ابو سلمہ عبد اللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو سلمہ عبد اللہ
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام عبد اللہ بن عبد الاسد
تاریخ پیدائش 6ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 625ء (24–25 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت ابو سلمہ
زوجہ ہند بنت ابی امیہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد زینب بنت ابی سلمہ،  عمر بن ابی سلمه،  سلمہ بن ابی سلمہ،  درہ بنت ابی سلمہ،  ام كلثوم بنت ابی سلمہ  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ برہ بنت عبد المطلب  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
نسب المخزومی القرشی
پیشہ سائنس دان،  محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ بدر
غزوہ احد

ابو سلمہ عبد اللہ ابن عبد الاسد مخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ(21ق.ھ / ) ان کا نام عبد اللہ بن عبد الاسد تھا ام المؤمنین ام سلمہ پہلے ان کے نکاح میں تھیں۔ ان کی والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی تھیں اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت حمزہ بن عبد المطلب کے رضاعی بھائی تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں پناہ گزین ہونے سے پہلے آپ نے اور آپ کی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا دونوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں آپ شامل ہوئے ، حبشہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے مدینہ منورہ کی ہجرت میں شامل ہوئے ۔غزوہ بدر اور غزوہ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شانۂ بشانہ لڑتے رہے ۔ غزوہ احد میں میں ابو اسامہ جُشمی کے ایک تیر نے ان کا بازو زخمی کر دیا جو کامل ایک ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد بظاہر مند مل ہو گیا ، لیکن غیر محسوس طریقہ پر اندر ہی اندر زہر پھیلاتا رہا۔کچھ عرصہ کے بعد آپ نے میں وفات پائی ۔

نام و نسب

عبد اللہ نام ، ابوسلمہ کنیت ، والد کا نام عبدالاسد اور والدہ کا نام برہ بنت عبدالمطلب تھا۔ پورا سلسلۂ نسب یہ ہے: عبد اللہ بن عبدالاسد بن ہلال بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم قرشی المخزومی۔ [2] [3]

اسلام

آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارقم بن ابی ارقمؓ کے مکان میں پناہ گزین ہونے سے پہلے حلقۂ مومنین میں داخل ہوئے، ان کی بیوی ام سلمہ ؓ نے بھی ان کا ساتھ دیا ، حضرت ابوسلمہؓ ، حضرت عبیدہ بن حارثؓ ، حضرت ارقم بن ابی ارقمؓ اور حضرت عثمان بن مظعونؓ ایک ساتھ ایمان لائے تھے۔ [4]

ہجرت

حضرت ابوسلمہؓ سر زمینِ حبش کی دونوں ہجرتوں میں شریک تھے ، ان کی بیوی حضرت ام سلمہ ؓ بھی رفیقِ سفر تھیں، پھر حبش سے واپس آکر عازم مدینہ ہوئے، بخاری کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے۔ جو واردِ یثرب ہوئے، لیکن دوسری روایت میں اولیت کا سہرا حضرات مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے سر اندھا گیا ہے ، علامہ ابن حجر ان دونوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں: " (حضرت) ابوسلمہؓ جب حبش سے مکہ واپس آئے تو مشرکین مکہ نے پھر ان کو ہدفِ اذیت بنایا ، اس بنا پر ان کا مدینہ آنا مشرکین مکہ کے خوف سے تھا ، مستقل ہجرت کا ارادہ نہ تھا ، برخلاف اس کے حضرت مصعب بن عمیرؓ اس وقت پہنچے جب کہ مستقل ہجرت کا حکم ہو چکا تھا اس لیے ان دونوں روایتوں میں باہم تخالف نہیں ہے۔" [5] بہرحال حضرت ابو سلمہؓ سب سے پہلے مدینہ پہنچے ، یہ محرم کی دسویں تاریخ تھی، خاندان عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو کامل دوماہ یعنی آنحضرت کی تشریف آوری تک اپنا مہمان رکھا۔ [6] [7][8]

مواخات

آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن خثیمہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مواخات کرادی اور مستقل سکونت کے لیے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا۔ [9]

غزوات

غزوۂ بدر و غزوہ احد میں سرگرمِ پیکار تھے، معرکہ اُحد میں ابو اسامہ جُشمی کے ایک تیر نے ان کا بازو زخمی کر دیا جو کامل ایک ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد بظاہر مند مل ہو گیا ، لیکن غیر محسوس طریقہ پر اندر ہی اندر زہر پھیلاتا رہا، [10] اسی اثناء میں وہ سریۂ قطن پر مامور ہوئے جس کی تفصیل یہ ہے:

سریۂ قطن

قید کے اطراف میں قطن ایک پہاڑ کا نام ہے۔ جس کا دامن بنو اسد بن خزیمہ کا مسکن تھا ، آنحضرت کو خبر ملی کہ طلیحہ اور اسد بن خویلد یہاں اپنی قوم اور دوسرے زیر اثر قبائل کو جنگ کے لیے اُبھار رہے ہیں ، اس بنا پر اوائل محرم میں حضرت ابو سلمہ ؓ کے زیرِ سیادت تقریباً دیڑھ سو مجاہدین کی ایک جماعت جس میں مہاجرین و انصار دونوں شریک تھے، قبل از وقت اس فتنہ انگیز تحریک کو دبانے پر مامور ہوئی ، آنحضرت نے حضرت ابوسلمہؓ کو علم دے کر فرمایا: "روانہ ہوجاؤ یہاں تک کہ بنو اسد کی سر زمین میں پہنچ کر ان کی جمعیت کے فراہم ہونے سے پہلے ان کا شیرازہ منتشر کر دو۔" حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ غیر معروف راستہ سے یلغار کرتے ہوئے یکا یک بنو اسد پر جاپڑے ، وہ اس ناگہانی حملہ سے بدحواس ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے تو انھوں نے اپنی جماعت کو تین دستوں پر منقسم کرکے ان کے تعاقب پر مامور فرمایا ، چنانچہ وہ دشمن کو دور تک بھگا کر نہایت کثرت کے ساتھ اونٹ اور بھیڑ بکریاں چھین لائے جن کو حضرت ابو سلمہؓ نے مدینہ پہنچ کر بطور مال غنیمت دربارِ نبوت میں پیش کیا۔ [11] [12]

کاتب وحی

دربارِ رسالت مآب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن سید الناس، ابن مِسکویہ ، ابو محمد دمیاطی ، عراقی یعمری اور انصاری نے کی ہے، [13]

عسکری زندگی

ابو سلمہ آخری دفعہ غزوہ احد میں شریک ہوئے جس میں آپ شدید زخمی ہوئے۔ جب قبیلہ بنو اسد نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ کی سر براہی میں بنو اسد پر چڑھائی کے لیے لشکر روانہ کیا۔ مدینہ واپسی پر ابو سلمہ کا ایک زخم جو انھیں احد میں لگا تھا، پھر پھوٹ پڑا جس کی وجہ سے وہ جلد ہی وفات پا گئے۔ ابو سلمہ کی اس آخری مہم کو سریہ ابو سلمہ مخزومی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

وفات

حضرت ابوسلمہؓ اس مہم سے واپس آئے تو زخم پھر عود کر آیا اور ایک عرصہ تک بیمار رہ کر 3 جمادی الآخر میں واصلِ بحق ہوئے، اتفاق سے آنحضرت عین حالتِ نزع میں عیادت کے لیے تشریف لائے تھے، روح دیدارِ جمال کی منتظر تھی اِدھر آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اُدھر روح نے جسم کا ساتھ چھوڑا ، آنحضرت نے دستِ مبارک سے ان کی دونوں آنکھیں بند کرکے فرمایا: "انسان کی روح جس وقت اٹھائی جاتی ہے تو اس کی آنکھیں اس کے دیکھنے کے لیے کھلی رہ جاتی ہیں۔ [14] ایک طرف پردہ کے پیچھے گھر کی عورتیں مصروفِ ماتم تھیں، آنحضرت نے ان کو اس سے روک کر فرمایا کہ یہ دعائے خیر کا وقت ہے کیونکہ ملائکہ آسمانی جومیت کے پاس موجود ہوتے ہیں وہ دعا گو یوں کی دعا پر آمین کہتے ہیں، پھر خود اس طرح دست بدعاء ہوئے: "خدایا ! اس کی قبر کو کشادہ و روشن کر ، اس کو پر نور بنا، اس کے گناہوں کو بخش دے اور ہدایت یاب جماعت میں اس کا درجہ بلند فرما"۔ [15] [3][7][8][12][16]

تجہیز و تکفین

حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ کے قریب مقام عالیہ میں وفات پائی ؛کیونکہ وہ قباء سے منتقل ہوئے تو یہیں آکر سکونت پزیر ہوئے تھے، بنی امیہ بن زید کے کنوئیں یسیرہ (ایام جاہلیت میں یہ کنواں بیر عبیر کے نام سے مشہور تھا، آنحضرت نے اس کو بدل کر بیر یسیرہ نام رکھا، [17]کے پانی سے غسل دیا اور مدینہ کی خاک پاک نے اپنے دامن میں چھپایا۔ [18]

فضائل و محاسن

حضرت ابو سلمہ ؓ کا پایہ فضل وکمال نہایت بلند ہے، وہ بیمار ہوئے تو آنحضرت اکثر ان کی عیادت فرمایا کرتے تھے۔ [19] حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز ابو سلمہؓ دربارِ نبوت سے خوش خوش گھر واپس آئے اور کہنے لگے کہ آج مجھے رسولِ خدا کے ایک ارشاد نے بے حد محظوظ کیا، آپ نے فرمایا ہے کہ جو مصیبت زدہ مسلمان اپنی مصیبت میں خدا کی طرف رجوع کرکے کہتا ہے: "اے خدا ! اس مصیبت میں میری مدد کر اور بہتر نعم البدل عطا فرما" تو خدا اس کی دعا قبول فرماتا ہے، چنانچہ ابو سلمہؓ کی وفات نے جب مجھے صدمہ پہنچایا تو میں نے خدا کی طرف رجوع کرکے کہا اے خدا! میری مدد کر اور تلافی بالخیر فرما ؛لیکن پھر یہ خیال گذرا کہ میرے لیے ابو سلمہؓ کا نعم البدل کون ہو سکتا ہے؟ عدت گذرنے کے بعد جب خود رسول اللہ نے نکاح کا پیام بھیجا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا نے تلافی بالخیر کی صورت پیدا کر دی۔ [20] [21] ،[22]

اولاد

حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو لڑکے سلمہ و عمر اور دو لڑکیاں زینب اور درہ یادگار چھوڑیں ان کی تمام اولاد حضرت ام سلمہؓ ہند بنت ابی امیہ سے ہوئی تھی جو ان کے بعد امہات المومنینؓ میں داخل کی گئیں۔ [23] [3][24]

حوالہ جات

  1. عنوان : Умм Салама бинт Абу Умаййа
  2. (اسد الغابہ :5/281)
  3. ^ ا ب پ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» أبو سلمة آرکائیو شدہ 2017-12-03 بذریعہ وے بیک مشین
  4. (اسد الغابہ:5/281)
  5. (فتح الباری: 7/203)
  6. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث: 171)
  7. ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الأَسَدِ (1) آرکائیو شدہ 2017-09-23 بذریعہ وے بیک مشین
  8. ^ ا ب الإصابة في تمييز الصحابة - عبد اللَّه بن عبد الأسد (1) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین
  9. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :171)
  10. (ابن سعد ایضاً)
  11. (طبقات ابن سعد حصہ مغازی سریہ ابو سلمہ)
  12. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة - أبو سلمة بن عبد الأسد آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین
  13. عیون الاثر 2/316 تجارب الامم 1/291، المصباح المضئی 34/ب، العجالة السنیہ شرح الفیہ عراقی ص 346
  14. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :172)
  15. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :172)
  16. تهذيب الكمال للمزي» عَبْد اللَّهِ بن عبد الأسد بن هلال بن عَبْدِ اللَّهِ آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین
  17. (ابن سعد یضاً: 172)
  18. (ابن سعد ایضا:171)
  19. (اصابہ تذکرہ ابو سلمہ ؓ)
  20. ( مسند احمد بن حنبل:4/127)
  21. الإصابة في تمييز الصحابة - عبد اللَّه بن عبد الأسد (3) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین
  22. الطبقات الكبرى لابن سعد - أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الأَسَدِ (2) آرکائیو شدہ 2017-09-23 بذریعہ وے بیک مشین
  23. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث:170)
  24. الإصابة في تمييز الصحابة - عبد اللَّه بن عبد الأسد (2) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین