معقل بن یسار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

معقل بن یسار ایک صحابی محمد ﷺ ہیں۔ انھیں معقل بن سنان بھی کہا جاتا ہے[1]

نام ونسب[ترمیم]

معقل نام، ابو عبد اللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،معقل بن یسار بن عبد اللہ بن صغیر بن حراق بن لای بن کعب بن عبد بن ثور بن ہدمہ بن لاطم بن عثمان بن عمرو بن اوبن طانجہ بن الیاس بن مضر

اسلام[ترمیم]

معقل صلح حدیبیہ کے قبل مشرف باسلام ہوئے، صلح حدیبیہ میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے اورجس وقت آپ لوگوں سے موت پر بیعت (بیعت رضوان) لے رہے تھے اس وقت معقل ایک شاخ سے آپ کے اوپر سایہ کیے ہوئے کھڑے تھے۔[2]

عہد قضا[ترمیم]

آنحضرتﷺ نے ان کو قبیلہ مزنیہ کا قاضی بنانا چاہا،انھوں نے معذرت کی کہ مجھ میں اس ذمہ داری کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں ہے، آپ نے دوبارہ فرمایا نہیں تم ان کے فیصلے کیا کرو، انھوں نے پھر معذرت کی کہ میں اچھی طرح فیصلہ نہیں کر سکتا،تیسری مرتبہ پھر آپ نے باصرار فرمایانہیں تم فیصلہ کرو ،خدا قاضی کے ساتھ اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ عمداً ظلم و ناانصافی نہیں کرتا۔[3]

عہد فاروقی[ترمیم]

معقل کی قوت فیصلہ کی وجہ سے عمر انھیں بہت مانتے تھے،مہما ت امور میں ان سے مشورہ کرتے اوربڑی بڑی خدمتیں ان کے سپرد کرتے،عراق کی فوج کشی کے سلسلہ میں 20ھ میں جب یزد گرد نے مروان شاہ کو ایک لشکر جرار کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بھیجا، تو عمرفاروق نے اکابر صحابہ سے مشورہ لیا،اس مشورہ میں معقل بھی تھے اسی زمانہ میں عمرفاروق نے ابو موسیٰ اشعری کو بصرہ میں ایک نہر کھدوانے کا حکم دیا، اورفرمایا تیاری کے بعد معقل کے ہاتھوں سے اس میں پانی جاری کرایا جائے(فتوح البلدان:366) امیر معاویہ کے زمانہ میں جب زیاد نے اس نہر کو دوبارہ درست کرایا تو تبرکاً معقل ہی کے ہاتھوں اس کا افتتاح کرایا۔[4]

وفات[ترمیم]

امیر معاویہ کے زمانہ میں بیمار پڑے، عبید اللہ بن زیاد ان کی عیادت کو آیا، اس سے فرمایا میرا وقت آخر ہے،اگر زندگی کی امید ہوتی تو ایک حدیث جس کو میں نے ابھی تک نہیں بیان کیا ہے نہ بیان کرتا، لیکن اب وقت آخر ہے،اس لیے بیان کیے دیتا ہوں میں نے آنحضرتﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ " جو شخص رعایا کی گلہ بانی کرتا ہے،اگر اس نے رعایا کہ خیانت کی اوراسی حالت میں مرگیا تو خدا اس پر جنت حرام کر دے گا۔[5] اس مرض میں وفات پائی، ساٹھ اور ستر کے درمیان عمر تھی۔

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت معقلؓ بڑے صاحبِ کمال صحابی تھے، ان کے کمال کی سب سے بڑی سند یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے انھیں باصرار قبیلہ مزنیہ کا عہدۂ قضا سپرد فرمایا تھا بہت سے ایسے مسائل جن کے متعلق کبار صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے کوئی فیصلہ نہ سنا تھا، معقل کے علم میں تھے،ایک مرتبہ کسی شخص نے عبد اللہ ؓبن مسعود سے پوچھا کہ ایک شخص نے بلا تعیین مہر ایک عورت سے شادی کی اور بلا خلوت صحیحہ مرگیا، ایسی صورت میں عورت کو ترکہ اورمہر ملے گایا نہیں، انھوں نے (غالبا قیاس سے) جواب دیا بلا شبہ اس قسم کی منکوحہ کو اس کے جیسی اوصاف والی عورت کے برابر مہر ملے گا، میراث بھی پائیگی اورعدت بھی پوری کرنی ہوگی،معقل بھی موجود تھے،انھوں نے کہا آنحضرتﷺ نے یربوع بنت داشق کے بارہ میں یہی فیصلہ فرمایا تھا،عبد اللہ بن مسعودؓ کو آپ کا یہ فیصلہ معلوم نہ تھا، اس لیے اپنے فیصلہ کے توارد پر بہت محظوظ ہوئے۔ [6] ان سے چونتیس حدیثیں مروی ہیں ان میں ایک متفق علیہ ہے اورایک میں امام بخاری دو میں امام مسلم منفرد ہیں [7] ان کے رواۃ کا دائرہ خاصہ وسیع ہے،عمران بن حصین،معاویہ ابن قرہ ،علقمہ بن عبد اللہ، حکم بن اعرج، عمرو بن لیمون، حسن بصری، نافع بن ابی نافع، ابی الملیح ،مسلم بن مخراق، عیاض اورابو خالد وغیرہ نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ [8]

غیرت وحمیت[ترمیم]

معقل نہایت غیور اورباحمیت آدمی تھے،شادی اورطلاق عربوں میں معمولی بات تھی مگر ان کی غیرت طلاق کو پسند نہ کرتی تھی اور وہ نہایت مکروہ سمجھتے تھے، انھوں نے ایک شخص کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کی اس نے چند دنوں کے بعد طلاق دیدی اورعدت گذرنے کے بعد پھر نکاح کا پیام دیا، معقل نے کہا میں نے تمھارے ساتھ شادی کرکے تمھاری عزت افزائی کی تھی،تم نے طلاق دیدی، اب کبھی تمھارے ساتھ شادی نہ کروں گا ان کے انکار پر یہ حکم نازل ہوا۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ [9] ترجمہ:جب تم عورتوں کو طلاق دو اوروہ اپنی عدت پوری کرچکیں تو ان کو نہ روکو اس حکم ربانی کے سامنے غیرت مندی اورخوداری کے تمام جذبات سرد پڑ گئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ،مجھے کوئی عذر نہیں اور دوبارہ اس شخص کے ساتھ بہن کی شادی کردی۔ [10]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 758
  2. مسند احمد بن حنبل:5/25
  3. مستدرک حاکم:3/577
  4. طبقات ابن سعد، محمد بن سعد، جلد 4، ص- 37
  5. مسلم ،کتاب الایمان باب استحقاق الوالی الغاش لرعیۃ النار
  6. (اسد الغابہ:4/357)
  7. (تہذیب الکمال:383)
  8. (تہذیب التہذیب :10/235)
  9. (القرۃ:232)
  10. (بخاری کتاب النکاح ارباب من قال النکاح الابولی)