عتبہ بن غزوان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عتبہ بن غزوان
(عربی میں: عُتبة بن غَزْوان المازني ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 584ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 638ء (53–54 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فوجی افسر،  والی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر،  غزوہ احد،  غزوہ خندق،  جنگ یمامہ،  ایران کی اسلامی فتح  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عتبہ بن غزوان صحابی تھے جن کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدا ہی میں مشرف باسلام ہو گئے تھے ۔حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں آپ شریک تھے۔پھر آپ نے مدینہ منورہ کی ہجرت میں شامل ہوئے ۔غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شانۂ بشانہ لڑتے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانہ خلافت سن 17ھ میں آپ نے وفات پائی ۔

نام و نسب[ترمیم]

عتبہ نام ، ابو عبد اللہ کنیت ، غزوان بن جابر المازنی کے لختِ جگر تھے، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عتبہ بن غزوان بن جابر بن وہب بن نسیب بن زید بن مالک بن الحارث بن مازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن عیلان بن مضر،ایامِ جاہلیت میں ان کا خاندان بنی نوفل بن عبد مناف کا حلیف تھا۔ نسب نامہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اٹھارہویں پشت میں مضر بن نزار سے جا ملتا ہے۔ [1][2]

اسلام[ترمیم]

عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ ان بزرگوں میں ہیں جنھوں نے ابتدا ہی میں داعیِ توحید کو لبیک کہا تھا، [3] چنانچہ ایک دفعہ انھوں نے اثنائے تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ سابقین اسلام میں ان کا ساتواں نمبر ہے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس وقت تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا حلقہ اس سے زیادہ وسیع ہو چکا تھا۔ [4]

ہجرت[ترمیم]

کفار مکہ کی ستم آرائیوں سے تنگ آکر ملک حبش کی دوسری ہجرت میں شریک ہوئے ؛لیکن کچھ عرصہ کے بعد پھر واپس چلے آئے، آنحضرت اس وقت تک مکہ میں موجود تھے۔ [5] رسول اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور کفرو اسلام میں باہم فوجی چھیڑ چھاڑ کا آغاز ہواتو یہ اور حضرت مقدادؓ بن اسود ایک قریشی متجسس دستہ فوج کے ہمراہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ،عکرمہ بن ابی جہل اس کا امیر عسکر تھا، راہ میں مجاہدین اسلام کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہوئی، ۔عبیدہ بن حارثؓ اس کے افسر تھے، یہ دونوں موقع پاکر مسلمانوں سے مل گئے اور مدینہ پہنچ کر حضرت عبداللہ بن سلمہ عجلانیؓ کے مہمان ہوئے، یہاں حضرت عتبہؓ اور حضرت ابودجانہ انصاریؓ میں باہم مواخات ہوئی۔ [6] [7]

غزوات میں شرکت[ترمیم]

