مندرجات کا رخ کریں

عبد الرحمن بن عوف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد الرحمن بن عوف
(عربی میں: عبد الرحمن بن عوف ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 580ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 654ء (73–74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ ام کلثوم بنت عقبہ
سہلہ بنت عاصم
سہلہ بنت سہیل   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف ،  حمید بن عبدالرحمن بن عوف ،  ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن ،  مصعب بن عبد الرحمن بن عوف   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ تاجر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر ،  غزوہ احد ،  غزوہ خندق   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عمر کے بعد شوریٰ کے ارکان

اختيار خليفہ ثالث

عثمان بن عفان
علی بن ابی طالب
عبد الرحمن بن عوف
زبیر بن عوام
سعد بن ابی وقاص
طلحہ بن عبید اللہ

عبد الرحمن بن عوف (43ق.ھ / 31ھ) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی تھے ان کا لقب تاجر الرحمن تھا۔ آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔[2][3] حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ولادت مبارکہ سے دس سال بعد خاندان قریش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اسی طرح ہوئی جس طرح سرداران قریش کے بچوں کی ہوا کرتی تھی۔آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ یمن کے ایک بوڑھے عیسائی راہب نے آپ کو نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظہور کی خبر دی اور یہ بتایا کہ وہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوں گے اور مدینہ منورہ کو ہجرت کریں گے ۔ جب آپ یمن سے لوٹ کر مکہ مکرمہ آئے توحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اسلام کی ترغیب دی۔ چنانچہ ایک دن انھوں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کر لیا۔جبکہ آپ سے پہلے چند ہی آدمی آغوش اسلام میں آئے تھے چونکہ مسلمان ہوتے ہی آپ کے گھر والوں نے آپ پر ظلم وستم کا پہاڑ توڑنا شروع کر دیا اس لیے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے ۔ پھر حبشہ سے مکہ مکرمہ واپس آئے اور اپنا سارا مال واسباب چھوڑ کر بالکل خالی ہاتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے ۔ مدینہ منورہ پہنچ کر آپ نے بازار کا رخ کیا اور چند ہی دنوں میں آپ کی تجارت میں اس قدر خیر وبرکت ہوئی کہ آپ کا شمار دولت مندوں میں ہونے لگا اور آپ نے قبیلہ انصار کی ایک خاتون سے شادی بھی کرلی۔.[4] تمام اسلامی لڑائیوں میں آپ نے جان ومال کے ساتھ شرکت کی ۔ جنگ اُحد میں یہ ایسی جاں بازی اور سر فروشی کے ساتھ کفار سے لڑے کہ ان کے بدن پر اکیس زخم لگے تھے اور ان کے پاؤں میں بھی ایک گہرا زخم لگ گیا تھا جس کی و جہ سے یہ لنگڑا کر چلتے تھے ۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ کا تجارتی قافلہ جو سات سو اونٹوں پر مشتمل تھا۔ آپ نے اپنا یہ پورا قافلہ مع اونٹوں اور ان پر لدے ہوئے سامانوں کے خدا عزوجل کی راہ میں خیرات کر دیا۔ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار ہزار درہم پیش کر دیے۔ دوسری مرتبہ چالیس ہزار درہم اور تیسری مرتبہ پانچ سو گھوڑے ،پانچ سو اونٹ پیش کردیے بوقت وفات ایک ہزار گھوڑے اور پچاس ہزار دیناروں کا صدقہ کیا اور جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لیے چار چارسو دینار کی وصیت فرمائی اور ام المؤمنین حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دوسری ازواج مطہرات کے لیے ایک باغ کی وصیت کی جو چالیس ہزار درہم کی مالیت کا تھا۔ [5]32ھ میں کچھ دنوں بیمار رہ کر چوہتّر(74) سال کی عمر میں وفات فرمائی اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے اور ہمیشہ کے لیے سخاوت و شجاعت کا یہ آفتاب غروب ہو گیا۔[6][7][8][9]

[10]

نام و نسب و خاندان

[ترمیم]

عبد الرحمن نام ، ابو محمد کنیت والد کا نام عوف اور والدہ کا نام شفاء تھا، یہ دونوں زہری خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، سلسلہ نسب یہ ہے۔عبد الرحمن بن عوف ؓ بن عبد عوف بن عبد بن الحارث بن زہرہ بن کلاب بن مرہ القرشی الزہری۔ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصلی نام عبد عمرو تھا، ایمان لائے تو رسول اللہ نے بدل کر عبد الرحمن رکھا۔ [11] [12][13] [14] [15]

اسلام

[ترمیم]

عام روایت کے مطابق حضرت عبد الرحمن ؓ واقعہ فیل کے دسویں سال پیدا ہوئے تھے ، اس لحاظ سے جس وقت رسول اللہ نے دعوتِ توحید کی صدا بلند کی اس وقت ان کا سن تیس سال سے متجاوز ہو چکا تھا، فطری عفت وسلامت روی کے باعث شراب سے پہلے ہی تائب ہو چکے تھے، صدیق اکبر ؓ کی رہنمائی سے صراط مستقیم کی شاہراہ بھی نظر آگئی اور بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر رہروانِ حق کے قافلہ میں شامل ہو گئے، اس وقت تک صرف چند روشن ضمیر بزرگوں کو اس کی توفیق ہوئی تھی اور قافلہ سالار یعنی سرورِ دوعالم ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔ [16][17][18][19][20]

ہجرت

[ترمیم]

خلعتِ ایمان سے مشرف ہونے کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی عام بلاکشانِ اسلام کی طرح جلا وطن ہونا پڑا، پہلے ہجرت کرکے حبشہ تشریف لے گئے، پھر وہاں سے واپس آئے تو سب کے ساتھ سر زمین یثرب کی طرف ہجرت کرگئے۔ [21][22][23] [24]

مواخات

[ترمیم]

مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے سعد بن الربیع انصاریرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھائی چارہ کروایا اور وہ انصار میں سے سب سے زیادہ مالدار اور فیاض طبع تھے، کہنے لگے میں اپنا نصف مال و منال تمھیں بانٹ دیتا ہوں ،اور میری دو بیویاں ہیں ان کو دیکھو جو پسند آئے اس کا نام بتاؤ میں طلاق دے دوں گا ، عدت گذارنے کے بعد تم نکاح کر لینا، لیکن حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی غیرت نے گوارانہ کیا، جواب دیا، خدا تمھارے بال و منال اور اہل و عیال میں برکت دے مجھے صرف بازار دکھا دو ، لوگوں نے بنی قینقاع کے بازار میں پہنچادیا، وہاں سے واپس آئے تو کچھ گھی اور پنیر وغیرہ نفع میں بچا لائے دوسرے روز باقاعدہ تجارت شروع کر دی ، یہاں تک کہ چند دنوں کے بعد بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو جسم پر مراسم شادی کی علامتیں موجود تھیں، استفسار ہوا یہ کیا ہے ، عرض کیا ایک انصاریہ سے شادی کرلی ہے، سوال ہوا مہر کس قدر ادا ہوا ؟ عرض کیا ایک کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا ، حکم ہوا، تو پھر ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی سہی۔ [25] [26]

غزوات

[ترمیم]

سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا ، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر معرکوں میں پامردی و شجاعت کے ساتھ شریک رہے، غزوۂ بدر میں دو نوجوان انصاری پہلو میں کھڑے تھے ، انھوں نے آہستہ سے پوچھا یاعم !ابوجہل کون ہے جو سرورِ کائنات کی شان میں بد زبانی کرتا ہے؟ اسی اثناء میں ابو جہل سامنے آگیا، حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا وہ دیکھو جس کو تم پوچھتے تھے سامنے موجود ہے ، ان دونوں نے جھپٹ کر ایک ساتھ وار کیا اور اس ناپاک ہستی سے دنیا کو نجات دلادی۔ [27] غزوۂ احد میں جانبازی و شجاعت سے لڑے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ بدن پر بیس سے زیادہ آثار جراحت شمار کیے گئے تھے، خصوصاً پاؤں میں ایسے کاری زخم لگے تھے کہ صحت کے بعد بھی ہمشہ لنگڑا کر چلتے تھے۔ [28] [29]

دومتہ الجندل کی مہم

[ترمیم]

شعبان میں دومتہ الجندل کی مہم پر مامور ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کر اپنے دستِ اقدس سے عمامہ باندھا پیچھے شملہ چھوڑا اور ہاتھ میں علم دے کر فرمایا ، بسم اللہ راہِ خدا میں روانہ ہو جاؤ، جو لوگ خدا کی نافرمانی و عصیان میں مبتلا ہیں ان سے جاکر جہاد کرو، لیکن کسی کو دھوکا نہ دینا فریب نہ کرنا ، بچوں کو نہ مارنا ، یہاں تک کہ دومتہ الجندل پہنچ کر قبیلہ کلب کو اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ قبول کریں تو ان کے بادشاہ کی لڑکی سے نکاح کرلینا۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس اعزاز کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوکر دومتہ الجندل پہنچے اور تین دن تک دعوت و تبلیغ اسلام کا فرض اس خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے کہ قبیلہ کلب کے سردار صبغ بن عمروا لکلبی جو مذہباً عیسائی تھے اور اس کی قوم کے بہت سے لوگ بطیب خاطر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے ، البتہ بعضوں نے جن کو اس کی توفیق نہ ہوئی جزیہ منظور کر لیا، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حسب فرمان اصبغ کی لڑکی تماضر سے شادی کرلی اور رخصت کرا کے مدینہ ساتھ لائے، چنانچہ ابوسلمہ بن عبد الرحمن انھی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ [30][31] [32]

فتح مکہ

[ترمیم]

مکہ کی فوج کشی میں بھی شریک تھے، اس کے زیر نگین ہونے کے بعد رسول اللہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبیلہ بنو جذیمہ کے پاس جو اطراف مکہ میں مسکن گزین تھا دعوت اسلام کے لیے بھیجا، انھوں نے غلطی سے قتل و خون ریزی کا بازار گرم کر دیا ، سرورِ کائنات کو اطلاع ہوئی تو نہایت متاسف ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر بارگاہِ رب العالمین میں تین دفعہ اپنی برأت ظاہر کی، خدایا ! خالد ؓ نے جو کچھ کیا میں اس سے بری ہوں۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان اور قبیلہ بنو جذیمہ میں گو قدیم زمانہ سے عداوت چلی آتی تھی، یہاں تک کہ ان کے والد عوف کو اسی قبیلہ کے ایک آدمی نے قتل کیا تھا، تاہم اخوت اسلامی نے اس دیرینہ عداوت کو بھی محو کر دیا، چنانچہ اس خونریزی سے بیزار ہو کر حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کہا، افسوس تم نے اسلام میں جاہلیت کا بدلہ لیا، انھوں نے جواب دیا میں نے تمھارے باپ کے قاتل کو مارا، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے کہا بے شک تم نے میرے باپ کے قاتل کو مارا ؛ لیکن درحقیقت یہ فاکہ بن مغیرہ کا انتقام تھا، جو تمھارا چچا تھا، (حضرت عبد الرحمن ؓ کے والد عوف اور حضرت خالد ؓ کے چچا فاکہ بن مغیرہ تجارت کے خیال سے یمن جا رہے تھے بنو جذیمہ نے راہ میں ایک ساتھ دونوں کو قتل کیا تھا،) [33]اس کے بعد دونوں میں نہایت گرم گفتگو ہوئی، آنحضرت کو اطلاع ہوئی تو حضرت خالد بن ولید ؓ سے ارشاد ہوا بس خالد !میرے اصحاب کو چھوڑ، اگر تو راہِ خدا میں کوہِ احد کے برابر بھی سونا صرف کرے گا تب بھی ان کے برابر نہ ہوگا۔ فتح مکہ کے بعد حجۃ الوداع تک جس قدر مہمات اور جنگیں پیش آئیں، حضرت عبد الرحمن ؓ سب میں شریک رہے، آخری سفرحج سے واپس آنے کے بعد 10ھ میں سرورِ کائنات نے وفات پائی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا قصہ پیش آیا، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ اسی گتھی کے سلجھانے میں شریک تھا اور صدیق اکبر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں ان کا تیسرا نمبر تھا۔[32][34] فقال النبي:[35]

عہد فاروقی ؓ

[ترمیم]

