عتبہ بن مسعود

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عتبہ بن مسعود
معلومات شخصیت

عتبہ بن مسعود ہذلی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر اصحاب صفہ میں سے ہیں۔
سلسلہ نسب عتبہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بن شمخ بن فار بن مخزوم ہذلی[1] عبداللہ بن مسعود کے بھائی ہیں ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی انھوں نے اپنے بھائی عبد اللہ کے ساتھ حبشہ کی طرف دوبارہ ہجرت کی تھی اور مدینے میں بھی آئے تھے غزوہ احد اوراس کے بعد کے کل غزوات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔زہری نے کہاہے کہ ہمارے نزدیک عبد اللہ اپنے بھائی سے زیادہ دینی مسائل کونہ جانتے تھے لیکن یہ بہت جلدانتقال کرگئے تھے۔زہری سے یہ بھی منقول ہے کہ عبد اللہ اپنے بھائی سے زیادہ قدیم الصحبت اورقدیم الہجرت نہ تھے لیکن وہ عبد اللہ سے پہلے انتقال کرگئے عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے جب عبد اللہ بن عتبہ کاانتقال ہواتوان کے بھائی عبد اللہ ان کو رونے لگے بعض لوگوں نے ان سے کہاکہ کیاتم روتے ہوانھوں نے کہاکہ (اس میں تعجب ہی کیاعتبہ )میرے بھائی اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں میرے ساتھی تھے اور سوا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے سب لوگوں سے مجھ کوزیادہ محبوب تھے۔بعض لوگوں نے کہاہے کہ عتبہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وفات پائی تھی۔جیساکہ کہاگیاہے اور وہ جو قاسم بن عبد الرحمن سے روایت کی گئی ہے کہ عتبہ نے 44ھ میں وفات پائی تھی تو اس بناپران کا انتقال اپنے بھائی کے بعدہوگانہ کہ پہلے۔ان کاتذکرہ تینوں(ابن مندہ ابو نعیم ابن عبد البر) نے لکھاہے۔ [2][3]

نام و نسب[ترمیم]

عتبہ نام ، والد کا نام مسعود تھا، نسب نامہ یہ ہے،عتبہ بن مسعود بن غافل بن حبیب ابن شمخ بن فاربن مخزوم بن صاہلہ بن کاہل بن حارث بن تمیم بن سعد بن بذیل بن مدرک حضرت عتبہؓ مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے حقیقی بھائی تھے۔ [4]

اسلام و ہجرت[ترمیم]

حضرت عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دعوت اسلام کے آغاز میں مشرف باسلام ہوئے ، ہجرت ثانیہ میں حبشہ پھر وہاں سے مدینہ گئے۔ [5]

غزوات[ترمیم]

مدینہ آنے کے بعد سب سے اول غزوہ احد میں شریک ہوئے اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آنحضرت کی ہمرکابی کا فخر حاصل کرتے رہے۔ [6]

وفات[ترمیم]

حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں وفات پائی، ان ہی نے نماز جنازہ پڑھائی،[7] حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت زندہ تھے، ان کو بھائی کی موت کا سخت قلق ہوا، ضبط وتحمل کے باوجود بے اختیار آنسو جاری ہو گئے، [8]لوگوں نے تعجب کے لہجہ میں پوچھا آپ بھی روتے ہیں؟ جواب دیا میرا بھائی آنحضرت کی صحبت کا میرا ساتھ تھا اور عمرؓ بن خطاب کے علاوہ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ [9]

فضل و کمال[ترمیم]

عبداللہ بن مسعودؓ اپنے فضل وکمال کے لحاظ سے حبرالامۃ کہلاتے تھے ، عتبہ بھی اپنی صلاحتیوں کے اعتبار سے ان سے کم نہ تھے؛لیکن دنیا سے کم سن گئے ، اس لیے ان کے جوہر نہ چمکنے پائے۔ [10]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. صفہ اور اصحاب صفہ صفحہ 237،مفتی مبشر،بیت العلوم انار کلی لاہور
  2. اسد الغابہ ،مؤلف: أبو الحسن عز الدين ابن الاثير جلد ششم صفحہ 505 المیزان پبلیکیشنز لاہور
  3. الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد4صفحہ 44 مؤلف: حافظ ابن حجر عسقلانی ،ناشر: مکتبہ رحمانیہ لاہور
  4. (ابن سعد،جلد2،ق1:93)
  5. (ابن سعد،جلد4،ق1:93)
  6. (استیعاب:2/508)
  7. (مستدرک حاکم:3/258)
  8. (ابن سعد:4/93)
  9. (مستدرک حاکم:3/258)
  10. (مستدرک حاکم:3/258)