طفیل بن عمرو دوسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
طفیل بن عمرو دوسی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 580ء کی دہائی[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 633ء (44–45 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جنگ یمامہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ(33ق.ھ / 12ھ) ان کا لقب ذی النور(نور والا) تھا۔ قبیلہ ٔ دوس کے سردار تھے۔آپ کے قبیلے کو بعض نواحی یمن میں امارت یا تقریباً امارت حاصل تھی۔آپ نبوت کے گیارہویں سال مکہ تشریف لائے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اہل مکہ نے ان کا استقبال کیا اور نہایت عزت واحترام سے پیش آئے۔ پھر ان سے عرض پرداز ہوئے کہ اے طفیل ! آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں اور یہ شخص جو ہمارے درمیان ہے اس نے ہمیں سخت پیچیدگی میں پھنسا رکھا ہے۔ ہماری جمعیت بکھیر دی ہے اور ہمارا شیرازہ منتشر کر دیا ہے۔ اس کی بات جادو کاسا اثر رکھتی ہے کہ ماں باپ ،بہن بھائی اور میاں بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیتی ہے۔ ہمیں ڈرلگتا ہے جس افتاد سے ہم دوچار ہیں کہیں وہ آپ پر اور آپ کی قوم پر بھی نہ آن پڑے۔ لہٰذا آپ اس سے ہرگز گفتگو نہ کریں اور اس کی کوئی چیز نہ سنیں۔ حضرت طفیل ؓ کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ مجھے برابر اسی طرح کی باتیں سمجھاتے رہے یہاں تک کہ میں نے تہیہ کرلیاکہ نہ آپ کی کوئی چیز سنوں گا نہ آپ سے بات چیت کروں گا۔ حتیٰ کہ جب میں صبح کو مسجد حرام گیا تو کان میں روئی ٹھونس رکھی تھی کہ مبادا آپ کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے ، لیکن اللہ کو منظور تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتیں مجھے سنا ہی دے۔ چنانچہ میں نے بڑا عمدہ کلام سنا، پھر میں نے اپنے جی میں کہا: ہائے مجھ پر میری ماں کی آہ وفغاں ! میں تو واللہ ! ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا شاعر آدمی ہوں ، مجھ پر بھلا برا چھپا نہیں رہ سکتا ، پھر کیوں نہ میں اس شخص کی بات سنوں؟ اگر اچھی ہوئی تو قبول کرلوں گا، بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔ یہ سوچ کر میں رک گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پلٹے تو میں بھی پیچھے ہولیا۔ آپ اندر داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آمد کا واقعہ اور لوگوں کے خوف دلانے کی کیفیت ، پھر کان میں روئی ٹھونسنے اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن لینے کی تفصیلات بتائیں۔ پھر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات پیش کیجیے۔ آپ نے مجھ پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ اللہ گواہ ہے میں نے اس سے عمدہ قول اور اس سے زیادہ انصاف کی بات کبھی نہ سنی تھی۔ چنانچہ میںنے وہیں اسلام قبول کر لیا اور حق کی شہادت دی۔ اس کے بعد آپ ﷺ سے عرض کیا کہ میری قوم میں میری بات مانی جاتی ہے میں ان کے پاس پلٹ کر جاؤں گا اور انھیں اسلام کی دعوت دوں گا۔ لہٰذا آپ ﷺ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے کوئی نشانی دے دے، آپ نے دعا فرمائی۔ حضرت طفیل کو جو نشانی عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ جب وہ اپنی قوم کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے پر چراغ جیسی روشنی پیدا کردی۔ انھوں نے کہا : یا اللہ ! چہرے کی بجائے کسی اور جگہ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے مثلہ کہیں گے، چنانچہ یہ روشنی ان کے ڈنڈے میں پلٹ گئی۔ پھر انھوں نے اپنے والد اور اپنی بیوی کو اسلام کی دعوت دی اور وہ دونوں مسلمان ہو گئے ، لیکن قبیلہ والوں نے ان کی بات نہ سنی تو حضور کے پاس آکر کہا کہ ان کے لیے بد دعا فرمائیے، لیکن حضور نے بجائے بد دعا کے یہ دعا کی کہ: اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے ، حضور کی دعا کا اثر یہ ہوا کہ پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا اور غزوہ ٔ طائف کے موقع پر پورا قبیلہ دوس حاضر تھا، ان ہی میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی تھے جن کی قسمت میں امام المحدثین بننا تھا، حضرت طفیلؓ حضور کی وفات تک مدینہ منورہ میں رہے اور 11ھ میں مسیلمہ کذّاب کے خلاف لڑتے ہوئے جنگ یمامہ میں شہادت نوش فرمائی۔[2]

