محمد بن ابوبکر
| محمد بن ابوبکر | |||||||
|---|---|---|---|---|---|---|---|
| (عربی میں: محمد بن أبي بكر) | |||||||
| معلومات شخصیت | |||||||
| پیدائش | سنہ 631ء مدینہ منورہ |
||||||
| وفات | سنہ 658ء (26–27 سال) فسطاط |
||||||
| وجہ وفات | قتل | ||||||
| قاتل | معاویہ بن حدیج | ||||||
| شہریت | |||||||
| اولاد | قاسم بن محمد بن ابی بکر | ||||||
| والد | ابوبکر صدیق | ||||||
| والدہ | اسماء بنت عمیس | ||||||
| بہن/بھائی | |||||||
| مناصب | |||||||
| خلافت راشدہ میں والئ مصر (6 ) | |||||||
| برسر عہدہ فروری 658 – جولائی 658 |
|||||||
| |||||||
| عملی زندگی | |||||||
| پیشہ | عسکری قائد ، والی | ||||||
| مادری زبان | عربی | ||||||
| پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
| عسکری خدمات | |||||||
| وفاداری | خلافت راشدہ | ||||||
| شاخ | خلافت راشدہ کی فوج | ||||||
| لڑائیاں اور جنگیں | جنگ جمل ، جنگ صفین | ||||||
| درستی - ترمیم | |||||||
محمد بن ابی بکر ابوبکر صدیق کے بیٹے ان کی والدہ کا نام اسماء بنت عمیس تھا۔ یہی محمد بن عبد اللہ کہلاتے ہیں۔ آپ کی پرورش علی بن ابی طالب کے گھر میں ہوئی۔اگرچہ ان کی پیدائش رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہوئی، لیکن ان کو صحابیت کا شرف اور درجہ حاصل نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ سے فیض حاصل نہ کر پائے۔ اس کے علاوہ اس لیے بھی انھیں صحابی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے مرکزی ذمہ دار تھے اور حدیث کے مطابق عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت منافقت کی علامت ہے اور منافق صحابی نہیں ہوتا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سگے بھائی تھے لیکن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے اس بھائی سے شدید ناراض اور ان کے مخالف رہیں۔
ولادت
[ترمیم]محمد بن ابوبکر کی ولادت 25 ذوالقعدہ 10ھ کو ذوالحلیفہ میں ہوئی۔ سنن نسائی میں ان کی ولادت کا ذکر ہے۔
- ’’ابوبکر صدیق حجۃ الوداع کے موقع پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کرنے کے واسطے نکلے ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس بھی تھیں جس وقت وہ مقام ذوالحلیفہ پہنچ گئے تو اسماء کے پیٹ سے محمد بن ابوبکر کی ولادت ہوئی اس پر ابوبکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بتایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ان کو حکم دو کہ غسل کرنے کے بعد احرام باندھ لیں اور حج کی نیت کر لیں پھر حج بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام کام کریں جو دوسرے لوگ کرتے ہیں‘‘۔[1]
کنیت
[ترمیم]ام المومنین عائشہ صدیقہ نے ان کی کنیت ابو القاسم رکھی اور اسی نام سے صحابہ کے دور میں پکارا کرتی تھیں بعد میں جب ان کے ہاں بیٹا ہوا تو اس کا نام قاسم رکھا۔
نسب
[ترمیم]محمد بن عبد الله بن عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب ابن لؤی القرشی التيمی۔
ربیب علی
[ترمیم]جب ان کی والدہ اسماء بنت عمیس نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو محمد بن ابوبکر ان کے ربیب (وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے ) ہو گئے یہ یحی بن علی اور عبد اللہ بن جعفر کے اخیافی بھائی تھے ۔
انجام
