عثمان بن مظعون

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عثمان بن مظعون
معلومات شخصیت
مقام پیدائش حجاز , سعودی عرب
وفات 624 عیسوی مدینہ, سعودی عرب
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ خولہ بنت حکیم
اولاد سائب بن عثمان بن مظعون  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
وجہ شہرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی ہونا
دستخط
 

عثمان بن مظعون محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی ہیں جلیل القدر صحابی ، عبادت گزار اہلِ بدر میں سے ہیں۔ میں غزوہ بدر میں شہادت پائی اور جنت البقیع میں سب سے پہلے دفن ہونے والے آپ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جب سیدنا عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گال کا بوسہ لیا اور رونے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک آنسو سیدنا عثمان کے گال پر بہنے لگے اور صحابہ کرام بھی رو دئيے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو سائب! تم اس دنیا سے اس طرح چلے گئے کہ تم نے اس کی کسی چیز سے تعلق نہ رکھا۔آپ کی کنیت ابُوالسَّائِب ہے، [1] آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں اَلسَّلَفُ الصَّالِح کے نام سے پکارا، نیز یہ وہ پہلے صحابی تھے جنہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[2]

نام و نسب[ترمیم]

عثمان نام ، ابوالسائب کنیت ،والد کا نام مظعون اور والدہ کا نام سنحیلہ بنت العنیس تھا ، پورا سلسلہ نسب یہ ہے:
عثمان بن مظعون بن جیب بن وہب بن حذافہ بن جمح بن عمرو بن ہصیص ابن کعب بن لوئی بن غالب القرشی الجمعی [3] [4]

قبل اسلام[ترمیم]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فطرۃ سلیم الطبع ، نیک نفس و پاکباز تھے۔ ایام جاہلیت میں عرب کا ہر بچہ مستِ خرابات تھا ، لیکن ان کی زبان اس وقت بھی بادہ ارغوانی کے ذائقہ سے نا آشنا تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ ایسی چیز پینے سے کیا فائدہ جس سے انسان کی عقل میں فتور آجائے ، ذلیل وکم رتبہ آدمی اس کو مضحکہ بنائیں اور نشہ کی حالت میں ماں بہن کی تمیز بھی جاتی رہے۔[5] [6]

اسلام[ترمیم]

اس فطری پاکبازی کے باعث ان کا لوحِ دل بالکل صاف تھا ، رسول اللہ کی تبلیغ و تلقین نے بہت جلد توحید کا نقش ثبت کر دیا، اربابِ سیر کا بیان ہے کہ اس وقت تک صرف تیرہ صحابہ ؓ ایمان لائے تھے، [7] ابن سعد کی ایک روایت ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ، حضرت ابو عبیدہ بن الحارث ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد ؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ آنحضرت کے ارقم بن ابی ارقم ؓ کے مکان میں پناہ گزین ہونے سے پہلے ایک ساتھ مشرف باسلام ہوئے تھے۔ [8]

ہجرت حبشہ و معاودت[ترمیم]

5 نبوی میں بلاکشانِ اسلام کی ایک جماعت نے رسول اللہ کی اجازت سے ملک حبش کی راہ لی، حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اس بے خانماں گروہ کے امیر تھے، [9] ایک عرصہ تک وہاں مقیم رہنے کے بعد اس غلط افواہ کی بنا پر کہ تمام قریش نے اسلام قبول کر لیا ہے ، پھر واپس تشریف لائے ، لیکن جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ کر خبر بے بنیاد نکلی تو سخت پریشان ہوئے ، کیونکہ دوبارہ اتنی دور لوٹ جانا بھی دشوار تھا اور دوسری طرف مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے مشرکین کا خوف دامنگیر ہوتا تھا، غرض اسی حیص بیض میں جہاں تک پہنچے تھے وہیں رک گئے اور جب ان کے تمام ساتھی ایک ایک کرکے اپنے مشرک اعزہ واحباب کی پناہ میں مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو وہ بھی ولید بن مغیرہ کی حمایت حاصل کرکے مکہ میں داخل ہوئے۔ [10]

ولید بن مغیرہ کے اثر نے گو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اذیتوں سے محفوظ کر دیا تھا، تاہم وہ خود رسول اللہ کی ذات اقدس اور دوسرے صحابہ کرام ؓ کو مبتلائے مصیبت دیکھ کر اس ذاتی راحت واطمینان کو گوارا نہ کرسکے اور ایک روز خود بخود اپنے نفس کو ان الفاظ میں ملامت فرمائی ، افسوس! میرے احباب اور خاندان والے راہِ خدا میں طرح طرح کے مصائب برداشت کر رہے ہیں اور میں ایک مشرک کی حمایت میں اس چین اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہوں! خدا کی قسم یہ میرے نفس کی بہت بڑی کمزوری ہے، اس خیال نے بیتاب کر دیا ، اسی وقت ولید بن مغیرہ کے پاس پہنچے اور فرمایا ، اے ابو عبد شمس تمھاری ذمہ داری پوری ہو چکی ، اس وقت تک میں تمھاری پناہ میں تھا، لیکن اب خدا اور اس کے رسول کی حمایت میں رہنا پسند کرتا ہوں، میرے لیے رسولِ خدا اور ان کے اصحاب کا نمونہ بس ہے، ولید بن مغیرہ نے کہا شاید تمھیں کسی نے اذیت پہنچائی؟ بولے ، نہیں اصل یہ ہے کہ اب مجھے خدا کے سوا اور کسی کی حمایت درکار نہیں ، تم ابھی میرے ساتھ خانہ کعبہ چلو اور جس طرح تم نے میری حمایت کا اعلان کیا تھا اسی طرح اس کو واپس لینے کا اعلان کردو ، غرض ولید نے اصرار سے مجبور ہوکر ان کی خواہش کو مجمع عام میں بیان کیا،حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر اس کی تصدیق کی اور فرمایا صاحبو! میں نے ولید بن مغیرہ کو نہایت ہی باوفا اور مہربان پایا، لیکن چونکہ اب مجھے خدا کے سوا اور کسی کی حمایت پسند نہیں ہے، اس لیے میں خود ہی اس بارِ احسان سے سبکدوش ہوتا ہوں۔

حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس اعلان کے بعد لبید بن ربیعہ کے ساتھ قریش کی ایک مجلس میں تشریف لائے ،لبید چونکہ اس زمانہ کا مشہور شاعر تھا ، اس لیے اس کے پہنچتے ہی شعرو شاعری شروع ہو گئی ، اس نے جب اپنا قصیدہ سناتے ہوئے یہ مصرع پڑھا:
الا کل شے ماخلی اللہ یعنی خدا کے سوا تمام چیزیں باطل ہیں۔ تو حضرت عثمانؓ نے بے اختیار رداددی کہ تم نے سچ کہا؛ لیکن جب اس نے دوسرا مصرع پڑھا: کل نعیم لامحالۃ نائل یعنی تمام نعمتیں یقینا زائل ہو جائیں گی۔ تو بول اُٹھے ،جھوٹ کہتے ہو، اس پر ایک دفعہ تمام مجمع نے ان کی طرف نگاہ غضب آلود ڈال کر لبید سے اس شعر کو مکرر پڑھنے کی فرمائش کی،اس نے اعادہ کیا، تو عثمان بن مظعون نے پھر پہلے مصرع کی تصدیق اور دوسرے کی تکذیب کرکے فرمایا،تم جھوٹ کہتے ہوں،جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہ ہوں گی، لبید نے خفیف ہوکر کہا، گروہ قریش ! خدا کی قسم تمھاری مجلسوں کا حال یہ نہ تھا، اس اشتعال انگیز جملہ سے تمام مجمع میں برہمی پھیل گئی اور ایک بدکردار نے حضرت عثمان ؓ کی طرف بڑھ کر اس زور سے طمانچہ مارا کہ ایک آنکھ زرد پڑ گئی، لوگوں نے کہا عثمان ! خدا کی قسم تم ولید کی حمایت میں نہایت معزز تھے اور تمھاری آنکھ اس صدمہ سے محفوظ تھی، بولے خدا کی حمایت سب سے زیادہ باامن و ذی عزت ہے اور جو میری آنکھ صحیح وتندرست ہے وہ بھی اپنے رفیق کے صدمہ میں شریک ہونے کی متمنی ہے،ولید نے کہا کیا اب بھی تم میری پناہ میں آنا قبول کرتے ہو؟ فرمایا میرے لیے صرف خدا کی پناہ بس ہے۔ [11]
[12][13][14]

ہجرت مدینہ[ترمیم]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک عرصہ تک مکہ مکرمہ میں صبر وسکون کے ساتھ مظالم برداشت کرتے رہے ، یہاں تک کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عموما تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ جس میں ان کے دونوں بھائی حضرت قدامہ بن مظعون ؓ، عبداللہ بن مظعون رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادہ سائب بن عثمان رضی اللہ عنہ شامل تھے ، اس سر زمین امن میں پہنچ کر حضرت عبد اللہ بن سلمہ عجلانی ؓ کے مکان پر فروکش ہوئے، حضرت عثمان ؓ نے اپنے اعزہ سے اس طرح مکہ کو خالی کر دیا تھا کہ ان کے خاندان کا ایک ممبر بھی وہاں رہنے نہ پایا اور تمام مکانات بند کر دیے گئے۔ [15] [16]

مواخات[ترمیم]

آنحضرت نے مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائیوں کو مستقل سکونت کے لیے وسیع قطعاتِ زمین مرحمت فرمائے اور حضرت ابو ہثیم بن تیہان ؓ سے بھائی چارہ کرا دیا۔ [17]

غزوۂ بدر اور وفات[ترمیم]

حق و باطل کی اول کشمکش یعنی معرکۂ بدر میں شریک تھے، میدانِ جنگ سے واپس آکر اسی سال بیمار ہوئے، انصاری بھائی اور ان کی بیوی بچوں نے دلسوزی کے ساتھ تیمارداری کی، لیکن موت کا ازالہ ممکن نہ تھا ، ہجرت کے 30 ماہ بعد یعنی کے اخیر میں وفات پائی۔ [18] حضر ت ام العلاء انصاریہ ؓ(جن کے گھر میں انھوں نے وفات پائی) فرماتی ہیں کہ جب تجہیز و تکفین کے بعد جنازہ تیار ہوا تو آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ،میں نے کہا ابو السائب ! تم پر خدا کی رحمت ہو میں گواہی دیتی ہوں کہ خدانے تم کو معزز کیا ،ارشاد ہوا تمھیں کس طرح معلوم ہوا کہ خدا نے معزز کیا؟ میں نے عرض کیا میرا باپ آپ پر فدا ہو یا رسول اللہ پھر خدا کس کو معزز کرے گا؟ فرمایا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو درجہ یقین حاصل تھا اور میں اس کے لیے بہتری کی امید رکھتا ہوں ،لیکن خدا کی قسم میں رسولِ خدا ہو کر بھی نہیں جانتا کہ میرا کیا انجام ہوگا۔ [19] [14][16][20]

رسول اللّٰہ ﷺ کا حزن و ملال[ترمیم]

آنحضرت کو حضرت عثمان بن مظعون ؓ کی مفارقت کا شدید غم تھا، آپ نے تین دفعہ جھک کر ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اس قدر چشم پرنم ہوئے کہ اشک مبارک سے حضرت عثمان ؓ کے رخسارے تر ہو گئے، [21] پھر سر مبارک اُٹھا کر بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا، ابوسائب، میں تم سے جدا ہوتا ہوں ، تم دنیا سے اس طرح نکل گئے کہ تمھارا دامن ذرا بھی اس سے ملوث نہ ہوا۔ [22] [6][23]

قبر[ترمیم]

اس وقت تک مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا کوئی خاص قبرستان نہ تھا ، حضرت عثمان ؓ کی وفات کے بعد آنحضرت نے مقام بقیع کو اس کے لیے منتخب فرمایا، چنانچہ وہ پہلے صحابی تھے جو اس گورِغریباں میں مدفون ہوئے ، [24] آپ نے خود جنازہ کی نماز پڑھائی ، قبر کے کنارے کھڑے ہوکر اپنے اہتمام سے دفن کرایا اور قبر کے سرے پر کوئی چیز بطور علامت نصب کرکے فرمایا ، اب جو مرے گا وہ اسی کے آس پاس مدفون ہوگا۔ [25]

اخلاق[ترمیم]

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اخلاقی پایہ نہایت ارفع تھا، شراب سے ایام جاہلیت ہی میں متنفر تھے، صبر، تحمل اور اسلامی حمیت کے نمونے پہلے گذر چکے ہیں، مزاج میں شرم و حیا کا عنصر غالب تھا، ایک روز بارگاہِ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی بیوی کو بھی اپنا سترِ عورت دکھانا پسند نہیں کرتا،ارشاد ہوا کیوں؟ عرض کیا حیادامنگیر ہوتی ہے،فرمایا خدا نے اس کو تمھارے لیے اور تم کو اس کے لیے بے پردہ بنایا ہے، وہ جب کچھ دیر کے بعد دربار سے چلے گئے تو آپ نے فرمایا،عثمان بن مظعون ؓ نہایت ہی باحیا پردہ پوش تھے۔ [26] [27]

رہبانیت کی طرف میلانِ طبع[ترمیم]

تبتل و رہبانیت کی طرف شدید میلان تھا، ایک دفعہ انھوں نے چاہا کہ قوائے شہوانیہ کو فنا ہ کر کے صحرانوردی اختیار کریں، لیکن آنحضرت نے باز رکھا اور فرمایا: "کیا میری ذات تمھارے لیے اُسوہ حسنہ نہیں ہے؟ میں اپنی بیویوں سے ملتا ہوں ، گوشت کھاتا ہوں ،روزے رکھتا ہوں اور افطار کرتا ہوں ، بے شک میری امت کا خصی ہونا صرف روزے رکھنا ہے ، اس لیے جو شخص خصی کرے گا یا خصی بنے گا وہ میری امت سے نہیں ہے"۔ [28]

عبادت[ترمیم]

عبادت و شب زندہ داری حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نہایت ہی پر لطف مشغلہ تھا ، رات بھر نمازیں پڑھتے،دن کو عموما روزے رکھتے، انھوں نے اپنے گھر میں عبادت کے لیے ایک حجرہ مخصوص کر دیا تھا، جس میں رات دن معتکف رہتے تھے، ایک روز آنحضرت اس حجرہ کے پاس تشریف لائے اور اس کی چوکھٹ پکڑ کر دویا تین مرتبہ فرمایا: "عثمان ؓ! خدا نے مجھے رہبانیت کے لیے مبعوث نہیں کیا ہے،سہل اور آسان دین حنیفی خدا کے نزدیک تمام ادیان سے بہتر ہے" [29]

شوقِ عبادت نے بیوی بچوں سے بالکل بے نیاز کر دیا تھا، ایک روز ان کی زوجہ محترمہ حرم نبوی میں آئیں ، اُمہات المومنین ؓ نے ان کو خراب حالت میں دیکھ کر پوچھا ، تم نے ایسی ہیئت کیوں بنا رکھی ہے؟ تمھارے شوہر سے زیادہ تو قریش میں کوئی دولت مند نہیں" بولیں مجھے ان سے کیا سروکار؟ وہ رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں، دن کو روزے رکھتے ہیں، امہات المومنین ؓ نے آنحضرت سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ اسی وقت حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا عثمان بن مظعون کیا میری ذات تمھارے لیے نمونہ نہیں ہے؟ بولے میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں کیا بات ہوئی؟ ارشاد ہوا، تم رات بھر عبادت کرتے ہو ، دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہو، عرض کیا "ہاں" ایسا کرتا ہوں، حکم ہوا، ایسا نہ کرو،تمھاری آنکھ کا تمھارے جسم کا اورتمہارے اہل و عیال کا تم پر حق ہے ،نمازیں بھی پڑھو اور آرام بھی کرو، روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو ،غرض اس فہمائش کے بعد ان کی بیوی پھر امہات المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو ایک دلہن کی طرح معطر تھیں۔ [30] [31] [32] [33]

اہل و عیال[ترمیم]

حضرت عثمان بن مظعون ؓ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خولہ بنت حکیم سے دو لڑکے عبد الرحمن اور سائب یادگار چھوڑے۔ [34]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سیراعلام النبلاء ج3ص99
  2. کنزالعمال، کتاب الفضائل، الحدیث:33604،ج11،ص337
  3. (اسد الغابہ:3/385)
  4. ابن الجوزي (2012)۔ صفة الصفوة۔ دار الكتاب العربي۔ صفحہ: 162 
  5. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :386)
  6. ^ ا ب سير أعلام النبلاء » الصحابة رضوان الله عليهم » عثمان بن مظعون آرکائیو شدہ 2017-09-25 بذریعہ وے بیک مشین
  7. (اسدالغابہ جلد 2:385)
  8. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث 286)
  9. (سیرت ابن ہشام جلد 1 باب الہجرۃ الی الحبشہ)
  10. (اسد الغابہ :3/395)
  11. (اسدالغابہ:3/385،386)
  12. الطبقات الكبرى لابن سعد - عثمان بن مظعون (1) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  13. الإصابة في تمييز الصحابة - عثمان بن مظعون (1) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  14. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة - عثمان بن مظعون آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  15. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث: 88)
  16. ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - عثمان بن مظعون (2) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  17. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :288)
  18. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :288)
  19. (بخاری کتاب الجنائز :1/ 166)
  20. الإصابة في تمييز الصحابة - عثمان بن مظعون (2) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  21. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :288)
  22. (اسد الغابہ:2/387)
  23. الطبقات الكبرى لابن سعد - عثمان بن مظعون (4) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  24. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث:289)
  25. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث:291)
  26. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث:287)
  27. حلية الأولياء لأبي نعيم، عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، رقم الحديث: 330 آرکائیو شدہ 2017-11-15 بذریعہ وے بیک مشین
  28. الطبقات الكبرى لابن سعد - عثمان بن مظعون (5) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  29. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :287)
  30. (طبقات ابن سعد جز 3 :287)
  31. حلية الأولياء لأبي نعيم، عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، رقم الحديث: 326 آرکائیو شدہ 2017-11-15 بذریعہ وے بیک مشین
  32. محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (ت ٧٥١هـ) (١٤٠٩هـ/ ١٩٨٩م)۔ عدة الصابرين وذخيرة الشاكرين (3 ایڈیشن)۔ دار ابن كثير، دمشق، بيروت/مكتبة دار التراث، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية۔ صفحہ: 102 
  33. حلية الأولياء لأبي نعيم، عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، رقم الحديث: 322 آرکائیو شدہ 2017-11-15 بذریعہ وے بیک مشین
  34. (طبقات ابن سعد قسم اول :286)