نام و نسب[ترمیم]

طفیل نام ،ذوالنورلقب، سلسلۂ نسب یہ ہے، طفیل بن عمروبن طریف بن العاص بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس بن عدنان بن عبد اللہ بن زہران بن کعب ابن حارث بن نصربن ازدازدی۔ [3] دوس کے قبیلے سے تھے اس لیے دوسی کہلاتے تھے، یہ قبیلہ یمن کے ایک گوشہ میں آباد اور خاصہ طاقتور تھا، ایک قلعہ بھی اس کے پاس تھا، حضرت طفیلؓ اس قبیلہ کے رئیس اور غالباً تجارت پیشہ تھے اور اسی تعلق سے مکہ معظمہ آتے رہتے تھے۔

قبیلہ دوس[ترمیم]

نواح یمن میں قبیلہ دوس آباد تھا‘ اس قبیلہ کا سردار طفیل بن عمرو رؤساء یمن میں شمار ہوتا تھا‘ طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم و دانش مندی کے علاوہ بہت مشہور اور زبردست شاعر بھی تھا۔

مکہ کا سفر[ترمیم]

جس زمانہ میں آنحضرت مکہ میں دعوت اسلام فرما رہے تھے،اس زمانہ میں طفیل کا مکہ آنا ہوا، قریش کے وہ اشخاص جو لوگوں کو آنحضرت کے پاس آنے سے روکتے تھے،ان کے پاس بھی پہنچے اور کہا تم ہمارے شہر میں مہمان آئے ہو،اس لیے ازراہ خیر خواہی تم کو آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اس شخص آنحضرت نے ہماری جماعت میں پھوٹ ڈال کر ہمارا شیرازہ بکھیر دیا ہے اور ہم لوگوں کو بہت تنگ کر رکھا ہے نہیں معلوم اس کی زبان میں کیا سحر ہے جس کے زور سے بیٹے کو باپ سے بھائی کو بھائی سے بیوی کو شوہر سے چھڑا دیتا ہے، ہم کو خوف ہے کہ کہیں تم اور تمھاری قوم بھی ہم لوگوں کی طرح اس کے دام میں نہ آجائے، اس لیے ہمارا دوستانہ مشورہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو اور نہ اس کی بات سنو،غرض ان لوگوں نے طفیل کو سب نشیب و فراز سمجھا کر آنحضرت کی ملاقات سے روک دیا،طفیل نے اس خیال سے کہ مبادا آنحضرت کے آواز کانوں میں نہ پڑ جائے، دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی۔

ایمان لانے کی دستان[ترمیم]

"جب میں مکہ مکرمہ پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی سرداران قریش میری طرف لپکے اور انھوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا اور مجھے بڑی عزت و تکریم سے نوازا۔ پھر ان کے بڑے بڑے سردار اور سربر آوردہ لوگ میرے گرد جمع ہو گئے اور مجھ سے کہنے لگے"طفیل! تم ہمارے شہر میں آئے ہو اور یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے، اس نے ہمارا سارا معاملہ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ اس نے ہماری جمعیت کو منتشر اور ہماری جماعت کو پراگندہ کر دیا ہے۔ ہم لوگوں کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں تم کو اور تمھاری قیادت و سرداری کو بھی وہی خطرہ نہ لاحق ہو جائے جس سے ہم لوگ دوچار ہیں۔ اس لیے تمھارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم نہ تو اس شخص سے کوئی بات کرنا نہ اس کی کوئی بات سننا کیونکہ اس کی باتیں بڑی جادو اثر ہیں، اس کی زبان میں بلا کی تاثیر ہے۔ یہ شخص اپنی ان باتوں کے ذریعہ باپ بیٹے، بھائی اور شوہر بیوی میں تفریق کردیتا ہے" "خدا کی قسم وہ لوگ مسلسل اس شخص کی عجیب و غریب باتیں مجھے سناتے رہے اور اس کے حیرت انگیز کارناموں سے میری اپنی ذات اور میری قوم کے متعلق مجھے کو خوفزدہ کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے اس بات کا عزم مصمم کر لیا کہ میں نہ اس شخص سے ملوں گا، نہ اس سے کلام کروں گا، نہ اس کی کوئی بات سنوں گا اور جب میں خانہ کعبہ کے طواف اور اس میں رکھے ہوئے ان بتوں سے برکت حاصل کرنے کے لیے مسجد حرام میں گیا جن کی ہم تعظیم و توقیر کرتے تھے تو اس خوف سے کہ کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑجائے میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ مسجد میں داخل ہوا تو میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر نماز پڑھنے میں مشغول پایا۔ ان کا طریقہ عبادت ہمارے طریقہ عبادت سے مختلف تھا۔ وہ منظر مجھے بہت اچھا لگا اور ان کے عبادت کے اس طریقے کو دیکھ کر میں فرط مسرت سے جھوم اٹھا اور غیر ارادی طور پر بتدریج ان سے قریب ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان کے بالکل نزدیک پہنچ گیا اور خدا کو یہی منظور تھا کہ ان کی زبان سے نکلنے والے کچھ الفاظ میرے کانوں تک پہنچیں۔ چنانچہ میں نے ان سے ایک بہترین کلام سنا اور اپنے دل میں کہا طفیل! تمھاری ماں تمھارے سوگ میں بیٹھے۔ تم ایک سمجھدار اور صاحب بصیرت شاعر ہو، کلا م کا حسن و قبح تم پر مخفی نہیں ہے۔ آخر اس شخص کی باتیں سننے میں کیا چیز تمھارے آڑے آ رہی ہے۔ اگراس کی باتیں اچھی ہوں گی تو قبول کرلینا اور اگر بری ہوں گی تو انھیں چھوڑ دینا"۔ "یہ سوچ کر میں وہیں رک گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر اپنے گھر کی طرف لوٹے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے ہولیا اور جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو میں بھی ان کے پیچھے اندر چلاگیا اور ان سے کہا کہ " اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم کے لوگ مجھے آپ کے دین سے ڈراتے رہے حتی کہ میں نے آپ کی باتیں نہ سننے کا پختہ ارادہ کر لیا اور اپنے کان روئی سے بند کرلیے تاکہ کہیں آپ کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے۔ لیکن یہ اللہ کی مرضی تھی کہ اس نے مجھے آپ کی باتیں سنائیں اور وہ مجھے بہت پسند آئیں۔ آپ اپنا دین مجھے بتائیے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت میرے سامنے پیش کی اور مجھے دو سورتیں، سورہ اخلاص اور سورۃ فلق پڑھ کر سنائیں۔ خدا کی قسم اس سے پہلے میں نے اس کلام سے بہتر کوئی کلام نہیں سنا تھا، نہ ان کی باتوں سے بہتر کوئی بات سنی تھی۔ میں نے اس وقت اپنا ہاتھ آگے بڑھادیا اور کلمہ شہادت پڑھ اسلام میں داخل ہو گیا۔ [4] [5]

قبیلے میں واپسی[ترمیم]

" پھر میں بہت دنوں تک مکہ میں ٹھہرا رہا۔ اس دوران مَیں نے اسلام کی تعلیمات کو حاصل کیا اور جتنا ممکن ہوا قرآن حفظ کیا۔ پھر جب میں نے اپنے قبیلے کی طرف لوٹنے کا رادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میں اپنی قوم کا سردار ہوں۔ وہاں میری باتیں مانی جاتی ہیں۔ اب میں واپس جا کر انھیں اسلام کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرما دے جو میری دعوت کے لیے ممد و معاون ثابت ہو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی: "اَللّٰھُم اجعَل لَہ اَیَۃ" "خدایا طفیل کو کوئی نشانی مرحمت فرمادے" اس کے بعد میں اپنے قبیلے کی طرف چل پڑا۔ یہاں تک کہ جب میں ان کی بستی کے قریب ایک اونچی جگہ پہنچاتو میری دونوں آنکھوں کے درمیاں چراغ جیسی ایک روشنی پیدا ہو گئی۔ یہ دیکھ کر میں نے دعا کی کہ خدایا: اس کو چہرے کے علاوہ کسی دوسری جگہ منتقل کر دے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس کو دیکھ کر سمجھیں گے کہ یہ کوئی سزا ہے جو مجھے اپنے آبا و اجداد کا دین چھوڑنے کے جرم میں ملی ہے۔ تب وہ روشنی وہاں سے منتقل ہوکر میری لاٹھی کے سرے پر چمکتی ہوئی لوگوں کوایک معلق قندیل کی طرح نظر آ رہی تھی۔ جب نیچے اتر کر اپنے قبیلے میں پہنچا تو میرے والد صاحب جو [6]