خلیفہ اول کے عہد میں حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ ایک مخلص مشیر اور مصائب الرائے رکن کی حیثیت سے ہر قسم کے مشوروں میں شریک رہے 13ھ میں جب صدیق اکبر ؓ کا آفتاب حیات لب بام آیا اور ایک جانشین نامزد کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی تو انھوں نے سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بلاکر اس کے متعلق مشورہ کیا اور اس منصب جلیل کے لیے فاروق اعظم ؓ کا نام لیا ، حضرت عبد الرحمن ؓ نے نہایت آزادی اور خلوص کے ساتھ کہا عمر کی اہلیت میں کیا شک ہے لیکن مزاج میں سختی ہے، حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا، ان کی سختی اس لیے تھی کہ میں نرم تھا، لیکن جب یہ بار گراں انھی پر آپڑے گا تو خود بخود نرم ہو جائیں گے۔[36] غرض چند روزہ علالت کے بعد خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے۔

فاروق اعظم ؓ نے مسند خلافت پر قدم رکھنے کے ساتھ نظام خلافت کو پہلے سے زیادہ منظم و مرتب کر دیا ، مہمات مسائل پر بحث ومباحثہ کے لیے ایک مستقل مجلس شوریٰ قائم کی، حضرت عبد الرحمن ؓ اس مجلس کے نہایت صائب الرائے، پرجوش اور سرگرم رکن ثابت ہوئے ، بہت سے معاملات میں انھی کی رائے پر آخری فیصلہ ہوا، عراق پر مستقل اور باقاعدہ فوج کشی کے لیے جب دار الخلافہ کے گرد ایک عظیم الشان لشکر مجتمع ہوا اور عوام نے زور ڈالا کہ خود امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس فوج کی باگ اپنے ہاتھ میں لیں، یہاں تک کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ خود بھی اس کے لیے تیار ہو گئے تو اس وقت صرف حضرت عبد الرحمن ؓ ہی تھے جنھوں نے سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کی اور کہاکہ لڑائی کے دونوں پہلو ہیں، خدانخواستہ اگر شکست ہوئی اور امیر المومنین کو کچھ صدمہ پہنچا تو پھر اسلام کا خاتمہ ہے، حضرت عبد الرحمن ؓ کی اس مآل اندیشی نے تمام اکابر صحابہ ؓ کی آنکھیں کھول دیں اور سب نے پرزور الفاظ میں اس کی تائید کی، لیکن مشکل یہ تھی کہ اس اہم عہدہ کے لائق کوئی شخص نہ تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا تو انھوں نے صاف انکار کر دیا، غرض اسی غود وفکر میں تھے کہ حضرت عبد الرحمن ؓ کی نگاہِ انتخاب نے یہ مشکل بھی حل کر دی اور کھڑے ہوکر کہا میں نے پالیا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کون؟ بولے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حسن انتخاب پر ہر طرف سے صدائے تحسین و آفرین بلند ہوئی اور واقعات نے بہت جلد ثابت کر دیا کہ یہ انتخاب کس قدر موزوں تھا۔

اسی طرح معرکہ نہاوند میں بھی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو موقع جنگ پر جانے سے روکا، لیکن کبھی کبھی جوش مآل اندیشی پر غالب آ جاتا تھا ، چنانچہ جب مہم شام میں اسلامی فوجیں رومیوں کی عظیم الشان تیاریوں کے باعث مقامات مفتوحہ چھوڑ کر پیچھے ہٹ آئیں، حضرت ابو عبیدہ ؓ سپہ سالارِ اعظم نے رومیوں کے جوش وخروش اور ٹڈی دل اجتماع کی اطلاع دار الخلافہ میں بھیجی، تو حضرت عبد الرحمن ؓ کو اس قدر جوش آیا کہ بیتاب ہوکر بولے، امیر المومنین تو خود سپہ سالار بن اور مجھ کو ساتھ لے کر چل، خدانخواستہ اگر ہمارے بھائیوں کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے، لیکن اس موقع پر دوسرے مآل اندیش صحابہ ؓ نے مخالفت کی اور اسی پر فیصلہ ہوا۔ حضرت عبد الرحمن ؓ نے انتظامی اور قانونی حیثیت سے جو رائیں دیں، ان کا اجمالی تذکرہ انشاء اللہ علم و فضل کے سلسلہ میں آئے گا۔[37][38][39][40]

واقعہ ہائلہ

[ترمیم]

23ھ میں ایک روز حسب معمول عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کی نماز پڑھانے کھڑے ہوئے کہ دفعۃً ابولولو فیروز ایک عجمی غلام نے حملہ کیا اور متعدد زخم پہنچائے، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے مصلے پر کھڑا کیا، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلدی جلدی نماز تمام کی[41] اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اٹھاکر ان کے گھر لائے۔ [42][43] [44]

حضرت عبد الرحمن ؓ کا ایثار

[ترمیم]

خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حالت غیر ہوئی تو لوگوں نے منصب خلافت کے لیے کسی کو نامزد کرنے کی درخواست کی حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے چھ آدمیوں کے نام پیش کرکے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے آخر وقت تک خوش رہے تھے، یہ باہم کسی ایک کو منتخب کر لیں، لیکن تین دن کے اندر یہ مسئلہ طے پاجائے۔ خلیفہ دوم کی تجہیز وتکفین کے بعد حسبِِ وصیت انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا، لیکن دو دن تک کچھ فیصلہ نہ ہو سکا، تیسرے روز حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے کہا کہ یہ مسئلہ چھ آدمیوں میں دائر ہے، اس کو تین شخصوں میں محدود کرنا چاہیے اور جو اپنے خیال میں جس کو زیادہ مستحق سمجھتا ہے اس کا نام لے، چنانچہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی نسبت رائے دی ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو پیش کیا اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کا نام لیا ؛ لیکن حضرت عبد الرحمن ؓ اپنے حق سے باز آگئے اور حضرت علی ؓ اور عثمان ؓ سے کہا کہ اب تم دونوں میں جو احکام الہی ، سنتِ نبوی طریقۂ شیخین ؓ کی پابندی کا عہد کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی، عام روایت یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں سب سے پہلے اس عہد پر راضی ہوں لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں خاموش رہے ، بہرحال حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دونوں کو راضی کر کے اس کا تصفیہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ہر ایک کو علاحدہ لے جاکر ان کے فضائل ومناقب یاد دلائے اور کہا مجھے توقع ہے کہ اگر میں تمھیں یہ منصب دوں تو عدل و انصاف کرو گے اور اگر تمھارے مقابل کو یہ شرف نصیب ہو تو اطاعت سے کام لوگے، غرض اس عہدو پیمان کے بعد حضرت عبد الرحمن ؓ نے مجع عام میں ایک مؤثر تقریر کی اور حضرت عثمان ؓ سے کہا ہاتھ پھیلاؤ اور خود بڑھ کر بیعت کرلی ان کا بیعت کرنا تھا کہ تمام خلقت ٹوٹ پڑی۔ [45]

اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نگاہِ انتخاب نے حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر کیوں ترجیح دی؟ عام خیال یہ ہے کہ ان دونوں کی باہمی یگانگت محبت اور رشتہ داری کا نتیجہ تھا ، چنانچہ طبری کی ایک روایت کے مطابق حضرت عباس ؓ نے ابتداہی میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اپنا شبہ ظاہر کر دیا تھا۔[46] لیکن یہ صحیح نہیں ہے، رشتہ داری بے شک ایک مؤثر چیز ہے مگر ایسے اہم معاملات میں بنائے فیصلہ نہیں ہو سکتی۔ اصل یہ ہے کہ گو اسلام نے قبائل کو باہم متحد کر دیا تھا؛ تاہم ایک حد تک منافست و مسابقت کا خیال باقی تھا اور لوگ اس کو پسند نہ کرتے تھے کہ نبوت و خلافت ایک ہی قبیلہ یعنی بنوہاشم میں مجتمع ہو جائے، چنانچہ خلافت مرتضوی میں جو خانہ جنگیاں برپا ہوئیں وہ اسی منافست کا نتیجہ تھیں، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کی نگاہِ عاقبت نے اس کا پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ پر ترجیح دی ورنہ اسلام کا شیرازہ اسی وقت بکھر جاتا، جیسا کہ بعد کو واقعات نے ثابت کر دیا ہے۔ اس ترجیح کی ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے شیخین ؓ کی روش پر کار بند ہونے میں پس و پیش کیا تھا، جیسا کہ متعدد روایتوں سے ثابت ہوتا ہے برخلاف اس کے حضرت عثمان ؓ نے نہایت بلند آہنگی کے ساتھ ہامی بھری تھی، بہرحال حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے اس عقدہ کو جس ایثار و دور اندیشی اور دانائی کے ساتھ حل کیا وہ یقیناً ان کی زندگی کا مایہ ناز کارنامہ ہے۔[47] :[48][49]

وفات

[ترمیم]

عہد عثمانی ؓ میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نہایت خاموش زندگی بسر کی اور جہاں تک معلوم ہے مہمات ملکی میں انھوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی ، یہاں تک کہ روح اطہر نے پچھیتر برس تک اس سرائے فانی کی سیر کرکے 31ھ میں داعیِ حق کو لبیک کہا، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حضرت علی ؓ نے جنازہ پر کھڑے ہو کر کہا: اذھب یا ابن عوف فقد ادرکت صفوھاوسبقت زلقھا یعنی"ابن عوف! جا تو نے دنیا کا صاف پانی پایا اور گدلا چھوڑ دیا" حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ جنازہ اٹھانے والوں میں شریک تھے اور کہتے جاتے تھے "واجبلاہ" یعنی یہ پہاڑ بھی چل بسا، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا۔ [50][51][52][53][54]

علم و فضل

[ترمیم]

رسول اللہ کی صحبت نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضل و کمال کو علمی زر و جواہر سے پر کر دیا تھا ، گو انھوں نے دوسرے کبار صحابہ ؓ کی طرح حدیثیں بہت کم روایت کیں، تاہم خلفائے راشدین ؓ کو بہت اہم اور ضروری موقعوں پر اپنے معلومات سے فائدہ پہنچایا، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں جب رسول اللہ کی وراثت کا جھگڑا چھڑا تو انھوں نے بلند آہنگی کے ساتھ اس حدیث کی تصدیق کی کہ آنحضرت کے متروکہ میں وراثت نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جب ایران فتح ہوا اور انھیں فکر دامن گیر ہوئی کہ آتش پرستوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چائیے تو اس وقت حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے اس عقدہ کو حل کیا اور بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے ساتھ اہل کتاب کی روش اختیار کی تھی اور انھیں ذمی قرار دیا۔ [55]

18ھ میں عمواس میں طاعون پھیلا اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام ؓ سے بلا کر دریافت کیا کہ طاعون زدہ مقام سے ہٹنا جائز ہے یا نہیں؟ تو کوئی اس کا قطعی جواب نہ دے سکا، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ اس وقت موجود نہ تھے لیکن جب انھیں خبر ملی تو انھوں نے حاضر ہوکر کہا میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ جہاں طاعون ہو وہاں نہ جاؤ، اگر تم پہلے سے طاعون زدہ مقام میں ہو تو وہاں سے نہ ہٹو۔ [56] [57] [58][59]

اصابت رائے

[ترمیم]

خدائے تعالی نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کو اصابت رائے اور دوراندیشی کا نہایت وافر حصہ دیا تھا، چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت مستحقین خلافت پر ریمارک کرتے ہوئے فرمایا تھا،عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت صائب الرائے، ہوشمند اور سلیم الطبع ہیں ان کی رائے کو غور سے سننا اور اگر انتخاب میں مخالفت پیدا ہو جائے تو جس طرف عبد الرحمن ؓ ہوں ان کا ساتھ دینا۔ [60] حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے صرف حسن ظن نہیں بلکہ دیرینہ تجربات پر مبنی تھی، چنانچہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کی گرہ کو جس خوبی کے ساتھ سلجھایا وہ ان کی تجربہ کاری اورہوش مندی کی نہایت بین شہادت ہے۔ [61] [62]

اخلاق و عادات

[ترمیم]

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دامن فضل وکمال اوراخلاقی جواہر پاروں سے مالا مال تھا ، خصوصاً خوفِ خدا ، حب رسول ، صدق و عفاف ترحم ، فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ ان کے نہایت درخشاں اوصاف تھے۔[63][64]

خوفِ خدا

[ترمیم]

خوفِ کے باعث دنیا کا ہر واقعہ ان کے لیے مرقع عبرت بن جاتا تھا اور اس کی ہیبت و جلال کو یاد کرکے رونے لگتے تھے، ایک دفعہ دن بھر روزہ رہے، شام کے وقت کھانا سامنے آیا تو بے اختیار مسلمانوں کا گذشتہ فقر و فاقہ یاد آگیا بولے !مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے بہتر تھے، وہ شہید ہوئے تو کفن میں صرف ایک چادر تھی جس سے سرچھپا یا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں چھپائے جاتے تھے تو سر کھل جاتا تھا، اسی طرح حمزہ بن عبد المطلب ؓ شہید ہوئے، حالانکہ وہ مجھ سے بہتر تھے، لیکن اب دنیا ہمارے لیے کشادہ ہو گئی ہے اور ہمیں اس قدر دنیاوی نعمتیں مرحمت کی گئی ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ شاید ہماری نیکیوں کا معاوضہ دنیا ہی میں ہو گیا، اس کے بعد اس قدر رقت طاری ہوئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ [65][66]

حب رسول ﷺ

[ترمیم]

ایک صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سے حضرت عبد الرحمن ؓ رسالت مآب کی محبت اور خدمت وحفاظت میں ہمیشہ پیش رہے، واقعہ احد صحابہ ؓ کی جان نثاری ومحبت کا نہایت سخت امتحان تھا، حضرت عبد الرحمن ؓ اس آزمائش میں پورے اترے، بدن پر بیس زخم کھائے، پاؤں میں ایسا کاری زخم لگا کہ لنگڑا کر چلنے لگے، لیکن جذبہ جان نثاری نے میدان سے منہ موڑنے نہ دیا۔ حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کبھی باہر تشریف لے جاتے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ پیچھے پیچھے ساتھ ہو لیتے، ایک دفعہ آنحضرت باہر نکلے، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی پیچھے چلے یہاں تک کہ رسول اللہ ایک نخلستان میں پہنچ کر سربسجود ہو گئے اور اس قدر دیر تک سجدہ میں رہے کہ ان کو خوف ہوا کہ شاید روح اطہر خدا سے جا ملی، گھبرا کر قریب آئے آنحضرت ﷺ نے سر مبارک اٹھا کر فرمایا کیا ہے عبد الرحمن ؓ؟ انھوں نے اپنی گھبراہٹ کی وجہ عرض کیا، ارشاد ہوا" جبرائیل امین علیہ السلام نے مجھ سے کہا :کیا میں آپ کو یہ بشارت نہ دوں کہ خداوند جل جلالہ نے فرمایا ہے کہ جو آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر درود بھیجوں گا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلام بھیجوں گا[67]یعنی یہ طویل سجدہ سجدۂ تشکر تھا۔ آنحضرت کے بعد بھی ہمیشہ آپ کی یاد تازہ رہتی تھی، نوفل بن ایاس فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن بن عوف ؓ سے اکثر لطف صحبت رہتا تھا درحقیقت وہ خوب ہم نشین تھے، ایک روز ہم کو اپنے دولت کدہ پر لے گئے پھر خود اندر داخل ہوئے اور غسل کرکے باہر آئے، اس کے بعد کھانا آیا روٹی اور گوشت دیکھ کر بے اختیار رونے لگے میں نے پوچھا: ابو محمد ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ گریہ وزاری کیسی؟ بولے رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی لیکن تمام عمر آپ ﷺ کے اہل و عیال کو پیٹ بھر جو کی روٹی بھی نہ ملی، ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اتنے دنوں تک دنیا میں رہنا ہمارے لیے بہتر نہیں ہے۔ [68][69]

صدق و عفاف

[ترمیم]

دیانتداری، صدق و عفاف حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستارِ فضل وکمال کا نہایت خوبصورت طرہ تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کی صداقت پر اس قدر اعتماد تھا کہ مدعی یا مدعا علیہ ہونے کی حیثیت میں بھی وہ تنہا ان کے بیان کو کافی سمجھتے تھے، ایک دفعہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کی عدالت میں حضرت زبیر بن عوام ؓ نے مقدمہ دائر کیا کہ میں نے آلِ عمرؓ سے ایک قطعہ زمین خریدا ہے جو عمرؓ کو دربارِ نبوت سے بطور جاگیر مرحمت ہوا تھا، لیکن عبد الرحمن ؓ کا دعویٰ ہے کہ ان کو اور عمر ؓ کو ایک ساتھ جاگیر ملی تھی اور فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک ان کا حصہ ہے، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے فرمایا عبد الرحمن ؓ اپنے موافق یا مخالف شہادت دے سکتے ہیں۔ [70] آنحضرت نے فرمایا تھا کہ میرے بعد جو شخص میری ازواج مطہرات ؓ کی نگرانی و محافظت کرے گا وہ نہایت صادق اور نیکو کار ہوگا، چنانچہ یہ فرض مخصوص طور پر حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے متعلق تھا وہ سفر حج کے موقعوں پر ساتھ جاتے تھے، سواری اور پردہ کا انتظام کرتے تھے، جہاں پڑاؤ ہوتا تھا وہاں انتظام و اہتمام کے ساتھ اتارتے تھے، غرض انھیں صرف اپنی عصمت و عفت کے باعث امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خدمت و حفاظت کا فخر نصیب ہوا تھا جوان کا مخصوص طغرائے امتیاز ہے۔ [71][72]

انفاق فی سبیل اللہ

[ترمیم]

