سعد بن معاذ
سعد بن معاذ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 590 مدینہ منورہ |
وفات | سنہ 627 (36–37 سال) مدینہ منورہ |
والدہ | کبشہ بنت رافع |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ بعاث، غزوۂ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق |
درستی - ترمیم ![]() |
سعد بن معاذ قبیلہ اشہل کے سردار اور معزز صحابی تھے۔
نام ونسب[ترمیم]
سعد نام،ابو عمر وکنیت،سید الاوس لقب، قبیلہ عبد الاشہل سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے ،سعد بن معاذ بن نعمان بن امرؤ القیس بن زید بن عبد الاشہل بن حشم بن حارث بن خزرج بن بنت (عمرو) بن مالک بن اوس، والدہ کا نام کبشہ بنت رافع تھا، جو ابو سعید خدری کی چچا زاد بہن تھیں، قبیلۂ اشہل ،قبائل اوس میں شریف ترین قبیلہ تھا اور سیادت عامہ اس میں وراثت چلی آتی تھی۔ والد نے ایام جاہلیت ہی میں وفات پائی،والدہ موجود تھیں ہجرت سے قبل ایمان لائیں اورسعد کے انتقال کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں۔
اسلام[ترمیم]
اگرچہ عقبہ اولیٰ میں یثرب میں اسلام آ چکا تھا،لیکن مصعب بن عمیر کی وجہ سے بہت لوگ مسلمان ہوئے شروع میں سعد بن معاذ ابھی حالت کفر میں تھے، ان کو مصعب کی کامیابی پر سخت حیرت اور اپنی قوم کی بے وقوفی پر انتہا درجہ کا حزن وملال تھا۔[1] اسعد بن زرارہ نے مصعب سے کہا تھا کہ سعد بن معاذ مسلمان ہوجائیں گے تو کوئی کافر نہ رہ سکے گا، اس لیے آپ کو ان کے مسلمان کرنے کی فکر کرنی چاہیے، سعد بن معاذ مصعب کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں،آپ بیٹھ کر سن لیجئے،ماننے نہ ماننے کا آپ کو اختیار ہے سعد نے منظور کیا تو مصعب نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں جن کو سن کر سعد بن معاذ کلمۂ شہادت پکار اٹھے اورمسلمان ہو گئے۔ قبیلہ عبد الاشہل میں یہ خبر فوار پھیل گئی، سعد نے سب کو کہا جب تک مسلمان نہ ہوگے میں تم سے بات چیت نہ کروں گا،سعدکو اپنی قوم میں جو عزت حاصل تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ شام ہونے سے قبل تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ مسلمان ہوکرسعدنے مصعب کو اسعد بن زرارہ کے مکان سے اپنے ہاں منتقل کر لیا۔
غزوات میں شرکت[ترمیم]
سعد عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے اور امیہ بن خلف کے مکان پر (جو مکہ کا مشہور رئیس اوران کا دوست تھا)قیام کیا (امیہ مدینہ آتا تھا تو ان کے ہاں ٹھہرا کرتا تھا) اورکہا جس وقت حرم خالی ہو مجھے خبر کرنا، چنانچہ دوپہر کے قریب اس کے ساتھ طواف کے لیے نکلے راستہ میں ابو جہل سے ملاقات ہوئی ،پوچھا یہ کون ہیں؟ امیہ نے کہا"سعد" ابو جہل نے کہا تعجب ہے کہ تم صابیوں (بے دین ،آنحضرتﷺ اورصحابہ مراد ہیں) کو پناہ دے کر اوران کے انصار بن کر مکہ میں نہایت اطمینان سے پھر رہے ہو ،اگر تم ان کے ساتھ نہ ہوتے توتمہارا گھر پہنچنا دشوار ہوجاتا، سعد نے غضب آلود لہجہ میں جواب دیا، تم مجھے روکو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ میں تمہارا مدینہ کا راستہ روک دونگا امیہ نے کہا "سعد ابو الحکم (ابو جہل) مکہ کا سردار ہے،اس کے سامنے آواز پست کرو" سعدنے فرمایا،چلو ہٹو، میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ مسلمان تم کو قتل کریں گے،بولا کیا مکہ میں آکر ماریں گے؟ جواب دیا اس کی خبر نہیں۔[2] اس پیشن گوئی کے پورا ہونے کا وقت غزوۂ بدر تھا، آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو صحابہ سے مشورہ کیا، سعدے اُٹھ کر کہا یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ پر ایمان لائے، رسالت کی تصدیق کی،اس بات کا قرار کیا کہ جو کچھ آپ لائے ہیں حق اور درست ہے سمع اورطاعت پر آپ سے بیعت کی پس جو ارادہ ہو کیجئے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا اگر آپ سمندر میں کود نے کو کہیں تو ہم حاضر ہیں ہمارا ایک آدمی بھی گھر میں نہ بیٹھے گا، ہم کو لڑائی سے بالکل خوف نہیں اور انشاء اللہ میدان میں ہم صادق القول ثابت ہوں گے، خدا ہماری طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے،[3] آنحضرتﷺ اس تقریر سے خوش ہوئے قبیلۂ اوس کا جھنڈا آنحضرتﷺ نے ان کے حوالہ کیا، غزوہ احد میں انہو ں نے آنحضرتﷺ کے آستانہ پر پہرہ دیا تھا۔ غزوہ احد میں آنحضرتﷺ سب سے زیادہ ثابت قدم تھے اورآپ کے ساتھ دو اصحاب تھے انہی میں سعد بن معاذ بھی تھے۔[4] اس غزوہ میں ان کے بھائی عمروشہید ہو گئے۔[5] غزوۂ خندق میں جو 5ھ میں ہوا، اس میں شریک تھے۔ بنو قریظہ کو آنحضرتﷺ نے جلا وطن کرنا چاہا تو چونکہ وہ قبیلۂ اوس کے حلیف تھے کہلا بھیجا کہ ہم سعد کا حکم مانیں گے، آنحضرتﷺ نے سعد کو اطلاع کی وہ گدھے پر سوار ہوکر آئے، مسجد کے قریب پہنچے تو آنحضرتﷺ نے انصار سے کہا کہ اپنے سردار کی تعظیم کے لیے اٹھو۔ پھر سعدسے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے حکم کے منتظر ہیں،عرض کیاتو میں حکم دیتا ہوں کہ جو لوگ لڑنے والے ہیں قتل کیے جائیں،اولاد غلام بنائی جائے اور مال تقسیم کر دیا جائے، آنحضرتﷺ نے یہ فیصلہ سن کر کہا کہ تم نے آسمانی حکم کی پیروی کی ؛چنانچہ اس کے بموجب اپنے سامنے 400 آدمی قتل کرائے۔
وفات[ترمیم]
غزوہ خندق میں حبان بن عبد مناف نے جو عرقہ کا بیٹا تھا، ہاتھ پر ایک تیر مارا جس سے ہفت اندام کٹ گئی زخمی ہونے کے بعدمسجد نبوی کے خیمہ میں رہتے تھے اور حضور ﷺ روزانہ ان کی عیادت کو تشریف لاتے تھے ؛چونکہ زندگی سے مایوس ہوچکے تھے ،خدا سے دعا کی کہ قریش کی لڑائیاں باقی ہوں تو مجھے زندہ رکھ ان سے مجھ لڑنے کی بڑی تمنا ہے؛ کیونکہ انہوں نے تیرے رسول کو اذیت دی ،تکذیب کی اور مکہ سے نکال دیا اور اگر لڑائی بند ہونے کا وقت آگیا ہے تو اس زخم سے مجھے شہادت دے اور بنی قریظہ کے معاملہ میں میری آنکھیں ٹھنڈی کر، اس دعا کا دوسرا ٹکڑا مقبول ہوا، [6] آنحضرتﷺ نے خود زخم کو داغا جس سے خون رک گیا، لیکن اس کے عوض ہاتھ پھول گیا تھا، ایک دن زخم پھٹا اسی سے وفات ہوئی ،جنازہ روانہ ہوا تو خود آنحضرتﷺ ساتھ ساتھ تھے، فرمایا کہ ان کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک ہیں،لاش بالکل ہلکی ہو گئی تھی، منافقین نے مضحکہ کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ان کا جنازہ فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔[7]دفن کرکے واپس ہوئے تو سرورکائنات ﷺ نہایت مغموم تھے،ریش مبارک ہاتھ میں تھی اوراس پر مسلسل آنسو گر رہے تھے۔ حضرت سعدؓ کی وفات تاریخ اسلام کا غیر معمولی واقعہ ہے، انہوں نے اسلام کی جو خدمات انجام دی تھیں، جو مذہبی جوش ان میں موجود تھا اس کی بدولت وہ انصار میں صدیقی اکبر سمجھے جاتے تھے،حضرت عائشہؓ کے معاملہ میں جب آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس دشمن خدا (ابن ابی) نے مجھے سخت تکلیف دی ہے تم میں کوئی اس کا تدارک کرسکتا ہے؟ تو سب سے پہلے انہوں نے اٹھ کر کہا تھا کہ قبیلۂ اوس کا آدمی ہو تو مجھ کو بتائے میں ابھی گردن مارنے کا حکم دیتا ہوں؟ اس وقت اسی محبت صادق اور عاشقِ جاں نثار نے وفات پائی تھی،اس واقعہ کی اہمیت اس سے اور بڑھ جاتی ہے کہ فرشتے جنازہ میں موجود تھے،آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کی موت سے عرش مجید جنبش میں آگیا ہے۔ [8] ایک انصاری فخریہ کہتا ہے وما احتزعرش اللہ من موت ھالک سمعنا بہ الا سعد ابی عمرو کسی مرنے والے کی موت پر خدا کا عرش نہیں ہلا مگر سعد ابی عمر وکی موت پر
حلیہ[ترمیم]
حلیہ یہ تھا کہ قد دراز، بدن دوہرا۔ [9]
مناقب واخلاق[ترمیم]
اخلاقی حیثیت سے سعدبڑے درجہ کے انسان تھے، عائشہ فرماتی ہیں، رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بڑھ کر عبد الاشہل کے تین آدمی تھے،سعدبن معاذ، اسید بن حضیر اور عبادہ بن بشر۔ وہ خود کہتے ہیں کہ یوں تو میں ایک معمولی آدمی ہوں؛ لیکن تین چیزوں میں جس رتبہ تک پہنچنا چاہیے پہنچ چکا ہوں ،پہلی بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جو حدیث سنتا ہوں اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین رکھتا ہوں،دوسرے نماز میں کسی طرف خیال نہیں کرتا، تیسرے جنازہ کے ساتھ رہتا ہوں تو منکر نکیر کے سوال کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ یہ خصلتیں پیغمبروں میں ہوتی ہیں۔ آنحضرتﷺکو ان کے اعمال پر جو اعتماد تھا وہ اس حدیث سے معلوم ہو سکتا ہے جس میں مردہ کو قبر کے دبانے کا ذکر آیا ہے،اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ اگر قبر کی تنگی سے کوئی نجات پاسکتا تو سعد بن معاذ نجات پاتے۔[10] ایک مرتبہ کسی نے آنحضرتﷺ کے پاس حریر کا جبہ بھیجا تھا،صحابہ اس کو چھوتے اور اس کی نرمی پر تعجب کرتے تھے،آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم کو اس کی نرمی پر تعجب ہے ،حالانکہ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بھی زیادہ نرم ہیں۔[11][12]
فضل وکمال[ترمیم]
جیسا کہ اوپر معلوم ہوا حضرت سعدؓ کا انتقال اوائلِ اسلام میں ہوا تھا، آنحضرتﷺ کے فیض صحبت سے انہوں نے 5 برس فائدہ اٹھایا،اس عرصہ میں بہت سی حدیثیں سنی ہونگی،لیکن چونکہ روایات کا سلسلہ آنحضرتﷺ کے بعد قائم ہوا اس لیے ان کی روایتیں اشاعت نہ پاسکیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ایک روایت مذکور ہے جس میں ان کے عمرہ کا ذکر آیا ہے حضرت انسؓ کی ایک حدیث ہے جس میں سعد بن ربیع کے احد میں قتل ہونے کا تذکرہ ہے۔
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ خلاصۃ الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ :92
- ↑ بخاری:2/563
- ↑ زرقافی:1/479
- ↑ زرقانی:2/40
- ↑ طبقات،جلد2،قسم1،صفحہ:30
- ↑ بخاری:2/91
- ↑ جامع ترمذی:633
- ↑ (بخاری:۱/۵۳۶)
- ↑ (ترمذی:۲۹۵)
- ↑ مسنداحمد عن عائشہ
- ↑ بخاری:1/536
- ↑ اسد الغابہ جلد 1 صفحہ912 حصہ چہارم،مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور