عبد اللہ بن ام مکتوم
عبد اللہ بن ام مکتوم | |
---|---|
(عربی میں: عبد الله بن أم مكتوم) | |
مزار عبد اللہ بن ام مکتوم
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | مکہ [1] |
تاریخ وفات | سنہ 636ء |
شہریت | خلافت راشدہ |
عارضہ | اندھا پن [1] |
عملی زندگی | |
پیشہ | مؤذن |
شعبۂ عمل | دعوہ |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | قادسیہ کی لڑائی |
درستی - ترمیم |
عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ (وفات 15ھ)اصحاب صفہ میں شامل ہونے والے نابینا صحابی ہیں۔ عبد اللہ ابن ام مکتوم شروع زمانہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں،مدینہ منورہ میں حضرت بلالؓ اور حضرت سعد القرظ کے ساتھ آپ ﷺ کے مؤذن تھے ،بچپن میں آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی۔حضرت ابن ام مکتوم ؓ ان خوش نصیب فرزندانِ اسلام میں سے ہیں جنھوں نے شروع زمانہ میں اسلام کے لیے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی ،چنانچہ حضرت براءؓ بن عازب فرماتے ہیں:ہمارے انصار کے پاس سب سے پہلے حضرت مصعب ؓبن عمیر آئے، آپ کے بعد حضرت ابن ام مکتومؓ آئے اور یہ دونوں حضرات لوگوں کو قرآن شریف کی تعلیم دیتے تھے۔حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو رسول اللہ ﷺ سے بے انتہا محبت تھی،چنانچہ آپ ﷺ کی شان اقدس میں ایک یہودی عورت نے گستاخی کی، تو آپ اسے برداشت نہیں کرسکے؛ حالانکہ آپ کا قیام اسی عورت کے گھر میں تھا اور وہ عورت آپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا کرتی تھی اس کو مار دیا۔حضرت ام سلمہ ؓفرماتی ہیں :میں اور حضرت میمونہؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے ،اتنے میں حضرت ابن ام مکتومؓ حاضر خدمت ہوئے ،رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ارشاد فرمایا:حضرت ابن ام مکتومؓ سے پردہ کر و،ہم نے عرض کیا ،یارسول اللہ !کیا وہ نابینا نہیں ہیں جو ہمیں نہیں دیکھ سکتے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : کیا تم بھی نابینا ہو ؟(یعنی عورت کے لیے بھی اپنی نگاہ کی حفاظت ضروری ہے جیسے مرد کے لیے عور ت سے نگاہ کی حفاظت ضروری ہے۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ بعض رؤساء مشرکین جن میں ابو جہل بن ہشام ،عتبہ بن ربیعہ ،ابی بن خلف ، امیہ بن خلف اور شیبہ وغیرہ تھے۔
آپ علیہ السلام ان کے ساتھ گفتگو اور تبلیغِ اسلام میں مشغول تھے، اتنے میں حضرت ابن ام مکتومؓ حاضر خدمت ہوئے ؛چونکہ نابینا تھے ، مجلس میں کون ہیں پتہ نہیں چلا اور کسی آیت کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کرنے لگے اور بار بار اصرار کرنے لگے ،آپ علیہ السلام کو ان کفار مکہ سے کلام کو قطع کرنا ناگوار ہوا ،اس لیے کہ یہ لوگ ہر وقت آپ ﷺ کی مجلس میں نہیں آتے ،نہ ہر وقت ان کو اللہ کا کلمہ پہنچایا جا سکتا ہے ،اس وقت یہ کفار مکہ آپ کی بات سن رہے تھے، جس سے ان کے ایمان لانے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ حضرت ابن ام مکتومؓ پکے ایمان والے، ہر وقت کے حاضر باش تھے ، بعد میں بھی قرآنی آیت وغیرہ معلوم کرسکتے ہیں،ان مجموعی حالات کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ حضرت ابن ام مکتومؓ کی طر ف متوجہ نہیں ہوئے ،جو گفتگو روساء قریش کے ساتھ جاری تھی ،اس کو جاری رکھا،جب رسول اللہ ﷺ مجلس سے فارغ ہوئے، تو سورئہ عبس کی آیتیں نازل ہوئیں،جن میں آپ علیہ السلام کے اس طرز عمل پر تنبیہ کی گئی، اس سورت کے نازل ہونے کے بعد آپ علیہ السلام حضرت حضرت عبد اللہ ابن ام مکتومؓ کی بڑی خاطر تواضع و اکرام فرمایا کرتے تھے۔حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے تیرہ غزوات میں شرکت فرمائی ہے ،ہر غزوہ میں حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین و خلیفہ مقرر فرما کر تشریف لے جاتے ،حضرت ابن ام مکتوم ؓلوگوں کی امامت فرماتے ۔ امام ابونعیم اصبہانی نے عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو صفہ کے طالب علموں میں گردانتے ہوئے کہا کہ ابن ام مکتوم کے شاگرد ابو رزین اسدی سے منقول ہے کہ عبد اللہ بن ام مکتوم جنگِ بدر کے کچھ ہی دن بعد مدینہ منورہ تشریف لائے اور صفہ میں طلبۂ صفہ کے ساتھ قیام پزیر ہوئے ،پھر محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’’دار الغذاء‘‘۔ جو مخرمہ بن نوفل کا گھر تھا- میں ٹھہرایا ۔[2] دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن عبد اللہ بن ام مکتوم مشہور جلیل القدر صحابی ہیں۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں : حضرت ابن ام مکتوم ؓ قادسیہ کی لڑائی میں حضرت سعد بن ابی وقاص کی ماتحتی میں شریک ہوئے اور آپ کے ساتھ سیا ہ جھنڈا تھا اور آپ کے بدن پر زرہ تھی اور اسی معرکہ میں شہادت نوش فرمائی۔ [3] [4][5]
نام و نسب
[ترمیم]حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم کی کنیت اتنی مشہور ہوئی کہ ان کا اصلی نام بالکل چھپ گیا ؛چنانچہ ارباب سیر نے ان کے مختلف نام لکھے ہیں بعض عبد اللہ کہتے ہیں اور بعض عمرو بتاتے ہیں باپ کا نام قیس تھا؛لیکن ماں کی نسبت سے ابن ام مکتوم مشہور ہوئے ، سلسلہ نسب یہ ہے عمر بن قیس بن زائدہ بن اصم بن ہرم بن رواحہ بن حجر بن عدی ابن معیص بن عامر بن لوئی القرشی،ماں کانام عاتکہ تھا، نانہالی شجرہ عاتکہ بنت عبد اللہ ابن عنکشہ بن عامر بن محزوم ہے۔ [6] [7]
اسلام
[ترمیم]ابتدائے بعثت میں سر زمین مکہ میں مشرف باسلام ہوئے ،ابن ام مکتومؓ گو ظاہری آنکھوں کی روشنی سے محروم تھے،مگر چشم دل کھلی تھی ،اس لیے مکہ میں جیسے ہی اسلام کا نور چمکا وہ کفر کی تاریکی سے باہر نکل آئے اور ذات نبوی ﷺ سے ایک خاص قرب و اختصاص حاصل ہو گیا ؛چنانچہ اکثر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے ، مکہ کے مغرور امرا اور رؤساء بھی مجلس نبوی ﷺ میں آیا کرتے تھے ،جو ابن ام مکتومؓ کی ظاہری نابینائی اور غربت و افلاس کی وجہ سے ان کو ذلیل سمجھتے تھے اور آنحضرت ﷺ سے کہتے تھے کہ ہماری مجلس میں ایسے لوگ برابر نہ بیٹھا کریں،آنحضرت ﷺ کے دل میں یہ لگن تھی کہ کسی طرح قریش کے روساء دعوت حق قبول کر لیں،اس لیے آپ ان کی خاطر داری کرتے تھے،ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ روسائے قریش میں تبلیغ فرما رہے تھے کہ اس درمیان میں حضرت ابن ام مکتومؓ آگئے اور کچھ مذہبی مسائل پوچھنا شروع کردیے،آنحضرت ﷺ کو ان کی یہ بے موقع گفتگو اس لیے ناگوار ہوئی کہ اس سے روسائے قریش کی تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہوتی اور ان کے دلوں میں تاثر کی بجائے تکدر پیدا ہوتا، اس لیے عبد اللہ ابن ام مکتومؓ کی طرف التفات نہ فرمایا اور بدستور سلسلہ گفتگو جاری رکھا، آنحضرت ﷺ کا طرز عمل گو تبلیغ حق اور دعوت اسلام کی سچی خواہش پر مبنی تھا؛تاہم اللہ کے دربار میں ناپسندیدہ ہوا اوراس پر یہ آیت نازل ہوئی: [8] عَبَسَ وَتَوَلَّى ، أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى ، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى ، أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى ، أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى،فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى، وَمَاعَلَيْكَ أَلَّايَزَّكَّى،وَأَمَّامَنْ جَاءَكَ يَسْعَى،وَهُوَيَخْشَى،فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى [9] (پیغمبر نے) منہ بنایا اور رخ پھیر لیا، اس لیے کہ اُن کے پاس وہ نابینا آگیا تھا اور (اے پیغمبر) تمھیں کیاخبر؟شاید وہ سدھر جاتا،یا وہ نصیحت قبول کرتا اور نصیحت کرنا اسے فائدہ پہنچاتا،وہ شخص جو بے پروائی دکھارہا تھا،اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو ،حالانکہ وہ نہ سدھرے تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی،اور وہ جو محنت کرکے تمھارے پاس آیا ہے اور وہ دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے، اس کی طرف سے تم بے پروائی برتتے ہو۔ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اکرم ﷺ خاص طور پر ابن ام مکتومؓ کا لحاظ رکھتے تھے اور کاشانۂ نبوی میں ان کی بڑی خاطر مدارات ہوتی تھی، حضرت عائشہ صدیقہؓ آپ کو لیموں اور شہد کھلایا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ نزول آیت کے بعد یہ ابن ام مکتومؓ کا روزینہ تھا۔ [10] [11] [12][13]
ہجرت
[ترمیم]اذنِ ہجرت کے بعد حضرت عبد اللہ ابن ام مکتومؓ بھی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے ،اس وقت تک آنحضرت ﷺ نے ہجرت نہیں فرمائی تھی،[14] آپ کی ہجرت کے بعد موذنی کے جلیل القدر منصب پر مامور ہوئے ،رمضان میں ان کی اذان اختتام سحر کا اعلان ہوتی تھی ،اس کے بعد لوگ کھانا پینا بند کر دیتے تھے۔ [15] [16]
غزوات
[ترمیم]ہجرت مدینہ کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا؛ لیکن عبد اللہ ابن ام مکتومؓ اپنی مجبوری کے باعث جہاد کی شرکت سے معذور رہا کرتے تھے،جب یہ آیت نازل ہوئی: لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [17] یعنی وہ مسلمان جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں وہ رتبہ میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ کا تب وحی حضرت زید بن ثابتؓ سے اس کو لکھانے لگے تو عبد اللہ ابن ام مکتومؓ بھی پہنچ گئے اور عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ ﷺ اگر مجھ کو جہاد کرنے کی قدرت ہوتی اور اس کے لائق ہوتا تو میں بھی شرف جہاد حاصل کرتا، ان کی یہ پر حسرت آرزو بارگاہ خداوندی میں اتنی پسند ہوئی کہ وحی الہی نے ان کو اور ان کے جیسے تمام مجبور اشخاص کو اس حکم کے ذریعہ سے : لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ [18] یعنی ضرر رسیدہ لوگوں کے علاوہ مسلمان جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں وہ مرتبہ میں ان مجاہدین فی سبیل اللہ کی برابر نہیں ہیں جو اپنے جان و مال سے جہاد کرتے ہیں۔ مستثنیٰ کر دیا،[19] اور تمام مجبور اشخاص پر سے شرکت جہاد کا فرض ساقط ہو گیا؛لیکن اس حکم سے ان کا ولولہ جہاد کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گیا؛چنانچہ نابینا ہونے کے باوجود کبھی کبھی جنگ میں شریک ہوتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ مجھ کو علم دے کر دونوں صفوں کے درمیان کھڑا کر دو میں نابینا ہوں اس لیے بھاگنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے،[20] اللہ اللہ یہ جوش فدویت وجاں نثاری کہ ظاہری آنکھیں بے نور ہیں،ایک قدم چلنا مشکل ہے؛لیکن جہاد فی سبیل اللہ میں کٹنے کے لیے رگ جاں تڑپ رہی ہے اور حقیقت یہی وہ کمال اخلاص تھا، جس نے ذات خداوندی کو متوجہ کر لیا تھا اور یہی ولولہ تھا جس نے اسلام کی قوت کا لوہا ساری دنیا سے منوالیا تھا۔ گو حضرت عبد اللہ ابن ام مکتومؓ اپنی معذوری کے باعث اکثر جہاد کے شرف سے محروم رہتے تھے؛لیکن اس سے بڑھ کر شرف یہ حاصل ہوتا تھا کہ جب آنحضرت ﷺ بہ نفس نفیس اکابر مہاجرین وانصار کے ساتھ کہیں باہر تشریف لے جاتے تو ابن ام مکتومؓ کو جو معذوری کی وجہ سے مدینہ ہی میں رہتے تھے،امامت کی نیابت کا شرف عطا فرماتے تھے، چنانچہ غزوۂ ابواء ، بواط ، ذوالعسیر، جہینہ، سویق، غطفان، حمراء الاسد، نجران، ذات الرقاع وغیرہ میں ان کو یہ جلیل القدر منصب عطا ہوا، بدر میں بھی کچھ دنوں اس منصب کے حامل رہے؛لیکن چند روز کے بعد یہ شرف ابو لبابہ کی جانب منتقل ہو گیا،[21] مجموعی حیثیت سے ان کو 13 مرتبہ آنحضرت ﷺ کی نیابت کا شرف حاصل ہوا۔ [22] [23]
وفات
[ترمیم]آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سے خلافت فاروقی رضی اللہ عنہ کے اختتام تک ان کے حالات پردۂ خفا میں ہیں، صرف اس قدر پتہ چلتا ہے کہ جنگ قادسیہ میں علم بلند کیے،زرہ بکتر لگائے میدان کارزار میں کھڑے تھے، واقدی کے بیان کے مطابق ان کی وفات مدینہ میں ہوئی؛ لیکن زبیر بن بکار کی روایت کی رو سے جنگ قادسیہ میں شہادت پائی،[24] اکثر ارباب سیر اس روایت کو صحیح سمجھتے ہیں۔ [25]
جماعت کی حاضری
[ترمیم]نابینا تھے،مسجد نبویﷺ سے گھر دور تھا،راستہ میں جھاڑیاں پڑتی تھیں، کوئی راہ نما بھی نہ تھا، ان تمام دشواریوں کے باوجود عبد اللہ ابن ام مکتومؓ ہمیشہ مسجد نبوی ﷺ میں نماز پڑھتے تھے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت چاہی؛لیکن اذان اور اقامت کی آواز ان کے گھر تک جاتی تھی، اس لیے آپ نے اجازت نہ دی، چنانچہ اسی حالت میں چھڑی سے ٹٹولتے مسجد آتے تھے،حضرت عمر بن خطاب نے اپنے زمانے میں ان کو رہنما دیا تھا۔ [26]
فضل و کمال
[ترمیم]حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے بڑا طغرائے امتیاز یہی ہے کہ ان کو 13 مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی نیابت کا اعزاز ملا جس میں وہ مسجد نبوی ﷺ کی امامت کرتے تھے،اس کی علاوہ قرآن مجید کے حافظ تھے اور مدینہ آنے کے بعد لوگوں کو قرأت سکھاتے تھے [27] آنحضرت ﷺ کے فیض صحبت سے احادیث سے بھی ان کا دامن خالی نہ تھا؛چنانچہ ان سے انس اور زر بن جیش نے احادیث روایت کی ہیں۔ [28] [29]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب عنوان : Абдуллах ибн Умм Мактум
- ↑ حلیۃ الأولیاء: 2/4
- ↑ (سیر 223/3،الاستیعاب 372/1،اسد الغابة 397/3)
- ↑ (سیر اعلام النبلاء219/3،المستدرک735/3،اسدالغابة 3692،طبقات ان سعد،الاستیعاب عمدة القاری 144/4)
- ↑ Shauqi Abu Khalil (2003)۔ Atlas of the Qur'an۔ Maktaba Darussalam۔ صفحہ: 375۔ ISBN 9960-897-54-0۔ 6 يناير 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ (اسد الغابہ:3/127)
- ↑ Tabari، McDonald، Watt (1987)۔ The History of Al-Tabari, Vol VII : The Foundation of the Community۔ State University of New York Press, Albany۔ صفحہ: 89۔ ISBN 0-88706-345-4۔ 7 يناير 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ (فتح الباری:8/531)
- ↑ (عبس:1،10)
- ↑ (متدرک حاکم:3/634)
- ↑ Shaykh Safiur-Rahman Al Mubarakpuri (July 2003)۔ Tafsir Ibn Kathir (Abridged) Volume 10۔ Maktaba Darussalam۔ صفحہ: 356۔ ISBN 9960-892-71-9۔ 6 يناير 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ موطاء, 15 4.8
- ↑ Shauqi Abu Khalil (2003)۔ Atlas of the Qur'an۔ Maktaba Darussalam۔ صفحہ: 375۔ ISBN 9960-897-54-0
- ↑ (طبقات ابن سعدجز4،ق1،صفحہ:150)
- ↑ (بخاری کتاب الاذان باب اذان قبل الفجر)
- ↑ Shaikh Abdullah (September 2006)۔ Biography of the Prophet (Vol.1)۔ Maktaba Darussalam۔ صفحہ: 310۔ ISBN 9960980324
- ↑ (نساء:95)
- ↑ (نساء:95)
- ↑ (بخاری کتاب التفسیرباب لا یستوی القاعدون)
- ↑ (اصابہ واستیعاب ترجمہ ابن ام مکتوم)
- ↑ (اسد الغابہ:4/137)
- ↑ (تہذیب الکمال:289)
- ↑ "القرآن الكريم - تفسير الطبري - تفسير سورة عبس"۔ quran.ksu.edu.sa۔ 4 يونيو 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2020
- ↑ (ابن سعد،جز4،ق1:156واصابہ:4/184)
- ↑ Tabari، McDonald، Watt (1987)۔ The History of Al-Tabari, Vol VII : The Foundation of the Community۔ State University of New York Press, Albany۔ صفحہ: 89۔ ISBN 0-88706-345-4
- ↑ "عصمة الأنبياء - الفخر الرازي - الصفحة ١٠٨"۔ shiaonlinelibrary.com۔ 12 ديسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2020
- ↑ (ابن سعد:151)
- ↑ (تہذیب الکمال:289)
- ↑ "ما هي المصادر التي تثبت أنّ سورة عبس وتولّى لم تنزل في الرسول صلّى الله عليه وآله ؟"۔ research.rafed.net۔ 12 ديسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2020