ارقم بن ابی ارقم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ارقم بن ابی الارقم سے رجوع مکرر)
ارقم بن ابی ارقم
(عربی میں: الأرقم بن أبي الأرقم ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 590ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 673ء (82–83 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فوجی افسر،  کاتب  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ فوجی  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر،  غزوہ احد  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ(30ق.ھ / 55ھ) وہ صحابی جن کا گھر اسلام کا پہلا مدرسہ اور مرکز دار ارقم کے نام سے بنا۔ ارقم کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ آپ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر ایمان لائے، نعمت ہدایت پانے والوں میں ارقم کا ساتواں نمبر تھا۔ بیت اللہ سے صفا ومروہ والی طرف فرسٹ فلور باب نمبر 17 سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے باہر نکلیں تو سیڑھیوں کے ساتھ گیٹ نمبر 16 ہے جس پر آج بھی باب دار ارقم لکھا ہے۔جب سرداران قریش توحید کی دعوت کو کچلنے کے در پے ہوئے تو خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گنتی کے چند اولین نفوس کی معیت میں اسلام کی اشاعت وترویج کا فریضہ دار ارقم میں ادا کیا۔ یہ گھر سیدنا حضرت ارقم بن ابو ارقم رضی اللہ عنہ کا تھا اسی وجہ سے دار ارقم کہلاتا ہے اور آپ اسلام کے السابقو ن الاولون میں شامل تھے اس لیے آپ نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنا گھر پیش کیا جس کو قبول کر لیا گیا۔ حضرت سیدنا ارقم رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے مشہور خاندان بنی مخزوم سے تھا۔ آپ کی کنیت ’ابو عبد اللہ‘ اور والد’عبد مناف بن اسعد مخزومی‘ تھے جبکہ والدہ کا نام’ امیمہ بنت حارث تھا جو قبیلہ خزاعہ سے تھیں۔آپ نیک اور سلیم الطبع تھے چونکہ آپ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اس لیے آپ کو کاتب وحی کا رتبہ ملا۔ آپ کے ایمان لانے کی مختلف روایات ہیں مگر یہ بات ثقہ ہے کہ آپ السابقون الاوّلون میں سے ہیں۔ انھیں اسلام کے ابتدائی زمانے میں قبولِ اسلام کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق آپ حضرت سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی معرفت مسلمان ہوئے ۔ جبکہ ابن کثیر کی روایت کے مطابق آپ نے جناب حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام قبول کیا۔ ابن سعد نے انھیں ساتواں مسلمان قرار دیاہے جبکہ ابن حجر کے مطابق آپ دس افراد کے بعد اسلام لائے۔اسی طرح ابن اثیر نے انھیں بارھواں مسلمان بتایاہے۔بعض سیرت نگاروں کے مطابق آپ نے سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ حضرت سیدنا ارقم رضی اللہ عنہ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ہجرت مدینہ بھی کی جہاں پر خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا بھائی چارہ انصاری صحابی جناب ابو طلحہ زید بن سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کروایا۔ آپ نے سوائے بد رواحد کے تمام غزوات میں شرکت کی۔ عہد خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں آپ کی سرگرمیوں پر سیرت نگار خاموش ہیں۔ روایات کے مطابق حضرت سیدنا ارقم رضی اللہ عنہ نے تقریباً 85 سال کی طویل عمر پائی اور آپ کا وصال 53ھ یا 55ھ میں ہوا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی نماز جنازہ حضرت سیدنا سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ کی کثیر اولاد میں عبید اللہ اور عثمان مشہور ہوئے ۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں ایک روز مسلمان ایک گھاٹی میں چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انھیں دیکھ لیا اور نوبت لڑائی تک پہنچ گئی۔اس پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کوایک ہڈی کھینچ کر دے ماری، جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ یہ پہلا خون تھا جو اسلام کے لیے بہایا گیا۔ اس واقعہ کے بعد خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی محفوظ جگہ کی ضرورت محسوس کی کہ جہاں مسلمان اکٹھے ہوکر نماز ادا کر سکیں اور دین کی بنیادی تعلیم حاصل کرسکیں۔ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ چونکہ اس وقت ایمان لاچکے تھے اور آپ کا گھر صفا پہاڑیوں پر تھا جو قدرے محفوظ بھی تھا۔ لہٰذا آپ نے اس عظیم مقصد کے لیے اپنا مکان پیش کر دیا جسے خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمالیا اور یوں حضرت سیدنا ارقم رضی اللہ عنہ کا دین اسلام کو وقف کردہ گھر اسلام کی دعوت وتبلیغ کا اولین مرکز، دارالسلام اور دارالشوریٰ قرار پایا۔ حضرت سیدنا ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر کو اسلام کی اولین درس گاہ اور عبادت گاہ قرار دینے میں کئی حکمتیں موجود تھیں۔سب سے پہلی حکمت تو یہ تھی کہ قریشی خاندان سے نہ ہونے کی وجہ سے مشرکین کا آپ کے گھر کی طرف دھیان نہیں جا سکتا تھا۔ آپ کا تعلق بنو مخزوم سے تھا جبکہ بنو ہاشم اور بنومخزوم کے درمیان عداوت عروج پر تھی ایسے میں کسی کا اس طرف دھیان نہیں جا سکتا تھا کہ ہاشمی نبی علیہ الصلواۃ والسلام پر ایمان لانے والوں کی تربیت بنی مخزوم کے کسی گھر میں ہورہی ہے۔مزید یہ کہ آپ کا یہ گھر حرم شریف سے کافی فاصلے پر صفا کی پہاڑی پر تھا جو اونچائی پر تھا جہاں سے نیچے لوگوں پر نظر رکھنا آسان تھا۔ خاتم النبیین رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دار ارقم میں تشریف فرما ہو کر اسلام کے ان اولین اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو علم و حکمت سے مزین فرمایا، ان کے اخلاق وکردار کو سنوارا اور تزکیہ نفس فرمایا۔ بعض روایات کے مطابق کم وبیش 50 نفوس قدسیہ اسی جگہ حاضر ہوکر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے جن میں حضرت عمار بن یاسر،حضرت مصعب بن عمیر ، حضرت عاقل و عامر و حضرت ایاس و حضرت خالد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔اسی مقام پر سید الشہداء جناب حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف بالایمان ہوئے۔حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی معیت میں محتاط ہو کر غفار قبیلے سے آنے والے جناب حضرت سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ بھی اسی جگہ حاضر ہو کر اسلام کی دولت سے فیضیاب ہوئے اور جاکر اپنا پورا قبیلہ دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ اسی جگہ پر خاتم النبیین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں عمر میں سے ایک کے قبول اسلام کی دعا فرمائی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور یوں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حاضر ہوکر دست حق پر ایمان کی دولت پا کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان فرمایا تو دار ارقم اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا۔پھر اسی جگہ سے یہ نفوس قدسیہ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر علی الاعلان عبادت الہٰی کرنے لگے ۔ سیرت نگاروں کے مختلف بیانات کی روشنی میں دار ارقم میں خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی مدت ایک سے تین سال کا عرصہ تھا۔ قریش اسلام کے خلاف دارلندوۃ میں بیٹھ کر سازشیں تیار کرتے جبکہ مسلمان دار ارقم میں تعلیم و تربیت، تزکیہ اور اور طہارت حاصل کرتے اور تبلیغ اسلام کے منصوبے ، کار کردگی کا جائزہ اور مستقبل کے لاِئحہ عمل ترتیب دیتے تھے ۔[2]

نام و نسب[ترمیم]

ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ 30 قبل ہجری 590ء میں پیدا ہوئے۔ارقم نام، ابو عبد اللہ کنیت، والد کا نام عبدمناف ،ابو ارقم کنیت اور والدہ کا نام امیمہ تھا، شجرہ نسب یہ ہے: ارقم بن ابی ارقم بن اسد بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان ایامِ جاہلیت میں مخصوص عزت و اقتدار کا مالک تھا، ان کے دادا ابو جندب اسد بن عبد اللہ اپنے زمانہ میں مکہ کے ایک نہایت سربر آوردہ رئیس تھے۔ [3]

اسلام[ترمیم]

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ گیارہ یا بارہ، اصحاب کے بعد ایمان لائے،اس وقت آنحضرت اور تمام کلمہ گویوں کی زندگی نہایت خطرہ میں تھی، مشرکین قریش چاہتے تھے کہ اس تحریک کو بااثر ہونے سے پہلے معدوم کر دیں،لیکن اسلام فنا ہونے کے لیے نہیں آیا تھا، حضرت ارقمؓ بن ابی ارقم نے مہبط وحی والہام اور تمام مسلمانوں کو اپنے مکان میں چھپایا، حضرت عمر فاروق ؓ اسی گھر میں اسلام لے آئے ،ان کے اسلام لانے کے وقت کم وبیش چالیس آدمی شرفِ اسلام سے مشرف ہو چکے تھے،آپ کے اسلام لانے سے مسلمانوں میں قوت پیدا ہو گئی،اس وقت اس خطیرۂ قدس کو چھوڑا۔ [4] [5]

ہجرت[ترمیم]

بعثت کے تیرہویں سال ہجرت مدینہ کا حکم ہوا، تو حضرت ارقم ؓ بھی دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ پہنچے، یہاں حضرت ابو طلحہؓ زید بن سہل سے مواخات ہوئی اور آنحضرت نے مستقل سکونت کے لیے بنی زریق کے محلہ میں ایک قطعہ زمین عطا فرمایا۔ [6] [7]

غزوات میں شرکت[ترمیم]

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوۂ بدر میں شرکت کی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے انھیں ایک تلوار عنایت فرمائی۔ ارقم غزوہ احد، غزوہ خندق اور باقی تمام غزوات میں آپ کے شانہ بشانہ شریک رہے۔ آپ نے صدقات جمع کرنے کے لیے انھیں عامل بھی مقرر کیا۔ [8] [9]

عہدہ[ترمیم]

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانۂ رسالت میں تحصیل زکوٰۃ کی خدمت پر مامور تھے۔ [10]

وفات[ترمیم]

عہد امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں 55ھ (675ء) یا 53ھ (673ء) میں وفات پائی۔83 یا 85 برس کی عمر پاکر 53ھ یا 55ھ میں رحلت گزین عالم جاوداں ہوئے ،انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ جنازہ کی نماز پڑھائیں، لیکن وہ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر مقام عقیق میں تھے، ان کے آنے میں دیر ہوئی تو مروان بن حکم والی مدینہ نے کہا کہ ایک شخص کے انتظار میں جنازہ کب تک پڑا رہے گا؟ اورچاہا کہ خود آگے بڑھ کر امامت کرے، لیکن عبید اللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت نہ دی اور قبیلہ بنی مخزوم ان کی حمایت پر تیار ہو گیا ، غرض بات بڑھ چلی تھی کہ اسی اثناء میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ تشریف لے آئے اور انھوں نے نماز پڑھا کر بقیع کے گورستان میں دفن کیا۔ [11][12][13][14] انا للہ وانا الیہ راجعون

اخلاق[ترمیم]

تقویٰ، تدین، زہدو راستبازی حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ کے نمایاں اوصاف تھے،عبادت وشب زندہ داری سے بے حد شوق تھا، ایک دفعہ انھوں نے بیت المقدس کا قصد کیا اوررختِ سفر درست کرکے رسول اللہ سے رخصت ہونے آئے، آپ نے پوچھا کہ تجارت کے خیال سے جاتے ہویا کوئی خاص ضرورت ہے؟ بولے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ کوئی ضرورت نہیں ہے، صرف بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتاہوں، ارشاد ہوا کہ میری اس مسجد کی ایک نماز مسجد حرام کے سوا تمام مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے، حضرت ارقم بن ابی ارقم ؓ یہ سنتے ہی بیٹھ گئے اور ارادہ فسخ ہو گیا۔ [15] [16] ،[9]

ذریعۂ معاش[ترمیم]

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مختلف جاگیروں کے علاوہ اصلی ذریعہ ٔمعاش تجارت تھی۔

مکہ کا تاریخی مکان[ترمیم]

ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ وطن ہو گیا تھا ، اس لیے انھوں نے مکہ کے مکان کو جو اپنی تاریخی عظمت کے لحاظ سے مرجع زائرین تھا ، وقف الاولاد کر دیا، تاکہ بیع و وراثت کے جھگڑوں سے محفوظ رہے۔ [17] یہ مکان کوہِ صفا کے نیچے ایسے موقع پر تھا کہ جو لوگ حج میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے تھے وہ ٹھیک اس کے دروازے پر سے ہوکر گذرتے تھے ، 140ھ میں خلیفہ منصور عباسی کے عہد تک وہ بجنسہ اپنی حالت پر موجود تھا، لیکن اسی سال محمد بن عبد اللہ بن حسن نے مدینہ منورہ میں خروج کیا ؛ چونکہ حضرت ارقم ؓ کے پوتے عبداللہ بن عثمان ان کے معاونین میں تھے، اس لیے منصور نے والی مدینہ کو لکھ کر ان کو گرفتار کرایا اور اپنے ایک خاص معتمد شہاب بن عبدرب کو بھیج کر اس مکان کو فروخت کرنے کی ترغیب دی، عبد اللہ بن عثمان نے پہلے انکار کیا، لیکن پھر قید سے مخلصی پانے کی بشارت اورگراں قدر معاوضہ کے طمع نے بیچنے پر راضی کر دیا، غرض منصور نے سترہ ہزار دینار پر ان کا حصہ خرید لیا، رفتہ رفتہ دوسرے شرکاء بھی راضی ہو گئے،لیکن ان کا زرِ معاوضہ اس کے علاوہ ہے۔ ابو جعفر منصور کے بعد خلیفہ مہدی نے اپنی جاریہ خیز ران کو دے دیا، جس نے منہدم کرکے نئے سرے سے ایک محل تعمیر کرایا ، پھر گردشِ ایام نے اس میں گونا گون تغیرات پیدا کیے اور اس طرح آغاز اسلام کی وہ پر عظمت یاد گار جو عرصہ تک مطلع انوار الہی و مہبط ملائکہ آسمانی رہی تھی، صفحہ ہستی سے معدوم ہو گئی۔ [18] [19]

کاتب وحی[ترمیم]

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، ان کا شمار ان چند صحابہ میں ہوتا ہے جنھوں نے کتابت وحی کی۔ ان کی نمایاں تحریر وہ خط ہے جو انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر قبیلۂ بنو محارب کے عُظیم بن حارث کو لکھا۔ ابن عساکر نے اس کا متن نقل کیا ہے، ابن حزم نے ارقم کو اصحاب ثلاثہ (وہ اصحاب رسول جن سے تین مرفوع احادیث روایت ہوئی ہوں) میں شمار کیا ہے۔ ان کے بیٹے عثمان اور پوتے عبد ﷲ بن عثمان نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔

ارقم بن ابو ارقم نے بیت المقدس جانے کا ارادہ کیا اور سفر کی تیاری مکمل کرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رخصت چاہنے کے لیے آئے۔ آپ نے دریافت فرمایا، سفر پر کیوں جا رہے ہو؟ کوئی ضرورت یا تجارت اس کا باعث بنی ہے؟ انھوں نے جواب دیا یا نبی ﷲ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے باپ آپ پر فدا ہوں، میری نیت ہے کہ بیت المقدس میں نماز پڑھوں۔ آپ نے فرمایا،’’میری اس مسجد (نبوی) میں ادا کی گئی نماز مسجد حرام کے سوا باقی تمام مسجدوں کی نماز سے ایک ہزار گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ ‘‘ارقم نے یہ ارشاد سنا تو بیٹھ رہے اور سفر کا ارادہ ترک کر دیا۔ [16]

نگران بیت المال[ترمیم]

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارقم کے ماموں نافع بن عبد الحارث کو مکہ کا گورنر مقرر کیا۔ ارقم عہد عثمانی میں بیت المال کے نگران بھی رہے۔ زمانۂ رسالت میں تحصیل زکوٰۃ کی خدمت پر مامور تھے۔ [19]

اولاد[ترمیم]

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو لڑکے عبیداللہ،عثمان اورتین لڑکیاں امیہ، مریم اور صفیہ یادگار چھوڑیں۔ [20]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ عنوان : Аркам ибн Абу аль-Аркам
  2. (مآخذومصادر: طبقات ابن سعد، الاصابہ حافظ ابن حجر،الکامل فی التاریخ ابن اثیر، سیرت ابن ہشام، ضیاء النبی)
  3. موسوعة شبكة المعرفة الريفية آرکائیو شدہ 2020-01-26 بذریعہ وے بیک مشین
  4. (اسد الغابہ جلد 1:60، واصابہ تذکرہ ارقم)
  5. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» الأر قم بن أبي الأرقم آرکائیو شدہ 2017-01-16 بذریعہ وے بیک مشین
  6. (طبقات ابن سعد قسم اول جز 3: 174)
  7. أسد الغابة في معرفة الصحابة - الأرقم بن أبي الأرقم آرکائیو شدہ 2017-01-16 بذریعہ وے بیک مشین
  8. (اسد الغابہ :1/60)
  9. ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - أَرْقَمُ بْنُ أَبِي الأَرْقَمِ (1) آرکائیو شدہ 2017-01-16 بذریعہ وے بیک مشین
  10. (اسد الغابہ:1/60)
  11. (طبقات ابن سعد قسم اول جز 3 :174)
  12. الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ابن عبد البر
  13. اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ابن اثیر
  14. الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن حجر
  15. (مستدرک حاکم:3/504)
  16. ^ ا ب الإصابة في تمييز الصحابة - الأرقم بن أبي الأرقم آرکائیو شدہ 2017-01-16 بذریعہ وے بیک مشین
  17. (مستدرک حاکم :3/504)
  18. (طبقات ابن سعد قسم اول جز 2:173 وتاریخ یعقوبی)
  19. ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - أَرْقَمُ بْنُ أَبِي الأَرْقَمِ (2) آرکائیو شدہ 2017-01-16 بذریعہ وے بیک مشین
  20. (طبقات ابن سعد قسم اول جز 2:173 وتاریخ یعقوبی)