آنحضرتﷺ کو اپنے قلعہ میں چلنے کی دعوت دینا[ترمیم]

دائرہ اسلام کی وسعت کے ساتھ ساتھ مشرکین مکہ کا جو روستم بھی بڑھتا جاتا تھا اور ذات نبوی کے ساتھ بھی گستاخیاں کرنے میں ان کو باک نہ تھا اور انھوں نے آنحضرت اور مسلمانوں کی ایذارسانی کو اپنا مستقل شعار بنالیا تھا،دوس میں ایک نہایت مضبوط قلعہ تھا، طفیل نے آنحضرت کو اپنے اس قلعہ میں منتقل ہوجانے کی دعوت دی اورآپ کی حفاظت کی ذمہ داری لی،لیکن یہ فخر انصار کے لیے مقدر ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے ان کی دعوت قبول نہ فرمائی۔ [7]

ہجرت[ترمیم]

اس درمیان میں آنحضرت ہجرت کرکے مدینہ آگئے، غزوہ بدر، غزوہ احد اور غزوہ خندق کی لڑائیاں بھی ختم ہوگئیں اور غزوہ خیبر کی تیاریاں شروع ہوئی تھیں کہ حضرت طفیلؓ بن عمرو تقریباً اسی گھرانوں کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لائے؛ لیکن آنحضرت خیبر میں تھے،اس لیے یہ پورا قافلہ بھی وہیں روانہ ہو گیا۔ [8]

غزوات[ترمیم]

اور یہ سب کے سب غزوۂ خیبر میں شریک ہوئے اور طفیل کی خواہش پر آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسیوں کو خیبر شکن فوج کے میمنہ پر مقرر کیا، اس کے بعد سے پھر فتح مکہ تک آنحضرت کے ہمرکاب رہے۔ [9]

سریۂ ذوالکفین[ترمیم]

اگرچہ دوس کے اکثر خانوادے مشرف باسلام ہو چکے تھے،تاہم مدتوں کے عقائد دفعۃً نہیں بدل سکتے تھے؛چنانچہ ذوالکفین نامی بت کا صنم کدہ باقی تھا اوربہت سے لوگ اس کی پوجا کرتے تھے؛لیکن طفیل کا موحد دل دوس کے دامن پر شرک کا ایک دھبہ بھی نہیں گوارا کرسکتا تھا، اس لیے آنحضرت سے درخواست کی کہ مجھ کو ذوالکفین گرانے کی اجازت مرحمت ہو،آپ نے اجازت دیدی[10]چنانچہ وہ کچھ دوسیوں کو لے کر گئے اور بتکدہ کو ڈھاکر بت میں آگ لگادی اور یہ شعر پڑھتے جاتے تھے: یا ذالکفین لست من عباد کا میلادنا اقدم من میلادکا انی حششت النارفی فوادکا اے دو ہاتھوں والے بت اب میں تیرے پرستاروں میں نہیں ہوں ، میری پیدائش تیری پیدائش سے قدیم ہے، میں نے تیرے قلب میں آگ بھر دی۔

غزوۂ طائف[ترمیم]

