ابو طلحہ انصاری
ابو طلحہ انصاری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 585 |
تاریخ وفات | سنہ 654 (68–69 سال) |
زوجہ | ام سلیم |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم ![]() |
ابوطلحہ انصاری ان کا نام زیدبن سہل بن اسود بن حرام انصاری نجاری تھا یہ بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں موجودتھے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن جراح اورابوطلحہ میں سلسلۂ مواخات قائم فرمادیا،یہ سب معرکوں میں شریک رہے،یہ بہترین تیراندازبہادرسپاہی تھے،غزوۂ احد میں ان کی کارگزاری قابلِ تعریف رہی،وہ حضورِاکرم کا بچاؤ اپنے آپ کو ڈھال بنا کر کرتے اور آپ کے آگے کھڑے ہوکرتیراندازی کرتے،اوراپنی چھاتی سے سپرکاکام لیتے،تاکہ حضورِ اکرم کوکوئی گزندنہ پہنچے،اورکہتے،آپ کی گردن کے آگے میری گردن اور ذات کے سامنے میرا جسم ہے،حضوراکرم سنکرفرماتے کہ لشکر میں ابوطلحہ کی آواز سوآوازوں پر بھاری تھی،غزوۂ حنین میں انہوں نے بیس آدمیوں کو قتل کیا تھا،اوران کے ہتھیاراتارلئے تھے۔ کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ تھا جو اپنے درختوں کی کثرت، پھلوں کی عمدگی اور پانی کی شیرینی کے لحاظ سے یثرب کے تمام باغوں سے اچھا تھا۔ ایک روز ابوطلحہ اس کے گھنے سائے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ اچانک ایک خوش الحان پرندے نے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ اس کے پر سبز، چونچ سرخ اور پاؤں رنگین تھے۔ وہ درختوں کی شاخوں پر خوشی سے چہچہاتا، رقص کرتا اور پھدکتا پھر رہا تھا۔ حضرت ابوطلحہ کو یہ منظر اتنا بھلا معلوم ہوا کہ تھوڑی دیر کے لیے اس کی دلکشی میں کھو گئے۔ جب ان کی توجہ نماز کی طرف واپس آئی تو وہ بھول چکے تھے کہ انہوں نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں،دو یا تین؟ وہ سوچتے رہ گئے مگر کچھ یاد نہ آیا۔ وہ نماز ختم کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ سے اپنے نفس کی شکایت کی جس کوباغ، اس کے گھنے اور سایہ دار درختوں اور اس کے خوش نوا پرندے نے نماز سے غافل کر دیا۔ پھر انہوں نے کہا: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ گواہ رہیں، میں اس باغ کو اللہ کی راہ میں صدقہ کر رہا ہوں۔ آپ اس کو جس مصرف میں چاہیں خرچ کریں "،ہم ان کا نسب ان کے نام زید کے ترجمے میں بیان کرآئے ہیں،یہ بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں موجودتھے،ابوجعفرنے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابن اسحاق سےبہ سلسلۂ شرکائے غزوۂ بدرازبنوخزرج ابوطلحہ کاجوبنومالک بن نجارسے تھے،ذکرکیاہے،ان کا نسب زید بن سہل بن اسود بن حرام تھا،ابن اسحاق نے بھی یہی لکھاہے۔ ابوطلحہ،ام سلیم کے،جو انس بن مالک کی والدہ تھیں،خاوند تھے،ایک روایت میں ہے کہ وہ مدینے میں 31ہجری میں فوت ہوئے،اوردوسری روایت کی روسے 34ہجری ان کاسال وفات ہے،اس وقت ان کی عمر ستر برس تھی،نمازِجنازہ حضرت عثمان نے پڑھائی۔
