سلمہ بن ہشام
سلمة بن هشام | |
---|---|
سلمة بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عُمَر بن مخزوم | |
معلومات شخصیت | |
لقب | أبا هاشم[1] |
رشتے دار | أمه : ضباعہ بنت عامر أخوة : أبو جہل بن ہشام عاص بن ہشام حارث بن هشام خالد بن ہشام |
عملی زندگی | |
نسب | القرشيّ المخزوميّ |
اہم واقعات | ہجرت حبشہ |
تاریخ قبول اسلام | أسلم قديمًا بمکہ |
درستی - ترمیم ![]() |
صحابی سلمہ بن ہشام بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم قرشی مخزومی وہ اسلام قبول کرنے والوں میں سے سابقین اولین میں سے تھے، جنھوں نے مکہ مکرمہ میں ابتدائی دور ہی میں اسلام قبول کیا۔ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔
ان کی والدہ کا نام ضُباعة بنت عامر بن قرط بن سلمہ بن قُشَير تھا۔[2][3]
وہ ابو جہل بن ہشام کے بھائی اور خالد بن ولید کے چچا زاد بھائی تھے۔[4]
حبشہ کی طرف ہجرت
[ترمیم]انھوں نے مکہ مکرمہ میں ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا اور ہجرتِ حبشہ ثانیہ (دوسری ہجرت) کے موقع پر جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ کی سرزمین کی طرف ہجرت کی۔[2][5][6]
ان کی آزمائش (محنَت) مکّہ میں
[ترمیم]جب سَلَمة بن ہشام حبشہ سے مکہ واپس آئے، تو ابو جہل نے انھیں قید کر لیا، انھیں مارا پیٹا، بھوکا اور پیاسا رکھا۔ ان کے اس ظلم پر نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے دعا کی اور نماز و قنوت میں انھیں بعض دیگر صحابہ کے ساتھ خصوصی طور پر یاد فرمایا۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے: جب نبی کریم ﷺ نے نمازِ فجر کی رکعت سے سر اٹھایا تو دعا فرمائی: "اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے دیگر کمزوروں کو نجات عطا فرما۔ اے اللہ! مُضَر (قبیلہ) پر اپنی گرفت سخت فرما، اے اللہ! ان پر یوسفؑ کے زمانے کے جیسے قحط کے سال لے آ۔"[3] :[7]
مدینہ کی طرف ہجرت
[ترمیم]سَلَمة بن ہشام غزوۂ خندق تک مدینہ ہجرت نہ کر سکے۔ اگرچہ ان کے دو بھائی—ابو جہل اور عاص بن ہشام—غزوۂ بدر میں مارے جا چکے تھے، پھر بھی وہ مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں قید رہے۔ آخرکار غزوۂ خندق کے بعد وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور مدینہ پہنچ گئے۔
جب وہ نجات پا گئے تو ان کی ماں ضُباعة نے خوشی کے اظہار میں اشعار کہے: "قسم ہے ربِ کعبہ کی کہ سَلَمہ سلامت ہے۔ الٰہی! اسے ہر دشمن پر غالب کر دے۔ اس کے دو ہاتھ ہیں جن سے وہ پوشیدہ امور کو سنبھالتا ہے؛ ایک ہاتھ سے عطا کرتا ہے اور دوسرا نعمتیں بانٹتا ہے۔"[2][3]
غزوۂ مؤتہ
[ترمیم]انھوں نے غزوۂ مؤتہ میں شرکت کی۔ روایت ہے کہ واپسی کے بعد وہ نماز میں شرکت نہیں کرتے تھے، کیونکہ جب وہ اور غزوۂ مؤتہ سے واپس آنے والے صحابہ مسجد میں آتے، تو لوگ ان پر آوازیں کسنے لگتے: "اے بھاگنے والو! تم اللہ کے راستے میں فرار ہوئے!" ام المؤمنین حضرت اُمِّ سَلَمہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے سلمہ بن ہشام کی بیوی سے پوچھا: "مجھے کیا ہوا ہے کہ میں سلمہ کو نبی ﷺ کے ساتھ نماز میں نہیں دیکھتی؟" تو اُس خاتون نے جواب دیا: "جب بھی وہ باہر نکلتے ہیں، لوگ انھیں پکارتے ہیں: 'اے فرار ہونے والے!' اور یہ واقعہ غزوۂ مؤتہ کے بعد پیش آیا۔"[4] [1]
شہادت
[ترمیم]سَلَمة بن ہشام جمادی الاولى 13 ہجری میں اجنادین کی جنگ میں شہید ہوئے اور یہ واقعہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات سے چوبیس دن پہلے پیش آیا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں شام کی طرف جہاد کے لیے نکلے اور مرجُ الصُّفْر کے مقام پر 14 ہجری، یعنی حضرت عمرؓ کے خلافت کے ابتدائی ایام میں شہید ہوئے۔[8][9]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب الإصابة في تمييز الصحابة جـ3، ص 130
- ^ ا ب پ الاستيعاب في معرفة الأصحاب جـ2، ص 203
- ^ ا ب پ الطبقات الكبير جـ4، ص 121
- ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة جـ2، ص 531
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبرى، جـ3، ص85.
- ↑ البداية والنهاية جـ3، باب:هجرة أصحاب رسول الله من مكة إلى أرض الحبشة ـ على ويكي مصدر
- ↑ البخاري، الصحيح الجامع ، حديث رقم (1006).
- ↑ الصفدي، الوافي بالوفيات، جـ5، ص:102
- ↑ ابن عساكر (1995)۔ تاريخ دمشق۔ دار الفكر۔ ج 22
{{حوالہ کتاب}}
: نامعلوم پیرامیٹر|صحہ=
رد کیا گیا (معاونت)