مندرجات کا رخ کریں

سلمہ بن ہشام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلمة بن هشام
سلمة بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عُمَر بن مخزوم
معلومات شخصیت
لقب أبا هاشم[1]
رشتے دار أمه : ضباعہ بنت عامر
أخوة : ابو جہل بن ہشام
عاص بن ہشام
حارث بن ہشام
خالد بن ہشام
عملی زندگی
نسب القرشيّ المخزوميّ
اہم واقعات ہجرت حبشہ
تاریخ قبول اسلام قدیم اسلام مکہ


سلمہ بن ہشام رضی اللہ عنہ (وفات: 14ھ) جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدا ہی میں مشرف باسلام ہو گئے تھے۔کفار مشرکین نے آپ کو اذیتیں دیتے تھے۔آپ حبشہ ہجرت کر گئے واپس آئے تو کفار نے آپ کو بند کر دیا غزوہ بدر ہو جانے کے بعد آپ کو کھولا گیا آپ مدینہ ہجرت کر گئے۔غزوہ بدر ہو چکی تھی آپ غزوہ احد اور بعد والے تمام غزوات میں شریک ہوئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں 14ھ میں وفات پائی ۔

نام و نسب

[ترمیم]

سلمہ نام، سلسلہ نسب یہ ہے،سلمہ بن ہشام بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر المخزوم القرشی، ماں کا نام ضباعہ تھا، سلمہؓ مشہور دشمن اسلام ابو جہل کے بھائی تھے۔ [2]

اسلام ہجرت اور شدائد

[ترمیم]

سلمہ بن ہشام رضی اللہ عنہ دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مشرف بااسلام ہوئے اور ہجرت کرکے حبشہ گئے؛ لیکن کچھ دنوں کے بعد اہل مکہ کے اسلام کی غلط خبر سن کر دوسرے مہاجرین کے ساتھ واپس آگئے ،اس خبر کی تردید کے بعد اور لوگ تو واپس چلے گئے؛لیکن ان کو ابوجہل نے نہ جانے دیا اورطرح طرح کی تکلیفیں پہنچانا شروع کیں، کھانا پینا بالکل بند کر دیا، مارپیٹ بھی کرتا تھا؛ لیکن یہ وہ نشہ نہ تھا جس کو سختی تلخی اتار دیتی ،اس لیے اس کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں ،ابھی اسلام بھی اتنا قوی نہیں ہوا تھا کہ آنحضرت کچھ مدد فرماتے؛لیکن نماز کے بعد سلمہ اور ان کے ساتھیوں کے لیے دعا فرماتے تھے؛کہ خدایا ولید بن ولید ، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ربیعہ کو مشرکین مکہ کی سختیوں سے نجات دلا۔ [3]

قید محن

[ترمیم]

اسلام لانے کے بعد مکہ لوٹ گئے ، راستہ میں بھائیوں نے تو کوئی تعرض نہ کیا مگر مکہ پہنچ کر دوسرے بلا کشانِ اسلام کی طرح ان کو بھی قید کر دیا اور عیاش بن ابی ربیعہؓ اور سلمہ بن ہشامؓ کے ساتھ طوق وسلاسل کی نگرانی میں دن کاٹنے لگے، بدر کے قبل آنحضرت عیاش اور سلمہ کے لیے دعا فرماتے تھے ، غزوہ بدر کے بعد جب ولید قید ہوئے تو ان کے لیے بھی دعافرمانے لگے۔

قید سے فرار

[ترمیم]

عرصہ تک سلمہ بن ہشام قید محن کی مصیبتیں جھیلتے رہے،ایک دن موقع پاکر نکل بھاگے اور سیدھے مدینہ پہنچے، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عیاش اور سلمہ کا حال پوچھا ،عرض کیا ان پر بہت سختیاں ہو رہی ہیں ، ایک بیڑی میں دونوں کے پیر ڈال دیے گئے ہیں، فرمایا تم واپس جاؤ، وہاں کا لوہار اسلام قبول کرچکا ہے،اس کے یہاں ٹھہرو اور قریش کی آنکھ بچا کر خفیہ عیاش اور سلمہ کے پاس پہنچو اوران سے کہو کہ میں رسول اللہ کا فرستادہ ہوں میرے ساتھ نکل چلو۔

ایک کارنامہ

[ترمیم]

اس فرمان کے مطابق یہ مکہ (ولید بن ولیدؓ) پہنچے اور عیاش و سلمہ سے مل کر ان کو آنحضرت کا پیام سنادیا،یہ دونوں نکل کر ساتھ ہو گئے، قریش کو خبر ہوئی تو خالد بن ولید نے کچھ لوگوں کو لے کر تعاقب کیا، مگر ناکام رہے اوریہ مختصر قافلہ بخیر وخوبی مدینہ پہنچ گیا۔ [4] [5]

مغازی

[ترمیم]

غزوہ بدر کا معرکہ ان کی قید کے زمانہ میں ختم ہو چکا تھا،رہائی کے بعد اورتمام لڑائیوں میں برابر شریک ہوتے رہے،غزوۂ موتہ میں جن صحابہ کرام کے پیر اکھڑ گئے تھے،ان میں ایک سلمہؓ بھی تھے، اس ندامت میں انھوں نے باہر نکلنا چھوڑدیا،جب باہر نکلتے تو لوگ فرار بھگوڑا کہہ کر طعنہ زنی کرتے تھے۔ [6] لیکن رحمۃ للعالمین "کرار "حملہ آور کہہ کر حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ [7]

وفات

[ترمیم]

عہد صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں شام کی فوج کشی میں شریک ہوئے ، اسی سلسلہ میں حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں 14ھ میں مرج روم کے معرکہ میں شہید ہو گئے۔ [8]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. الإصابة في تمييز الصحابة جـ3، ص 130
  2. (اسد الغابہ:2/341)
  3. (ابن سعد،جزو4،ق1:96)
  4. (ابن سعد جزء4،ق1،:97،98،واستیعاب ترجمہ ولید بن ولید)
  5. (مستدرک حاکم:3/252 وابن سعد:96)
  6. (اسد الغابہ:2/340)
  7. (اصابہ:3/130)
  8. (مستدرک حاکم:3/252)