غزوہ طائف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
غزوہِ طائف
عمومی معلومات
آغاز دسمبر 630  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام دسمبر 630  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام طائف  ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
21°16′00″N 40°25′00″E / 21.266666666667°N 40.416666666667°E / 21.266666666667; 40.416666666667  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
مسلمان اہلِ طائف
قائد
محمد معاویہ بن نوفل دیلی
نقصانات
Map

غزوہ طائف کی وجہ[ترمیم]

حنین سے بھاگنے والی کفار کی فوجیں کچھ تو اوطاس میں جا کر ٹھہری تھیں اور کچھ طائف کے قلعہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اوطاس کی فوجیں شکست کھا کر ہتھیار ڈال دینے پر مجبورہو گئیں اور سب گرفتار ہو گئیں۔ لیکن طائف میں پناہ لینے والوں سے بھی جنگ ضروری تھی۔ اس لیے حضور ﷺ نے حنین اور اوطاس کے اموال غنیمت اور قیدیوں کو مقام جعرانہ میں جمع کرکے طائف کا رخ فرمایا۔

طائف کا محل وقوع[ترمیم]

طائف خود ایک بہت ہی محفوظ شہر تھا جس کے چاروں طرف شہر پناہ کی دیوار بنی ہوئی تھی اوریہاں ایک بہت ہی مضبوط قلعہ بھی تھا۔ یہاں کا رئیس اعظم عروہ بن مسعود ثقفی تھا جو ابو سفیان کا داماد تھا۔ یہاں بنو ثقیف کا جو خاندان آباد تھا وہ عزت و شرافت میں قریش کا ہم پلہ شمار کیا جاتا تھا۔ کفار کی تمام فوجیں سال بھر کا راشن لے کر طائف کے قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔

محاصرہ طائف[ترمیم]

اسلامی افواج نے طائف پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا مگر قلعہ کے اندر سے کفار نے اس زور و شور کے ساتھ تیروں کی بارش شروع کر دی کہ لشکر اسلام اس کی تاب نہ لا سکا اور مجبوراً اس کو پسپا ہونا پڑا۔ 18 دن تک شہر کا محاصرہ جاری رہا مگر طائف فتح نہیں ہو سکا۔ حضور ﷺ نے جب جنگ کے ماہروں سے مشورہ فرمایا تونوفل بن معاویہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی لیکن اگر چھوڑ دی جائے تو بھی اس سے کوئی اندیشہ نہیں ۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے محاصرہ اٹھا لینے کا حکم دے دیا۔[1] طائف کے محاصرہ میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے اورکل بارہ اصحاب شہید ہوئے سات قریش،چار انصار اور ایک شخص بنی لیث کے۔ زخمیوں میں ابوبکر صدیق کے صاحبزادے عبد اﷲ بن ابوبکربھی تھے یہ ایک تیر سے زخمی ہو گئے تھے۔ پھر اچھے بھی ہو گئے، لیکن ایک مدت کے بعد پھر ان کا زخم پھٹ گیا اور اپنے والد ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں اِسی زخم سے ان کی وفات ہو گئی۔[2] محمدﷺ نے اعلان کیا کہ جو غلام قلعے سے اتر کر ہمارے پاس آجائے وہ آزاد ہے۔ اس اعلان پر 23 غلام اتر آئے ان میں ابوبکرہؓ بھی تھے،وہ قلعے کے دیواروں پر چڑھ چڑھ کر ایک چرخی کی مدد سے جس سے رہٹ سے پانی نکالا جاتا ہے سے لٹک کر نیچے آ گئے۔ اس لیے محمدﷺ نے ان کا کنیت ابوبکرؓ رکھا۔عربی زبان میں چرخی (جس سے بانی نکالا جاتا ہے) کو بکرہ یا بکر کہا جاتاہے۔

مالِ غنیمت کی تقسیم[ترمیم]

طائف سے محاصرہ اُٹھا کر حضور ﷺ جعرانہ تشریف لائے۔ یہاں اموال غنیمت کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں، کئی من چاندی،اور چھ ہزار قیدی۔[3] اسیرانِ جنگ کے بارے میں آپ ﷺنے ان کے رشتہ داروں کے آنے کا انتظار فرمایا۔ لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود جب کوئی نہ آیا تو آپ نے مال غنیمت کو تقسیم فرما دینے کا حکم دے دیا۔ مکہ اور اس کے اطراف کے نومسلم رئیسوں کو آپ نے بڑے بڑے انعاموں سے نوازا۔ یہاں تک کہ کسی کو تین سو اونٹ، کسی کو دو سو اونٹ، کسی کو سو اونٹ انعام کے طور پر عطا فرما دیا۔ اسی طرح بکریوں کو بھی نہایت فیاضی کے ساتھ تقسیم فرمایا۔[4]

قیدیوں کی رہائی[ترمیم]

آپ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صرد چند معززین کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیران جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مؤثر تقریر کی،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

اے محمد!ﷺآپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حلیمہ کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔

زہیر کی تقریر سن کر حضور ﷺبہت زیادہ متاثر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت زیادہ انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بہت زیادہ دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں۔ میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نماز ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضور ﷺ نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیران جنگ کی رہائی ہو گئی۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. زرقانی ج3 ص33
  2. زرقانی ج3ص30
  3. سیرت ابن ہشام ج2 ص488
  4. سیرت ابن ہشام ج2 ص489
  5. سیرتِ ابن ہشام ج4 ص488تا48