عبد اللہ بن یقطر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عبد اللہ بن یقطر حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضاعی بھائی اور ان کی جانب سے مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفہ میں ان کے سفیر بن کر گئے تھے ۔عبید اللہ بن زیاد کے فوجی افسر حصین بن نمیر کے ہاتھوں قادسیہ کے مقام پر گرفتار ہو گئے ۔حاکم کوفہ کے حکم پر حضرت امام علی اور حضرت امام حسین کو برا بھلا نہ کہنے کی وجہ سے انھیں دار الامارہ سے نیچے گرا دیا گیا۔ بعض نے اس واقعہ کو قیس بن مسہر صیداوی کے بارے میں نقل کیا ہے اور عبد اللہ بن یقطر کو کربلا کے شہدا میں سے شمار کیا ہے۔

نسب[ترمیم]

بنی لیث بن بکر بن عبد مناف بن کنانہ[1] قبیلہ کے عبد اللہ بن یقطر بن ابی عقب لیثی امام حسین(ع) کے رضاعی بھائی ہیں۔اسی وجہ سے ابن حجر نے اسے صحابہ میں سے شمار کیا ہے .[2] بعض انھیں حمیری کہنے کی وجہ سے یمن کے قبیلہ حمیر سے سمجھتے ہیں کہ جو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[3]

عبد اللہ کے باپ کا نام یقطر اور ماں کا نام میمونہ تھا۔بعض کے نزدیک یقطر یمن کے رہنے والے تھے ۔ یقطر پیامبر(ص) کے خادم اور یقطر کی بیوی میمونہ حضرت علی(ع) کے گھر کی خدمات انجام دیتی تھی۔ اسی وجہ سے امام حسین کی نگہداری اس کے ذمے تھی اسی بنا پر یہ امام حسین کی رضاعی ماں کے نام سے مشہور ہو گئی۔[4] علامه حلّی نے خلاصۃ الاقوال[5] نے طبری کے حوالے سے یقطر کی بجائے بقطر ذکر کیا ہے .[6] یوسفی غروی کا بیان ہے کہ ہمارے شیوخ کے نزدیک یقطر درست ہے[7]

بچپن[ترمیم]

بہت سے تاریخی منابع نے انھیں امام حسین کا رضاعی بھائی کہا۔ اس لحاظ سے ان کی پیدائش چوتھی ہجری میں کہی جا سکتی ہے ۔ بعض کے نزدیک آپ حضرت امام حسین سے تین دن پہلے پیدا ہوئے۔[8]

دور حاضر کے بعض مؤلفین ان کے رضاعی بھائی ہونے کو قبول نہیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں :

عبدالله کی والدہ چونکہ امام حسین(ع) کی پرورش کے فرائض سر انجام دیتی تھی اس وجہ سے وہ رضاعی بھائی مشہور ہو گئے۔نیز وہ معتقد ہیں کہ حضرت امام حسین حضرت فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی کا دودھ نہیں پیا ہے [9] بعض نے حمیری ان کا لقب شمار کیا ہے.[10]

سفیر کوفہ[ترمیم]

امام حسین نے مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجنے کے بعد عبدالله بن یقطر کو کوفہ روانہ کیا۔[11]، ان کے کوفہ جانے کا واقعہ حضرت مسلم بن عقیل کے کوفہ سے خط لکھنے کے بعد کا ہے امام نے مسلم کے خط کے جواب میں عبدالله بن یقطر کے ہاتھ خط لکھا اور اپنے کوفہ آنے سے انھیں آگاہ کیا ۔[12] کوفہ جانے کے بارے میں چند قول نقل ہوئے ہیں:

  • مسلم بن عقیل سے پہلے.[13]
  • مسلم کے امام کو خط لکھنے کے بعد[14]
  • مسلم بن عقیل کے ہمراہ گئے۔ جب مسلم نے کوفیوں کی بے وفائی دیکھی تو عبد اللہ کو امام کی طرف روانہ کیا تا کہ وہ امام کو نئے حالات سے آگاہ کرے۔بعض کے مطابق عبد اللہ اسی سفر کے دوران گرفتار ہوئے .[15]
  • حضرت مسلم کے ہمراہ تھے جب لوگوں آپ کی بیعت کی تو مسلم نے انھیں امام کو کوفہ کے لوگوں کی بیعت کی خبر دینے کے لیے مدینہ روانہ کیا.[16]