نام ونسب اورابتدائی حالات[ترمیم]
زید نام،ابوطلحہ کنیت ،خاندان نجار کی شاخ عمروبن مالک سے ہیں جن کے افراد شہر یثرب میں معزز حیثیت رکھتے تھے،نسب نامہ یہ ہے زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمروبن زید مناۃ بن عدی بن مالک بن النجار،والدہ کا نام عبادہ ہے اوروہ مالک بن عدی بن زید بن مناۃ کی بیٹی تھیں جو حضرت ابو طلحہؓ کے جدی رشتے میں تھے قبیلہ عمروبن مالک مسجد نبوی سے غربی جانب باب الرحمۃ کی طرف سکونت پذیر تھا اورحضرت ابو طلحہؓ اپنے زمانہ میں اس قبیلہ کے رئیس تھے۔ قبل از اسلام ابوطلحہؓ عام اہل عرب کی طرح بت پرست تھے اور بڑے اہتمام سے شراب پیتے تھے اوراس کے لئے ان کے ندیموں کی ایک مجلس تھی۔ [1]
اسلام[ترمیم]
ابھی زمانۂ شباب کا آغاز تھا بہ مشکل بیس سال کی عمر ہوگی کہ آفتاب نبوت طلوع ہوا،حضرت ابوطلحہؓ نے ام سلیمؓ حضرت انسؓ کی والدہ ماجدہ کو نکاح کا پیغام دیا اورانہوں نےاسلام کی شرط کے ساتھ نکاح کو وابستہ کردیا، جس کا آخری اثر یہ مرتب ہوا کہ ابو طلحہؓ دین حنیف قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے یہ وہ وقت تھا جب مصعب بن عمیرؓ اسلام کے پرجوش شیدائی شہر یثرب میں دین اسلام کی تبلیغ کررہے تھے مدینہ کا جو مختصر قافلہ بیعت کے لئے روانہ ہوا تھا اس میں حضرت ابو طلحہؓ بھی شامل تھے۔ اس بیعت میں حضرت ابو طلحہؓ کو یہ شرف مزید حاصل ہوا کہ آنحضرتﷺ نے ان کو انصار کا نقیب تجویز فرمایا۔
مواخاۃ[ترمیم]
بیعت کے چند مہینے کے بعد خود حامل وحیﷺ نے مدینہ کا ارادہ فرمایا اور یہاں پر مہاجرین وانصار میں اسلامی برادری قائم کی مہاجرین میں سے حضرت ابو طلحہؓ انصاری کا جس کو بھائی بنایا گیا وہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح قریشی تھے،جن کو ایمان کی پختگی کی بدولت دربار رسالت سے امین الامۃ کا خطاب عطا ہوا تھا اورجناب رسول اللہﷺ نے ان کو جنت کی بشارت دی تھی۔
غزوات[ترمیم]
غزوہ بدر اسلام کی تاریخ میں پہلا غزوہ ہے،حضرت ابو طلحہؓ نے اس میں کافی حصہ لیا تھا،بدر کےبعد غزوہ احد واقع ہوا، وہ حضرت ابوطلحہؓ کی جانبازی کی خاص یاد گار ہے معرکہ اس شدت کا تھا کہ بڑے بڑے بہادروں کے قدم اُکھڑ گئے تھے ؛لیکن حضرت ابوطلحہؓ آنحضرتﷺ کے آگے ڈھال آڑ کئے سینہ تانے کھڑے تھے کہ آپ کی طرف جو تیر آئے اس کا آماجگاہ خود بنیں اور نہایت جوش میں یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ نفسی لنفسک الفداء ووجھی لوجھک الوقاء میری جان آپ کی جان پر قربان اورمیرا چہرہ آپ کے چہرہ کی سپر ہو [2]
اورتیر دان میں سے تیر نکال کر ایسا جوڑ کر مارتے کہ مشرکوں کے جسم میں پیوست ہو جاتا ،جب آنحضرتﷺ یہ تماشا دیکھنے کے لئے سر اٹھاتے تو حضرت ابوطلحہؓ حفاظت کے لئے سامنے آجاتے اور کہتے"نحری دون نحرک" آپ کے گلے کے پہلے آنحضرتﷺ اس جان نثاری اورسرفروشی سے خوش ہوکر فرماتے فوج میں ابوطلحہؓ کی آواز سو آدمی سے بہتر ہے۔ [3] حضرت ابو طلحہؓ نے احد میں نہایت پامردی سے مشرکین کا مقابلہ کیا وہ بڑے تیر انداز تھے اس دن دو تین کمانیں ان کے ہاتھ سے ٹوٹیں اس وقت ان کے سامنے دو قسم کے خطرے تھے ایک مسلمانوں کی شکست کا خیال دوسرے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کا مسئلہ ؛ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت اس طرح کی کہ جس ہاتھ سے بچاؤ کرتے تھے وہ شل ہوگیا مگر انہوں نے اُف نہ کی۔
غزوۂ خیبر میں حضرت ابو طلحہؓ کا اونٹ آنحضرتٓﷺ کے اونٹ کے بالکل برابر تھا،اس غزوہ میں بھی وہ اس حیثیت سے نمایاں ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ نے گدھے کے گوشت کھانے کی ممانعت کرنا چاہی تو منادی کرنے کے لئے ان کو ہی مخصوص فرمایا۔ [4] غزوہ حنین میں حضرت ابو طلحہؓ نے شجاعت کے خوب جوہر دکھائے ۲۰،۲۱ کافروں کو قتل کیا،آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا جو شخص جس آدمی کو مارے اس کے سارے اسباب کا مالک سمجھا جائے گا؛چنانچہ حضرت ابو طلحہؓ نے بیس اکیس آدمیوں کا سامان حصہ میں حاصل کیا تھا آنحضرتﷺ کے غزوات میں یہ اخیر غزوہ تھا اور ۸ھ میں واقع ہوا تھا۔
عام حالات[ترمیم]
رسول اللہﷺ کے وصال کے وقت حضرت ابو طلحہؓ اپنے مکان میں تھے، ادھر مسجد نبویﷺ میں صحابہؓ میں گفتگو ہوئی کہ آنحضرتﷺ کی قبر کون تیار کرے ،مدینہ میں بغلی اورمکہ میں صندوقی قبروں کا رواج تھا،لیکن آنحضرتﷺ بغلی قبر پسند فرماتے تھے،مسلمانوں میں دو شخص قبریں کھودتے تھے،مہاجرین میں ابو عبیدہؓ اورانصار میں حضرت ابو طلحہؓ ،حضرت ابو عبیدہؓ صندوقی اورحضرت ابو طلحہؓ بغلی بناتے تھے، اس لئے دونوں کے پاس آدمی بھیجا گیا اوریہ رائے قرار پائی کہ جو پیشتر پہنچے اس شرف کو حاصل کرے اورچونکہ آنحضرتﷺ کی مرضی بغلی کی تھی بہت سے مسلمان دست بدعا تھے کہ مہاجری کے آنے میں دیر ہواور ابو طلحہؓ جلد آجائیں، یہ گفتگو ہورہی تھی کہ حضرت ابو طلحہؓ پہنچ گئے اوراپنے ہاتھ سے بغلی قبر کھودی۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد بہت سے صحابہؓ نے مدینہ کی سکونت ترک کردی تھی اور شام چلے گئے تھے،حضرت ابو طلحہؓ بھی ان ہی غمزدوں میں داخل تھے؛ لیکن جب زیادہ پریشانی بڑھتی تو آستانہ نبوت کا رخ کرتے اورمہینوں کا سفر طے کرکے رسول اللہ ﷺ کے مزار پر حاضر ہوتے اور تسلی کا سرمایہ حاصل کرتے۔
حضرت ابوبکرؓ کا عہد خلافت،حضرت ابوطلحہؓ نے شام میں گذارا،حضرت فاروقؓ کے زمانہ خلافت کا بیشتر حصہ بھی وہیں بسر ہوا،البتہ حضرت فاروقؓ کی وفات کے قریب وہ مدینہ میں تشریف فرماتھے،حضرت فاروق اعظم کو ان کی ذات پر جو اعتماد اوران کی منزلت کا جو خیال تھا وہ اس سے ظاہر ہے کہ جب انہوں نے ۶ آدمیوں کو خلافت کے لئے نامزد فرمایا تو حضرت ابوطلحہؓ کو بلاکر کہا کہ آپ لوگوں کے سبب سے خدانے اسلام کو عزت دی ،آپ انصار کے ۵۰ آدمی لے کر ان لوگوں پر متعین رہیے،اگر چار آدمی ایک طرف ہوں اور دومخالفت کریں تو دو کی گردن ماردیجئے اور اگر پلہ برابر ہو تو اس فریق کو قتل کیجئے جس میں عبدالرحمن بن عوفؓ نہ ہوں، اوراگر تین دن گذر جائیں اورکوئی فیصلہ نہ ہو تو سب کے سر اڑا دیجئے۔ غرض مسور بن مخرمہ کے گھر میں ان چھ آدمیوں کی مجلس شوریٰ قائم ہوئی اورحضرت ابوطلحہؓ دروازہ پر حفاظت کے لئے کھڑے ہوئے، بنو ہاشم شروع سے اس مشورہ کے خلاف تھے، وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو چاہتے تھے،اس لئے حضرت عباسؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے آہستہ سے کہا کہ آپ اپنا معاملہ ان لوگوں کے ہاتھ میں نہ دیجئے اپنا خود فیصلہ کیجئے،حضرت علیؓ نے اس کا کچھ جواب دیا، حضرت ابو طلحہؓ پاس کھڑے یہ باتیں سن رہے تھے حضرت علیؓ کی ان پر نظر پڑی تو کچھ خیال پیدا ہوا،حضرت ابو طلحہؓ نے کہا :لم ترع ابالحسن!اے ابوالحسن خوف نہ کیجئے۔
اسی طرح ایک دن جلسہ کے وقت عمرو بن العاصؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ بھی پہنچے اور دروازہ پر بیٹھ گئے، حضرت ابو طلحہؓ نے کچھ نہ کہا، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جھلا آدمی تھے ان سے نہ رہا گیا کنکری مار کر بولے، یہ لوگ اس لئے آئے ہیں کہ مدینہ میں مشہور کریں گے کہ ہم بھی اصحاب شوریٰ میں تھے ،کنکری مارنے پر عمروؓ اورمغیرہؓ بھی برہم ہوئے اوربات بڑھنے لگی ،حضرت ابو طلحہؓ نے کہا مجھ خوف ہے کہ آپ لوگ ان جھگڑون میں الجھ کر اصل مسئلہ کو چھوڑ بیٹھیں !اس ذات کی قسم جس نے عمر کو وفات دی! میں تین دن سے زیادہ کبھی مہلت نہ دوں گا، پھر گھر میں بیٹھ کر تماشا دیکھوں گا کہ آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟
اس کے بعد حضرت ابوطلحہؓ کے خانگی حالات میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں نکاح اور اولاد، ان کا نکاح حضرت ام سلیمؓ سے ہوا تھا، اس کا واقعہ یہ ہے کہ مالک بن نضر،حضرت انسؓ کے والد، ہجرت نبوی سے قبل اپنی بیوی ام سلیمؓ سے ان کے اسلام قبول کرنے پر ناراض ہوکر شام چلے گئے تھے،وہاں انہوں نے انتقال کیا،حضرت ابوطلحہؓ نے ام سلیمؓ کو پیام دیا ،انہوں نے کہا کہ میں تمہارا پیام رد نہیں کرتی، لیکن تم کافر ہو اور میں مسلمان ،میرانکاح تمہارے ساتھ جائز نہیں،اگر تم اسلام قبول کرلو تو مجھے نکاح میں عذر نہ ہوگا اوروہی میرا مہر ہوگا، حضرت ابوطلحہؓ مسلمان ہوگئے اوراسلام مہر قرار پایا، ثابت کہتے ہیں کہ میں نے کسی عورت کا مہرام سلیمؓ سے افضل نہیں سنا۔
حضرت ام سلیمؓ سے حضرت ابو طلحہؓ کی کئی اولادیں ہوئیں؛ لیکن سوائے عبداللہ کے کوئی زندہ نہ رہا، حضرت ابو طلحہؓ کے ایک بیٹے کا نام ابو عمیر تھا ،اس نے بچپن میں ایک لال پالا تھا، اتفاق سے لال مرگیا، اس کو نہایت غم ہوا، رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے تو اس کو غمگین پاکر لوگوں سے پوچھا، آج یہ سست کیوں ہے؟ لوگوں نے واقعہ بیان کیا، آنحضرتﷺ نے اس کو ہنسانے کے لئے فرمایا : یا ابا عمیر ما فعل النغیر یعنی اے عمیر لال کہاں گیا؟ ایک اور لڑکا تھا جو کچھ دنوں بیمار رہ کر مرگیا، اس کی وفات کا واقعہ نہایت پر اثر ہے، ایک دن اس کی بیماری کے زمانہ میں حضرت ابوطلحہؓ مسجد نبویﷺ آگئے اور اُدھر وہ فوت ہوگیا، ام سلیمؓ نے اس کو دفن کردیا اور گھر والوں سے تاکید کی کہ ابو طلحہؓ سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرنا، ابو طلحہ ؓ مسجد سے آئے تو کچھ صحابہؓ ساتھ تھے، پوچھا لڑکا کیسا ہے؟ ام سلیمؓ نے کہا پہلے سے اچھا ہے! ابو طلحہؓ صحابہؓ سے باتیں کرتے رہے کہ کھانا آیا، سب نے کھایا، جب صحابہؓ چلے گئے تو ابو طلحہؓ اندر آئے اور رات کو میاں بیوی نے ایک بستر پر آرام کیا، اخیررات میں ام سلیمؓ نے لڑکے کی وفات کا ذکر کیا اور کہا کہ خدا کی امانت تھی ،اس نے لے لی اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے،ابوطلحہؓ نے اناللہ پڑھا اورصبر کیا، یہ واقعہ بخاری اور مسلم میں مؤثر اورمختلف طورپر مذکور ہے۔ اس لڑکے کے بعد عبداللہ پیدا ہوئے اورآنحضرتﷺ نے ان کو گھٹی دی ،یہ اپنے زمانہ میں تمام لوگوں پر فضیلت رکھتے تھے،ان ہی سے حضرت ابوطلحہؓ کی نسل چلی ان کے دو بیٹے تھے، اسحاق اورعبداللہ اوراسحاق کے صاحبزادے یحییٰ تھے اور یہ سب اپنے عہد میں مرجع انام اورعلم حدیث کے امام تھے۔
حلیہ[ترمیم]
حضرت ابوطلحہؓ کا حلیہ یہ تھا رنگ گندم گوں،قد متوسط، سراور داڑھی سفید خضاب نہیں کرتے تھے،چہرہ نورانی۔
وفات[ترمیم]
عمر شریف ۷۰ سال کی ہوئی تو پیغام اجل آیا،حضرت ابو طلحہؓ کی وفات کا قصہ بھی عجیب ہے ایک دن سورۂ برأت تلاوت فرمارہے تھے جب اس آیت" انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا" پر پہنچے تو ولولہ جہاد تازہ ہوا،گھروالوں سے کہا کہ خدانے بوڑھے اورجوان سب پر جہاد فرض کیا ہے ،میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں ،سفر کا انتظام کردو ،دو مرتبہ کہا، بڑھاپے کے علاوہ روزے رکھتے رکھتے نہایت نحیف اورلاغر ہوگئے تھے گھر والوں نے کہا خدا ٓپ پر رحم کرے ! عہد نبویﷺ کے کل غزوات میں شریک ہوچکے، ابوبکرؓ وعمرؓ کے زمانہ خلافت میں برابر جہاد کیا، اب بھی جہاد کی حرص باقی ہے،آپ گھر میں بیٹھیے ہم لوگ آپ کی طرف سے غزوہ میں جائیں گے ،حضرت ابو طلحہؓ بھلا کب رک سکتے تھے ،شہادت کا شوق ان کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا بولے جو میں کہتا ہوں اس کی تعمیل کرو، گھر والوں نے چار وناچار سامان سفر درست کیا اوریہ ستر برس کا بوڑھا مجاہد خدا کا نام لے کر چل پڑا، غزوہ بحری تھا اوراسلامی بیڑہ روانہ ہونے والا تھا، حضرت ابو طلحہؓ جہاز پر سوار ہوئے اورغزوہ کے منتظر تھے کہ ساعت مقررہ آپہنچی اور ان کی روح عالم قدس کو پرواز کر گئی۔