ہجرت کے بیان میں گذرچکا ہے کہ عبد الرحمن ؓ کو بے نیازی اور استغنانے تجارت کی طرف مائل کر دیا تھا؛ چنانچہ اس میں انھوں نے اس قدر ترقی کی کہ ایک عظیم الشان دولت کے مالک ہو گئے، یہاں تک کہ ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا تو اس میں سات سو اونٹ پر صرف گیہوں آٹا اور دوسری اشیائے خورد نی بار تھیں، اس عظیم الشان قافلہ کا تمام مدینہ میں غل پڑ گیا، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے سنا تو فرمایا میں نے رسول اللہ سے سنا کہ عبد الرحمن بن عوف ؓ جنت میں رینگتے ہوئے جائیں گے ،عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع ہوئی تو ام المومنین ؓ کے پاس حاضر ہوکر عرض کیا میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ یہ پورا قافلہ مع اسباب وسامان بلکہ اونٹ اور کجاوہ تک راہِ خدا میں وقف ہے" [73] صحابہ ؓ کی دولت ذاتی راحت و آسائش کے لیے نہ تھی ؛بلکہ جو جس قدر زیادہ دولت مند تھا اسی قدر اس کا دستِ کرم زیادہ کشادہ تھا، حضرت عبد الرحمن ؓ کی فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کا سلسلہ آنحضرت کے عہد ہی سے شروع ہو چکا تھا اور وقتاً فوقتاً قومی مذہبی ضروریات کے لیے گراں قدر رقمیں پیش کیں، سورۂ برأت نازل ہوئی اور صحابہ ؓ کو صدقہ وخیرات کی ترغیب دی گئی تو حضرت عبد الرحمن ؓ نے اپنا نصف مال یعنی چار ہزار پیش کیے، پھر دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینا روقف کیے، اس طرح جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ حاضر کیے۔ [74] عام خیرات و صدقات کا یہ حال تھا کہ ایک ہی دن میں تیس تیس غلام آزاد کر دیتے تھے، ایک دفعہ انھوں نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ فروخت کی اورسب راہ خدا میں لٹا دیا، [75] لیکن اس فیاضی کے باوجود ہر وقت یہ فکر دامنگیر رہتی تھی کہ کہیں اس قدر تمول آخرت کے لیے موجب نقصان نہ ہو، ایک دفعہ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر گزارش کی اماں مجھے خوف ہے کہ کثرت مال مجھے ہلاک کر دے گی،ارشاد ہوا بیٹا راہِ خدا میں صرف کرو، میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ میرے اصحاب ؓ میں بعض ایسے ہیں کہ مفارقت کے بعد انھیں میرا دیدار نصیب ہوگا۔ [76] غرض فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کا سلسلہ آخری لمحہ حیات تک قائم رہا، وفات کے وقت بھی بچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے راہِ خدا میں وقف کیے، نیز بدر میں جو صحابہ ؓ شریک ہوئے تھے اور اس وقت تک زندہ موجود تھے ان میں سے ہر ایک کے لیے چار چار سو دینار کی وصیت کی، بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت ایک سو اصحاب بدر بقید حیات تھے اور سب نے نہایت خوشی کے ساتھ اس وصیت سے فائدہ اٹھایا یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ نے بھی حصہ لیا۔ [77] امہات المومنین کے لیے بھی ایک باغ کی وصیت کی جو چار لاکھ درہم میں فروخت ہوا، نیز اس سے پہلے مختلف موقعوں پر بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، ایک دفعہ ایک جائداد پیش کی جو چالیس ہزار دینار میں فروخت ہوئی تھی، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ان کے صاحبزادہ ابوسلمہ سے اکثر بطریق تشکر و دعا فرمایا کرتی تھیں، خدا تمھارے باپ کو سلسبیل جنت سے سیراب کرے۔ [78] [79][80]

مذہبی زندگی

[ترمیم]

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھتے تھے، خصوصاً ظہر کے وقت فرض سے پہلے دیر تک نوافل سے شغل رکھتے تھے۔ [81] آپ اکثر روزے رکھتے تھے، حج کے لیے بھی بارہا تشریف لے گئے، جس سال حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند نشین خلافت ہوئے اس سال امارت حج کی خدمت بھی انھی کے سپرد ہوئی تھی۔ [82][83]

ذریعۂ معاش

[ترمیم]

تجارت اصلی ذریعہ ٔمعاش تھا، آخر میں زراعت کا کاروبار بھی نہایت وسیع پیمانہ پر قائم ہو گیا تھا، آنحضرت نے خیبر میں ایک وسیع جاگیر مرحمت فرمائی تھی، پھر انھوں نے خود بہت سی قابل زراعت اراضی خرید کر کاشت کاری شروع کی تھی، چنانچہ صرف مقام"جرف" کے کھیتوں میں بیس اونٹ آب پاشی کا کام کرتے تھے۔ [84] عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاروبار میں خدائے پاک نے غیر معمولی برکت دی تھی، وہ خود فرماتے ہیں کہ اگر میں پتھر بھی اٹھاتا تو اس کے نیچے سونا نکل آتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اس قدر فیاض اور انفاق فی سبیل اللہ کے باوجود وہ اپنے وارثوں کے لیے نہایت وافر دولت چھوڑ گئے، یہاں تک کہ چاروں بیویوں نے جائداد متروکہ کے صرف آٹھویں حصہ سے اسی اسی ہزار دینار پائے سونے کی اینٹیں اتنی بڑی بڑی تھیں کہ کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر تقسیم کی گئیں اور کاٹنے والوں کے ہاتھ میں آبلے پڑ گئے، جائداد غیر منقولہ اور نقدی کے علاوہ ایک ہزار اونٹ اور سو گھوڑے اور تین ہزار بکریاں چھوڑیں۔ [85][86][87]

غذا و لباس

[ترمیم]

دستر خوان وسیع تھا لیکن پرتکلف نہ تھا، کبھی قیمتی اور خوش ذائقہ کھانا سامنے آ جاتا تو گذشتہ فقر وفاقہ یاد کرکے آنکھیں پر نم ہو جاتیں، لباس میں زیادہ تر ریشم کا استعمال تھا؛ کیونکہ فقروفاقہ میں بیماری کی وجہ سے رسول اللہ نے خاص طور پر اجازت دی تھی، ایک دفعہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابوسلمہ ریشمی کرتا زیب تن کیے ہوئے تھے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کے چیتھڑے اڑا دیے، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ نے مجھے اجازت دی ہے، فرمایا ہاں معلوم ہے؛ لیکن صرف تمھارے لیے اجازت ہے دوسروں کے لیے نہیں۔ [88][89] ،[90] . [91] [92]

اولاد و ازواج

[ترمیم]

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، بیویوں کے ساتھ عموماً لطف ومحبت سے پیش آتے تھے، ایک انصاریہ سے شادی کی تو بیس ہزار دینار مہر میں دیے، [93]بیویوں کے نام یہ ہیں: کلثوم بنت عتبہ بن ربیعہ، تماضربنت الاصبغ، کلثوم بنت عقبہ بن ابی منیط، سہلہ بنت عاصم، بحریہ بنت ہانی، سہلہ بنت سہیل، ام حکیم بنت قارظ، بنت ابی الخشخاش، اسماء بنت سلامہ، ام حریث، یہ بہرا سے قید ہو کر آئی تھیں، مجد بنت یزید ، غزال بنت کسریٰ، یہ مدائن سے گرفتار ہوکر آئی تھیں، بعض مورخین کا خیال ہے کہ خاندان کسریٰ کی شہزادی تھیں، زینب بنت الصباح بادیہ بنت غیلان۔ [94] حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کی اولاد نہایت کثیر تھی، جن لڑکوں کے نام معلوم ہو سکے وہ یہ ہیں۔ سالم، اسلام سے پہلے پیدا ہوئے اور پہلے ہی مرے، محمد، ابوسلمہ فقیہہ، ابراہیم، اسمعیل، حمید، زید، عمر، عدی، عروہ، اکبر، سالم اصغر، ابوبکر، عبد اللہ، عبد الرحمن، مصعب، سہیل (ابوالابیض)عثمان، عروہ، یحییٰ، بلال صاحبزادیوں کے نام یہ ہیں: ام القم، یہ زمانہ جا ہلیت ہی میں پیدا ہوئی تھی، حمیدہ امۃ الرحمن، صغریٰ، ام یحییٰ، جویریہ، امیہ، مریم [95][96][97][98]

حدیث میں ذکر

[ترمیم]

ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبد الرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبد الرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبد الرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔[99]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. عنوان : Абд ар-Рахман ибн Ауф
  2. Hadith – Chapters on Virtues – Jami` at-Tirmidhi – Sunnah.com – Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى اللہ عليہ و سلم)
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 01 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2014 
  4. شمس الدين الذهبي: سير أعلام النبلاء، الصحابة رضوان الله عليهم، عبد الرحمن بن عوف، الجزء الأول، صـ 68: 75، مكتبة إسلام ويب، اطلع عليه في 5 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2017-11-07 بذریعہ وے بیک مشین
  5. (مشکوٰۃ، ج2، ص567)
  6. (عشرہ مبشرہ،ص229تا235و اکمال، ص603 و کنزالعمال ،ج15،ص204)
  7. فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب، لمحمد نصر الدين محمد عويضة، سيرة عبد الرحمن بن عوف، صـ 565، المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-02-24 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  8. صحيح مسلم، كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب تَقْدِيمِ الْجَمَاعَةِ مَنْ يُصَلِّي بِهِمْ، رقم الحديث: 645 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین
  9. ابن الأثير الجزري (1994)۔ أسد الغابة في معرفة الصحابة۔ 2 (الأولى ایڈیشن)۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 307–310۔ 20 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 ستمبر 2021 
  10. ابن حجر العسقلاني: الإصابة في تمييز الصحابة، ترجمة عاتكة بنت عوف، موقع نداء الإيمان آرکائیو شدہ 2020-01-09 بذریعہ وے بیک مشین
  11. (مستدرک حاکم:4/276)
  12. ابن عبد البر: الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، جـ 2، صـ 844، المكتبة الشاملة، اطلع عليه في 6 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  13. مجلة البحوث الإسلامية، العدد العاشر،الإصدار : من رجب إلى شوال لسنة 1404 هـ، عبد الرحمن بن عوف الزهري، نسبه وأيامه الأولى، اطلع عليه في 6 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2020-08-13 بذریعہ وے بیک مشین
  14. الطبقات الكبرى لابن سعد، طَبَقَاتُ الْكُوفِيِّينَ، تَسْمِيَةُ النِّسَاءِ الْمُسْلِمَاتِ الْمُبَايِعَاتِ، الشفاء بنت عوف بن عبد بن الحارث آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  15. المعارف لابن قتيبة الدينَوَريّ أبى محمد عبد الله بن مسلم، فصل: أخبار عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه، جـ 1، صـ 235، المكتبة الشاملة، اطلع عليه في 6 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  16. (طبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث)
  17. المعارف لابن قتيبة الدينَوَريّ أبى محمد عبد الله بن مسلم، فصل: أخبار عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه، جـ 1، صـ 236، المكتبة الشاملة، اطلع عليه في 8 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  18. شمس الدين الذهبي: سير أعلام النبلاء، الصحابة رضوان الله عليهم، عبد الرحمن بن عوف، الجزء الأول، صـ 76: 80 آرکائیو شدہ 2016-09-17 بذریعہ وے بیک مشین
  19. فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب، لمحمد نصر الدين محمد عويضة، سيرة عبد الرحمن بن عوف، صـ 564، المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  20. دلائل النبوة للبيهقي، رقم الحديث: 498 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین
  21. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث)
  22. ابن حجر العسقلاني: الإصابة في تمييز الصحابة، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، جـ 5، صـ 98، ترجمة عسكلان بن عواكن الحميري آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  23. السيرة النبوية في ضوء المصادر الأصلية - دراسة تحليلية ص:198 آرکائیو شدہ 2020-01-10 بذریعہ وے بیک مشین
  24. صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب إخاء النبي صلى الله عليه وسلم بين المهاجرين والأنصار، حديث رقم 3569، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-18 بذریعہ وے بیک مشین
  25. (بخاری باب بنیان الکعبہ باب کیف اخی النبی ﷺ بین الصحابہ)
  26. صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب كيف آخى النبي صلى الله عليه وسلم بين أصحابه، حديث رقم 3722، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-18 بذریعہ وے بیک مشین
  27. (مسند : ا/193،وبخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل)
  28. (سیرت ابن ہشام :1/461)
  29. محمد بن سعد البغدادي: الطبقات الكبرى، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، طبعة دار الكتب العلمية، جـ 3، صـ 95، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  30. (طبقات ابن سعد حصہ مغازی :64)
  31. ابن الأثير الجزري (1994)۔ أسد الغابة في معرفة الصحابة۔ 2 (الأولى ایڈیشن)۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 368–369۔ 25 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 ستمبر 2021 
  32. ^ ا ب تاريخ دمشق لابن عساكر، أسماء النساء عَلَى حرف التاء، تماضر بنت الأصبغ، على مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  33. (سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 256)
  34. صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سب الصحابة رضي الله عنهم، حديث رقم 2541 آرکائیو شدہ 2016-09-18 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  35. (طبری :2137)
  36. صحيح البخاري، كتاب الطب، باب ما يذكر في الطاعون، حديث رقم 5398، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-10 بذریعہ وے بیک مشین
  37. الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الجزية، باب الجزية والموادعة مع أهل الحرب، حديث رقم 2987، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  38. سنن الترمذي، كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في أخذ الجزية من المجوس، حديث رقم 1586، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  39. محمد بن سعد البغدادي: الطبقات الكبرى، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، طبعة دار الكتب العلمية، جـ 3، صـ 99، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  40. (ابن سعد جزو3 قسم اول صفحہ 244)
  41. تاريخ الطبري، ثم دخلت سنة ثلاث وعشرين، رقم الحديث: 1359، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  42. تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي الله عنه - شخصيته وعصره، جـ1، صـ 64 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  43. البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي، باب قصة البيعة، والاتفاق على عثمان بن عفان وفيه مقتل عمر بن الخطاب رضي الله عنهما، حديث رقم 3700 آرکائیو شدہ 2018-01-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  44. (بخاری باب الاتفاق علی بیعہ عثمان ؓ، لیکن بعض تفصیلی باتیں تاریخ طبری سے ماخوذہیں)
  45. (طبری :2780)
  46. صحيح البخاري، كِتَاب الْأَحْكَامِ، بَاب كَيْفَ يُبَايِعُ الْإِمَامُ النَّاسَ، رقم الحديث: 6694 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین
  47. شمس الدين الذهبي: سير أعلام النبلاء، الصحابة رضوان الله عليهم، عبد الرحمن بن عوف، الجزء الأول، صـ 81: 92، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  48. فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب، لمحمد نصر الدين محمد عويضة، سيرة عبد الرحمن بن عوف، صـ 571، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  49. (استیعاب جلد 2 وطبقات ابن سعد تذکرہ عبد الرحمن بن عوف ؓ)
  50. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، جـ 1، صـ 258، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  51. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، جـ 1، صـ 252، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  52. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، جـ 1، صـ 253، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  53. وفاة عبد الرحمن بن عوف، موقع نداء الإيمان، اطلع عليه في 10 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ al-eman.com (Error: unknown archive URL)
  54. (کتاب الخراج :74، ومسند:194)
  55. (بخاری باب طاعون)
  56. ابن عبد البر: الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، جـ 2، صـ 847، المكتبة الشاملة، اطلع عليه في 11 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  57. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، جـ 1، صـ 256، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  58. فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب، لمحمد نصر الدين محمد عويضة، سيرة عبد الرحمن بن عوف، صـ 570، المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-02-24 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  59. (تاریخ طبری :2780)
  60. العربية: عبد الرحمن بن عوف. أنشأ سوقاً لإنهاء احتكار اليهود للتجارة، في الحلقة 25 من رجال حول الرسول على "العربية"، تاريخ الوصول 10 سبتمبر 2016. آرکائیو شدہ 2018-02-25 بذریعہ وے بیک مشین
  61. صحيح البخاري، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب غَزْوَةِ أُحُدٍ، رقم الحديث: 3764 آرکائیو شدہ 2019-03-10 بذریعہ وے بیک مشین
  62. الشمائل المحمدية للترمذي، بَابُ : مَا جَاءَ فِي عَيْشِ النَّبِيِّ، رقم الحديث: 366 آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  63. محمد بن سعد البغدادي: الطبقات الكبرى، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، طبعة دار الكتب العلمية، جـ 3، صـ 98، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  64. (بخاری باب غزوۂ احد)
  65. فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب، لمحمد نصر الدين محمد عويضة، سيرة عبد الرحمن بن عوف، صـ 569، المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-02-24 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  66. (مسند :1/191)
  67. (اصابہ:4/ 177)
  68. فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب، لمحمد نصر الدين محمد عويضة، سيرة عبد الرحمن بن عوف، صـ 568، المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-02-24 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  69. (مسند ابن حنبل:1/192)
  70. (اصابہ:4/177)
  71. ابن عبد البر: الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، جـ 2، صـ 846، المكتبة الشاملة، اطلع عليه في 6 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  72. (اسد الغابہ:3/316)
  73. (اسد الغابہ: 316)
  74. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث تذکرہ عبد الرحمن ؓ)
  75. (استیعاب :2/404)
  76. (اسد الغابہ:3 صفحہ)
  77. (ترمذی :621)
  78. السنن الكبرى للنسائي، كِتَابُ الصِّيَامِ، ثَوَابُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ وَصَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابا، رقم الحديث: 2500 آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  79. أنوار الفجر في فضائل أهل بدر، المؤلف: سيد حسين العفاني، الناشر: ماجد العسيري، سنة النشر: 1426، جـ1، صـ 565 آرکائیو شدہ 2016-08-28 بذریعہ وے بیک مشین
  80. (اصابہ:4/177)
  81. (اصابہ:3/317)
  82. المستدرك على الصحيحين، كتاب معرفة الصحابة رضي الله تعالى عنهم، دعا عائشة لابن عوف على صلته، حديث رقم 5408، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  83. (استیعاب:2/403)
  84. (اسد الغابہ:3/317)
  85. المستدرك على الصحيحين، كتاب معرفة الصحابة رضي الله تعالى عنهم، دعا عائشة لابن عوف على صلته، حديث رقم 5407، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  86. محمد بن سعد البغدادي: الطبقات الكبرى، ترجمة عبد الرحمن بن عوف، طبعة دار الكتب العلمية، جـ 3، صـ 94، موقع المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  87. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث تذکرہ عبد الرحمن بن عوف ؓ)
  88. إعلام الموقعين عن رب العالمين لابن القيم الجوزية، فصل فقهاء المدينة المنورة، جـ 1، صـ 19، طبعة دار الكتب العلمية، سنة النشر: 1411هـ/1991م، الطبعة الأولى آرکائیو شدہ 2017-12-16 بذریعہ وے بیک مشین
  89. الطبقات الكبرى لابن سعد - ترجمة أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، طبعة دار الكتب العلمية، جـ 5، صـ 118 آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  90. شمس الدين الذهبي: سير أعلام النبلاء، الطبقة الثانية، حميد بن عبد الرحمن، طبعة مؤسسة الرسالة، سنة النشر: 1422هـ / 2001م آرکائیو شدہ 2016-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  91. تهذيب الكمال للمزي، حميد بن عبد الرحمن بن عوف القرشي الزهري، مكتبة إسلام ويب، اطلع عليه في 10 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  92. (طبقات قسم اول جزء ثالث تذکرہ عبد الرحمن بن عوف ؓ)
  93. (استیعاب :2/402)
  94. محمد بن سعد البغدادي: الطبقات الكبير، ترجمة أم كلثوم بنت عتبة بن ربيعة بن عبد شمس، موقع نداء الإيمان، اطلع عليه في 10 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  95. المعجم الكبير للطبراني، بَابُ السِّينِ، سَهْلَةُ بِنْتُ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيَّةُ، رقم الحديث: 20240، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  96. شمس الدين الذهبي: سير أعلام النبلاء، الطبقة الثانية، إبراهيم بن عبد الرحمن، طبعة مؤسسة الرسالة، سنة النشر: 1422هـ / 2001م آرکائیو شدہ 2016-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  97. جمهرة أنساب العرب، ابن حزم، موقع المكتبة الشاملة، اطلع عليه في 10 سبتمبر 2016 آرکائیو شدہ 2016-06-22 بذریعہ وے بیک مشین
  98. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713