سعد بن عبادہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سعد بن عبادہ
(عربی میں: سعد بن عبادة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 580ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 636ء (55–56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الشیخ سعد،  حوران  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد قیس بن سعد  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر،  غزوہ احد،  غزوہ خندق،  غزوہ حنین،  فتح مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (40ق.ھ / 15ھ) قبیلہ خزرج کے سردار اور ابتدائی صحابہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں مشرف بااسلام ہوئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ حنین، فتح مکہ میں شریک ہوئے ۔15ھ میں آپ نے وفات پائی ۔

نام و نسب[ترمیم]

سعد نام ، ابو ثابت و ابو قیس کنیت،سید الخزرج لقب، قبیلۂ خزرج کے خاندان ساعدہ سے ہیں۔ سلسلۂ نسب یہ ہے: سعد بن عبادہ بن ولیم بن حارثہ بن حزام بن خزیمہ بن ثعلبہ بن طریف بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج اکبر۔

والدہ کا نام عمرہ بنت مسعود تھا اور صحابیہ تھیں۔ سعد کے دادا ولیم قبیلۂ خزرج کے سردار اعظم تھے اور مدینہ کے مشہور مخیر تھے، خاندان ساعدہ کی عظمت و جلالت کا سکہ انہی نے بٹھا یا ، مذہباً بت پرست تھے اور منات کی پوجا کرتے تھے جو مکہ میں مقام مثلل پر نصب تھا، ہر سال دس اونٹ اس کو نذر چڑھاتے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے والد عبادہ باپ کے خلف الرشید تھے، اسی شان سے اپنی زندگی بسر کی اور اپنے بیٹے کے لیے مسند امارت دریاست چھوڑ گئے۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

عرب کے قاعدہ کے مطابق تیر اندازی اور تیرا کی سکھائی گئی ، اگرچہ انصار میں ایک آدمی بھی لکھنا نہیں جانتا تھا، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) لیکن سعد رضی اللہ عنہ کی تعلیم میں جو اہتمام ہوا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ جاہلیت میں ہی نہایت عمدہ عربی لکھ لیتے تھے ان تینوں چیزوں میں اس درجہ کمال بہم پہنچایا کہ استاد ہو گئے اسی بنا پر لوگوں نے "کامل" کا لقب دیا۔[1]

اسلام[ترمیم]

بیعت عقبہ ثانیہ میں اسلام قبول کیا اور ان کا شمار بلند پایہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم میں کیا گیا چنانچہ صحیح بخاری میں ہے وقان ذا قدم فی الاسلام یعنی بڑے پایہ کے مسلمان تھے۔[2] بیعت عقبہ ثانیہ جس شان سے ہوئی انصار کے جس قدر آدمی اس میں شامل ہوئے جن اہم شرائط پر بیعت کا انعقاد ہوا، یہ کام اگرچہ خفیہ اور نہایت خفیہ تھا ؛ لیکن پوشیدہ نہیں رہ سکتا تھا ، قریش کو ہر وقت آنحضرت کی فکر لاحق رہتی تھی؛ چنانچہ جس وقت آپ رات کے وقت مکہ سے باہر انصار سے بیعت لے رہے تھے جبل ابو قبیس پر کوئی شخص چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا وہ دیکھنا! سعد مسلمان ہوئے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل نڈر ہو جائے گا۔ قریش کے کان میں اگرچہ یہ آواز پہنچ گئی ،تاہم ان کا خیال ادھر منتقل نہ ہوا وہ قضاعہ اور بنو تمیم کے سعد نامی شخص کو سمجھے اس وجہ سے بیعت میں مزاحمت نہ کی۔

دوسری رات کو پھر اسی پہاڑ سے چند شعر سنے گئے،جن میں صاف صاف ان کا نام ونشان موجود تھا، قریش کو سخت حیرت ہوئی اور تحقیق واقعہ کے لیے انصار کے فرودگاہ میں آئے ، عبداللہ بن ابی بن سلول سے کہ قبیلۂ خزرج کا رئیس تھا گفتگو ہوئی، اس نے اس واقعہ سے بالکل لا علمی ظاہر کی یہ لوگ چلے گئے تو مسلمانوں نے یا جج کا راستہ لیا، قریش نے ہر طرف ناکہ بندی کرادی تھی، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اتفاق سے ہاتھ لگ گئے، کافروں نے ان کو پکڑ کر ہاتھ گردن سے باندھ دیے اور بال کھینچ کھینچ کر زدو کوب کرتے ہوئے مکہ لائے ، مکہ میں مطعم بن عدی نہایت شریف انسان تھا، ابتدائے اسلام میں اس نے آنحضرت کی بڑی خدمت کی تھی اس نے حارث بن امیہ بن عبد شمس کو ساتھ لیا اور ان کو پہچان کر قریش کے پنجۂ ظلم و ستم سے نجا ت دلائی۔ [3]

ادھر انصار میں بڑی کھلبلی پڑی تھی مجلس شوریٰ قائم ہوئی جس میں طے پایا کہ چاہے جانیں خطرہ میں کیوں نہ پڑھ جائیں ؛مگر مکہ واپس چل کر سعد بن عبادہ کا پتہ لگانا چاہیے ، ان کا یہ ارادہ بھی قوت سے فعل میں نہ آیا تھا کہ سعد بن عبادہ آتے ہوئے نظر آئے اور وہ ان کو لے کر سیدھے مدینہ روانہ ہو گئے۔ [4]

غزوات میں شرکت[ترمیم]

میں بدر کا معرکہ پیش آیا ، سعد بن عبادہ نے غزوہ کا سامان کیا تھا؛ لیکن کتے نے کاٹ کھایا اور وہ اپنے ارادے سے باز آئے ، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سنا تو فرمایا کہ افسوس ان کو شرکت کی بڑی حرص تھی، تاہم مال غنیمت میں حصہ لگایا اور اصحاب بدر میں شامل کیا۔[5]

  • غزوہ احد میں مشرکین اس سرو سامان سے آئے تھے کہ مدینہ والوں پر خوف طاری ہو گیا تھا، شہر میں تمام رات جمعہ کی شب پہرہ رہا اس موقع پر سعد بن عبادہ چند اکابر انصار کے ساتھ مسجد نبوی میں ہتھیار لگائے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مکان کی حفاظت کر رہے تھے۔ خزرج کا علم سعد بن عبادہ کے سپرد کیا ۔
  • غزوہ خندق کے معرکہ میں بھی انصار کا علم سعد بن عبادہ کے پاس تھا۔
  • میں محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے نمابہ پر حملہ کیا اور سعد کو 300 آدمیوں کا افسر مقرر کرکے ، مدینہ کی حفاظت کے لیے چھوڑ گئے۔
  • میں غزوہ حدیبیہ اور بیعت رضوان پیش آئی وہ دونوں میں موجود تھے۔
  • غزوہ خیبر () میں اسلامی لشکر میں تین جھنڈے تھے جن میں سے ایک سعد کے پاس تھا۔
  • فتح مکہ میں خود محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کا رایت (جھنڈا) سعد بن عبادہ کے پاس تھا،
  • فتح مکہ کے بعد حنین کا معرکہ ہوا اس میں قبیلہ خزرج کا علم سعد کے پاس تھا۔[6]
  • ان غزوات کے علاوہ بھی جو غزوات یا مشاہد عہد نبوی میں پیش آئے ان میں حضرت سعدؓ کی نمایاں شرکت رہی، میدان جنگ میں انصار کے وہی علمبردار ہوتے تھے۔

چند مہینوں کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ تشریف لائے، اس وقت یثرب کا ہر گلی کوچہ شادمانی اور مسرت کا تماشاہ گاہ تھا دار ابی ایوب انصاری رضی اللہ عنہ میں پہنچتے ہی تحفوں اور ہدیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ، حضرت سعدؓ بن عبادہ کے مکان سے ایک بڑا پیالہ ثرید اور عُراق سے بھرا پہنچا۔ [7] ہجرت سے کچھ مہینوں کے بعد اسلام کی تحریک نشو و نما پانے لگی، صفر میں آنحضرت ابوارا ایک بستی میں جو مکہ کی طرف واقع تھی، قریش کی فکر میں تشریف لے گئے اس لشکر میں کوئی انصاری نہ تھا، حضرت سعدؓ بن عبادہ کو مدینہ میں اپنا جانشین چھوڑ گئے۔ [8]

اسی سنہ میں غزوہ بدر کا معرکہ پیش آیا، سعدؓ کی شرکت میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، بخاری اور مسلم ان کی شرکت ثابت کرتے ہیں؛ لیکن صاحبِ ِ طبقات کو انکار ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ بدر میں شریک نہ تھے ،علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی اسی خیال کی تائید کی ہے اور مسلم کے الفاظ سے اپنے دعویٰ پر نہایت لطیف استشہاد کیا ہے۔ [9] ابن سعد نے طبقات میں ان کا ذکر اس جماعت کے طبقۂ اولیٰ میں کیا ہے ،جو بدر میں شریک نہ تھی اور اس کے ذیل میں لکھا ہے کہ سعدؓ نے غزوہ کا سامان کیا تھا؛ لیکن کتے نے کاٹ کھایا اور وہ اپنے ارادے سے باز آئے، آنحضرت نے سنا تو فرمایا کہ افسوس ان کو شرکت کی بڑی حرص تھی، [10] تاہم مال غنیمت میں حصہ لگایا اور اصحاب بدر میں شامل کیا۔ [11]

غزوۂ بدر عہد نبوت کے غزوات میں سب سے پہلا مشہور غزوہ ہے، آنحضرت کو اب تک اگرچہ چار غزوے اور چار سرایا پیش آ چکے تھے؛ لیکن انصار کی ان میں سے ایک میں بھی شرکت نہ تھی، اس کا سبب جیسا کہ ظا ہر ہے یہ تھا کہ انصار کی طرف سے بیعت میں صرف اس قدر وعدہ کیا گیا تھا کہ جو مدینہ پر چڑھ کر آئے گا، اس کو وہ روکیں گے مدینہ کے باہر جو معرکے ہوں ان کا اس میں کوئی تذکرہ نہ تھا۔ اس بنا پر آنحضرت نے اس مہم اعظم کا ارادہ کیا تو انصار کو شریک کرنے کے لیے رائے و مشورہ ضروری سمجھا، ایک مجمع میں جنگ کا مسئلہ پیش ہو، حضرت ابو بکرؓ صدیق نے اٹھ کر رائے دی،پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اٹھے؛ لیکن آنحضرت نے التفات نہ کیا، حضرت سعدؓ سمجھ گئے، اٹھ کر کہا کہ شائد ہم لوگ مراد ہیں؟ تو اے رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر آپ سمندر کا حکم دیں تو اسے پامال کر ڈالیں اور خشکی کا حکم ہو تو برک غماد (یمن کے ایک موضع کا نام ہے) تک اونٹوں کے کلیجے پگھلا دیں [12] آنحضرت یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور تیاری کا حکم دے دیا۔

تذکرہ نویسوں نے اسی روایت سے شرکت بدر پر استدلال کیا ہے ، حالانکہ اس میں مذکور ہے کہ جب ابو سفیان بن حرب کے آنے کی خبر معلوم ہوئی تو آنحضرت نے مشوہ کیا، [13] اور یہ بالکل مطابق واقعہ ہے؛ لیکن اس کے بعد کا واقعہ وہ ہے جس کو ابن سعد روایت کرتے ہیں اس بنا پر طبقات کی روایت صحیح مسلم کے منافی نہیں؛بلکہ اس کے اجمال کی تفصیل اور ابہام کی توضیح ہے۔ غزوہ بدر کے بعد غزوہ احد واقع ہوا، مشرکین اس سروسامان سے آئے تھے کہ مدینہ والوں پر خوف طاری ہو گیا تھا، شہر میں تمام رات جمعہ کی شب پہرہ رہا اس موقع پر حضرت سعدؓ چند اکابر انصار کے ساتھ مسجد نبوی میں ہتھیار لگائے رسول اللہ کے مکان کی حفاظت کر رہے تھے۔ [14]

جمعہ کے دن شوال کی 6 تاریخ کو لڑائی کی تیاریاں ہوئیں، آنحضرت نے نیزے منگا کر تین پھر یرے لگائے اور خزرج کا علم حضرت سعدؓ بن عبادہ کے سپرد کیا ۔ یہ انتظامات مکمل ہوئے تو آنحضرت گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے،حضرت سعدؓ بن عبادہ اور حضرت سعدؓ بن معاذ اوس و خزرج کے سردار زرہیں پہنے اور جھنڈے لیے آگے آگے دوڑ رہے تھے ،[15] بیچ میں آنحضرت اور داہنے بائیں مہاجرین وانصار کا لشکر تھا کوکبِ نبوت اس شان سے نمایاں ہوا تو چشم کفر خیرہ ہو گئی اور منافقین کے دل دہل اُٹھے۔ سنیچر کے دن احد کے دامن میں معرکہ قتال برپا ہوا لڑائی اس شدت کی تھی کہ مسلمانوں کے پیر اکھڑ گئے تھے؛ لیکن میدان میں رسول اللہ سب کے آگے تھے،مہاجرین اور انصار میں صرف 4 آدمی آپ کے ساتھ تھے، حضرت سعدؓ بن عبادہ کو بھی بعض لوگوں نے انہی میں [16] شامل کیا ہے ، غزوہ مریسیع (غزوہ مصطلق) میں جو میں ہوا تھا ان کو یہ اعزاز عطا ہوا کہ اوس و خزرج دونوں جماعتوں کا علم ان کو تفویض کیا۔ [17] غزوہ خندق میں جو اسی سنہ میں ہوا تھا، آنحضرت نے ان کو اور حضرت سعدؓ بن معاذ کو بلا کر مشورہ کیا کہ عینیہ بن حصن کو میں مدینہ کی پیداوار کا ایک ثلث اس شرط پر دینا چاہتا ہوں کہ قریش کو چھوڑ کر واپس جائے، وہ نصف مانگتا ہے، اب تمھاری کیا رائے ہے؟ انھوں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر یہ وحی ہے تو انکار کی مجال نہیں ورنہ اس کی بات کا جواب تو صرف تلوار ہے، خدا کی قسم ! ہم اس کو پھل کی بجائے تلوار کا پھل دیں گے، آنحضرت نے فرمایا کہ وحی نہیں اور وحی آتی تو تم سے پوچھنے کی کیا حاجت تھی عرض کیا تو پھر تلوار ہے ہم نے جاہلیت میں بھی ایسی ذلت کبھی گوارا نہیں کی اور اب تو آپ کی وجہ سے اللہ نے ہم کو ہدایت دی،معزز اور مکرم کیا پھر دبنے کی کیا وجہ ہے؟ آنحضرت اس گفتگو سے بہت مسرور ہوئے اور دونوں کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ [18] خندق کے معرکہ میں بھی انصار کا علم حضرت سعدؓ بن عبادہ کے پاس تھا۔ [19]

میں آنحضرت ﷺ نے نمابہ پر حملہ کیا اور سعد کو 300 آدمیوں کا افسر مقرر کرکے،مدینہ کی حفاظت کے لیے چھوڑ گئے۔ [20] وہاں امداد کی ضرورت ہوئی، مدینہ میں خبر پہنچی تو حضرت سعدؓ بن عبادہ نے 10اونٹ اور چھوہاروں کے بہت سے گٹھے روانہ کیے جو رسول اللہ ﷺ کو ذی قرد میں مل گئے۔ [21] 6 ھ میں غزوہ حدیبیہ اور بیعت رضوان پیش آئی وہ دونوں میں موجود تھے۔ غزوہ خیبر () میں اسلامی لشکر میں تین جھنڈے تھے جن میں سے ایک حضرت سعدؓ کے پاس تھا۔ [22] فتح مکہ میں خود رسول اللہ ﷺ کا رایت [23]

(جھنڈا) حضرت سعدؓ کے پاس تھا، فوج اسلام کا ایک ایک دستہ شہر میں جارہا تھا اور ابو سفیان حضرت عباسؓ کے ساتھ کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے، انصار جن کے آگے آگے حضرت سعدؓ بن عبادہ تھے اس شان سے گذرے کہ ابو سفیان بن حرب کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں [24] پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت عباسؓ نے جواب دیا کہ یہ انصار ہیں، ان پر سعد بن عبادہؓ افسر ہیں اور جھنڈا ابھی ان ہی کے ہاتھ میں ہے،قریب پہنچے تو ابو سفیان کو پکارا دیکھنا! آج کیسی سخت لڑائی ہوگی آج کعبہ حلال ہو جائے گا ،ابو سفیان بن حرب کا دل اپنی سابق حرکتوں کے سبب سے یو نہیں تھوڑا تھوڑا تھا، حضرت عباسؓ بن عبد المطلب سے کہا آج تو خوب لڑائی ہوگی،حضرت سعدؓ بن عبادہ کے بعد خود رسول اللہ ﷺ کا دستہ سامنے سے گذرا تو ابو سفیان پکارا یا رسول اللہ! اپنی قوم پر رحم کیجئے، آپ کو خدانے رحیم اور نیکو کار بنایا ہے،سعد مجھ کو دھمکا گئے ہیں کہ ملحمۂ عظمیٰ آج ہی ہے ، آج قریش کا خاتمہ ہو جائے گا، ابو سفیان کی آواز پر کئی آوازیں اٹھیں، حضرت عثمانؓ بن عفان اور حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے کہا ، ہمیں خوف ہے کہ حضرت سعدؓ بن عبادہ کا جوشِ انتقام تازہ نہ ہو جائے، ضرار بن خطاب فہری نے چند شعر کہے تھے،ایک شخص کو کہا کہ رسول اللہ کے سامنے جا اور ان کو پڑھ کر فریاد کر: یا نبی الھدی الیک لجاحی قریش ولات حین لجا حین ضاقت علیھم سعۃ الارضروعاداھم الہ السماء ان سعدا یرید قاصمۃ الظھر با ھل الحجون والبطحاء یا رسول اللہ  ! آپ کے دامن میں قریش نے اس وقت پناہ لی ہے جبکہ ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں جب کہ ان پر فراخی کے باوجود زمین تنگ ہے اور آسمان کا خدا ان کا دشمن ہو گیا ہے سعد بن عبادہ اہل مکہ کی پیٹھ توڑنا چاہتا ہے۔

اسی طرح کے اور بہت سے شعر تھے،آنحضرتﷺ نے اشعار سنے تو دریائے رحمت موجزن ہو گیا ارشاد ہوا کہ سعد بن معاذ نے جھوٹ کہا ،آج کعبہ کی عظمت دوبالا ہوگی ، آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا، اس کے بعد حضرت علیؓ کو بھیجا کہ سعد سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کو دیدو، حضرت سعدؓ نے انکار کیا اور کہا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم کو رسول اللہ نے بھیجا ہے، آنحضرت نے اپنا عمامہ بھیجا تو انھوں نے بیٹے کے ہاتھ میں جھنڈا دیدیا، لیکن جو خطرہ رسول اللہ کو سعدؓ سے تھا ان کو اپنے بیٹے سے ہوا، درخواست کی قیس کے سوا کسی اور شخص کے سپرد کیجئے،آنحضرت نے حضرت زبیرؓ بن عوام کے سپرد کیا، صحیح بخاری میں جو آیا ہے کہ رسول اللہ کا علم حضرت زبیرؓ بن عوام کے پاس تھا اس کا یہی مطلب ہے۔ [25] فتح مکہ کے بعد حنین کا معرکہ ہوا اس میں قبیلہ خزرج کا علم حضرت سعد بن عبادہ کے پاس تھا۔ [26] ان غزوات کے علاوہ بھی جو غزوات یا مشاہد عہد نبوی میں پیش آئے ان میں حضرت سعدؓ بن عبادہ کی نمایاں شرکت رہی ، میدان جنگ میں انصار کے وہی علمبردار ہوتے تھے۔

سقیفہ بنی ساعدہ[ترمیم]

11ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا ، مدینہ کا علاقہ انصار کی قدیم ملکیت تھا ، اس کے ماسوا آغازِ اسلام میں رسول اللہ کی سب سے بڑی مدد انصار نے کی تھی جس زمانہ میں کہ اسلام بے خانماں تھا رسول اللہ تمام قبائل عرب پر اپنے کو پیش کرتے تھے کہ مجھ کو مکہ سے اپنے وطن لے چلو ؛ لیکن قریش کے دبدبہ و رعب کی وجہ سے کوئی حامی نہیں بھرتا تھا، انصار کے ایک مختصر قافلہ نے جو صرف 70 اشخاص پر مشتمل تھا، "عرب و عجم" کی جنگ پر آنحضرت سے مکہ آکر بیعت کی اور آپ کو اپنے وطن مدینہ میں مدعو کیا۔

عہد نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں جو غزوات پیش آئے، ان میں تعداد ،جاں بازی، فدائیت سب سے زیادہ انہی لوگوں سے ظاہر ہوئی، حضرت قتادہؓ فرمایا کرتے تھے کہ قبائل عرب میں کوئی قبیلہ انصار سے زیادہ شہداء نہ لاسکے گا، میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ احد میں 70 ،بیر معونہ میں 70 اور یمامہ میں70 انصاری شہید ہوئے تھے۔ [27] ان باتوں کے ساتھ قرآن مجید اور حدیث میں ان کے فضائل و مناقب کثرت سے بیان کیے گئے ہیں، اس بنا پر انصار کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ انصار میں دو بزرگ تمام قوم کے پیشوا اور سردار تسلیم کیے جاتے تھے، سعدؓ بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ، حضرت سعدؓ بن معاذ رضی اللہ عنہ آنحضرت کے عہد میں انتقال کر چکے تھے، صرف حضرت سعدؓ بن عبادہ باقی تھے، جن کا اوس و خزرج میں وجاہت و امارت کے لحاظ سے کوئی حریف مقابل نہ تھا۔

آنحضرتﷺ نے وفات پائی تو سقیفۂ بنی ساعدہ میں جو انصار کا دارالندوہ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کی ملکیت تھا لوگ جمع ہوئے، سعد رضی اللہ عنہ بیمار تھے، لوگ ان کو لائے وہ کپڑا اوڑھے ہوئے مسند پر آکر بیٹھ گئے اور تکیہ سے ٹیک لگا لی اور اپنے اعزہ سے کہا کہ میری آواز دور تک نہ پہنچے گی جو میں کہوں اس کو بآواز بلند لوگوں تک پہنچاؤ، تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ انصار کو جو شرف اور سبقت فی الدین حاصل ہے عرب کے کسی قبیلہ کو حاصل نہیں، آنحضرت 10 برس سے زیادہ اپنی قوم میں رہے؛ لیکن ان کی کسی نے نہ سنی جو لوگ ان پر ایمان لائے وہ تعداد میں بہت کم تھے، ان میں نہ تو رسول اللہ کی حفاظت کی طاقت تھی نہ دین کے بلند کرنے کی قوت وہ تو خود اپنی حفاظت سے عاجز تھے۔

خدا نے جب تم کو فضیلت دینا چاہی تویہ سامان بہم پہنچایا کہ تم ایمان لائے ،رسول اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دی، اپنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز سمجھا ان کے اعداء سے جہاد کیا یہاں تک کہ تمام عرب طوعاً یا کرھاً خلافت الہی میں شامل ہو گیا اور بعید وقریب سب نے گردنیں ڈال دیں پس یہ تمام مفتوحہ علاقہ تمھاری تلواروں کا مرہون منت ہے، رسول اللہ زندگی بھر تم سے خوش رہے اور وفات کے وقت بھی خوش گئے اس بنا پر تم سے زیادہ خلافت کا کوئی مستحق نہیں۔ تقریر ختم ہوئی تو تمام مجمع نے یک زبان ہوکر کہا کہ رائے نہایت معقول اور صائب ہے ہمارے نزدیک اس منصب کے لیے آپ سے زیادہ کوئی موزوں نہیں ہم آپ ہی کو خلیفہ بنائیں گے۔ اس کے بعد آپس میں گفتگو شروع ہوئی کہ مہاجرین کے دعوائے خلافت کا کیا جواب ہوگا بعضوں نے کہا یہ کہ دو امیر ہوں ایک ہمارا اور ایک ان کا سعد کے کان میں آواز پڑی تو بولے کہ یہ پہلی کمزوری ہے۔

ادھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر پہنچ گئی تھی وہ حضرت ابوبکرؓ صدیق کو لے کر آپہنچے حضرت عمرؓ کی مشتعل طبیعت نے تمام مجمع میں آگ لگادی،انصار کے خطباء بار بار تقریر کرتے تھے حضرت عمرؓ بن خطاب اور ان میں سخت کلامی کی نوبت آئی اور اخیر میں تلواریں کھینچ گئیں، حضرت ابوبکرؓ نے رنگ بدلتا دیکھ کر حضرت عمرؓ بن خطاب کو روکا اور خود نہایت معرکۃ الآراخطبہ دیا، اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت بیان کی تو تمام انصار پکار اُٹھے کہ "نعوذ باللہ ان نتقدم ابابکر "یعنی ہم خدا سے پناہ مانگتے ہیں کہ ابوبکرؓ سے آگے بڑھیں۔ [28] تمام مجمع بیعت کے لیے اٹھا تو لوگوں نے شور مچایا کہ دیکھنا! سعد کچل نہ جائیں، حضرت عمرؓ نے کہا اس کو خدا کچلے، سعد اپنی ناکامی پر پہلے سے متاسف تھے،سخت برہم ہوئے اور لوگوں سے کہا کہ مجھ کو یہاں سے لے چلو۔ [29]

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بالکل تعرض نہ کیا بعد میں آدمی کو بھیجا کہ یہاں آکر بیعت کریں انھوں نے بیعت سے قطعاً انکار کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ان سے ضرور بیعت لیجئے بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ انصاری بیٹھے تھے، بولے کہ اب وہ انکار کر چکے ہیں، کسی طرح بیعت نہ کریں گے مجبور کیجئے گا تو کشت وخون کی نوبت آئے گی، وہ اٹھیں گے تو ان کا گھر اور کنبہ بھی حمایت کرے گا جس سے ممکن ہے کہ تمام خزرج اٹھ کھڑا ہوا اس لیے ایک سوتے فتنہ کو جگانا مناسب نہیں ہے ، میرے خیال میں ان کو یوں ہی چھوڑ دیجئے،ایک آدمی ہیں کیا کریں گے؟ اس رائے کو سب نے پسند کیا، حضرت سعدؓ بن عبادہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت تک مدینہ میں مقیم رہے بعد میں ترک وطن کرکے شام کی سکونت اختیار کی اور دمشق کے قریب حوازن کا علاقہ نہایت سرسبز تھا اسی کو اپنے رہنے کے لیے پسند کیا۔

وفات[ترمیم]

سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے15ھ میں وفات پائی۔[30] 15ھ میں آپ نے اس طرح وفات پائی کسی نے مار کر غسل خانہ میں ڈال دیا تھا گھر کے لوگوں نے دیکھا تو بالکل جان نہ تھی تمام جسم نیلا پڑ گیا تھا، قاتل کی بہت تلاش ہوئی؛ لیکن کچھ پتہ نہ چلا ایک غیر معلوم سمت سے آواز آئی : قتلنا سید الخزرج سعد بن عبادہ رمیناہ بسھمج فلم یخط فوادہ ہم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کیا ، ایک تیر مارا جو خالی نہیں گیا۔ چونکہ قاتل نہیں ملا اور آواز سنی گئی بعضوں کا خیال ہوا کہ کسی جن نے قتل کیا ہے۔واللہ اعلم

اولاد[ترمیم]

تین اولادیں چھوڑیں ، قیس (بہت بڑے صحابی ہیں) سعید ، اسحاق بیوی کا نام فکیہہ تھا، صحابیہ تھیں اور چچا زاد بہن تھیں۔ [31]

مکان اور جائداد[ترمیم]

جائداد بہت تھی، جب مدینہ چھوڑا تو بیٹوں پر تقسیم کردی ایک لڑکا پیٹ میں تھا جس کا حضرت سعدؓ نے حصہ نہیں لگایا تھا، جب پیدا ہوا تو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے قیس ؓ سے کہا کہ اپنے باپ کی تقسیم فسخ کر دو ، کیونکہ ان کے فوت ہونے کے بعد لڑکا پیدا ہوا ہے، قیس نے کہا باپ نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا اس کو بدستور قائم رکھوں گا، میرا حصہ موجود ہے اس کو وہ لے سکتا ہے۔ [32] حضرت سعدؓ کا مکان بازار مدینہ کی انتہا پر واقع تھا اور جرار سعد کہلاتا تھا ایک مسجد اور چند قلعے بھی تھے ایک مکان بنو حارث میں بھی ان کی ملکیت تھا۔ [33]

فضل و کمال[ترمیم]

حدیث کے ساتھ غیر معمولی اعتنا کیا،صحابہؓ کے زمانہ میں کتابت اگرچہ عام ہو گئی تھی اور قرآن مجید لکھا جاچکا تھا، تاہم حدیث لکھنے کا رواج نہ تھا ،حضرت سعدؓ نے حدیث لکھی تھی ،مسند بن حنبل میں ہے: عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَمْرِو بْنِ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُمْ وَجَدُوا فِي كُتُبِ أَوْ فِي كِتَابِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ یعنی انھوں نے حضرت سعدؓ کی کتابوں یا کتاب میں پایا ہے۔ حدیث لکھنے کے ساتھ اس کی تعلیم کے ذریعہ سے اشاعت بھی کی،چنانچہ ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، امامہ بن سہل ، سعید بن مسیبؓ وغیرہ ان سے حدیثیں روایت کرتے ہیں۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرقع اخلاق میں جو دو سخا کے خال وخط نہایت نمایاں ہیں،اسماء الرجال کے مصنف جب ان کا تذکرہ کرتے ہیں تو لکھتے ہیں،وکان کثیر الصدقات جدا۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ رضی اللہ عنہ مشہور فیاض آدمی تھے اور تمام عرب میں یہ بات صرف انہی کو حاصل تھی کہ ان کی چار پشتیں جو دو سخا میں نام آور ہوئیں ان کے دادا ولیم باپ (عبادہ) خود،بیٹا (قیس ) اپنے زمانہ کے مشہور مخیر تھے۔ ولیم کے زمانہ میں خوانِ کرم اس قدر وسیع تھا کہ معمولا قلعہ پر سے ایک شخص پکارتا جس کو گوشت اور روغن اور اچھا کھانا مطلوب ہو ہمارے ہاں قیام کرے اس سخاوت عام نے آل ساعدہ کو مدینہ کا حاتم بنا رکھا تھا، ولیم کے بعد حضرت سعدؓ رضی اللہ عنہ تک یہی رسم قائم رہی اور ان کے بعد قیس نے اس کو اسی طرح باقی رکھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ایک دفعہ حضرت سعدؓ بن عبادہ کے مکان کی طرف سے گذرے ،قلعہ نظر آیا، تو نافع سے کہا دیکھو یہ سعد بن عبادہ کے دادا کا قلعہ ہے۔ جن کے سخاوت وجود کی تمام مدینہ میں دھوم تھی۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ کی فیاضی افسانہ بزم و انجمن ہے، بہت سے قصے مشہور ہیں، ہم چند صحیح واقعات اس مقام پر درج کرتے ہیں۔ رسول اللہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو سعدؓ بن عبادہ کے ہاں سے برابر کھانا آتا تھا، اصابہ میں ہے، کانت جفنۃ سعد تدور مع النبی ﷺ فی بیوت ازواجہ۔ صحابہؓ میں اصحاب صفہ کی ایک جماعت تھی،جو دور دراز ملکوں سے ہجرت کرکے مدینہ آئی تھی،یہاں اس کا منشا صرف تحصیل علم اور تکمیل مذہب ہوتا تھا، رسول اللہ ان لوگوں کو ذی مقدرت صحابہ کے متعلق کر دیتے تھے،چنانچہ اور لوگ ایک دو آدمی اپنے ہاں لے جاتے تھے،لیکن حضرت سعدؓ 80 آدمیوں کو برابر شام کے کھانے میں مدعو کرتے تھے۔ فطری سخاوت ہر جگہ نمایاں ہوتی تھی، ماں نے انتقال کیا تو رسول اللہ کے پاس آئے کہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں مگر کیا صورت ہو؟ آپ نے فرمایا کہ پانی پلواؤ، سقایہ آل سعد جو مدینہ منورہ میں ہے، اسی صدقہ کا نتیجہ ہے۔ [34] حمیت قومی انتہائی درجہ تک پہنچی ہوئی تھی ،قضیہ افک میں آنحضرت نے منبر پر فرمایا کہ ابن ابی نے میرے گھر والوں (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) کو تہمت لگائی۔ جس سے مجھے سخت تکلیف پہنچی کوئی ہے جو اس کا تدارک کرنے پر آمادہ ہو؟ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو اوس کے سردار تھے، بولے کہ میں حاضر ہوں ،جو حکم ہو بجا لاؤں،اگر قبیلۂ اوس کا آدمی ہے تو ابھی گردن ماردی جائے اور خزرج کا ہے تو جو فرمائیے بجالانے کو تیار ہوں(خزرج اور اوس میں دیرینہ عداوت تھی ، جاہلیت میں بڑے معرکے کی لڑائیاں ہو چکی تھیں، اسلام نے صلح کرائی، تاہم دلوں میں کدورت باقی تھی، اس بنا پر حضرت سعدؓ بن معاذ رضی اللہ عنہ کی یہ درخواست کہ خزرج کے معاملہ میں ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں،یہ معنی رکھتی تھی کہ اس پر غلبہ پانے کی ایک صورت نکل آئے ،جو یقیناً خزرج کے لیے ناقابل برداشت تھی) سعدؓ بن عبادہ سردار خزرج نے اٹھ کر کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو تم خزرج کو کبھی نہیں قتل کر سکتے اور نہ اس پر قادر ہو اگر تمھارے خاندان (اشہل) کا معاملہ ہو تا تو زبان سے ایسی بات نہ نکالتے، اسیدؓ بن حضیر نے حضرت سعدؓ بن معاذ کے ابن عم تھے جواب دیا کہ تم یہ کیا کہتے ہو، رسول اللہ حکم دیں تو ہم ضرور ماریں گے، تم منافق ہو اور منافق کی طرف سے لڑ رہے ہو ،اتنا کہنا تھا کہ دونوں قبیلے جوش میں اٹھ کھڑے ہوئے، آنحضرت منبر پر تھے، آہستہ آہستہ دھیما کیا، یہاں تک کہ حمیت کا غلغلہ پست ہو گیا۔ [35] حب رسول کا یہ حال تھا کہ اپنے قبیلہ کی پوشیدہ باتیں جو رسول اللہ سے متعلق ہوتیں پہنچا دیتے تھے،غزوہ ہوازن میں آنحضرت نے قریش اور سردارانِ قریش کو غنیمت کی بڑی بڑی رقمیں دی تھیں اور انصار کو کچھ نہ دیا تھا، بعض نوجوانوں کو اس ترجیع پر رنج ہوا اور کہا کہ رسول اللہ اپنے ہم قوموں کو دیتے ہیں اور ہم کو محروم کرتے ہیں، حالانکہ قریش کا خون ہماری تلواروں سے اب تک ٹپک رہا ہے حضرت سعدؓ بن عبادہ نے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ دیا کہ یہ خیالات ہیں، فرمایا تم کیا کہتے ہو؟ عرض کیا گو میں انصاری ہوں، لیکن یہ خیال نہیں ارشاد ہوا کہ جاؤ اور لوگوں کو فلاں خیمہ میں جمع کرو، اعلان ہوا تو مہاجرین اور انصار دونوں آئے، حضرت سعدؓ بن عبادہ نے مہاجرین کو چھانٹ دیا، آنحضرت نے آکے خطبہ دیا جس کا ایک فقرہ یہ تھا کہ کیا تم لوگ راضی نہیں کہ تمام لوگ مال و دولت لے کر جائیں اور تم خود مجھ کو اپنے ہاں لے چلو، تمام لوگ روپڑے اور باتفاق کہا کہ آپ کے مقابلہ میں ساری دنیا کی دولت ہیچ ہے۔ [36] غزوہ احد میں تمام مدینہ خطرہ میں پڑ گیا تھا لوگ شہر میں پہرہ دے رہے تھے اس وقت حضرت سعدؓ بن عبادہ نے اپنا مکان چھوڑ کر رسول اللہ کے مکان کا پہرہ دیا تھا۔ آنحضرت کو ان سے جو محبت تھی اس کا یہ اثر تھا کہ ان کے مکان پر تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ ان کے لیے دعا کی تو فرمایا، اللھم اجعل صلواتک و رحمتک علی آل سعدؓ بن عبادہ۔ ایک مرتبہ فرمایا خدا انصار کو جزائے خیر دے، خصوصا عبد اللہ بن عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہؓ کو۔ صدقات کے افسروں کی ضرورت ہوئی تو ان کو بھی منتخب کیا، لیکن جب امارت کی ذمہ داریوں سے واقف ہوئے تو عرض کیا کہ میں اس خدمت سے معذور ہوں، آنحضرت نے عذر قبول فرمایا۔ [37] ایک مرتبہ بیمار پڑے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر عیادت کے لیے تشریف لائے درد سے بے ہوش تھے کسی نے کہہ دیا کہ ختم ہو گئے بعض بولے ابھی دم باقی ہے، اتنا سننا تھا کہ آنحضرت رو پڑے اور ساتھ ہی تمام مجلس میں ماتم پڑ گیا۔ [38] نرمی طبع اورامن پسندی ذیل کے واقعہ سے معلوم ہو سکتی ہے۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کو تشریف لا رہے تھے راستہ میں ابن ابی بیٹھا تھا، اس نے آنحضرت سے سخت کلامی کی صحابہ کو طیش آگیا اور فریقین لڑنے پر آمادہ ہو گئے، آنحضرت نے سب کو اس ارادہ سے باز رکھا اور حضرت سعدؓ بن عبادہ کے مکان چلے آئے، فرمایا سعد! تم نے کچھ سنا آج ابو حباب (ابن ابی) نے مجھے ایسا کہا، عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا قصور معاف کیجئے، بات یہ ہے کہ اسلام سے قبل لوگوں کا خیال تھا کہ اس کو مدینہ کا بادشاہ بنائیں ،لیکن جب اللہ نے آپ کو حق وصداقت کے ساتھ مبعوث کیا تو وہ خیال بدل گیا، یہ اس غم و غصہ کا بخار ہے، آپ نے یہ سن کر معاف کر دیا۔ [39]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تہذیب التہذیب:3/475
  2. بخاری
  3. (طبقات ابن سعد،جلد1،ق1:150)
  4. (طبقات ابن سعد،جلد1،قسم1،صفحہ:150)
  5. فتح الباری:224
  6. طبقات ابن سعد، حصہ مغازی
  7. (طبقات ابن سعد،جلد1،قسم1،صفحہ:161)
  8. (ایضاً،صفحہ3،مغازی آنحضرتﷺ )
  9. (فتح الباری:7/224)
  10. (اصابہ:3/80)
  11. (فتح الباری:224)
  12. (مسلم:2/84)
  13. (اصل الفاظ یہ ہیں ان رسول اللہ ﷺ شادرحین بلغہ اقبال ابی سفیان صحیح مسلم:2/84)
  14. (طبقات ابن سعد،صفحہ26،حصہ مغازی)
  15. (ایضاً:27)
  16. (زرقانی:2/40)
  17. (طبقات ،صفحہ45،مغازی)
  18. (استیعاب:2/563)
  19. (طبقات ،صفحہ48،حصہ مغازی)
  20. (ایضاً:58)
  21. (ایضاً:58)
  22. (طبقات ،صفحہ77،حصہ مغازی)
  23. (فتح الباری:8/7،طبقات،صفحہ98،واستیعاب:2/563)
  24. (بخاری:2/613)
  25. (بخاری:2/623،وفتح الباری:8/7،واستیعاب:2/563،564، سے یہ واقعات لیے گئے ہیں)
  26. (طبقات ابن سعد،108 حصہ مغازی )
  27. (بخاری:2/584)
  28. (مسند:1/21)
  29. (بخاری:2/1010،وطبری،صفحہ1843،واقعات 11ھ)
  30. اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 896 حصہ چہارم،مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
  31. (استیعاب:2/538)
  32. (ایضا:539)
  33. (خلاصہ الوفاء:88)
  34. (مسند:5/285)
  35. (بخاری:7/335،فتح الباری:8/321)
  36. (بخاری، :2/620،ومسند:3/76)
  37. (مسند:5/285)
  38. (بخاری،1/174)
  39. (بخاری:2/656)