منذر بن عمرو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
منذر بن عمرو
معلومات شخصیت

منذر بن عمرو غزوہ بدر میں شریک انصار صحابی ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

منذر نام،اعنق لیموت لقب،قبیلۂ خزرج کے خاندان ساعدہ سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے،منذر بن عمرو بن خنیس بن حارثہ بن لوذان بن عبد ود بن زید بن زید بن ثعلبہ بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن الخزرج الکبیر

اسلام[ترمیم]

عقبہ ثانیہ میں بیعت کی اور اپنے قبیلہ کے نقیب مقرر ہوئے، سعد بن عبادہ بھی اسی قبیلہ کے نقیب تھے۔

مؤخات[ترمیم]

طلیب بن عمیر سے مواخاۃ ہوئی

غزوات[ترمیم]

غزوہ بدر اورغزوہ احد میں شریک ہوئے غزوہ احدمیں میسرہ کے افسر تھے۔

وفات[ترمیم]

غزوۂ احد کے 4 ماہ بعد صفر کے مہینہ میں انصار کے ستر نوجوان جو قراء کے نام سے مشہور تھے،اشاعت اسلام کی غرض سے نجد بھیجے گئے، منذر اس جماعت کے امیر تھے، بیر معونہ پہنچے تھے کہ رعل اورذکوان کے سواروں نے گھیر لیا، ان لوگوں نے ہر چند کہا کہ ہم کو تم سے کوئی سروکار نہیں، رسول اللہ ﷺ کے کام سے کسی طرف جا رہے ہیں،ظالموں نے ایک نہ سنی اور سب کو قتل کر ڈالا، صرف منذرؓ باقی رہ گئے، ان سے کہا کہ درخواست کرو تو تم کو امان دیجائے،لیکن ان کی حمیت یہ بے غیرتی گوارا نہیں کرسکتی تھی صاف انکار کر دیا اورجس مقام پر حرام شہید ہوئے تھے وہیں پہنچ کر لڑے اور قتل ہوئے ،آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو فرمایا: اعنق لیموت!یعنی انھوں نے دانستہ موت کی طرف سبقت کی اس وقت سے ان کا یہ لقب خاص وعام کی زبان زد ہو گیا،[1] یہ اوائل 4ھ کا واقعہ ہے۔[2]

اولاد[ترمیم]

کوئی اولاد نہیں چھوڑی

فضل وکمال[ترمیم]

جاہلیت میں عربی لکھتے تھے[3] اسلام میں قرآن وحدیث کی جو واقفیت بہم پہنچائی تھی اسی کی بنا پر اشاعت اسلام کے لیے وہ منتخب ہوئے اور مبلغین کے امیر بنائے گئے ۔

اخلاق[ترمیم]

زہد و تقویٰ،عبادت و قیام لیل، یہ تمام قراء کا شیوہ تھا ،حضرت منذرؓ بھی انہی اوصاف سے متصف تھے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. طبقات:2/36
  2. اسد الغابہ جلد3 صفحہ 225حصہ ہشتم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
  3. (اسد الغابہ:4/418)