زید بن ارقم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
زید بن ارقم
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش المدينہ علاقہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت ابو عمرو، ابو عامر، ابو عمارہ، ابو انیسہ، ابو حمزہ، ابو سعد، ابو سعید
لقب المدنی، نزیل الکوفہ۔
عملی زندگی
طبقہ طبقہ اولیٰ، صحابی
نسب الانصاری، الخزرجى
وجۂ شہرت: اللہ نے سورہ المافقون میں ان کا ایمان ظاہر کیا۔
ابن حجر کی رائے صحابی مشہور
ذہبی کی رائے صحابی
تعداد روایات 70 حدیث
نمایاں شاگرد ابوبکر بن انس بن مالک  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سائنس دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں سبع عشرہ غزوه

زید بن ارقم، رسول اکرم ﷺ کے صحابی تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

زید نام، ابو عمر کنیت،قبیلۂ خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے،زید بن ارقم بن زید بن قیس بن نعمان بن مالک اغر بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر۔ والد نے صغر سنی میں ہی انتقال کیا تھا، عبد اللہ بن رواحہ نے جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے اوران کے رشتہ میں چچا ہوتے تھے،اپنے ظل عاطفت میں لیا اوران کی پرورش پر داخت کی۔

اسلام[ترمیم]

عبد اللہ بن رواحہ عقبہ میں بیعت کرچکے تھے،زید کے ایمان لانے کا وہی سبب بنے

غزوات[ترمیم]

غزوہ احد میں صغیر السن تھے،اس لیے انحضرتﷺ نے غزوہ کے قصد سے باز رکھا ،خندق کے معرکہ میں شریک ہوئے اور پھر تمام غزوات میں شرکت کی ،صحیح بخاری میں ان سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے 19 غزوے کیے جن میں سے 17میں شریک تھے ۔جنگ صفین میں علی ابن ابی طالب کا ساتھ دیا۔ آپ کوفہ میں مقیم رہے۔ غزوہ موتہ میں اپنے چچا کے ساتھ گئے تھے،انھوں نے چند اشعار کہے جن میں شہادت کی تمنا کی دونوں ایک ہی اونٹ پر سوار تھے،زید نے اشعار سن کر رونا شروع کیا ،ابن رواحہ نے درہ اٹھایا کہ تمھارا کیا حرج؟ مجھے شہادت نصیب ہوگی۔خلفائے راشدین میں حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ سے دوستانہ مراسم تھے،جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی حمایت میں شریک ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور بنو کندہ کے محلہ میں مکان بنایا تھا۔ [1]

وفات[ترمیم]

68ھ میں کوفہ میں انتقال فرمایا،یہ مختار بن ابی عبید ثقفی کا دور امارت تھا ۔

فضل و کمال[ترمیم]