یہاں سے لوٹتے وقت دوس کے اور چارسو آدمی مع سازو سامان کے ساتھ ہو گئے اور سب طائف میں آنحضرت کے ساتھ غزوۂ طائف میں شریک ہوئے، ان کا دستہ الگ تھا، آنحضرت نے پوچھا تمھارا علم کون اٹھائے گا، طفیلؓ نے عرض کیا نعمان بن باریہ مدتوں سے اس قبیلہ کے علمبردار ہیں،اس موقع پر بھی وہی اٹھائیں گے ،آنحضرت نے بھی یہ رائے پسند فرمائی۔ [11] طائف کی واپسی کے بعد وہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مستقل طور سے رہنے لگے اور تا وفات نبوی آپ کے قدموں سے جدا نہ ہوئے۔ فتنہ ارتداد میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا اور طلیحہ ونجد کے فتنوں سے فراغت کے بعد یمامہ میں شریک ہوئے،[12] اور 11ھ میں اسی میں جام شہادت پیا۔ [13]

طفیل بن عمرو دوسی کے اخلاق[ترمیم]

طفیل بن عمرو دوسی زمانہ جاہلیت میں قبیلہ دوس کے سردار، عرب کے قابل ذکر اشراف اور معدودے چند اصحاب مروت میں سے تھے۔ وہ بڑے مہمان نواز اور صاحب جودو سخا آدمی تھے۔ مہمانوں کی بکثرت آمد کی وجہ سے ان کے یہاں کھانے کی دیگیں ہمیشہ چولہوں پر چڑھی رہتیں اور ان کے دروازے آنے والے مہمانوں کے استقبال کے لیے ہر وقت کھلے رہتے۔ وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے، خوف زدہ لوگوں کو امان دیتے اور پناہ طلب کرنے والوں کو اپنی پناہ میں لیتے۔ ان ساری خوبیوں کے علاوہ وہ نہایت باشعور اور زبردست ادیب، بڑے نازک خیال اور حساس شاعر اور کلام و بیان کے حسن و قبح اور صحت و سقم کی تمیز میں غیر معمولی درک رکھنے والے نقاد تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت طفیلؓ مذہبی علوم میں کوئی مرتبہ حاصل نہ کرسکے،اس کا سبب یہ تھا کہ وہ ابتدا میں مدینہ میں رہنے کی بجائے اپنے وطن میں اسلام کی دعوت کا فرض ادا کرتے رہے؛ لیکن فضل وکمال کا یہ باب بھی کچھ کم نہیں کہ آپ کی کوششوں سے قبیلہ دوس مشرف باسلام ہوا، البتہ شاعر کی حیثیت سے ممتازر ہے۔ [14][15]

ابو ہریرہ کا ایمان لانا[ترمیم]

" پھر میں ابوہریرہ کو ساتھ لے کر مکہ آیا۔ جب بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ "طفیل تمھارے پیچھے تمھارے قبیلے کا کیا حال ہے؟میں نے عرض کیا کہ ان کے دلوں پر دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں جو حق کے دیدار میں مانع ہیں۔ وہ لوگ کفر شدید میں مبتلا ہیں۔ ان کے اوپر سرکشی اور نافرمانی کی کیفیت مسلط ہے" یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیے۔ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے قبیلے والوں کے حق میں بددعا فرمائیں گے اور وہ تباہ و برباد ہوجائیں گے تو بے ساختہ میری زبان سے نکل گیا۔ "آہ میری قوم" لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کرنے کی بجائے فرما رہے تھے: اَللّٰھُمَّ اھدِ دَوسا۔۔۔۔ اَللّٰھُم اھدِ دَوساً۔۔۔۔۔ اللّٰھُم اھدِ دَوساً خدایا قبیلہ دوس کو ہدایت دے۔۔۔ خدایا قبیلہ دوس کو ہدایت دے۔۔۔۔ پھر آپ نے طفیل کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا کہ "اپنے قبیلہ میں جاؤ، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرو" پھر میں مستقل طور پر قبیلہ دوس کے علاقے میں رہ کر انھیں اسلام کی طرف دعوت دیتا رہا۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور یکے بعد دیگرے بدر،احد اور خندق کے معرکے گذر گئے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہواتو اس وقت اس وقت میرے ساتھ قبیلہ دوس کے اسّی گھرانے تھے جو اسلام قبول کر کے اس کی تعلیمات سے آراستہ ہو چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوئے اور مسلمانوں کے ساتھ خیبر کے مال غنیمت میں سے ہم لوگوں کو بھی حصہ عنایت فرمایا۔ ہم نے عرض کیا کہ " اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم لوگوں کو ہر غزوہ میں اپنے لشکر کے میمنہ پر مقرر فرمایئے اور ہمارا شعار "مبرور" مقرر فرما دیجیئے" طفیل اپنی داستان کے آخری حصے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ " اس کے بعد میں برابر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ پر فتح عنایت فرمائی۔ فتح مکہ کے بعد میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے عمروابن حممہ کے بت ذوالکفین کو جلانے کی مہم پر بھیج دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی اجازت دے دی۔ میں اپنے قبیلے کا ایک دستہ لے کر روانہ ہوا۔ جب اس کے پاس پہنچ کر اسے نذر آتش کرنا چاہا تو بہت سے مرد عورتیں اور بچے میرے گرد جمع ہو گئے۔ وہ اس بات کے منتظر تھے کہ اگر میں نے ذوالکفین کوکوئی نقصان پہنچایا تو آسمان سے بجلی گر کر مجھے ہلاک کر دے گی۔ لیکن میں اس کے پرستاروں کے سامنے ہی اس کی طرف بڑھا اوریہ کہتے ہوئے اس کو نذر آتش کر دیا: "یَا ذالکفین لَستُ مِِن عُبادک میلادُنا اَقدم مِن میلادِک اِنی حَشَوت النار فِی فوادک" "ذوالکفین میں تیرے پرستاروں میں سے نہیں ہوں،ہماری پیدائش تیری پیدائش سے مقدم ہے، میں نے تیرے دل میں آگ بھر دی ہے" اور اس بت کے آگ میں بھسم ہوجانے کے ساتھ ہی قبیلہ دوس میں شرک کے باقی ماندہ آثار بھی جل کر خاکستر ہو گئے اور پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا" طفیل بن عمرو اس کے بعد ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق ابوبکر صدیق خلیفہ ہوئے تو طفیل بن عمرو نے اپنے آپ کو، اپنی تلوار کو اور اپنے لڑکے کوخلیفہ کی اطاعت کے لیے وقف کر دیا اور جب مرتدین اور مدعیان نبوت کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو طفیل بن عمرو مسیلمہ کذاب سے جنگ کے لیے جانے والی فوج کے ہراول میں شامل ہو گئے۔

خواب اور اس کی تعبیر[ترمیم]

یمامہ جاتے ہوئے راستے میں انھوں نے ایک خواب دیکھا۔ انھوں نے اپنے رفقا سفر سے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے تم اس کی تعبیر بیان کرو۔ ساتھیوں نے خواب کی تفصیل دریافت کی۔ "میں نے دیکھا کہ میرا سر مونڈھ دیا گیا ہے،میرے منہ سے ایک پرندہ نکلا، ایک عورت نے مجھے اپنے پیٹ میں داخل کر لیا اور یہ کہ میرا بیٹا عمرو بڑی تیزی سے میرے پیچھے آ رہا ہے۔ مگر میرے اور اس کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی کردی گئی اور وہ میرے ساتھ اس میں داخل ہونے سے رہ گیا" ساتھیوں نے کہا کہ آپ کا یہ خواب بہت اچھاہے" طفیل نے کہا میں نے اپنے طور پر اس خواب کی یہ تعبیر کی ہے۔ "سر مونڈے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کاٹا جائے گا اور پرندہ جومنہ کے راستے سے نکا تو اس سے مراد میری روح ہے اور عورت جس نے مجھے اپنے پیٹ میں داخل کیا، اس سے مراد میری قبر ہے جس میں میں دفن کیا جاوں گا۔ امید ہے کہ مجھے شہادت نصیب ہوگی اور میرے بیٹے کے میراپیچھا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ بھی شہادت کی طلب میں میرا ساتھ دے گا مگر وہ اسے کچھ دنوں کے بعد حاصل کرسکے گا"

شہادت[ترمیم]

