباز، متدین، محتاط تھے خاص طور پر اکل حلال میں کہ آپ کے مال میں ایک درم بھی ایسا نہ تھا جسے مشکوک یا حرام قرار دیا جا سکے۔ ان کے شاگرد احمد بن حفص کا بیان ہے کہ میں حضرت مولانا اسماعیل کی وفات کے وقت حاضر تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ میں اپنے کمائے ہوئے مال میں ایک درم بھی مشتبہ چھوڑ کر نہیں چلا ہوں۔ یہ فخر امت میں کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ بھی محدث ہو اور بیٹا بھی محدث بلکہ سید المحدثین۔ اللہ تعالٰیٰ نے یہ شرف حضرت امام بخاری کو نصیب فرمایا جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو ”کریم ابن الکریم ابن کریم“ کہا گیا ہے اسی طرح حضرت امام بخاری بھی محدث ابن المحدث قرار پائے۔ مگر صد افسوس کہ والد ماجد نے اپنے ہونہار فرزند کا علمی زمانہ نہیں دیکھا اورآپ کو بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئے۔ حضرت امام بخاری کی تربیت کی پوری ذمہ داری والدہ محترمہ پر آگئی جو نہایت ہی خدا رسیدہ عبادت گزار شب بیدار خاتون تھیں۔ والدین کی علمی شان و دینداری کے پیش نظر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام کی تعلیم و تربیت کس انداز کے ساتھ ہوئی ہو گی۔

امام بخاری کی بے نظیر ثقاہت

علامہ عجلونی نے آپ کی ثقاہت کے بارے میں یہ عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ سمندر کا سفر کر رہے تھے اور آپ کے پاس ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ ایک رفیق سفر نے عقیدت مندانہ راہ و رسم بڑھا کر اپنا اعتماد قائم کر لیا۔ حضرت امام بخاری نے اپنی اشرفیوں کی اسے اطلاع دے دی۔ ایک روز آپ کا یہ رفیق سو کر اٹھا تو اس نے با آواز بلند رونا شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفیاں گم ہو گئی ہیں۔ چنانچہ تمام مسافروں کی تلاشی شروع ہوئی۔ حضرت امام نے یہ دیکھہ کر کہ اشرفیاں میرے پاس ہیں اور وہ ایک ہزار ہیں۔ تلاشی میں ضرور مجھ پر چوری کا الزام لگایا جائے گا۔ اور یہی اس کا مقصد تھا۔ امام نے یہ دیکھ کر وہ تھیلی سمندر کے حوالہ کر دی۔ امام کی بھی تلاشی لی گئی۔ مگر وہ اشرفیاں ہاتھ نہ آئیں اور جہاز والوں نے خود اسی مکار رفیق کو ملامت کی۔ سفر ختم ہونے پر اس نے حضرت امام سے اشرفیوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے ان کو سمندر میں ڈال دیا۔ وہ بولا کہ اتنی بڑی رقم کا نقصان آپ نے کیسے برداشت فرما لیا۔ آپ نے جواب دیا جس دولت ثقاہت کو میں نے تمام عمر عزیز گنوا کر حاصل کیا ہے۔ اور میری ثقاہت جو تمام دنیا میں مشہور ہے کیا میں اس کو چوری کا اشتباہ اپنے اوپر لے کر ضائع کر دیتا۔ اور ان اشرفیوں کے عوض اپنی دیانت وامانت و ثقاہت کا سودا کر لیتا میرے لیے ہرگز یہ مناسب نہ تھا۔