غزوہ بدر ، غزوہ احد اور دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہے۔ حضرت عمر کے عہد میں حیرہ فتح کیا۔ تیراندازی کے لحاظ سے ان کا شمار کاملین فن میں تھا، غزوہ بدر ،غزوہ اُحد اور ان تمام معرکوں میں جن میں رسول اللہ نے خود بنفسِ نفیس حصہ لیا، شجاعت و پامردی کے ساتھ سرگرمِ کارزار تھے۔ 14ھ میں خلیفہ دوم نے ان کو بندرگاہ ابلہ بیسان اور اس کے ملحقہ مقامات کی فتح پر مامور فرمایا،فرمان کے الفاظ یہ تھے: "خدا کی نوازش وبرکت پر اعتماد کرکے عرب کے انتہائی حدود اور مملکتِ عجم کے قریب ترین حصہ کی طرف اپنے ساتھیوں کو لے کر روانہ ہوجاؤ، جہاں تک ممکن ہو تقویٰ کو اپنا شعار بناؤ اور خیال رکھو کہ تم دشمن کی سر زمین میں جا رہے ہو، مجھے امید ہے کہ خدا تمھاری مدد فرمائے گا۔ میں نے علا ابن الحضرمی کو لکھا ہے کہ عرفجہ بن ہرثمہ کو بھیج کر تمھاری مدد کریں وہ دشمن کے مقابلہ میں ایک نہایت سرگرم مجاہد اور صاحب تدبیر شخص ہیں تم ان کو اپنا مشیر بناؤ اور اہل عجم کو خدا کی دعوت دو، جو قبول کرے اس کو پناہ دو جو اس سے انکار کرے وہ محکومانہ عاجزی کے ساتھ جزیہ دے ورنہ تلوار سے فیصلہ کرو، راہ میں جن عربی قبائل سے گذرو ان کو جہاد اوردشمن سے لڑنے پر برانگیختہ کرو اور ہر حال میں خدا سے ڈرتے رہو۔[8] عتبہ بن غزوان نے حسبِ فرمان اس مہم کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا، یعنی دریائے دجلہ کا تمام ساحلی علاقہ جو ابلہ ،ابرقباذ اور میسان وغیرہ جیسے اہم مقامات پر مشتمل تھا، اسلام کے زیر نگیں کر دیا۔[9] [10]

تعمیر بصرہ[ترمیم]

اسی سال ان کو بندرگاہ ابلہ کے قریب جہاں خلیج فارس کے ذریعہ سے ہندوستان وفارس کے جہازات لنگر کرتے تھے، ایک شہر بسانے کا حکم دیا گیا، حضرت عتبہؓ بن غزوان آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ اس کف دست میدان میں تشریف لائے اور شہر کی داغ بیل ڈالی، ہر قبیلہ کے لیے ایک ایک محلہ مخصوص کر دیا، [11] اورحضرت محجن بن الاورعؓ کو جامع مسجد کی تعمیر پر مامور فرمایا، عمارتیں اولاً گھاس پھوس سے چھائی گئی تھیں، چنانچہ جامع مسجد کی عمارت بھی بانس اورپھوس سے بنائی گئی تھی۔ [12] [4][13][14]

ولایت[ترمیم]

حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس نئے شہر کے سب سے پہلے والی مقرر ہوئے اور چھ مہینے تک نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ فرائض منصبی انجام دیتے رہے، [15] لیکن زہد وبے نیازی نے اس سے کنارہ کش ہونے پر آمادہ کر دیا، 15ھ میں حضرت مجاشع بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جانشین بنا کر فرات کی طرف فوج کشی کاحکم دے دیا اورحضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو امامت کی خدمت سپرد کرکے حج کے خیال سے مکہ معظمہ تشریف لائے، یہاں امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ موجود تھے، ان کی خدمت میں اپنا استعفا پیش کیا، لیکن انھوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار فرمایا اور بصرہ واپس جانے کی ہدایت کی۔ [16] [17]

وفات[ترمیم]

حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 57 برس کی عمر میں انتقال کیا۔( متوفی 17ھ638ء ) [4][10][18][14]

اخلاق[ترمیم]

ان کا چمن اخلاق گل ہائے رنگا رنگ سے آراستہ ہے، تقویٰ ،زہد،جفاکشی اور خاکساری اس باغ کے سب سے خوش آیندہ پھول ہیں، فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت رسولِ خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لبیک کہا تھا جب کہ صرف چھ آدمیوں کو اس کی توفیق عطا ہوئی تھی اور عسرت و ناداری کے باعث درخت کے پتوں پر گزارہ کرنا پڑتا تھا جس سے آنتوں میں زخم پڑجاتے تھے۔ [19] زہد وبے نیازی نے منصب امارت جیسے پر فخر اعزاز سے متنفر کر دیا تھا، تکبرو غرور سے قطعی نفرت تھی،فرمایا کرتے تھے میں خداسے پناہ مانگتا ہوں کہ لوگوں کی نظروں میں حقیر رہنے کے باوجود اپنے آپ کو بڑا سمجھوں [20]