بحری سفر تھا،زمین کہیں نظر نہ آتی تھی،ہوا کے جھونکے جہاز کو غیر معلوم سمت میں لئے جارہے تھے اس مجاہد فی سبیل اللہ کی لاش غربت کی حالت میں جہاز کے تختہ پر بے گور و کفن پڑی رہی، آخر ساتویں روز جہاز خشکی پر پہنچا، اس وقت لوگوں نے لاش کو ایک جزیرہ میں اتر کر دفن کیا، لاش بعینہ صحیح و سالم تھی۔ سنہ وفات میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک ۳۱ھ اوربعض کے قول کے مطابق ۲۲ھ سال وفات ہے،لیکن اس میں زیادہ صحیح روایت حضرت انسؓ کی ہے اس کے رو سے ۵۱ھ میں حضرت ابو طلحہؓ نے انتقال فرمایا:
فضل وکمال[ترمیم]
فضل وکمال میں حضرت ابوطلحہؓ کو خاص رتبہ حاصل ہے،علامہ حافظ ابوطلحہؓ کے فضل وکمال کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے کہ وہ فضلائے صحابہ میں تھے۔ روایت میں نہایت احتیاط کرتے تھے،ان کی احادیث مرویہ میں مسائل یا غزوات کا ذکر ہے،فضائل اعمال کا بیان نہیں باوجودیکہ وہ مدت دراز تک رسول اللہﷺکے شرف صحبت سے ممتاز رہے اوررسول اللہﷺ کے بعد بھی ایک عرصہ تک زندہ رہے،لیکن روایتوں کی مجموعی تعداد ۹۲ سےزیادہ نہ ہوسکی اس کا اصلی باعث بیان حدیث میں احتیاط تھی۔ حسب ذیل روایات ان کے علمی پایہ کو نمایاں کرتی ہیں:
حدیث شریف میں وارد ہے " لا تد خل الملئکۃ بیتا فیہ صورۃ "یعنی جس گھر میں تصویر ہو وہاں فرشتے نہیں آتے۔ حضرت ابوطلحہؓ کی بیماری میں عقید ت مندوں کا ایک گروہ عیادت کو آیاتو دیکھا کہ دروازہ پر ایک پردہ پڑا ہے، جس میں تصویر بنی ہوئی ہے، آپس میں گفتگو شروع ہوئی،زید بن خالد بولے کل تو تصویر کی ممانعت پر حدیث بیان کی تھی، عبید اللہ خولانی سے کہا ہاں لیکن یہ بھی تو کہا تھا کہ کپڑے پر جوتصویر ہو وہ اس میں داخل نہیں۔ [5]
ایک دن حضرت ابو طلحہ ؓ کھانا نوش فرمارہے تھے،دسترخوان پر حضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت انس بن مالکؓ بھی تھے کھانا کھا کر حضرت انسؓ نے وضو کے لئے پانی مانگا دونوں بزرگوں نے کہا شاید گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کا خیال پیدا ہوا؟ حضرت انسؓ نے کہا جی ہاں اس پر فرمایا کہ تم طیبات کھا کر وضو کی ضرورت سمجھتے ہو؛ حالانکہ خود رسول اللہ ﷺ وضو کی حاجت نہیں سمجھتے تھے۔ [6] ایک دن حضرت ابو طلحہؓ نے نفل کا روزہ رکھا تھا، اتفاق سے اسی دن برف پڑی اوراٹھے اوراولے چن کر کھانے لگے،لوگوں نے کہاروزے میں آپ اولے کھارہے ہیں،انہوں نے جواب دیا کہ یہ برکت ہے جس کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابوطلحہؓ کو شعر وسخن کا بھی ذوق تھا، میدانِ جنگ میں رجز پڑہتےتھے، یہ شعر انہی کا ہے۔ انا ابو طلحۃ واسمی زید وکل یوم فیِ سلاحی صید
اخلاق[ترمیم]
حضرت ابو طلحہؓ کا سبب سے بڑا اخلاقی جوہر حب رسول ہے ،ایسی حالت میں کہ تمام مسلمان جنگ کی شدت سے مجبور ہوکر میدان سےمنتشر ہوگئے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس معدودے چند صحابہ باقی رہ گئے تھے، حضرت ابو طلحہؓ کا اپنے کو رسول للہ ﷺ پر قربان کرنے کے لئے بڑھنا اورآپ کے سامنے کھڑے ہوکر کفار کے وار سہناکہ حامل نبوت پر جو تیر آئے ان کو اپنے سینے پر روکنا اورآخر اسی حالت میں اپنا ہاتھ بیکار کردینا حبِ رسول کا وہ لازوال نشان ہے جوابد تک نہیں مٹ سکتا۔
