شیبہ بن عثمان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شیبہ بن عثمان
معلومات شخصیت

شیبہ بن عثمان صحابی رسول اکثر روایات میں راوی اور امیر حج سے بھی شہرت ہے۔

نام ونسب[ترمیم]

شیبہ نام، ابو عثمان کنیت، نسب نامہ یہ ہے، شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ بن عبدالعزیٰ ابن عثمان بن عبد دار بن قصی قرشی عبدری جہمی، خانہ کعبہ کی کلید برداری ان ہی کے گھر میں تھی، ان کے دادا اور عثمان کے والد طلحہ احد میں مشرکین کے ساتھ صف آرا تھے اورحضرت علیؓ کے مقابلہ میں آئے؛لیکن ذو الفقار حیدری سے نہ بچ سکے، زمانۂ جاہلیت میں خانہ کعبہ کی کلید برداری کا منصب طلحہ کے متعلق تھا۔

اسلام[ترمیم]

ان کے اسلام کے بارے میں دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ فتحِ مکہ میں مشرف باسلام ہوئے، دوسری یہ کہ غزوۂ حنین میں ،لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ خانہ کعبہ کی تطہیر کے بعد، آنحضرتﷺ نے اس کی کنجی شیبہ اور ان کے چچا زاد بھائی عثمان بن طلحہ کو واپس کی اور فرمایا کہ یہ کنجی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قیامت تک تمھارے پاس رہے گی۔ جو شخص اس کو تم سے چھینے گا وہ ظالم ہوگا۔ [1] غزوۂ حنین میں اسلام والی روایت کا واقعہ یہ ہے کہ شیبہ بھی اپنے اہلِ خاندان کی طرح آنحضرتﷺ کے سخت دشمن تھے، حنین کے دن یہ آنحضرتﷺ کے ساتھ بد نیتی سے نکلے اور آپ ﷺ کو غافل پاکر قتل کرنا چاہا، آپ ﷺ ہوشیار ہو گئے اورانہیں قریب بلایا، اس واقعہ سے شیبہ بہت مرعوب اورخوف زدہ ہو گئے،آنحضرتﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مار کر فرمایا اب تم سے شیطان دور ہو گیا، اسلام کی صداقت کے لیے یہ واقعہ کافی تھا کہ ایک شخص جان لینے کے لیے بڑھتا ہے اوررسول اللہ ﷺ اس کی نیت تاڑ جاتے ہیں اور نرم الفاظ میں مخاطب فرماتے ہیں ؛چنانچہ شیبہ اس وقت مشرف باسلام ہو گئے۔[2]

غزوۂ حنین[ترمیم]

بہر حال حنین میں شیبہ اسلام کی حالت میں شریک ہوئے اوربڑے ثبات واستقلال سے لڑے، جب مسلمانوں کی عارضی شکست میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے،تو اس وقت بھی شیبہ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔[3] عمرفاروق کے زمانہ میں ایک مرتبہ وہ اورشیبہ خانہ کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عمر نے خانہ کعبہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس گھر میں جس قدر سونا اورچاندی ہے، سب کو مسلمانوں میں تقسیم کردوں گا، انھوں نے کہا تم کو اس کا کیا حق ہے،جب کہ تمھارے دو ساتھیوں (آنحضرتﷺ اور ابوبکر) نے ایسا نہیں کیا، ان کے استدلال پر سیدناعمر نے فرمایا میں ان ہی دونوں کی اقتدا کرتا ہوں[4]

امارتِ حج[ترمیم]

شیبہ بہت دنوں تک زندہ رہے، لیکن کسی سلسلہ میں نظر نہیں آتے، حضرت علی اورامیر معاویہ کے زمانہ کا یہ واقعہ ملتا ہے کہ 39 ھ میں جب ان دونوں میں کشمکش جاری تھی تو حضرت علی نے قثم بن عباس کو اپنی جانب سے امیر الحج بنا کر بھیجا اور امیر معاویہ نے یزید بن شجرہ کو، مکہ میں دونوں میں امارت کے بارہ میں اختلاف ہوا، اس وقت شیبہ موجود تھے،حضرت ابو سعید خدری نے جھگڑاچکا نے کے لیے ان کو امیر بنایا، ان کی امارت پر فریقین متفق ہو گئے؛چنانچہ 39ھ کا حج ان ہی کی امارت میں ہوا۔[5]

وفات[ترمیم]

فضل وکمال کے آخر عہد خلافت 59ھ میں وفات پائی، دو لڑکے مصعب اور عبد اللہ یاد گار چھوڑے۔[6]

فضل وکمال[ترمیم]

فضل وکمال کے لحاظ سے شیبہ کا کوئی خاص پایہ نہیں ہے، تاہم حدیث کی کتابیں ان کی مرویات سے خالی نہیں ہیں، ان سے مصعب بن شیبہ نافع بن مصعب ،ابو وائل ،عکرمہ اور عبد الرحمن بن زجاج وغیرہ نے روایتیں کی ہیں، علامہ ابن عبد البر انھیں فضلائے مؤلفۃ القلوب میں لکھتے ہیں۔ [7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. استیعاب:2/609
  2. اسد الغابہ:3/7
  3. استیعاب:2/609
  4. بخاری
  5. اصابہ:2/216
  6. تہذیب الکمال:168
  7. (استیعاب:2/7609)