70حدیثیں آپ سے مروی ہیں۔ علم و فضل میں آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ اعلیٰ پایہ کے صحابہ بھی کئی باتوں میں آپ سے مشورہ لیتے تھے۔ آغاز نبوت میں آپ کا گھر اسلامی تحریک کا مرکز تھا۔ عمر فاروق نے یہاں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تھا۔[2] حضرت زید اپنے زمانہ میں مرجع علم و فضل تھے لوگ دور دور سے استفادہ کے لیے آتے تھے ،ایک شخص اقصائے قسطاس سے مسئلہ پوچھنے آیا تھا۔[3] جہاں کہیں جاتے تو شائقین حدیث آپ کی جانب رجوع کرتے ،ایک مرتبہ بصرہ یا مکہ گئے تو حضرت عباسؓ نے درخواست کی کہ فلاں حدیث جس کو آپ نے روایت کیا تھا اس کے سننے کا پھر مشتاق ہوں۔ [4] ایک مرتبہ عطیہ عوفی نے آکر کہا کہ آپ نے میرے داماد سے فلاں حدیث بیان کی تھی میں اس ارادہ سے حاضر ہوا کہ خود آکر آپ سے سنوں انھوں نے حدیث بیان کی تو عطیہ بولے یہ بھی فقرہ تھا فرمایا: انما انا اخبرک کما سمعت [5] بھائی میں نے جو کچھ سنا تھا تم سے بیان کر دیا۔ حدیثوں کے علاوہ جو دعائیں آنحضرتﷺ سے سنی تھیں اوریاد تھیں وہ لوگوں کو بتلاتے تھے، ایک مرتبہ کہا: کان رسول اللہ ﷺ یعلمنا ھن ونحن نعلمکموھن [6] یعنی آنحضرتﷺ جس کو سکھلاتے تھے ہم تم کو سکھلاتے ہیں،لیکن آپ روایت حدیث میں بہت محتاط تھے۔ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں۔ كُنَّا إِذَا جِئْنَاهُ قُلْنَا حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّا قَدْ كَبُرْنَا وَنَسِينَا وَالْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَدِيدٌ [7] یعنی ہم حدیث کی درخواست کرتے تو جواب ملتا کہ میں بوڑھا ہو گیا اور بھول گیا رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرنا بڑا کام ہے۔ ایک مرتبہ چند آدمی سماع حدیث کے لیے حاضر خدمت ہوئے پہلے ان کی تعریف وتوصیف کی کہ اللہ نے آپ کو بڑی فضیلت عطا فرمائی ہے،آپ نے آنحضرتﷺ کا جمال باکمال دیکھا،حدیث سنی ،غزوات میں شریک ہوئے،نماز یں پڑھیں ،اس سے بڑھ کر اورکیا شرف ہو سکتا ہے،فرمایا برادر زاد ے میں بوڑھا ہوا، وہ زمانہ گذر چکا بہت سی باتیں خواب وخیال ہوگئیں، حدیثوں کا بڑا سرمایہ نسیان وسہو کے نذر ہو گیا، اس لیے جو حدیث خود بیان کردوں وہ سن لیا کرو، باقی روایت کی تکلیف دینا تو یہ مناسب نہیں۔ [8] اسی لیے روایتوں کی کل تعداد (70) ہے آنحضرتﷺ اور حضرت علیؓ سے حدیثیں سنیں۔ اس سے روایت کرنے والوں میں حضرت انسؓ بن مالک (کتاب سے روایت کرتے تھے) عبد اللہ بن عباسؓ،ابو الطفیلؓ، ابو عثمان مہندی،عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، عبد خیر ہمدانی ، طاؤس ،نضر بن انسؓ، ابو عمر شیبانی،ابو المنہال، عبد الرحمن بن معطم، ابو اسحاق سبیعی،محمد بن کعب، ابو حمزہ طلحہ، ابن یزید،عبد اللہ بن حارث بصری،قاسم بن عوف، یزید بن جان زیادہ مشہور ہیں۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