[ترمیم]قتل عثمان رضی اللہ علیہ کے بعد علی المرتضی نے 16 رمضان 36 ہجری کو مصر کا والی مقرر کیا۔ علی المرتضی کی شہادت کے بعد عمرو بن العاص نے مصر پر حملہ کیا تو محمد بن ابی بکر کو شکست ہوئی تو انھوں نے ایک غار میں پناہ لی اور پکڑے جانے کے بعد بے دردی سے شہید کر دیا گیا اور ان کی میت کو ایک مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص میں ان کے ساتھ جو ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی نشانی تھی۔
محاصرہ عثمان
[ترمیم]محمد بن ابوبکر ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے عثمان غنی کی پالیسیوں اور کار کردگی کی مخالفت کرتے ہوئے ان کا محاصرہ کیا۔
جناب حسن المجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ سب سے پہلے محمد بن ابوبکر عثمان کے گھر میں داخل ہوئے اور چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اور بزرگ صحابی اور خلیفہ وقت کی عزت تار تار کرتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ کی داڑھی کو پکڑا اور کہا تم نے اللہ کے دین کو کیوں بگاڑا ہے؟ اور سنت رسول کو کیوں برباد کیا ہے؟ تو عثمان نے فرمایا جس طرح تم نے میری داڑھی کو پکڑا ہے اس طرح ابوبکر صدیق پکڑنے والے نہ تھے پس وہ یہ سن کر مارے شرمندگی کے باہر نکل گیا لیکن ان کے ساتھ آئے خوارج نے خلیفہ المسلمین دوہرے داماد رسولﷺ کا بے دردی سے قتل کیا۔[2]
جنگ جمل اور صفین
[ترمیم]جنگ جمل اور صفین میں خلیفہ چہارم علی المرتضی کے ساتھ رہے ایک روایت میں ہے۔
عبد اللہ بن بدیل، جنگ جمل کے دن، ام المؤمنین عائشہ کے پاس پہنچے وہ ہودج میں بیٹھی ہوئی تھیں اور عرض کیا اے ام المومنین آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو یاد ہے کہ میں آپ کے پاس اس دن حاضر ہوا تھا جس دن عثمان غنی کو شہید کیا گیا تھا۔ میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ عثمان شہید ہو گئے ہیں اب آپ مجھے کیا حکم دیتی ہیں تو آپ نے فرمایا تھا کہ علی کو لازم پکڑو۔ اللہ کی قسم وہ بدلے نہیں، پس عائشہ خاموش ہوگئیں پھر یہی بات عبد اللہ بن بدیل نے تین دفعہ دہرائی پس وہ خاموش رہیں۔ عبد اللہ بن بدیل نے اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کا حکم دیا تو اونٹنی کی کانچیں کاٹ دی گئیں پس میں اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابوبکر اترے اور ان کے ہودج کو اٹھا کر علی کے سامنے رکھ دیا۔ پھر ان کو علی کے حکم سے عبد اللہ بن بدیل کے گھر میں داخل کر دیا۔[3]
حوالہ جات
[ترمیم]5. ! الوقائع والحوادث جلد اول صفہ 210
6. البدایہ والنهایہ (ج 7، ص 313‑314)
7. شرح نہج البلاغہ (ج 6، ص 94)
سانچے
[ترمیم]- 631ء کی پیدائشیں
- مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والی شخصیات
- 658ء کی وفیات
- صحابہ
- تاریخ عرب
- ساتویں صدی کی عرب شخصیات
- سنی اسلام کے نقاد
- شیعہ کے محبوب صحابہ
- قرون وسطی میں مصر
- مقتول سیاست دان
- سنی حکمران
- خلافت راشدہ میں مصر کے والی
- خاندان ابوبکر
- ساتویں صدی کی مصری شخصیات
- صحابی شہید
- شیعہ اسلام میں محبوب مسلم شخصیات
- شہدا
- اصحاب علی
- جنگ جمل میں امام علی کے ساتھی
- جنگ صفین میں امام علی کے ساتھی
- خلفائے راشدین کے بچے
- خلفا کے بیٹے
- تابعین
- 10ھ کی پیدائشیں
- 38ھ کی وفیات
- قاہرہ میں وفات پانے والی شخصیات
- مکی شخصیات
