عثمان بن ابی العاص

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عثمان بن ابی العاص
والی طائف
مدت منصب
دسمبر 630ء – 636ء
عہدے کا قیام
حکم بن ابی العاص ثقفی
والی بحرین و عُمان
مدت منصب
636ء – 637ء
علاء حضرمی
علاء حضرمی
مدت منصب
638ء – 650ء
علاء حضرمی
 
معلومات شخصیت
مقام پیدائش طائف  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 671ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ خالدہ بنت ابی لہب  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ فاطمہ بنت عبد الله  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رشتے دار عبد اللہ (بیٹا)
ام محمد بنت عبد اللہ (پوتی)
حکم بن ابی العاص (بھائی)
مغیرہ بن ابی العاص (بھائی)
ابو امیہ (بھائی)
ابو عمرو (بھائی)
حفص (سوتیلا بھائی)
عملی زندگی
پیشہ محدث،  والی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ
شاخ راشدی فوج
عہدہ جرنیل  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں فتنۂ ارتداد کی جنگیں

ایران کی عرب فتح

عثمان بن ابی العاص ثقفی (متوفی 671ء یا 675ء) بنو ثقیف سے صحابی تھے جو عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کے دور میں بحرین وعُمان کے 636ء سے 650ء تک والی رہے۔ سنہ 51ھ میں معاویہ کے عہد میں بصرہ میں وفات ہوئی.[1]

نام ونسب[ترمیم]

عثمان نام، ابو عبد اللہ کنیت نسب نامہ یہ ہے، عثمان بن ابی العاص بن بشر بن دھمان بن عبد اللہ بن آبان بن یسار بن مالک بن خطیط بن جشم ثقفی۔

اسلام[ترمیم]

غزوہ طائف کے بعد عثمان بنی ثقیف کے وفد کے ساتھ مدینہ آئے،یہ اس وفد کے سب سے چھوٹے رکن تھے،آنحضرتﷺ کے دستِ حق پرست پر مشرف باسلام ہوئے، آپ نے تبر کا تھوڑا سا قرآن پڑھایا،قبول اسلام کے بعد مشہور حافظ قرآن حضرت ابی ابن کعبؓ سے قرآن کی تعلیم میں مصروف ہو گئے،جب ثقیف کا وفد وطن لوٹنے لگا تو آنحضرتﷺ سے ایک ایسے صاحب علم امیر کی درخواست کی جو قبیلہ کے نو مسلموں کی امامت کرے اورانہیں مذہبی تعلیم دے سکے۔ [2]

بنی ثقیقف کی مارت[ترمیم]

گو عثمان جدید الاسلام تھے،لیکن ان میں تعلیم کی بڑی استعداد تھی ان کے تعلیمی ذوق و شوق کو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھا کہ یہ لڑکا ثقہ فی الاسلام اورتعلیم قرآن کا بڑا شایق ہے،اس لیے آنحضرتﷺ نے بنی ثقیف کی امارت امامت ان ہی کو تفویض فرمادی اورہدایت فرمائی کہ لوگوں کی حالت کا اندازہ کرکے نماز پڑھانا، نمازیوں میں کمزور بوڑھے،بچے اورکاروباری ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ [3]

فتنہ ارتداد میں مساعی[ترمیم]

حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں جب ارتداد کا فتنہ اٹھا اور قبائل عرب اس کا شکار ہونے لگے تو عثمان نے بنی ثقیف کو نہایت دانشمندی کے ساتھ اس وبا سے بچالیا، سب کو جمع کرکے تقریر کی کہ برادرانِ ثقیف !تم لوگ سب سے آخر میں خلعتِ ایمان سے سرفراز ہوئے اس لیے سب سے پہلے اسے نہ اتار پھینکو۔ [4]

بصرہ کی امارت[ترمیم]