امام حسین ؑ کا خط[ترمیم]

امام حسین علیہ السلام نے درج ذیل خط عبد اللہ کے ہاتھ کوفیوں کے نام بھجوایا:

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِیمِ
من الحسین بن علی الی إخوانه من المؤمنین و المسلمین، سلام علیکم فإنی أحمد إلیکم اللّه الذی لا إله إلا هو. أما بعد، فإن کتاب مسلم بن عقیل جاءنی یخبرنی فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا، فسألت اللّه أن یحسن لنا الصنیع و أن یثیبکم علی ذلک أعظم الأجر، و قد شخصت إلیکم من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجة یوم الترویة، فإذا قدم علیکم رسولی فاکمشوا أمرکم وجدوا فإنی قادم علیکم فی أیامی هذه إن شاء اللّه، و السلام علیکم و رحمة اللّه و برکاته [17]
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حسین بن علی کی طرف سے مسلمان اور مومنین پر سلام ہو۔ اس خدا کی حمد اور سپاس جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔مسلم بن عقیل کا خط مجھے ملا۔مسلم بن عقیل کے خط سے تمھاری حسن رائے،ہماری مدد اور ہمارے حق کے حصول پر تمھارے اتفاق کی خبر موصول ہوئی۔خداوند کریم سے اپنے دعا گو ہوں کہ وہ اس کام کو نیک قرار دے اور اس کام کی انجام دہی پر تمھیں اجر عظیم سے نوازے۔منگل کے روز بمطابق یوم ترویہ تمھاری جانب عازم سفر ہونگا۔میرا قاصد تمھارے پاس جب پہنچ جائے تو تم ابتدائی کام انجام دو۔ان شاء اللہ میں بھی تم سے جلد ملوں گا۔تم پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔

گرفتاری[ترمیم]

کوفہ جاتے ہوئے حصین بن نمیر[18] یا حصین بن تمیم[19] نے انھیں گرفتار کیا اور عبید اللہ بن زیاد کے پاس حاضر کیا ۔

ابن زیاد نے اس سے کہا کہ تم دار الامارہ پر جاؤ اور امام حسین کو برا بھلا اور اس کے باپ کو جھوٹا کہو۔عبد اللہ دار الامارہ پر جا کر لوگوں سے یو خطاب کیا :

میں حسین بن علی کا بھیجا ہوا ہوں۔اس ابن مرجانہ کے مقابلے میں امام حسین کی مدد کرو.[20]

خط کی برآمدگی[ترمیم]

مالک بن یربوع تمیمی نے عبد اللہ بن یقطر سے مسلم بن عقیل کا لکھا ہوا خط نکال کر عبید اللہ بن زیاد کو دیا جو حسین بن علی کے نام تھا اور لکھا تھا :

میں تمھیں آگاہ کرتا ہوں کہ اہل کوفہ نے تمھاری بیعت کی ہے اور وہ یزید کی طرف کسی قسم کی توجہ نہیں رکھتے ہیں۔جیسے ہی میرا خط ملے آپ فورا وہاں سے کوفہ کے لیے چل پڑیں۔

ابن زیاد نے یہ خط پڑھ کر عبد اللہ بن یقطر کے قتل کا حکم صادر کیا۔[21]

شہادت[ترمیم]

ابن زیاد نے اس کی ہڈیاں توڑ کر اسے دار الامارہ سے نیچے پھینکنے کا حکم دیا۔جب اس کی ہڈیاں توڑیں گئیں تو ایک شخص اسے قتل کرنے کے لیے آگے بڑھا۔لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو اسنے کہا: میں تو اسے آسودہ حال کرنا چاہتا تھا۔[22] طبری نے اس کے قاتل کا نام عبد الملک بن عمیر لخمی‏ لکھا ہے [23] یہ شخص بنو امیہ کے دور حکومت میں فسق و فجور میں شہرت رکھتا تھا اور قضاوت کا عہدہ دار تھا۔[24]