وجہ تالیف الجامع الصحیح البخاری

امام بخاری کا مزار، سمرقند،ازبکستان

اس کتاب کا پورا نام "الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم وسننہ وأيامہ" ہے۔ حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں تفصیلاً لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ و تابعین کے پاکیزہ زمانوں میں احادیث کی جمع و ترتیب کا سلسلہ کماحقہ نہ تھا۔ ایک تو اس لیے کہ شروع زمانہ میں اس کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں قرآن مجید اور احادیث کے متون باہمی طور پر گڈمڈ نہ ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے حافظے وسیع تھے۔ ذہن صاف تھے۔ کتابت سے زیادہ ان کو اپنے حافظہ پر اعتماد تھا اور اکثر لوگ فن کتابت سے واقف نہ تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کتابت احادیث کا سلسلہ زمانہ رسالت میں بالکل نہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وجوہ بالا کی بنا پر کما حقہ نہ تھا۔ پھر تابعین کے آخر زمانہ میں احادیث کی ترتیب وتبویب شروع ہوئی۔ خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ نے حدیث کو ایک فن کی حیثیت سے جمع کرانے کا اہتمام فرمایا۔ تاریخ میں ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ وغیرہ وغیرہ حضرات کے نام آتے ہیں جنھوں نے اس فن شریف پر باضابطہ قلم اٹھایا۔ اب وہ دور ہو چلا تھا جس میں اہل بدعت نے من گھڑت احادیث کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر طبقہ ثالثہ کے لوگ اٹھے اور انھوں نے احکام کو جمع کیا۔ حضرت امام ابو حنیفہ نے فقہ حنفی کے لیے اس قدر اسناد احادیث اکحٹی فرمائیں کہ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس احادیث نبوی کے صندوق بھرے ہیں۔ آپ نے چار ہزار اساتزہ سے علم حدیث حاصل کیا[4]. اسی طرح حضرت امام مالک نے موطا تصنیف کی جس میں اہل حجاز کی قوی روایتیں جمع کیں اور اقوال صحابہ فتاوی و تابعین کو بھی شریک کیا۔ ابو محمد عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج نے مکة المکرمہ میں اور ابو عمرو عبد الرحمن بن عمر اوزاعی نے شام میں اور عبد اللہ سفیان بن سعدی ثوری نے کوفہ میں اور ابو سلمہ حماد بن سلمہ دینار نے بصرہ میں حدیث کی جمع ترتیب و تالیف پر توجہ فرمائی۔ ان کے بعد بہت سے لوگوں نے جمع احادیث کی خدمت انجام دی اور دوسری صدی کے آخر میں بہت سی مسندات وجود پذیز ہو گئیں جیسے مسند امام احمد بن حنبل، مسند امام اسحق بن راہویہ، مسند امام عثمان بن ابی شیبہ، مسند امام ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں سید المحدثین امام الائمہ حضرت امام بخاری علیہ کا دور آیا۔ آپ نے ان جملہ تصانیف کو دیکھا، ان کو روایت کیا۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کتابوں میں صحیح اور حسن ضعیف سب قسم کی احادیث موجود ہیں۔

صحیح بخاری کی مشہور ترین شرح فتح الباری

طریقہ تالیف الجامع الصحیح البخاری

اس بارے میں خود امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حدیث اس کتاب میں اس وقت تک داخل نہیں کی جب تک غسل کر کے دو رکعت نماز ادا نہ کر لی ہو۔ بیت اللہ شریف میں اسے میں نے تالیف کیا اور دو رکعت نماز پڑھ کر ہر حدیث کے لیے استخارہ کیا۔ مجھے جب ہر طرح اس حدیث کی صحت کا یقین ہوا، تب میں نے اس کے اندارج کے لیے قلم اٹھایا۔ اس کو میں نے اپنی نجات کے لیے جحت بنایا ہے۔ اور چھ لاکھ حدیثوں سے چھانٹ چھانٹ کر میں نے اسے جمع کیا ہے۔

علامہ ابن عدی اپنے شیوخ کی ایک جماعت سے ناقل ہیں کہ امام بخاری الجامع الصحیح کے تمام تراجم ابواب کو حجرہ نبوی اور منبر کے درمیان میں بیٹھ کر اور ہر ترجمة الباب کو دو رکعت نماز پڑھ کر اور استخارہ کر کے کامل اطمینان قلب حاصل ہونے پر صاف کرتے۔ وراق نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ میں امام بخاری کے ساتھ تھا۔ میں نے آپ کو کتاب التفسیر لکھنے میں دیکھا کہ رات میں پندرہ بیس مرتبہ اٹھتے چقماق سے آگ روشن کرتے اور چراغ جلاتے اور حدیثون پر نشان دے کر سو رہتے۔

امام بخاری سفر و حضر میں ہر جگہ تالیف کتاب میں مشغول رہا کرتے تھے اور جب بھی جہاں بھی کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یقین ہو جاتا اس پر نشان لگا دیتے اس طرح تین مرتبہ آپ نے اپنے ذخیرہ پر نظر فرمائی۔ آخر تراجم ابواب کی ترتیب اور تہذیب اور ہر باب کے تحت حدیثوں کا درج کرنا۔ اس کو امام صاحب نے ایک بار حرم محترم میں اور دوسری بار مدینہ منورہ مسجد نبوی منبر اور محراب نبوی کے درمیان میں بیٹھ کر انجام دیا۔ اسی تراجم ابواب کی تہذیب و تبویب کے وقت جو حدیثیں ابواب کے تحت لکھتے پہلے غسل کر کے استخارہ کر لیتے۔ اس طرح پورے سولہ سال کی مدت میں اس عظیم کتاب کی تالیف سے فارغ ہوئے۔

اساتذہ

امام بخاری نے جن اساتذہ سے انھوں نے کسب فیض کیا ان کی تعداد ایک ہزار اسی (1080) بتائی جاتی ہے۔ ان میں امام احمد بن حنبل، علی بن المدینی، یحییٰ بن معین،اسحاق بن راہویہ، محمد بن یوسف، ابراہیم الاشعث، قتیبہ بن سعید قابل ذکر ہیں۔

