عبد اللہ بن مغفل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ بن مغفل
معلومات شخصیت
عملی زندگی
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد اللہ بن مغفل اصحاب صفہ میں شمار صحابی رسول ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

عبد اللہ نام، ابو سعید کنیت، نسب نامہ یہ ہے، عبد اللہ بن مغفل بن عبد بن عفیف بن سہم بن ربیعہ بن عدی بن ثعلبہ بن ذویب بن سعد بن عدی بن عثمان بن مزنیہ مزنی۔

اسلام[ترمیم]

عبد اللہ 6ھ میں مشرف باسلام ہوئے،قبولِ اسلام کے بعد سب سے اول غزوۂ حدیبیہ میں شریک ہوئے [1] اوربیعت رضوان کا شرف حاصل کیا۔ [2]

غزوات[ترمیم]

خیبر میں بھی ہمرکاب تھے،اس غزوہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں خیبر کے محاصرہ میں تھا کہ کسی نے اوپر سے چربی سے بھری ہوئی ایک تھیلی پھینکی ،میں اٹھانے کے لیے بڑھا ،آنحضرتﷺ کی نظر پڑ گئی،مجھے اس پر بڑی ندامت اورشرمندگی ہوئی (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ خیبر) فتح مکہ میں بھی شریک تھے اس غزوہ کا یہ عینی مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے دن آنحضرتﷺ کو اونٹنی کے اوپر سوار سورہ فتح تلاوت کرتے دیکھا۔ [3] 9ھ میں تبوک کا غزوہ پیش آیا، اس سال نہایت شدید قحط تھا، اس لیے مسلمانوں کو بڑی دشواری پیش آئی، صاحبِ مقدرت لوگوں کے علاوہ معمولی حیثیت کے مسلمانوں کے لیے اس غزوہ میں شرکت کی کوئی صورت نہ تھی، عبد اللہ ؓبن مغفل نادار صحابی تھے، ان کے پاس کوئی سامان نہ تھا، آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر، سامانِ سفر کی درخواست کی یہاں کیا تھا،صاف جواب ملا، لیکن جوش جہاد گھر میں بھی بیٹھنے نہ دیتا تھا، جب سامان سفر کی کوئی صورت نہ نکل سکی، تو اپنی محرومی پر مایوس ہوکر رونے لگے، ایک بزرگ ابن یامین نے روتا دیکھ کر سبب پوچھا ،کہا غزوۂ تبوک کے لیے رسول اللہ ﷺ سے سواری مانگی تھی مگر نہیں ملی اور مجھ میں اتنی مقدرت نہیں کہ اپنے پاس سے سامان کروں،یہ سن کر ابن یامین نے سواری کے لیے ایک اونٹ اورزادراہ کے لیے تھوڑی سی کھجوریں پیش کیں، اس مختصر سامان کے ساتھ عبد اللہ اوران کے دوسرے ساتھی عبد الرحمن بن کعب غزوۂ تبوک میں شریک ہوئے [4] ان ہی ناداروں کے بارہ میں یہ آیہ نازل ہوئی تھی: [5] وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ [6] ترجمہ:اور نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے کہ جب وہ تمھارے پاس آئے کہ تم ان کے لیے سواری کا انتظام کرو تو تم نے کہا میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے، یہ سن کر وہ لوٹ گئے اورخرچ نہ میسر آنے کے غم میں ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔

بصرہ کا توطن[ترمیم]

تاحیات نبوی مدینہ میں رہے، آپ کی وفات کے بعد مدینہ چھوڑدیا،حضرت عمرؓ نے جب بصرہ آباد کرایا تو عبد اللہ کو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بصرہ بھیج دیا، جہاں وہ آخرِ عمر تک مقیم رہے۔ [7]

عراق کی فوج کشی میں شرکت[ترمیم]

عراق کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے،خوزستان کے صدر مقام شوستر کی تسخیر کے بعد سب سے پہلے یہی شہر میں داخل ہوئے تھے۔ [8]

وفات[ترمیم]