حضرت عمرؓ نے جب بصرہ آباد کرایا تو وہاں کے لیے ایک صاحب علم و فہم امیر کی ضرورت پڑی ،عثمان آنحضرتﷺ کے زمانہ سے اس کام کو کرتے چلے آئے تھے،اس لیے لوگوں نے ان کا نام لیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا، ان کو رسول اللہ نے طائف پرمقرر فرمایا تھا، اس لیے میں انھیں معزول نہیں کرسکتا، لوگوں نے کہا آپ معزول نہ کیجئے ؛بلکہ عثمانؓ کو لکھیے کہ وہ وہاں کسی کو اپنا قائم مقام بنا کر چلے آئیں، فرمایا یہ ہو سکتا ہے ؛چنانچہ عثمان کو خط لکھا یہ طائف میں اپنے بھائی حکم کو اپنا قائم مقام بناکر حاضر ہوئے،حضرت عمرؓ نے حکم کو ان کی جگہ ان کا قائم مقام بنادیا اور عثمان کو بصرہ بھیجدیا،بصرہ آنے کے بعد عثمان نے یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

بحرین اور عمان کی ولایت اورفارس پر فوج کشی[ترمیم]

بصرہ کی ولایت کے زمانہ میں حضرت عمرؓ نے بحرین اورعمان کی حکومت بھی عثمان کے متعلق کردی،انھوں نے ان دونوں مقاموں کو مطیع بنانے کے بعد اپنے بھائی حکم کو ایک فوج کے ساتھ بحری راستہ سے فارس روانہ کیا انھوں نے جزیرہ ابر کاوان اورتوج فتح کیا،ایک روایت یہ ہے کہ عثمان نے خود فوج کشی کی اورتوج فتح کرکے یہاں مسجد یں بنوائیں اور مسلمانوں کی نوآبادی قائم کی ،بہرحال فارس کے مرزبان شہرک نے جب دیکھا کہ مسلمان اس کے حدود میں داخل ہوتے جا رہے ہیں تو ایک لشکر جرار لے کر انھیں روکنے کے لیے راشہر پہنچا ،عثمان کے بھائی حکم اورسوار بن ہمام نے ان کا مقابلہ کیا اورشہر ک مارا گیا۔ اس کے بعد جب ایران پر عام لشکر کشی ہوئی،تو حضرت عمرؓ نے عثمان کو فارس پر حملہ کرنے کا حکم دیا، ابو موسیٰ اشعرؓی کو جو بصرہ میں تھے،ان کی مدد کے لیے لکھا،اس حکم پر عثمان اپنے بھائی مغیرہ کو بحرین میں اپنا قائم مقام بناکر توج آئے اوراسے مرکز قرار دیکر فارس کے مختلف حصوں میں فوج کشی شروع کردی، ابو موسیٰ اشعریؓ وقتا فوقتا بصرہ سے ان کی مدد کے لیے آتے رہتے تھے،توج آنے کے بعد عثمان نے ہرم بن ھیان عبدی کو قلعہ شیرپر مامور کیا، انھوں نے اس کو فتح کیا اور خود عثمان نے جرہ کا زروں ،نوبندھان وغیرہ سابور کے علاقوں کو زیر نگین کیا، پھر ابو موسی کے ساتھ مل کر ارجان شیراز،سینیر وغیرہ پر قبضہ کیا، اس کے بعد پھر تنہا حصن جنایا کو فتح کیا، جنایا کے بعد دارابجرد کے بعد جہرم پر قبضہ کیا جہرم کے بعد نسیا پہنچے، یہاں کے حکمران نے بھی دارا بجبردکے شرائط پر صلح کرلی، اس کے بعد باختلاف 23ھ یا 24 ھ میں فارس کے پایہ تخت سابور پہنچے،مقتول شہرک کا بھائی یہاں کا حاکم تھا،اس نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک عرب نے اس کا کرتا اتار لیا ہے، اس خواب کو اس نے بد فالی پر محمول کیا اور مسلمانوں سے لڑنا مناسب نہ سمجھا اور عثمان سے چند شرائط پر صلح کرلی،اس طرح فارس کا علاقہ کچھ صلحا اور کچھ بزور شمشیر مفتوح ہو گیا اس صلح کے کچھ دنوں بعد پھر اہل سابور باغی ہو گئے 26 میں عثمانؓ اورابو موسی اشعریؓ نے پھر انھیں مطیع بنایا۔ [5] حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بھی عثمان کی فوجی سر گرمی جاری رہیں،اصطخر حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہو چکا تھا،لیکن آپ کی وفات کے بعد ایرانیوں نے بغاوت کرکے پھر اپنے قبضہ میں لے لیا تھا،27ھ میں عثمانؓ بن ابی العاص نے دوبارہ اس پر قبضہ کیا [6] حضرت عثمانؓ نے اس کے صلہ میں بارہ ہزار جریب زمین مرحمت فرمائی۔ [7]

وفات[ترمیم]

ان کا سنہ وفات متعین طور سے نہیں بتایا جا سکتا ،امیر معاویہ کے عہد میں 55ھ کے لگ بھگ وفات پائی۔ [8]

فضل وکمال[ترمیم]

عثمان گو بالکل آخری زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے،لیکن نہایت زیرک ودانا تھے، آنحضرتﷺ نے بنی ثقیف کی امارت پر سرفراز فرماتے وقت انھیں زیر کی کی سند عطا فرمائی تھی،( انہ کیس) یہ زیرک آدمی ہیں [9] اس فطری استعداد کے علاوہ وہ علم کے شایق بھی تھے،اسلام کے بعد ہی حضرت ابی بن کعبؓ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی، حضرت ابوبکرؓ نے ان کے علمی شوق کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ یہ لڑکا تفقہ فی الاسلام اور علم بالقرآن کا بڑا شایق ہے، اس لیے عثمان تاخیر فی الاسلام اور کم سنی کے باوجود اپنے قبیلہ بھر میں علمی حیثیت سے ممتاز تھے،اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں بنی ثقیف کا امام بھی بنایا تھا،اگرچہ انھیں صحبتِ نبوی سے استفادہ کا بہت کم موقع ملا ؛لیکن ان کی مرویات کی تعداد انتیس 29 تک پہنچتی ہے،حضرت حسنؓ بصری فرماتے تھے کہ میں نے عثمان سے افضل کسی کو نہیں پایا،[10]یزید بن حکم، سعید بن مسیب،نافع ابن جبیر بن مطعم مطرف ابو العلاء موسی بن طلحہ بن عبد اللہ محمد بن عیاض ،حسن اورابن سیرین نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ [11]

تبلیغ احکام نبوی[ترمیم]

ارشادات و فرامین نبوی کی تبلیغ ہر آن اور ہر لمحہ پیش ِ نظر رہتی تھی ایک مرتبہ کلاب بن امیہ عشر وصول کرنے والوں کی جماعت میں بیٹھے تھے،عثمان ادھر سے گذرے تو کلاب سے پوچھا، یہاں کیوں بیٹھے ہو، انھوں نے جواب دیا، زیاد نے عشر پر مقرر کیا ہے، یہ سن کر عثمان نے کہا میں تم کو ایک حدیث سناؤں؟ کلاب نے کہا سنائیے،انھوں نے یہ حدیث سنائی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ،آپ فرماتے تھے کہ داؤد علیہ السلام رات کے ایک خاص حصہ میں اپنے گھر والوں کو جگاتے تھے کہ آل داؤد اٹھو نماز پڑھو، اس وقت ساحر اور عشر وصول کرنے والوں کے علاوہ خدا سب کی دعائیں قبول کرتا ہے، کلاب نے یہ حدیث سن کر اسی وقت ابن زیاد کے پاس جاکر اپنی خدمت سے استعفا داخل کر دیا [12] (یہ حکم غیر متدین اورسخت گیر عشر وصول کرنے والوں کے لیے ہے،ورنہ دیانت داری کے ساتھ وصول کرنے میں کوئی قباحت نہیں)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، ترجمة عثمان بن أبي العاص، جـ4، صـ 373"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اپریل 2020 
  2. (سیرۃ ابن ہشام:2/338)
  3. (اصابہ:4/221)
  4. (اصابہ:4/221)
  5. (فتوح البلدان بلاذری:/393،396،ملخصاً)
  6. (طبری:2819)
  7. (استیعاب:2/496)
  8. (تہذیب التہذیب:7/129)
  9. (ابن سعد،جلد7،ق1،صفحہ:66)
  10. (تہذیب الکمال:260)
  11. (تہذیب التہذیب:7/138)
  12. (مسند احمد بن حنبل:4/22)