وفات

امام بخاری نے 61 سال 11 ماہ 18 یوم کی عمر میں جمعہ یکم شوال المکرم 256ھ بمطابق 1 ستمبر 870ء کو بعد نمازِ عشاء خرتنگ میں وفات پائی جو سمرقند شہر سے دس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔

فقہی مذہب

امام بخاری (194- 256 ھ)کثیر فقہی مسائل کے حوالے سے، امام شافعی (150 – 204ھ) کے معترف تھے:

  • الإمام تاج الدين السبكي المتوفی:771 ھ نے ابو عبد اللہ (امام بخاری) کا تذکرہ اپنی کتاب "طبقات الشافعیہ" میں کیا ہے: آپ فرماتے ہیں کہ انھوں (امام بخاری) نے سماع (حدیث) کیا ہے زعفرانی، ابو ثور اور کرابیسی سے ، (امام سبکی کہتے ہیں کہ) میں کہتا ہوں کہ انھوں (امام بخاری) نے امام حمیدی سے فقہ حاصل کی تھی اور یہ سب حضرات امام شافعی کے اصحاب میں سے ہیں۔[5]
  • حافظ ابن حجر عسقلانی (852ھ) بھی آپ کو امام شافعی کے قریب لکھتے ہیں۔[6]
  • شاہ ولی اللہ محدث دہلوی[7] اہل حدیث کے مجدد وقت، مجتہد العصر اور شیخ الکل نواب صدیق حسن خان نے بھی یہی کہا ہے[8]

بعض نے ان کا مجتہد ہوجانا بھی ذکر کیا ہے، مگر وہ اصول میں نہیں فروع میں، کیونکہ ان سے اصول فقہ کی کوئی کتاب نہیں۔

علامہ طاہر الجزائری کی رائے میں آپ مجتہد تھے اور استنباط و استخراج میں آپ کی ایک اپنی راہ تھی، صحیح بخاری کے ابواب آپ کے فقہی نقطۂ نظر کے آئینہ دار ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ آپ بہت سے مسائل میں امام شافعی کے تابع چلے، اس کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ آپ نے شیخ عبد اللہ الحمیدی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور الحمیدی شافعی المذہب تھے تاہم ان مسائل کی بھی کمی نہیں جن میں آپ نے فقہ شافعی سے اختلاف کیا اور فقہ حنفی کو اختیار کیا، اس کا باعث آپ کے استاد اسحق بن راہویہ کو سمجھا جاتا ہے، محدث کبیر مولانا بدر عالم مدنی نے فیض الباری جلد چہارم کے آخر میں ان مسائل کی ایک فہرست دی ہے جن میں امام بخاری فقہ حنفی کے مطابق چلے ہیں۔

دیگر کتب

"الجامع الصحیح" کے علاوہ امام بخاری نے متعدد کتب تحریر کیں مثلاً:

فقہی ائمہ کرام بلحاظ ترتیب زمانی ولادت
ترتیب نام امام مکتبہ فکر سال و جائے پیدائش سال و جائے وفات تبصرہ
1 ابو حنیفہ اہل سنت 80ھ ( 699ء ) کوفہ 150ھ ( 767ء ) بغداد فقہ حنفی
2 جعفر صادق اہل تشیع 83ھ ( 702ء ) مدینہ 148ھ ( 765ء ) مدینہ فقہ جعفریہ، کتب اربعہ
3 مالک بن انس اہل سنت 93ھ ( 712ء ) مدینہ 179ھ ( 795ء ) مدینہ فقہ مالکی، موطا امام مالک
4 محمد بن ادریس شافعی اہل سنت 150ھ ( 767ء ) غزہ 204ھ ( 819ء ) فسطاط فقہ شافعی، کتاب الام
5 احمد بن حنبل اہل سنت 164ھ ( 781ء ) مرو 241ھ ( 855ء ) بغداد فقہ حنبلی، مسند احمد بن حنبل
6 داود ظاہری اہل سنت 201ھ ( 817ء ) کوفہ 270ھ ( 883ء ) بغداد فقہ ظاہری،


حوالہ جات

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11894473t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11894473t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. Isḥāq Ibn Rāhwayh (1990)، مدیر: ʻAbd al-Ghafūr ʻAbd al-Ḥaqq Ḥusayn Balūshī، Musnad Isḥāq ibn Rāhwayh (1st ایڈیشن)، Tawzīʻ Maktabat al-Īmān، صفحہ: 150–165 
  4. صحیح البخاري او الجامع الصحیح / محمد ابن اسماعیل بخاری.۔ Afghanistan Centre at Kabul University۔ 1699 
  5. طبقات الشافعية الكبرى:2/214
  6. فتح الباری:1/123
  7. الإنصاف مع ترجمہ وصاف: 67
  8. ابجد العلوم: 3/12٦، طبع مکتبہ قدوسیہ لاہور، مولفہ: اہل حدیث نواب صدیق حسن خاں صاحب