ابو قحافہ
ابو قحافہ | |
---|---|
عثمان بن عامر | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جولائی 542ء مکہ |
وفات | 1 اگست 635ء (93 سال) مکہ |
طبی کیفیت | اندھا پن |
زوجہ | سلمى بنت صخر |
اولاد | ابوبکر صدیق |
درستی - ترمیم |
عثمان بن عامر ابو بکر صدیق کے والد کا نام ہے عثمان ابو قحافہ بھی کہا جاتا ہے ان کی کنیت ابوقحافہ تھی اورتعلق قبیلہ بنو تیم سے تھا۔
نام و نسب
[ترمیم]ان کا نام عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب بن لؤی ہے۔ ان کی والدہ قتيلہ بنت أداة بن رياح بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدي بن كعب ہیں۔[1]
قبول اسلام
[ترمیم]سیدنا اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر مقام ذی طوی میں ٹھہرے ہوئے تھے ، اس دن ابو قحافہ نے جو نابینا تھے ، اپنی چھوٹی بیٹی سے کہا: اے بیٹی مجھے جبل ابی قبیس پر لے چلو۔ جب ابو قحافہ جبل ابی قبيس پر پہنچے تو پوچھا: اے بیٹی تم اس وقت کیا دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا: میں لوگوں کا ہجوم دیکھ رہی ہوں۔ ابو قحافہ نے کہا: یہ گھڑ سوار ہیں۔ لڑکی نے کہا: ایک آدمی اس ہجوم کے آگے آگے دوڑ رہا ہے۔ ابو قحافہ کہنے لگے: بیٹی! یہ گھڑ سواروں کا قائد ہے۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی نے کہا: سارے گھڑ سوار بکھر گئے ہیں۔ ابو قحافہ نے کہا: جب گھڑ سوار آگے بڑھنے لگے تو مجھے فوراً گھر لے چلنا۔ لڑکی انھیں لے کر گھر کی طرف چل دی۔ مگر گھڑ سواروں نے ابو قحافہ کو ان کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی پا لیا۔ لڑکی کے گلے میں چاندی کا ایک ہار تھا جسے ایک آدمی نے اتار لیا۔ رسول اللہ مکہ میں داخل ہوئے تو مسجد حرام میں جلوہ افروز ہوئے۔ ابوبکر صدیق اپنے والد ماجد ابو قحافہ کو لے کر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا فرمایا: تم نے انھیں گھر ہی میں کیوں نہ رہنے دیا؟ میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔ ابو بکر صدیق کہنے لگے: اے للہ کے رسول میرے والد اس بات کے مستحق تھے کہ وہ آپ کی خدمت میں چل کر آتے بجائے اس کے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جاتے۔ رسول اللہ نے انھیں اپنے سامنے بیٹھا لیا۔ پھر آپ نے اپنا دست مبارک ان کے سینے پر پھیرا اور فرمایا: مسلمان ہو جائیے۔ ابو قحافہ فوراً مسلمان ہو گئے۔ سیدنا اسماء کہتی ہیں کہ جب میرے والد ابو بکر اپنے والد ابو قحافہ کو رسول اللہ کے پاس لے کر گئے تو ان کے سر کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ نے ابو بکر سے فرمایا: ان کے بالوں کا رنگ بدل دیجیے۔ پھر سیدنا ابو بکر اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر کھڑے ہو گئے اور پوچھنے لگے: میں اللہ تعالی اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میری بہن کا ہار کس کے پاس ہے؟ کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا تو سیدنا ابو بکر نے اپنی بہن سے کہا: اے میری بہن! اپنے ہار کے بدلے ثواب کی امید رکھ کیونکہ آج امانتوں پر لوگوں کی توجہ نہیں یعنی جیش کی کثرت اور لوگوں کے انتشار کی وجہ سے کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔[2]
حالات زندگی
[ترمیم]ابو قحافہ عثمان بن عمرو شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے ابتدا جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ہے وہ اسلام کی تحریک کو بازیچہ اطفال سمجھتے تھے چنانچہ سیدنا عبد اللہ کا بیان ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو میں (عبد اللہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں ابو بکر کے گھر آیا اور وہاں ابوقحافہ موجود تھے انھوں نے سیدنا علی بن ابی طالب کو ایک طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نے میرے لڑکے کو بھی خراب کر دیا ہے۔[3]
خاص اعزاز
[ترمیم]ابوبکر نے ان کو حضور ﷺ کے سامنے بٹھا دیا، آپﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا " اسلام قبول کرلو" چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے،[4] ابوبکرانہیں مسلمان بنا نے کے لیے لے کر گئے قبیلہ بنو تیم کو اعزاز ایک خاص اعزاز حاصل ہو گیا،یہ وہ گھرانہ بن گیا جس کی چار پشتیں مقام صحابیت پر فائز ہوئیں یعنی ان کے صاحبزادے ابو بکرصدیق(بیٹے) اور ان کے بیٹے عبد اللہ(پوتے)، عبد الرحمن(پوتے) اور محمد(پڑپوتے) جب ابو قحافہ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ نے ابوبکر کو مبارکباد دی اس پر انھوں نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے حق دیکر بھیجا اگر ابو طالب مسلمان ہوتے تو مجھے اپنے باپ سے زیادہ خوشی ہوتی[5]
وفات
[ترمیم]محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے فرزند ارجمند سیدنا ابو بکر کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے آخر عمر میں بہت ضعیف ہو گئے تھے اور آنکھوں کی بصارت چلی گئی تھی۔14 محرم الحرام 14ھ میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔ [6]