کافی عمر پانے کے بعد باختلافِ روایت 59ھ یا 60 ھ میں بصرہ میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے،دم آخر اعزہ سے وصیت کی کہ غسل کے آخری پانی میں کافور ملانا اورکفن میں دو چادریں اورایک قمیص ہوکہ رسول اللہ کا کفن ایسا ہی تھا [9] نہلاتے وقت صرف احباب ہوں رسول اللہ ﷺ کے صحابی غسل دیں ،جنازہ کے پیچھے آگ نہ روشن کی جائے ابن زیاد (گورنر بصرہ) جنازہ کی نماز میں شریک نہ ہو ،وفات کے بعد ان وصیتوں پر پورا پورا عمل کیا گیا، آنحضرتﷺ کے اصحاب نے نہلایا، جنازہ گھر سے نکلا تو ابن زیاد انتظار میں کھڑا تھا اس کو عبد اللہ کی وصیت سنائی گئی،اس کو سن کر تھوڑی دور جنازہ کی مشایعت کرکے گھر لوٹ گیا[10] حسب وصیت آنحضرتﷺ کے صحابی حضرت ابو برزہ اسلمیؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اوربصرہ کی سر زمین میں پیوندِ خاک کیے گئے۔ [11]

اولاد[ترمیم]

وفات کے بعد سات اولادیں یاد گار چھوڑیں [12]

فضل وکمال[ترمیم]

قبولِ اسلام کے بعد کئی برس تک ذات نبویﷺ سے استفادہ کا موقع ملا تھا، اس لیے ان کی 43 مرویات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،ان میں سے 4 متفق علیہ ہیں اورایک میں امام بخاری اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں [13] حمید بن ہلال ثابت البنانی،مطرب بن عبد اللہ معاویہ بن قرہ، عقبہ بن صہبان،حسن بصری، سعید بن جبیر، عبد اللہ بن بریدہ [14] وغیرہ ان کے رواۃ میں ہیں۔ گو عبد اللہ کی مرویات کی تعداد کم ہے،لیکن ان کا علمی اور تعلیمی تجربہ زیادہ تھا؛چنانچہ حضرت عمرؓ نے جن چھ اصحاب کو اہل بصرہ کی فقہی تعلیم کے لیے بھیجا تھا،ان میں ایک یہ بھی تھے۔ [15]

بدعات سے نفرت[ترمیم]

عبد اللہ کو بدعات سے سخت نفرت تھی، جو چیز انھوں نے عہدِ رسالت اورعہدِ خلفاء میں نہیں دیکھی تھی،یا ان کے علم میں نہ تھی، اس کو کسی طرح نہیں برداشت کر سکتے تھے،ان کے صاحبزادے راوی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نماز میں بسم اللہ جہر کے ساتھ پڑھی والد نے سن لیا، جب میں نماز تمام کرچکا تو مجھ سے کہا بیٹا اسلام میں باتیں نہ بڑھاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ ابو بکرؓ ،عمرؓ اورعثمانؓ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں، ان میں سے کوئی بھی بسم اللہ (بالجہر) کے ساتھ نماز نہیں شروع کرتا تھا،یہ واقعہ بیان کرکے لڑکے نے کہا میں نے والد سے زیادہ بدعات کو براسمجھنے والا نہیں دیکھا۔ [16]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (بخاری کتاب التفسیر باب قول اذیبا یعونک تحت الشجرہ)
  2. (مسند احمد بن حنبل:5/45)
  3. (مسلم:1/256،مطبوعۂ مصر)
  4. (سیرۃ ابن ہشام:1/316)
  5. (مسند احمد بن حنبل:5/754)
  6. (توبۃ:92)
  7. (ابن سعد،جلد7،ق1:7،8)
  8. (استیعاب:1/374)
  9. (مستدرک حاکم:3/578)
  10. (ابن سعد،جلد7،ق1:18)
  11. (اصابہ:4/132)
  12. (استیعاب :1/374)
  13. (تہذیب الکمال:216)
  14. (تہذیب التہذیب :6/42)
  15. (ایضاً)
  16. (مسند احمد بن حنبل:5/55)