معرکہ یمامہ میں صحابی جلیل طفیل بن عمرو نے زبردست داد شجاعت دی۔ یہاں تک کہ وہ زخمی ہوکر گر گئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر نعمت شہادت سے بہرہ ور ہوئے مگر ان کے صاحبزادے عمرو بن طفیل برابر جنگ میں مصروف رہے۔ یہاں تک زخموں سے نڈھال ہو گئے اور ان کا دایاں ہاتھ کٹ کر گر گیا اور وہ اپنے و الد اور اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو یمامہ کی سرزمین پر چھوڑ کر مدینہ واپس آ گئے۔ عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ایک بارعمرو بن طفیل ان کی خدمت میں باریا ب ہوئے۔ اسی وقت عمر کے لیے کھانا لایا گیا۔ مجلس میں کچھ اور لوگ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے سب کو کھانے کے لیے بلایا مگر عمرو بن طفیل کھانے میں شریک نہیں ہوئے۔ وہ کنارے ہٹ گئے تھے۔ عمر نے ان سے پوچھا کہ کیابات ہے تم کھانے میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟شاید تم اپنے کٹے ہوئے ہاتھ پر ندامت محسوس کر رہے ہو اور کھانے میں شریک ہونے سے جھجکتے ہو۔ انھوں نے کہا جی ہاں امیر المومنین یہ سن کر عمر نے کہا کہ " خدا کی قسم جب تک تم اپنا کٹا ہوا ہاتھ اس کھانے میں نہیں ڈالوگے میں اس کوچکھ نہیں سکتا۔ خدا کی قسم اہل مجلس میں تمھارے سوا کوئی نہیں ہے جس کا کوئی عضو جنت میں داخل ہو"۔ عمروبن طفیل جب سے اپنے والد محترم سے جدا ہوئے تھے برابر اس خواب کی تعبیر کی جستجو میں لگے رہے یہاں تک کہ جب جنگ یرموک کا موقع آیا تو اس میں بڑے شوق سے شریک ہوئے بڑی بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ اس دولت شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ جس کی تمنا ان کے والد نے ان کے دل میں پید اکی تھی۔ اللہ تعالیٰ طفیل بن عمرو دوسی پر رحم فرمائے۔ وہ شہید ہیں اور شہید کے باپ ہیں۔[16]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مصنف: ابن کثیر
  2. ( ابن ہشام جلد ، صفحہ 1/182 ، 185)
  3. (اسدالغابہ:3/54)
  4. (طبقات ابن سعد،جز 4،ق 1:175)
  5. "ترجمة الصحابي الجليل الطفيل بن عمرو الدوسي رضي الله عنه"۔ www.saaid.net۔ 26 سبتمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2019 
  6. (طبقات ابن سعد، جز 4، ق 1:175)
  7. (مسلم:1/58،باب الدلیل علی ان قاتل نفسہ لایکفر)
  8. {{استشهاد ويب | مسار = http://www.al-eman.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/%D8%B3%D9%8A%D8%B1%D8%A9%20%D8%A7%D8%A8%D9%86%20%D9%87%D8%B4%D8%A7%D9%85%20%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B3%D9%85%D9%89%20%D8%A8%D9%80%20%C2%AB%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%8A%D8%B1%D8%A9%20%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%A8%D9%88%D9%8A%D8%A9%C2%BB%20**/i109&n24&p1 | عنوان = فصل: إسلام الطفيل بن عمرو الدوسي|نداء الإيمان | موقع = www.al-eman.com | تاريخ الوصول = 2019-01-15 | مسار أرشيف = https://web.archive.org/web/20181013031036/http://www.al-eman.com:80/الكتب/سيرة ابن هشام المسمى بـ «السيرة النبوية» **/i109&n24&p1 | تاريخ أرشيف = 13 أكتوبر 2018 | وصلة مكسورة =
  9. (ابن سعد،جز4،ق1:176،واستیعاب:1/218)
  10. (ابن سعد،جلد4،ق1،صفحہ:176)
  11. (ابن سعد حصہ مغازی:113)
  12. (مستدرک:3/260)
  13. (استیعاب:1/219)
  14. "الطفيل بن عمرو الدوسي - رضي الله عنه"۔ ملتقى الخطباء (بزبان عربی)۔ 11 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2019 
  15. أبو نعيم الأصبهاني (1998)۔ معرفة الصحابة۔ الثالث (الأولى ایڈیشن)۔ دار الوطن۔ صفحہ: 1562 
  16. سیرت النبی جلد1 حصہ دوم صفحہ380 شبلی نعمانی ادارہ اسلامیات کراچی