عبد اللہ بن طارق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ بن طارق
معلومات شخصیت

عبد اللہ بن طارق غزوہ بدر میں شامل انصاری صحابی ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

عبد اللہ نام تھا،قبیلۂ بلی سے تھے اورانصار میں قبیلۂ ظفر کے حلیف تھے،سلسلۂ نسب یہ ہے،عبد اللہ بن طارق بن عمرو بن مالک، بعض لوگ ان کو ٖظفری کہتے ہیں، ابن سعد کے نزدیک ٖظفری اور بلوی دوجداگانہ اشخاص ہیں؛ لیکن صحیح یہ ہے ٖظفری اوربلوی دو الگ الگ شخص نہیں ؛بلکہ ایک ہی مسمیٰ کے دو نام ہیں، بلوی اپنے قبیلہ کی نسبت سے اور ظفری حلف کی نسبت سے مشہور تھے۔ والدہ کے نام معلوم نہیں،اتنا پتہ چلتا ہے کہ معتب بن عبید اور یہ دونوں اخیافی بھائی تھے۔

اسلام[ترمیم]

ہجرت کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے۔

غزوات[ترمیم]

بدر اور احد میں شرکت کی۔ کے آخر میں آنحضرتﷺ نے جن 6 آدمیوں کو قبیلہ عضل و قارہ میں اشاعتِ اسلام کے لیے روانہ کیا تھا ان میں ایک عبد اللہ بن طارق بھی تھے یہ لوگ مقام رجیع پہنچے تو قبیلۂ ہذیل نے سرکشی کرکے ان کا محاصرہ کر لیا، مرثد بن ابی مرثد، خالد بن بکیر اور عاصم بن ثابت تین بزرگ وہیں لڑکر قتل ہوئے ،

شہادت[ترمیم]

خبیب بن عدی ،عبد اللہ بن طارق اور زید بن دثنہ کفار کے ہاتھ آ گئے اور قید ہو گئے، کفار ان کو لے کر مکہ چلے تو ظہران نام ایک مقام پر پہنچ کر عبد اللہ نے اپنے کو قید و بند سے چھڑالیا اورتلوار کھینچ کر پیچھے ہٹے ،کفار نے یہ دیکھ کر ان کو پتھر مارنا شروع کیا، جس سے وہ جان بحق ہو گئے۔[1][2]

فضل وکمال[ترمیم]

قرآن وحدیث میں حضرت عبد اللہؓ کو جو دستگاہ تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ نے ان کو اشاعت اسلام کا کام سپرد فرمایا تھا وہ اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ نو مسلموں کو قرآن، مسائل دین اورارکان اسلام کی باقاعدہ تعلیم بھی دیتے تھے، صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں: بعثھم رسول اللہ لیفقھوھم فی الدین ویعلمو ہم القرآں وشرائع الاسلام یعنی ان کو رسول اللہ ﷺ نے اس لیے بھیجا تھا کہ مسائل دین کی تعلیم دیں ،قرآن پڑھائیں اوراسلام کی ضروری باتیں سکھائیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسد الغابہ جلد2 صفحہ281حصہ پنجم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
  2. اصحاب بدر، صفحہ 165، قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور