سلمہ بن اکوع

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلمہ بن اکوع
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 693ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ(؟- وفات: 74ھ) بڑے نڈر اور بہادر صحابی رسول تھے تیراندازی میں خاص مہارت تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریباً میں اسلام قبول کیا۔پھر آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی ۔غزوات میں سب سے صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے ، پھر اس کے بعد تمام غزوات میں شریک رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ میں رہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ چھوڑ کر ربذہ میں سکونت اختیار کر لی۔کافی عرصہ وہاں رہے سن 74ھ میں مدینہ واپس آئے کچھ دنوں کے بعد آپ وفات پاگئے۔

نام و نسب[ترمیم]

سنان نام ، ابو ایاس کنیت ، سلسلہ نسب یہ ہے، سنان بن عبد اللہ بن عبد اللہ بن تشیر بن حزیمہ بن مالک بن سلامان بن اسلم اقصی۔[1] [2]

اسلام و ہجرت[ترمیم]

ارباب سیر ان کے زمانہ اسلام کے بارے خاموش ہیں، مگر اس قدر مسلم ہے کہ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے ، اسلام کے بعد ہجرت کا شرف حاصل کیا، اکثر مہاجرین نے مع بال بچوں کے ہجرت کی تھی؛ لیکن سلمہ نے راہ اللہ میں بال بچوں کو بھی چھوڑ کر مدینہ کی غربت اختیار کی۔

غزوات[ترمیم]

مدینہ آنے کے بعد قریب قریب تمام غزوات میں شریک رہے، سب سے پہلے غزوۂ حدیبیہ میں شریک ہوئے اور خلعت امتیاز حاصل کیا، صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں بیعت رضوان کو تاریخ اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے،جب آنحضرت نے حضرت عثمان کی شہادت کی خبر سن کر مسلمانوں سے موت پر بیعت لینا شروع کی تو سلمہ نے تین مرتبہ بیعت کی، پہلی مرتبہ سب سے اول جماعت کے ساتھ بیعت کر چکے تھے دوبارہ آنحضرت کی نظر پڑی تو فرمایا سلمہ بیعت کرو، عرض کیا: یا رسول اللہ جاں نثار پہلے ہی بیعت کر چکا ہے، فرمایا کیا حرج ہے دوبارہ سہی، اس وقت سلمہ نہتے تھے، آنحضرت نے ایک ڈھال عنایت فرمائی، تیسری مرتبہ آنحضرت کی نظر پڑی تو فرمایا کہ سلمہ! بیعت نہ کروگے؟ عرض کیا یا رسول اللہ! دو مرتبہ بیعت کرچکا ہوں فرمایا تیسری مرتبہ سہی؛ چنانچہ انھوں نے سہ بارہ بیعت کی۔[3]،آنحضرت نے پوچھا سلمہؓ !ڈھال کیا کی؟ عرض کیا کہ میرے چچا بالکل خالی ہاتھ تھے،ان کو دیدی ،آپ نے ہنس کر فرمایا تمھاری مثال اس شخص کی سی ہے کہ اس نے دعا کی کہ خدایا! مجھ کو ایسا دوست دے جو مجھ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو، ابھی بیعت کا سلسلہ جاری تھا کہ اہل مکہ اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہو گئی اور لوگ مطمئن ہوکر ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے، سلمہؓ بھی ایک درخت کے نیچے لیٹ رہے،اتنے میں چار مشرکین آئے اوران کے قریب بیٹھ گئے آنحضرت کے بارے میں ایسی باتیں کرنے لگے جو ان کو ناگوار ہوئیں، یہ اُٹھ کر دوسرے درخت کے نیچے چلے گئے،ان کے جانے کے بعد چاروں ہتھیار اتار کر اطمینان سے لیٹ گئے، ابھی لیٹے ہی تھے کہ کسی نے نعرہ لگایا، مہاجرین دوڑنا ابن زنیم قتل کردیے گئے،آواز سن کر سلمہؓ نے ہتھیار سنبھال لیے اور مشرکوں کی طرف لپکے ،یہ سب سو رہے تھے، سلمہؓ نے ان کے اسلحہ پر قبضہ کرکے ان سے کہا خیر اسی میں ہے کہ سیدھے میرے ساتھ چلے چلو، خدا کی قسم جس نے سر اٹھایا، اس کی آنکھیں پھوڑ دوں گا، چنانچہ ان سب کو کشاں کشاں لاکر آنحضرت کی خدمت میں پیش کیا، ان کے چچا عامر بھی ستر اکہتر مشرک گرفتار کرکے لائے تھے؛لیکن رحمت عالم نے سب کو چھوڑدیا ،اس پریہ آیت نازل ہوئی: وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [4] اور وہ خدا ہی تھا،جس نے عین مکہ میں تم کو کافروں پر فتحیاب کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمھارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا۔ مسلمانوں کا قافلہ مدینہ سے واپسی میں ایک پہاڑ کے قریب خیمہ زن ہوا،مشرکین کی نیت کچھ بد تھی، آنحضرت کو اس کی اطلاع ہو گئی اور پڑاؤ کی نگرانی کی ضرورت محسوس ہوئی؛چنانچہ آپ نے اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کی جو پہاڑ پر چڑھ کر نگرانی کرے، سلمہؓ نے یہ سعادت حاصل کی اور رات بھر میں کئی مرتبہ پہاڑی پر چڑھ کر آہٹ لیتے رہے۔ [5]

غزوۂ ذی قروہ[ترمیم]

آنحضرت کے کچھ اونٹ ذی قروہ کی چراگاہ میں چرتے تھے، ان کو بنو غطفان ہنکا کر لے گئے، سلمہ بن اکوع طلوع فجر کے قبل گھر سے نکلے، تو عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام نے ان سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لٹ گئے، پوچھا کس نے لوٹا، کہا بنو غطفان نے، یہ سن کر آپ نے اس زور کا نعرہ لگایا کہ مدینہ کے اس سرے سے اس سرے تک آواز گونج گئی اور تن تنہا ڈاکؤوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے وہ پانی تلاش کر رہے تھے کہ سلمہ پہنچ گئے، یہ پیادہ تھے اور یہ بہت تیز دوڑتے تھے, ان کے بارے میں مشہور تھا کہ دوڑتے گھوڑے کو یہ پکڑ لیتے تھے لیکن گھوڑا ان کو نہیں پکڑ سکتا تھا, انھوں نے تاک تاک کر تیر برسانا شروع کر دیے، تیر برساتے جاتے تھے اور یہ رجز پڑھتے جاتے تھے۔

انا ابن الاکوع الیوم یوم الرضع

میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کا دن سخت جنگ کا دن ہے اور اس قدر تیر باری کی کہ ڈاکؤوں کو اونٹ چھوڑ کر بھاگ جانا پڑا اور بدحواسی میں اپنی چادریں بھی چھوڑ گئے، اس درمیان میں آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی لوگوں کو لے کر پہنچ گئے، سلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے ان لوگوں کو پانی نہیں پینے دیا ہے، اگر ابھی ان کا تعاقب کیا جائے تو مل جائیں گے؛ لیکن رحمت عالم نے فرمایا کہ قابو پانے کے بعد درگزر کرو۔[6] [7][8]

غزوہ خیبر[ترمیم]

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بعد ہی خیبر کی مہم میں داد شجاعت دی، فتح خیبر کے بعد اس شان سے لوٹے کہ آنحضرت کے دست مبارک میں ہاتھ دیے ہوئے تھے۔

غزوۂ ثقیف و ہوازن[ترمیم]

غزوہ خیبر کے بعد غزوۂ ثقیف و غزوہ ہوازن میں شریک ہوئے، اس غزوۂ کے دوران میں ایک شخص مسلمانوں کے لشکر گاہ میں اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اس کو باندھ کر مسلمانوں کے ساتھ ناشتا میں شریک ہو گیا، اس کے بعد چاروں طرف نظر ڈال کر مسلمانوں کی طاقت کا جائزہ لیا اور سوار ہو کر تیزی سے نکل گیا، اس طرح اچانک آنے اور فوراً چلے جانے سے مسلمانوں کو جاسوسی کا شبہ ہوا، ایک شخص نے اس کا تعاقب کیا، سلمہ نے بھی پیچھا کیا اور آگے بڑھ کر اس کو پکڑ لیا اور تلوار کا ایسا کاری وار کیا کہ ایک ہی وار میں وہ ڈھیر ہو گیا اور اس کی سواری پر قبضہ کر کے واپس ہوئے، آنحضرت نے دیکھا تو پوچھا، اس شخص کو کس نے قتل کیا، لوگوں نے عرض کیا سلمہ نے، فرمایا تو مقتول کا سب سامان ان کا ہے۔[9]

غزوات کی تعداد[ترمیم]

اسلام کے بعد بیشتر غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا، بعض روایتوں میں ہے کہ 14 غزوات میں انھوں نے شرکت کی، ان میں سے سات میں آنحضرت کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا اور سات وہ تھے جو آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اطراف میں بھیجے،[10] اور مستدرک کی روایت کے مطابق ان غزوات کی تعداد سولہ تک پہنچ جاتی ہے۔[11] [7]

وفات[ترمیم]

آنحضرت کی وفات کے بعد سے برابر مدینہ میں رہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ چھوڑ کر ربذہ میں سکونت اختیار کرلی، وہاں شادی کی اور اولادیں ہوئیں، بروایت بخاری 74ھ میں پھر مدینہ واپس ہوئے، واپسی کے دو ہی چار دن کے بعد وفات پائی اور گھوم پھر کر بالآخر دیار حبیب کی خاک کا پیوند ہوئے۔[12]

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت سلمہؓ بن اکوع شرف محبت سے بھی فیضاب تھے اورغزوات میں آنحضرت کے ہمرکاب رہنے کا زیادہ موقع ملا تھا اورحاشیہ نشینان بارگاہِ نبوت سے بھی استفادہ کرتے تھے؛چنانچہ رسول اللہ کے علاوہ حضرت عمرؓ، عثمانؓ اور طلحہؓ سے بھی روایتیں کی ہیں،ا س لیے ان کی مرویات کی تعداد 77 تک پہنچ جاتی ہے، جن میں سے 14 متفق علیہ ہیں اور 5 میں بخاری اور 9 میں امام مسلم منفرد ہیں [13] ان کے رواۃ میں ایاس بن سلمہ، یزید بن عبید، عبد الرحمن بن عبد اللہ اور محمد بن حنیفہ قابل ذکر ہیں۔ [14] [15]

انفاق فی سبیل اللہ[ترمیم]

خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بہت فیاض تھے، جو شخص اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرتا اس کو کبھی ناکام ناواپس کرتے اور فرماتے کہ جو شخص راہ اللہ میں نہیں دے گا، پھر کس میں دے گا ؛لیکن اللہ کا واسطہ دے کر مانگنے کو برا سمجھتے تھے کہ اس میں الحاف ہے۔ [16] [17]

صدقات سے اجتناب[ترمیم]

سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ذات کے لیے صدقہ کا مال حرام سمجھتے تھے،اگر کسی چیز میں صدقہ کا شائبہ بھی ہوتا تو اس کو استعمال نہ کرتے؛ چنانچہ اپنی صدقہ کی کوئی چیز دوبارہ بقیمت خریدنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ [18]

شدت احتیاط[ترمیم]

تمام اوامر ونواہی میں احتیاط کا یہی حال تھا [19] چنانچہ بعض ایسے کھیل جن میں جوئے کی مشابہت کا شائبہ نکلتا تھا ،اپنے بچوں کو نہ کھیلنے دیتے تھے۔ [20]

شجاعت[ترمیم]

شجاعت وبہادری خصوصا ًپیدل تیز دوڑنے میں تمام صحابہ میں ممتاز تھے، صاحبِ اصابہ لکھتے ہیں"کان من الشجعان ویسبق الفرس عدوا "یعنی وہ بہادروں میں سے ایک تھے اور دوڑ میں گھوڑوں سے مقابلہ کرتے تھے اوران سے آگے بڑھ جاتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت نے فرمایا کہ بہتر سواروں میں ابوقتادہؓ اور بہتر پیادوں میں سلمہ بن اکوعؓ ہیں، اس تعریف کے بعدآپ کو دو حصے دیے، سوارکا الگ اور پیدل کا الگ۔ [21] [7][22]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مستدرک حاکم:3/562
  2. البداية والنهاية.
  3. مسلم:2/98،99،
  4. (الفتح:24)
  5. (مسلم:2/98،99،مطبوعہ مصر)
  6. بخاری، جلد 2، کتاب المغازی باب غزوۂ ذی قروہ
  7. ^ ا ب پ الاستيعاب في معرفة الأصحاب.
  8. سلمة بن الأكوع شبكة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2012-05-10 بذریعہ وے بیک مشین
  9. مسند احمد بن حنبل:4/51
  10. الاستیعاب:2/584
  11. مستدرک:3/562
  12. اصابہ:3/118
  13. (تہذیب الکمال:148)
  14. (تہذیب التہذیب تذکرہ سلمہ بن اکوع)
  15. خير الدين الزركلي (2002)۔ الأعلام۔ مج3 (15 ایڈیشن)۔ بيروت: دار العلم للملايين۔ صفحہ: 113 
  16. (ابن سعدجز4،قسم2:40)
  17. سير أعلام النبلاء.
  18. (ابن سعد،جز4،قسم2:40)
  19. (ابن سعدجز4،قسم2:40)
  20. (اصابہ:3/118)
  21. (ابن سعدجز4،ق2،:39)
  22. سلمة بن الأكوع شبكة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2012-05-10 بذریعہ وے بیک مشین