اسلام کی روحانی تربیت کا اثر زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں ہے،سورۂ منافقین کی بعض آیات ان کے جوش ملی کی شاہد ہیں۔ ایک غزوہ میں جو نہایت عسرت و تنگی کے زمانہ میں پیش آیا تھا،اپنے چچا کے ساتھ تھے،عبد اللہ بن ابی سرگروہ منافقین اپنی جماعت سے کہہ رہا تھا کہ مہاجرین کی مدد بالکل بند کردو تو وہ تنگ آکر خود بخود مدینہ سے واپس چلے جائیں گے اور میں یہاں سے چل کر ذلیل لوگوں کو شہر بدر کردوں گا، یہ جملے ان کو نہایت ناگوار گذرے،گو ابن ابی ان کا ہم قبیلہ اور رئیس خزرج تھا، مگر انھوں نے اپنے چچا سے شکایت کی ان کی غیرت ایمانی نے واقعہ کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا،آپﷺ نے زید اور ابن ابی کو بلاکر دریافت کیا،وہ اپنی جماعت کے ساتھ آیا اور قسم کھائی کہ میں نے کچھ نہیں کہا، ابن ارقم جھوٹ بولتے ہیں، اس پر تمام انصار بن ارقم کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے رسول اللہ ﷺ سے جھوٹ بیان کیا ،ان کے چچا بھی انصار کے ہم زبان ہو گئے کہ مفت میں رسول اللہ ﷺ کو ناراض کر لیا۔ حضرت زید کو سخت افسوس ہوا، گھر میں جاکر بیٹھ رہے اسی حالت میں نیند آگئی،ابھی بیدار نہ ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ پر سورۂ منافقین کی آیتیں نازل ہوئیں جن میں ان کی تصدیق اور منافقین کا سارا حال مذکور تھا،آپ ﷺ نے آدمی بھیجا کہ زید کو بلالاؤ،خدمت میں پہنچے تو آیتیں سناکر ارشاد ہوا کہ:ان اللہ صدقک یا زید[9]اے زید خدانے تمھاری تصدیق فرمائی۔ امر بالمعروف فرائض میں داخل تھا:مسجد قبا میں کچھ لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے،ادھر سے گذرے تو فرمایا کہ شاید ان کو معلوم نہیں کہ اوا بین کا اس سے بہتر ایک وقت ہے اوروہ جب ہے کہ گرمی کی شدت سے تلوے جلنے لگیں۔ [10] ایک مرتبہ مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت علی ؓ کی شان میں نا ملائم الفاظ استعمال کیے، تو انھوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ مردوں کو برا کہنے سے منع کیا کرتے تھے،علیؓ کا انتقال ہو چکا اب ان کو براکیوں کہتے ہو۔ [11] سنت نبویﷺ کے متبع تھے:جنازہ پر عموما ً4 تکبیریں کہا کرتے تھے، ایک مرتبہ 5 کہیں،ایک شخص نے ہاتھ پکڑ کر پوچھا کہ سہو تو نہیں ہو گیا، فرمایا یہ بھی آنحضرتﷺ کی سنت ہے اس کو میں کیونکر چھوڑدیتا۔ [12] بارگاہ نبوی میں تقرب حاصل تھا،جب کبھی یہ بیمار پڑتے آنحضرتﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لیجاتے۔ ایک مرتبہ آنکھ میں درد اٹھا،آپ عیادت کو تشریف لائے،صحت یابی کے بعد پوچھا کیوں ابن ارقم! اگر یہ باقی رہ جاتا تو کیا کرتے؟ عرض کیا صبر کرتا اوراجر کا امیدوار رہتا،فرمایا اگر ایسا کرتے تو خدا کے سامنے بے گناہ جاتے۔[13] مصیبت میں لوگوں کی ہمدردی و غمگساری کرتے تھے۔ حرہ کے واقعہ میں حضرت انسؓ کا ایک لڑکا اوربعض اعزہ مارے گئے تو ان کو تعزیت کا ایک خط لکھا کہ میں تم کو خدا کی ایک بشارت سناتا ہوں:آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ خدایا!انصار ان کی اولاددر اولاد،ان کی عورتیں اوران کی تمام اولاد کی مغفرت فرما۔ معاصرین کے کمال کا اعتراف نہایت کشادہ دلی سے کرتے تھے اور سوال کرنے والوں کو ان کے پاس بھیج د یتے تھے۔ ایک مرتبہ ابو المنہال بیع صرف کے متعلق ان سے مسئلہ دریافت کرنے آئے ،انھوں نے کہا براءؓ سے پوچھو، وہ مجھ سے بہتر اورزیاد عالم ہیں، جب وہ حضرت براءؓ بن عازب کے پاس گئے تو انھوں نے مسئلہ بتاکر کہا کہ اس کی تصدیق زیدؓ سے کرالینا وہ مجھ سے بہتر اورزیادہ جاننے والے ہیں۔[14] امرا اورحکام سے ملتے رہتے تھے،عہدِ نبوت میں تجارت پر بسر اوقات تھی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (طبقات ابن سعد:6/10)
  2. مکمل اسلامی انسائیکلوپیڈیا،مصنف:مرحوم سید قاسم محمود،ص- 918
  3. (مسند:4/372)
  4. (مسند:4/367)
  5. (مسند:4/398)
  6. (مسند:4/371)
  7. (مسند احمد،باب حدیث زید بن ارقمؓ،حدیث نمبر:18499)
  8. (مسنداحمد:4/366)
  9. (بخاری:4/727،728)
  10. (مسند:367)
  11. (مسند:369)
  12. (مسند:369)
  13. (مسند:368و71)
  14. (مسند:370)