اسی محبت کا اثر تھا کہ حضرت ابو طلحہؓ کو آنحضرتﷺ سے خاص خصوصیت تھی وہ عموماً تمام معرکوں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کا اونٹ رسول اللہ ﷺ کے اونٹ کے برابر چلتا تھا، غزوۂ خیبر سے واپسی کے وقت حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آنحضرتﷺ کے اونٹ پر سوار تھیں ،مدینہ کے قریب پہنچ کر ناقہ ٹھوکر لے کر گری اور رسول اللہ ﷺ اور صفیہؓ زمین پر آرہے،حضرت ابوطلحہؓ سواری سے فوراً کود پڑے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر پوچھا یا رسول اللہ جعلنی اللہ فداک چوٹ تو نہیں آئی؟ حضور نے فرمایا نہیں عورت کی خبر لو، حضرت ابو طلحہؓ منہ پر رومال ڈال کر حضرت صفیہؓ کے پاس پہنچے اور ان کو کجا وادرست کرکے اونٹ پر بٹھایا۔
اسی طرح ایک مرتبہ مدینہ میں دشمنوں کا کچھ خوف معلوم ہوا،رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طلحہؓ کا گھوڑا جس کا نام مندوب تھا مستعار نوید اور سوار ہوکرجس طرف اندیشہ تھا روانہ ہوئے،حضرت ابو طلحہؓ پیچھے پیچھے چلے؛ لیکن ابھی پہنچنے نہ پائے تھے کہ آنحضرتﷺ تشریف لائے راستہ میں ملاقات ہوئی فرمایا وہاں کچھ نہیں اور تمہارا گھوڑا بہت تیز رفتار ہے۔ حضرت ابو طلحہؓ کو آنحضرتﷺ سے جو محبت تھی اس کا اثر چھوٹی چھوٹی چیز میں بھی ظاہر ہوتا تھا، جب ان کے گھر میں کوئی چیز آتی تو خود رسول اللہ ﷺ کے حضور میں بھیج دیتے تھے ،ایک مرتبہ حضرت انسؓ ایک خرگوش پکڑ لائے ،حضرت ابو طلحہؓ نے اس کو ذبح کیا اور ایک ران آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیج دی،آپ نے یہ حقیر لیکن پرخلوص نذر قبول کرلی، [7] اسی طرح ام سلیم نے ایک طبق میں خرمے بھیجے،حضورﷺ نے قبول فرما کر ازواج مطہرات اورصحابہ میں تقسیم کئے۔ [8]
رسول اللہ ﷺ بھی اس محبت کی نہایت قدر کرتے تھے؛چنانچہ جب آپ حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے اور منیٰ میں حلق کرایا تو سر مبارک کے داہنے طرف کے بال تو اور لوگوں میں تقسیم ہوگئے اور بائیں طرف کے کل موئے مبارک حضرت ابو طلحہ ؓ کو مرحمت فرمائے،حضرت ابو طلحہؓ اس قدر خوش ہوئے کہ گویا دونوں جہاں کا خزانہ ہاتھ آگیا۔ اسی طرح جب عبداللہ بن ابی طلحہؓ پیدا ہوئے تو حضرت ابو طلحہؓ نے ان کو آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا آپ نے کچھ چھوہارے چباکر اس سے لڑکے گو گھٹی دی لڑکے نے مزے سے اس آب حیواں کی گھٹی لی اور چھوہارے کو مسوڑھے سے دابنے لگا، حضورنے فرمایا دیکھوا انصار کو چھوہاروں سے فطری محبت ہے ،اس لڑکے کا نام آنحضرتﷺ نے عبداللہ رکھا رسول اللہ ﷺ کے لعاب مبارک کا یہ اثر تھا کہ حضرت عبداللہؓ تمام نوجوانانِ انصار پر فوقیت رکھتے تھے۔ [9]
جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ شراب حرام ہونے سے قبل ایک روز فضیح جو چھوہارے کی بنتی ہے پی رہے تھے کہ اسی حالت میں ایک شخص نے آکر خبردی کہ شراب حرام ہوگئی یہ سن کر حضرت انسؓ سے کہا کہ تم اس گھڑے کو توڑدو،انہوں نے توڑدیا،[10] جب یہ آیت نازل ہوئی: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ [11] جب تک اس میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو محبوب ہے نیکی نہیں پاسکتے۔ تو امرائے انصار نے کیسوں کی مہریں توڑدیں اور جس کے پاس جو قیمتی چیزیں تھیں آنحضرتﷺ کے حضور میں پیش کیں، حضرت ابوطلحہؓ آنحضرتﷺ کی خدمت میں آئے اوربیر حاکو خدا کی راہ میں وقف کیا۔
بیر حا ان کی نہایت قیمتی جائداد تھی،اس میں ایک کنواں تھا، اس کا پانی نہایت شیریں اورخوشبودار تھا اورآنحضرتﷺ بہت شوق سے اس کو پیتے تھے یہ اراضی حضرت ابو طلحہ ؓ کے محلہ میں اور مسجد نبوی کے سامنے واقع تھی بعد میں اس مقام پر قصر بنی عدیلہ بنایا تھا۔ حضرت ابوطلحہؓ کے اس وقف سے آنحضرتﷺ نہایت محظوظ ہوئے اور فرمایا:بخ بخ !ذالک مال رائج:ذالک حال رائج اورحکم دیا کہ اپنے اعزہ میں اس کو تقسیم کردو، چنانچہ حضرت ابو طلحہؓ نے اپنے بنی اعمام اور اقارب میں جس میں حسان بن ثابتؓ اورابی بن کعبؓ تھے تقسیم کردیا۔ [12]
ایک مرتبہ ایک شخص آیا،اس کےقیام کا کوئی سامان نہ تھا،آنحضرتﷺ نے فرمایا اس کو جو اپنے ہاں مہمان رکھے اس پر خدا رحم کرے گا، حضرت ابوطلحہؓ نے اٹھ کر کہا میں لئے جاتا ہوں، گھر میں کھانے کو نہ تھا صرف بچوں کے لئے کھانا پکا تھا، حضرت ابو طلحہؓ نے بیوی سے کہا کہ بچوں کو سلادو اورمہمان کے پاس بیٹھ کر چراغ گل کردو ،اس طورپروہ کھانا کھالے گا اورہم بھی فرضی طور پر منہ چلاتے رہیں گے، غرض اس طرح اس کو کھلا کر تمام گھر فاقہ سے پڑارہا ،صبح کے وقت آنحضرتﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان کی شان میں یہ آیت پڑھی جو اسی موقع پر نازل ہوئی تھی :" وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ" اورحضرت ابو طلحہؓ سے کہا رات تمہارے کام سے خدا کو بہت تعجب ہوا۔ [13]
حضرت ابو طلحہؓ کا ایک خاص وصف خلوص تھا،وہ شہرت پسندی،ریا اورنمود ونمائیش سے دور رہتے تھے،بیر حاکو وقف کرتے وقت رسول اللہ ﷺ سے قسم کھا کر کہا کہ یہ بات اگر چھپ سکتی تو کبھی میں ظاہر نہ کرتا۔ [14] انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد ۴۰ سال کی زندگی پائی یہ تمام عمر روزوں میں بسر کی،عید اوربقرعید کے سوا ۳۶۵ دنوں میں کوئی دن ایسا نہ تھا بجز بیماری کے ایام کے جس میں وہ صائم نہ رہے ہوں۔
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ (بخاری:۲/۶۶۴)
- ↑ (مسند حضرت انس بن مالک ،بخاری:۲۷۹)
- ↑ (مسند احمد:۳/۶،بخاری کتاب المغازی)
- ↑ (مسند احمد :۳/۱۲۱)
- ↑ (حدیث ابو طلحہ،مسند احمد:۴/۲۸)
- ↑ (حدیث ابو طلحہ:۳)
- ↑ (مسند احمد:۳/۱۷۱،مسند ابن انسؓ)
- ↑ (مسند احمد:۳/۱۳۵)
- ↑ (مسند احمد:۲۵۷،مسند انسؓ)
- ↑ (مسند احمد:۳/۱۴۱)
- ↑ (آل عمران:۹۲)
- ↑ (مسند احمد:۳/۱۴۱)
- ↑ (مسلم:۲/۱۹۸)
- ↑ (مسند احمد:۳/۱۱۵،مسند انس)