ابن کثیر نے اس داستان کو قیس بن مسہر صیداوی کے لیے نقل کیا ہے ۔[25] اور عبدالله بن یقطر کی شہادت دس محرم کو کربلا میں ذکر کی ہے [26] شیخ مفید نے بھی اپنی کتاب الاختصاص میں اسے شہدائے کربلا میں سے شمار کیا ہے۔[27] قیس بن مسہر کو نامہ رساں کہا ہے [28] اگر چہ الارشاد میں عبدالله بن یقطر کا تذکرہ ضعیف قول کے ساتھ کیاہے۔ [29] جبکہ ابن سعد نے اس کی شہادت عبید اللہ بن زیاد کے کوفے میں آنے کے پہلے دن مسلم بن عقیل سے پہلے لکھی ہے ۔[30]


ابن قتیبہ و ابن مسکویہ کہتے ہیں امام نے قیس بن مسہر کے ذریعے مسلم کو خط بھیجا تھا تھا اور عبد اللہ بن یقطر مسلم کے ساتھ تھا۔ مسلم نے جب اپنی شہادت سے پہلے حالات کو خراب دیکھا تو انھوں نے عبد اللہ بن یقطر کو امام حسین کی طرف روانہ کیا تا کہ امام کو جدید حالات سے آگاہ کر دے لیکن عبد اللہ بن یقطر راستے ہی میں حصین بن تمیم کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے اور عبید اللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیے گئے ۔[31]

امام حسین(ع) وشہادت عبد اللہ[ترمیم]

جب عبدالله بن یقطر کی شہادت کی خبر ملی تو امام حسین(ع) خطبہ ارشاد فرمایا:

ہمارے حمایتیوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ مسلم، ہانی، قیس بن مسہر اور عبدالله بن یقطر شہید ہو گئے ہیں۔نیز امام نے انھیں اپنے ساتھ آنے میں آزاد چھوڑ دیا ۔[32]

بہت سے افراد جو دنیاوی اور اپنے ذاتی میلان کی بنا پر آپ کے ساتھے وہ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے صرف مدینہ سے آنے والے آپ کے ساتھ رہ گئے ۔[33][34]

عبدالله و قیس بن مسہر کے واقعے کی مشابہت[ترمیم]

اکثر تاریخوں میں عبدالله بن یقطر اور قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت ملتی جلتی مذکور ہیں۔لیکن باریک بینی سے دیکھتے ہوئے ان کے درمیان دو فرق موجود ہیں:

امام نے شروع میں عبد اللہ بن یقطر کو ایک راستے سے کوفہ روانہ کیا۔پھر امام نے ایک اور خط قیس بن مسہر کے ہاتھوں ایک دوسرے راستے سے کوفہ بھیجا۔لیکن دونوں گرفتار ہو کر شہید ہو گئے[35] دونوں کی شہادت کیفیت ایک جیسی ہے [36]

اس لحاظ سے

1.عبدالله بن یقطر کو حاجر نامی جگہ سے روانہ کیا اور زبالہ میں اس کی شہادت کی خبر آپکو ملی ۔[37][38][39]