خطبہ[ترمیم]

آپ کا ایک خطبہ محدثین کے پاس محفوظ ہے۔ "صاحبو! دنیا رفتنی و گذشتنی ہے ، اس کا بڑا حصہ گذرچکا ہے اوراب صرف ریزش باقی ہے، جس طرح کسی ظرف کا پانی پھینک دینے کے بعدآخر میں کچھ دیر تک قطروں کا سلسلہ قائم رہتا ہے، ہاں تم یقیناً اس دنیا سے ایک جگہ منتقل ہونے والے ہو جس کو کبھی زوال نہیں تو پھر کیوں نہیں بہتر سے بہتر تحائف اپنے ساتھ لے جاتے ہو؟ مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ اگر پتھر کا کوئی ٹکڑا جہنم کے کنارہ سے لڑھکایا جائے تو ستر برس میں بھی وہ اس کی گہرائی کو طے نہیں کر سکتا، لیکن خدا کی قسم تم اس کو بھردو گے، کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو؟ خدا کی قسم مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ جنت کے دروازے اس قدر وسیع ہوں گے کہ چالیس سال میں اس کی مسافت طے ہو سکتی ہے، لیکن ایک دن ایسا بھی آئے گا جب کہ ان پر سخت ازدحام ہوگا، میں جب ایمان لایا تو رسول اللہ کے ساتھ صرف چھ آدمی تھے عسرت و ناداری کی یہ حالت تھی کہ درخت کے پتوں پر گزارہ تھا، جس سے آنتوں میں زخم پڑ جاتے تھے، مجھے ایک دفعہ ایک چادر مل گئی جس کو چاک کرکے میں نے اور سعد نے تہ بند بنایا لیکن ایک دن وہ بھی آیا جب ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی شہر کا امیر ہے، میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ خدا کے نزدیک حقیر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بڑا سمجھوں ،نبوت ختم ہو چکی ہے، انجام کار بادشاہت قائم ہو گی اور تم عنقریب ہمارے بعد امیروں کو آزماؤ گے۔[21] .[13][18]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الخطيب البغدادي۔ تاريخ بغداد۔ الأول۔ دار الكتب المعرفية۔ صفحہ: 155 
  2. أبو نعيم الأصبهاني (1998)۔ معرفة الصحابة۔ الرابع (الأولى ایڈیشن)۔ دار الوطن۔ صفحہ: 2126 
  3. مستدرک حاکم جلد3 :260
  4. ^ ا ب پ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» عتبة بن غزوان آرکائیو شدہ 2017-12-03 بذریعہ وے بیک مشین
  5. (اسد الغابہ:3/364)
  6. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث : 69)۔
  7. الطبقات الكبرى لابن سعد - عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ (2) آرکائیو شدہ 2016-12-27 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  8. اسد الغابہ :3/364
  9. یعقوبی :2/163
  10. ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ (1) آرکائیو شدہ 2016-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  11. (فتوح البلدان بلاذری ذکر تعمیر البصرہ)
  12. (اسد الغابہ :3/364)
  13. ^ ا ب الإصابة في تمييز الصحابة - عتبة بن غزوان آرکائیو شدہ 2016-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  14. ^ ا ب تهذيب الكمال للمزي» عتبة بن غزوان بن جَابِر بن وهيب آرکائیو شدہ 2018-01-07 بذریعہ وے بیک مشین
  15. (طبقات ابن سعد قسم اول جز 3:69)
  16. (اسد الغابہ:3/364)
  17. عتبة بن غزوان المازني آرکائیو شدہ 2019-03-08 بذریعہ وے بیک مشین
  18. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة - عتبة بن غزوان بن جابر آرکائیو شدہ 2016-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  19. (مسند احمد بن حنبل:4/174)
  20. (اسدالغابہ:3/365)
  21. مسند ابن حنبل:4/174