عبد اللہ بن حذافہ سہمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ بن حذافہ سہمی
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سفارت کار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد اللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ(وفات: 33ھ ) ان کی کنیت ابو حارث ہے، ایک صحابی ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدا ہی سے مشرف باسلام ہو گئے تھے ۔حبشہ کی دوسری ہجرت کی پھر مدینہ ہجرت غزوہ بدر کے علاوہ دیگر تمام غزوات میں شریک تھے۔
بخاری شریف میں ہے ان کے باپ کے متعلق لوگ شک کرتے ایک مرتبہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص جو پوچھنا چاہتا ہے پوچھ لے اللہ کی قسم ! جب تک میں اس جگہ یعنی اس منبر پر ہوں تم مجھ سے جو بھی بات پوچھو گے میں اس کا جواب دوں گا، عبد اللہ بن حذافہ نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ میرا باپ کون ہے؟ فرمایا: حذافہ، پھر حضور اکرم بار بار فرماتے رہے: مجھ سے پوچھو!مجھ سے پوچھو!۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصر میں 33ھ میں وفات پائی ۔[1]

نام و نسب[ترمیم]

عبد اللہ نام، ابوحذیفہ کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے، عبد اللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی بن سعد بن سہم بن عمرو بن حصیص بن کعب بن لوی قرشی سہمی۔ [2] [3]

اسلام و ہجرت[ترمیم]

عبد اللہ بن حزافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعوتِ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے، اسلام لانے کے بعد عرصہ تک آنحضرت کے ساتھ رہے، پھر مہاجرین کے دوسرے قافلہ کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ گئے۔ [4] [5]

سفارت[ترمیم]

میں جب آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرب وجوار کے سلاطین کے پاس دعوت اسلام کے خطوط بھیجے تو شہنشاہ ایران کے پاس دعوت نامہ لے جانے کی خدمت ان کے سپرد ہوئی کہ اس کو ایرانی گورنر متعینہ بحرین تک پہنچا دیں اور وہ اس کو دربار ایران بھیج دے،انھوں نے اس کو امیر البحرین کے پاس بحفاظت پہنچا دیا۔ [6]

مغازی[ترمیم]

حضرت عبد اللہ بن حزافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر کے علاوہ دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے،حضرت ابو سعید خدریؓ بدری بتاتے ہیں، لیکن موسیٰ بن عقبہ اور محمد ابن اسحق وغیرہ تمام اس کے مخالف ہیں۔

امارت سریہ[ترمیم]

آنحضرت نے ان کو ایک سریہ کا امیر بناکر بھیجا اور ماتحتوں کو ہدایت فرما دی کہ کسی بات میں ان کی عدول حکمی نہ کرنا، منزل مقصود پر پہنچ کر عبد اللہ کو کسی بات پر غصہ آگیا اور مجاہدین سے کہا کیا تم لوگوں کو آنحضرت نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے، سب نے کہا ہاں دیا ہے،کہا اچھا! لکڑیاں جمع کرکے اس میں آگ دیدو اور پھاند پڑو، سب نے لکڑیاں جلائیں اور پھاند نے کو تھے کہ دفعۃً کسی خیال سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور بعض لوگوں نے کہا کہ ہم نے آگ سے بچنے کے لیے رسول اللہ کی پیروی کی ہے اور پھر خود ہی آگ میں کودیں ،یہ مباحثہ یہاں تک جاری رہا کہ آگ ٹھنڈی ہو گئی اور اس درمیان میں ان کی آتش غضب بھی سرد پڑ گئی،واپس آکر سب نے آنحضرت سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا، اگر تم لوگ آگ میں گس گئے ہوتے تو پھر کبھی نہ نکلتے، اطاعت صرف ان ہی چیزوں میں واجب ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے۔ [7] [8]

خلفاء کا عہد[ترمیم]

عہد فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں فتوحاتِ شام میں شریک تھے،سو اتفاق سے ایک معرکہ میں رومیوں نے گرفتار کر لیا، رومیوں کا قاعدہ تھا کہ جب وہ کسی کے سامنے اپنا مذہب پیش کرتے اوروہ انکار کرتا تو اس کو ایک عظیم الجثہ تانبے کی گائے کے جوف میں جس میں زیتون کا تیل کھولتا ہوتا تھا، ڈال لیتے ؛چنانچہ انھوں نے ان کے سامنے اپنا مذہب پیش کرکے کہا، اگر تم اس کو نہیں قبول کروگے تو تم کو گائے پر قربان کر دیا جائے گا، مگر اس سے مطلق خوفزدہ نہ ہوئے اور قبول مذہب سے انکار کر دیا، ان جلادوں نے ان کی عبرت پذیری کے لیے ایک دوسرے مسلمان قیدی کو بلا کر عیسویت کی دعوت دی، اس نے بھی انکار کیا تو اس کو زیتون کے کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا،وہ کشتہ حق جل بھن کر کباب ہو گیا، یہ منظر دکھا کر بولے، اگر نہیں قبول کرتے تو تمھارا بھی یہی حشر ہو گا؛لیکن جذبہ حق اس سے زیادہ آزمائش کے لیے تیار تھا،پھر انکار کر دیا، حکم ہوا ڈال دو، آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، رومیوں نے کہا آخر ڈر کر رونے لگے،فرمایا میں اپنے انجام پر نہیں روتا ؛بلکہ اپنی کم مائگی پرآنکھیں اشکبار ہیں کہ صرف ایک جان اللہ کی راہ میں کام آئے گی، کاش ایک جان کی بجائے میرے ہر موئے بدن میں ایک مستقل جان ہوتی اور یہ سب راہ خدا میں نثار ہوتیں،یہ قوت ایمانی دیکھ کر وہ لوگ دنگ رہ گئے اوراس شرط پر رہا کردینے کے لیے تیار ہو گئے کہ شاہ روم کی پیشانی کا بوسہ دیں ؛لیکن اس پر ستار حق کا لب ایک صلیب پرست کی بوسہ ستانی سے آلودہ نہیں ہو سکتا تھا اس سے انکار کیا اس انکار پر انھوں نے مال و دولت اور حسن ورعنائی کے سبز باغ دکھائے،آپ نے ان دل فریبوں کو بھی نہایت حقارت سے ٹھکرادیا، آخر میں ان سے کہا، اگر میری پیشانی کو چوم لو تو تمام مسلمان قیدی چھوڑ دیے جائیں گے، مسلمانوں کی جان سب سے زیادہ عزیز تھی،اس لیے اس پر آمادہ ہو گئے اور ایک بوسہ کے صلہ میں اسی مسلمانوں کی گراں بہا جانیں بچ گئیں، جب واپس آئے تو حضرت عمرؓ نے فرط مسرت سے ان کی پیشانی چوم لی، بعض صحابہؓ آپ سے مزاحاً کہتے کہ تم نے ایک بے دین کی پیشانی کا بوسہ دیا، جواب دیتے ہاں چوما، لیکن اس کے بدلہ میں اسی مسلمانوں کی جانیں بچ گئیں۔ [9]

قیصر روم کی پیشکش[ترمیم]

عبد اللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کو ہرقل روم کی فوجوں نے انھیں گرفتار کر لیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تھا۔ کچھ اور ساتھی بھی گرفتار ہوئے۔ ایک ایک سے انٹرویو لے رہے تھے۔ ان کو ہرقل روم نے دیکھا کہ بڑا خوب صورت اور صحت مند نوجوان ہے۔ قدوقامت بھی خوب ہے اور بات بھی بڑے سلیقے سے کرتا ہے۔ ہرقل نے ان کو کہا برخودار، عزیز! میں روم کا بادشاہ ہوں، ہرقل میرا نام ہے، قیصر میرا لقب ہے، میں تجھے پیشکش کرتا ہوں کہ ازوجک ابنتی واشر کک فی ملکی “ میں تجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دوں گا اور اپنے ملک میں تجھے بڑا عہدہ دے دوں گا، وزیر کہے یا وزیر خارجہ، جو بھی تو چاہے گا تو مسیحیت قبول کرلے ”۔ عبد اللہ بن حذافہ سہمی نے کہا دوبارہ کہو تم نے کیا کہا۔ اس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ فرمایا تم تو ایک ملک کے بادشاہ ہو صرف روم کے۔ والذی نفسی بیدہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم ساری دنیا کے بادشاہ ہوتے بلاشرکت غیر ے اور پھر تم ساری دنیا کا بادشاہ مجھے بنا دیتے اور تاج میرے سر پر رکھ دیتے تو پھر بھی میرے دل میں ایمان چھوڑنے کا تصور بھی نہیں آ سکتا۔[10]

ایک اور روایت[ترمیم]

ابن عساکر نے عبد اللہ ابن حذیفہ سمی کی سوانح عمری میں لکھا ہے۔ یہ صحابی تھے۔ ان کو رومیوں نے گرفتار کر لیا۔ انھوں نے اسے اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے انھیں کیا کہ آپ نصرانی بن جائیں، میں آپ کو اپنے اقتدار میں بھی شریک کرتا ہوں اور اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اگر تو مجھے اپنی پوری مملکت دے دے اور تمام عربوں کی حکومت بھی عطا کر دے، اس کے عوض کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو ترک کردوں اور وہ بھی پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے تو بھی میں یہ کام نہ کروں گا۔ اس نے کہا تو پھر میں تمھیں قتل کردوں گا۔ انھوں نے کہا تمھیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ کہتے ہیں کہ اس نے حکم دیا اور انھیں سولی پر لٹکا دیا گیا۔ پھر اس نے تیرا ندازوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے پائوں اور ہاتھوں کے قریب تیر ماریں۔ چنانچہ وہ تیرمارتے رہے اور بادشاہ ان پر نصرانیت کا دین پیش کرتا رہا۔ لیکن انھوں نے انکار کیا۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ انھیں سولی سے اتار دیں۔ چنانچہ انھیں تختہ دار سے اتارا گیا۔ اس کے بعد تاننے کے ایک (تیل کی) ہنڈیا یا دیگ لائی گئی۔ اسے گرم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مسلمان قیدی لایا گیا، اسے اس کے اندر پھینکا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکدار ہڈیاں بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد پھر اس نے ان پر اپنا دین پیش کیا اور انھوں نے انکار کر دیا۔ اب اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی اس میں پھینک دیا جائے۔ انھیں لوہے کی چرخی پر چڑھایا گیا تاکہ اس کے اندر پھینک دیں۔ اس وقت وہ روئے۔ اس پر اس بادشاہ کو یہ لالچ پیدا ہو گیا کہ شاید اب مان جائیں تو انھوں نے اسے بلایا تو انھوں نے کہا کہ میں رویا اس لیے ہوں کہ میری جان ایک ہے اور یہ ابھی اسی دیگ میں ڈال دی جائے گی اور ختم ہو جائے گی لیکن میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال کے برابر جانیں عطا ہوتیں اور وہ اللہ کی راہ میں قربان ہوتیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے ان کو قید کر دیا اور کھانا بند کر دیا۔ ایک عرصے تک یہ پابندی تھی۔ اس کے بعد انھیں شراب اور خنزیر بھیجا تو انھوں نے ان کو ہاتھ نہ لگایا۔ تو انھوں نے بلا کر پوچھا کہ تم نے ان کو کیوں ہاتھ نہ لگایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ چیزیں اس وقت تو میرے لیے حلال ہیں لیکن میں تمھیں خوش کرنا نہیں چاہتا۔ اس پر اس نے کہا چلو میرے س رہی کو چوم لو، میں تمھیں رہا کردوں گا۔ اس پر انھوں نے کہا کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کردو گے؟ تو اس نے کہا ہاں۔ تو انھوں نے اس کے سر کو چوم لیا اور انھوں نے وہ تمام قیدی رہا کردیے جو ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ لوٹے تو عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر چومے اور میں اس کی ابتدا کرتا ہوں۔ وہ اٹھے اور انھوں نے ان کے سر کو چوما۔ اللہ دونوں سے راضی ہو۔[11][12]

وفات[ترمیم]

حضرت عبد اللہ بن حزافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مصر میں قیام رہا، وہاں مصر میں ہی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں 33ھ میں انتقال ہوا۔[13]

نسب کی تحقیق[ترمیم]

ایک مرتبہ آنحضرت نے جلال کی حالت میں فرمایا کہ تم لوگوں کو جو پوچھنا ہو پوچھو، اس وقت جو بات پوچھو گے بتاؤں گا، آپ نے اُٹھ کر پوچھا میرا باپ کون ہے ،فرمایا ابوحذیفہ: [14] آپ کی ماں نے سنا تو کہا کہ تم نے رسول اللہ سے کتنا خطرناک سوال کیا تھا، اگر خدانخواستہ وہ کچھ اور بتاتے تو میں سب کے سامنے رسوا ہوتی،جواب دیا کہ میں نسب کی تحقیق کرنا چاہتا تھا۔

فضل و کمال[ترمیم]

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعدد حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے ایک بخاری میں بھی ہے، آپ سے روایت کرنے والوں میں ابو وائل ،سلیمان اعمش اور سلیمان ابن یسار قابل ذکر ہیں۔ [15]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السوال وتکلف مالا یعنیہ
  2. (اسد الغابہ:142/3)
  3. أبو نعيم الأصبهاني (1998)۔ معرفة الصحابة۔ الثالث (الأولى ایڈیشن)۔ دار الوطن۔ صفحہ: 1615 
  4. (اسد الغابہ:142/3)
  5. ابن عساكر (1995)۔ تاريخ دمشق۔ 27۔ دار الفكر۔ صفحہ: 345 
  6. (بخاری،جلد2،کتاب المغازی باب النبی ﷺ الی کسری وقیصر)
  7. (بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعہ لدامام مالم یکن معصیۃً)
  8. "رسائل النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ إلى الملوك والأمراء" إسلام ويب. "نسخة مؤرشفة"۔ 19 يونيو 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 سبتمبر 2019 
  9. (اسد الغابہ:3/143)
  10. تفسیر ذخیرۃ الجنان۔ مفسر: سرفراز خان صفدر
  11. تفسیر فی ظلال القرآن۔ مرتب سید قطب شہید
  12. الاصابہ جلد دوم صفحہ296
  13. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد 5صفحہ821نعیمی کتب خانہ گجرات
  14. (بخاری کتاب الفتن وابن سعد جزو4،ق1:139)
  15. (تہذیب الکمال:194)