نعیم بن مسعود
نعیم بن مسعود | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 1 ہزاریہ |
تاریخ وفات | 7ویں صدی |
نسل | غطفان |
مذہب | الاسلام |
درستی - ترمیم ![]() |
نعیم بن مسعود صحابی رسول تھے۔اور غزوہ احزاب میں نمایاں کردار ادا کیا۔
نام ونسب[ترمیم]
نعیم نام،ابوسلمہ کنیت،نسب نامہ یہ ہے،نعیم بن مسعود بن عامربن انیف بن ثعلبہ ابن قنفذ بن حلاوہ بن سبیع بن بکر بن اشجع بن ریث بن عطفان غطفانی اسجعی۔
قبل اسلام[ترمیم]
غزوہ احزاب 5ھ میں اپنے قبیلہ کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کو نکلے تونعیم اس وقت آبائی مذہب پر تھے؛لیکن آنحضرتﷺ سے قدیم شناسائی کی بنا پر ان کا دل اسلام سے متاثر تھا،غزوۂ احزاب میں یہ اثر پورے طورپر نمایاں ہو گیا۔ چنانچہ ایک دن کسی کو اطلاع دیے بغیر مغرب وعشا کے درمیان آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،اس وقت آپ نماز میں مشغول تھے،اس سے فارغ ہونے کے بعد ان کو دیکھا،پوچھا کیسے آئے ہو، عرض کیا حلقہ بگوش ہونے آیا ہوں،جو خدمت میرے قابل ہو اس کے لیے حاضر ہوں،فرمایا اگر ان قبائل(احزاب کا اجتماع) کو کسی طرح ہٹاسکتے ہو تو ہٹانے کی کوشش کرو، گو عرب کے ٹڈی دل قبائل کا منتشر کرنا آسان نہ تھا،اس لیے نعیم نے ان میں پھوٹ ڈلوادی،پہلے بنوقریظہ کے پاس گئے اورکہا قریش اورغطفان کا کوئی اعتبار نہیں،اگر موقع ملا تو وہ مسلمانوں سے لڑیں گے ورنہ واپس چلے جائیں گے،تم لوگوں کو ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ رہنا ہے،اس لیے تم درمیان میں پڑکر خواہ مخواہ کیوں جھگڑا خریدتے ہو، اگر تم کو قریش کا ساتھ ہی دینا ہے تو ان کے کچھ آدمی ضمانت کے طوپر اپنے یہاں رکھ لو کہ وہ کسی قسم کی بد عہدی نہ کرسکیں، ان لوگوں نے یہ مشورہ قبول کیا، اس کے بعد ابوسفیان کے پاس گئے اورکہا قریظہ مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی پر بہت نادم ہیں اوران سے از سر نو تعلقات خوشگوار بنانا چاہتے ہیں؛چنانچہ انہوں نے محمدﷺ کے پاس کہلا بھیجا ہے کہ ہم قریش اورغطفان کے ستر آدمی عنقریب تمہارے پاس بھیجیں گے، تم ان کی گردن اڑاکر اپنا بدلہ لینا اوران دونوں کے ہٹانے میں بھی ہم تمہارے معاون و مددگار رہیں گے،اس لیے میرا دوستانہ مشورہ ہے کہ تم ان کے دام فریب میں نہ آؤ اگر وہ ضمانت وغیرہ میں کچھ آدمی مانگیں تو ہر گز نہ دو، اس کے بعد اپنے قبیلہ غطفان کو بھی یہی مشوردیا، یہ خود اس قبیلہ کے آدمی تھے،اس لیے سب نے متفقہ ان کی تائید کی۔ اس کے بعد بنو قریظہ نے ابوسفیان کے پاس آدمی بھیجا کہ ہم کو خطرہ ہے کہ تم لوگ ہم کو چھوڑ کر محمد کا ساتھ دوگے، اس لیے ہم اس وقت محمدﷺ سے لڑنے میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے جب تک ہمارے اطمینان کے لیے ستر آدمی ضمانت کے طورپر ہمارے یہاں نہ بھیج دو ابوسفیان نے کہا نعیم کا کہنا سچ تھا، اس کے بعد غطفان کے پاس بھی یہی پیام بھیجا؛لیکن سب نے آدمی دینے سے انکار کر دیا اورکہا ہم آدمی تو نہیں دے سکتے اگر تم کو یقین نہیں ہے تو ہم سے الگ ہو کر تم خود مسلمانوں سے مقابلہ کرو،یہودیوں نے کہا توراۃ کی قسم نعیم کا کہنا بالکل سچ تھا، غرض اس کے بعد کسی کو ایک دوسرے پراعتبار نہیں رہا اورآپس میں پھوٹ پڑ گئی۔ اتفاق سے اسی دوران میں ہوا کا ایسا طوفان آیا کہ خیموں کی طنا بیں اکھڑ کرگرگئیں اورچولھوں پر سے ہانڈیاں الٹ گئیں ،غرض کچھ نااتفاقی اورکچھ موسم کی خرابی کی وجہ سے سب نے اپنی اپنی راہ لی اورنعیم کی کارکردگی سے کفار کے بادل ہوا بن کر اڑ گئے۔[1]
ہجرت[ترمیم]
غزوۂ احزاب کے بعد ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔
غزوات[ترمیم]
غزوۂ احزاب کے بعد دوسرے غزوات میں بھی شریک ہوتے رہے غزوۂ تبوک میں اپنے قبیلہ کو ابھار کر لائے،پھر فتح مکہ کے لیے بنو اشجع کو آمادہ کرنے کے لیے گئے۔
وفات[ترمیم]
وفات کے بارہ میں دو روایتیں ہیں،ایک یہ کہ جنگ جمل میں کام آئے، دوسری یہ کہ اسی عہد میں وفات پائی۔ [2]
فضل وکمال[ترمیم]
کے اعتبار سے کوئی قابل ذکر مرتبہ نہ تھا،تاہم ان کے صاحبزادے سلمہ نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ [3]