2. قیس بن مسہر را بیضہ سے بھیجا اور اس کی شہادت کی خبر عذیب الہجانات میں آپ تک پہنچی ۔[40]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الخرائج و الجرائح، القطب الراوندی، ج‏2، ص550
  2. الإصابہ، ج‏5، ص 8
  3. موسوعہ التاریخ الإسلامی، یوسفی غروی، ج‏6، ص113
  4. موسوعہ التاریخ الإسلامی، یوسفی غروی، ج‏6، ص113
  5. ذخیرة الدارین، شیرازی، ص493
  6. تاریخ‏ الطبری، ج‏5، ص398
  7. وقعۃ الطف، ص164
  8. ذخیرة الدارین، شیرازی، ص494
  9. إبصار العین، سماوی، ص93
  10. إبصار العین، سماوی، ص93
  11. أنساب ‏الأشراف، ج‏3، ص168(چاپ‏زکار، ج‏3، ص378)
  12. إبصار العین، سماوی، ص93
  13. تحفہ الأبرار، تعریب، ص234
  14. ذخیرة الدارین، شیرازی، ص494
  15. ذخیرة الدارین، شیرازی، ص496
  16. الفتوح/ترجمہ، متن، ص852
  17. الإرشاد، مفید، ج‏2، ص75
  18. أنساب‏‌الأشراف، ج‏3، ص168(چاپ‏ زکار،ج‏3، ص378)
  19. إبصارالعین، سماوی، ص94
  20. أنساب ‏الأشراف، ج‏3، ص168(چاپ‏ زکار، ج‏3، ص378)
  21. بحارالأنوار، المجلسی، ج‏44، ص343
  22. أنساب‏ الأشراف، ج‏3، ص169(چاپ ‏زکار،ج‏3، ص379)
  23. تاریخ‏ الطبری، ج‏5، ص398
  24. تقریب المعارف، حلبی، ص399
  25. البدایہ والنہایہ، ج‏8، ص168
  26. البدایہ والنہایہ، ج‏8، ص189
  27. الاختصاص، مفید، ص83
  28. الإرشاد، مفید ،ج‏2، ص70
  29. الإرشاد، مفید ،ج‏2، ص70
  30. الطبقات‏ الکبری، خامسہ1، ص460
  31. إبصارالعین، سماوی، ص94
  32. إحقاق الحق، الشوشتری، ج‏27، ص159
  33. تاریخ‏ الطبری، ج‏5، ص398
  34. أنساب ‏الأشراف، ج‏3، ص169(چاپ ‏زکار،ج‏3، ص379)
  35. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون ،ج‏1، ص552
  36. پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، ص319
  37. ‏انساب الأشراف، ج‏3، ص167(چاپ‏ زکار،ج‏3، ص378)
  38. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج‏1، ص553
  39. تجارب ‏الأمم،ج‏2، ص60
  40. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج‏1، ص553

منابع[ترمیم]

  • ابن اعثم کوفی، الفتوح، ترجمه‏، مترجم مستوفی‏، سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی‏، تهران‏، 1372ش‏.
  • ابن حجر، احمد بن علی العسقلانی،الإصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ط الأولی، 1415ق.
  • ابن سعد، محمد بن سعد کاتب واقدی، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ط الأولی، 1410/1990.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر بن کثیر، البدایة و النهایة، بیروت، دارالفکر، 1407/1986.
  • ابوحاتم تمیمی، السیرة النبویہ و أخبار الخلفاء، الکتب الثقافیہ، بیروت‏،(1417ق‏).
  • ابومخنف، لوط بن یحیی کوفی، وقعہ الطف، ترجمہ یوسفی غروی، محمدہادی، جامعہ مدرسین،‌ قم، 1417ق، چاپ سوم.
  • بلاذری (م 279)، أحمد بن یحیی بن جابر،کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، ط الأولی، 1417ق.
  • حلبی، ابوالصلاح(447ق)، تقریب المعارف‏، الہادی‏، قم‏،1404ق.‏
  • راوندی، قطب(573ق)، الخرائج و الجرائح‏، مدرسہ الإمام المہدی عجّل الله تعالی فرجہ الشریف‏، قم،‏ 1409ق‏.
  • سماوی، محمد بن طاہر، إبصار العین فی أنصار الحسین علیہ السلام‏، دانشگاه شہید محلاتی‏، قم‏،1419ق‏.
  • شوشتری، قاضی نور الله المرعشی، ‏إحقاق الحق و إزہاق الباطل‏، مکتبہ آیت الله المرعشی النجفی‏،قم‏،1409ق.
  • شیرازی، السید عبد المجید الحسینی الحائری، ذخیرة الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین علیہ السلام و اصحابہ‏، زمزم ہدایت‏، قم‏.
  • طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک ، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ط الثانیہ، 1387/1967.
  • طبری، عماد الدین حسن بن علی، وفات قرن ہفتم، تحفہ الأبرار، تعریب عبد الرحیم مبارک‏، آستان قدس رضوی،‏ مشہد
  • مفید(413 ق)، الإختصاص‏، کنگره شیخ مفید، قم‏، 1413ق.
  • مفید(413 ق)، الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، کنگره شیخ مفید، قم‏،1413ق‏.
  • یوسفی غروی، محمدہادی، موسوعہ التاریخ الإسلامی‏،مجمع اندیشہ اسلامی‏، قم‏، 1417ق‏.

سانچے[ترمیم]