حسن بن علی عسکری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


حسن بن علی عسکری
(عربی میں: أبو محمد الحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ الزكي العسكري‎‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 3 دسمبر 845ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 جنوری 874ء (29 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سامراء  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات زہر  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن العسکری مسجد  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل المعتمد علی اللہ  ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ نرجس خاتون  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد بن حسن مہدی  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علی نقی  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
بارہ امام (11 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
868  – 874 
علی نقی 
محمد بن حسن مہدی 
عملی زندگی
استاد علی نقی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد محمد بن حسن مہدی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ امام،  الٰہیات دان،  انٹر پریٹر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تفسیر قرآن  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حسن عسکری (پیدائش: 3 دسمبر 846ء— وفات: یکم جنوری 874ء) علی نقی کے فرزند اور اہلِ تشیع کے گیارہویں امام ہیں۔

ابو محمد کنیت حسن نام اور سامرہ کے محلہ عسکر میں قیام کی وجہ سے عسکری علیہ السّلام مشہور لقب ہے والد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلام اور والدہ سلیل خاتون تھیں جو عبادت , ریاضت عفت اور سخاوت کے صفات میں پانے طبقے کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی تھیں .اہل سنت مسلمانوں کا طبقہ بھی ان کی بڑی عزت کرتا ہے۔

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت بروز جمعہ 10 ربیع الثانی 232ھ مطابق 3 دسمبر 846ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔[1][2][3][4][5]

نشو و نما اور تربیت[ترمیم]

بچپن کے گیارہ سال تقریباً اپنے والد بزرگوار کے ساتھ وطن میں رہے جس کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ زمانہ اطمینان سے گذرا۔ اس کے بعد امام علی نقی علیہ السّلام کو سفر عراق درپیش ہو گیا اور تمام متعلقین کے ساتھ ساتھ امام حسن عسکری علیہ السّلام اسی کم سنی کے عالم میں سفر کی زحمتوں کو اٹھا کر سامرا پہنچے۔ یہاں کبھی قید کبھی آزادی , مختلف دور سے گذرنا پڑا مگر ہر حال میں آپ اپنے بزرگ مرتبہ باپ کے ساتھ ہی رہے۔ اس طرح باطنی اور ظاہری طور پر ہر حیثیت سے آپ علیہ السّلام کو اپنے والد بزرگوار کی تربیت وتعلیم سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکا۔

زمانہ امامت[ترمیم]

254ھجری میں آپ کی عمر بائیس برس کی تھی جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلام کی وفات ہوئی حضرت علیہ السّلام نے اپنی وفات سے چار مہینہ قبل آپ کے متعلق اپنے وصی وجانشین ہونے کااظہار فر ما کر اپنے اصحاب کی گواہیاں لے لی تھیں۔ اب امامت کی ذمہ داریاں امام حسن عسکری علیہ السّلام کے متعلق جنھیں آپ باوجود شدیدمشکلات اور سخت ترین ماحول کے ادا فرماتے رہے۔

سلاطین وقت اور ان کا رویہ[ترمیم]

جیسا کہ ا س سے پہلے ضمناً بیان ہوا امام حسن عسکری علیہ السّلام کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ ان تمام تکالیف اور مصائب میں بھی شریک رہے جو آپ کے والد بزرگوار کو حراست اور نظر بندی کے ذیل میں بھی متعدد بار برداشت کرنا پڑے۔ ا س کے بعد جب آپ کا دور ُ امامت شروع ہوا ہے تو سلطنت بنی عباس کے تخت پر معتز بالله عباسی کا قیام تھا۔ معتز کی معزولی کے بعد مہدی کی سطنت ہوئی۔ گیارہ مہینے چند روز حکومت کرنے کے بعد اس کا خاتمہ ہوا اور معتمد کی حکومت قائم ہوئی , ان میں سے کوئی ایک بادشاہ بھی ایسا نہ تھا جس کے زمانہ میں امام حسن عسکری علیہ السّلام کو ارام وسکون ملتا , باوجود یہ کہ اس وقت بنی عباس بڑی سخت الجھنوں او رپیچیدگیوں میں گرفتار تھی مگر ان تمام سیاسی مسائل اور مشکلات کے ساتھ ہر حکومت نے امام حسن عسکری علیہ السّلام کو قید وبند میں رکھنا سب سے زیادہ ضروری سمجھا۔ اس کا خاص سبب رسول خدا کی یہ حدیث تھی کہ میرے بعد بارہ جانشین ہو ں گے اور ان میں سے اخری مہدی اخر الزمان اور قائمِ الِ محمد ہوگا۔ یہ حدیث برابر متواتر طریقہ سے عالم ُ اسلام میں گردش کرتی رہی تھی۔

خلفائے بنی عباس خوب جانتے تھے کہ سلسلہ الِ محمد کے وہ افراد جو رسول کی صحیح جانشینی کے مصداق ہو سکتے ہیں وہ یہی افراد ہیں جن میں سے گیارہویں ہستی امام حسن عسکری علیہ السّلام کی ہے اس لیے ان ہی کا فرزند وہ ہو سکتا ہے جس کے بارے میں رسول کی پشین گوئی صحیح قرارپاسکے۔ لٰہذا کوشش یہ تھی کہ ان کی زندگی کادنیا سے خاتمہ ہو جائے اس طرح کہ ان کا کوئی جانشین دنیا میں موجود نہ ہو۔ یہ سبب تھاکہ امام حسن عسکری علیہ السّلام کے لیے اس نظر بندی پر اکتفا نہیں کی گئی جو امام علی نقی علیہ السّلام کے لیے ضروری سمجھی گئی تھی بلکہ آپ کے لیے اپنے گھربار سے الگ قید تنہائی کو ضروری سمجھا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ قدرتی انتظام کے تحت درمیان میں انقلاب سلطنت کے وقفے آپ کی قید مسلسل کے بیچ میں قہری رہائی کے سامان پیدا کردیتے تھے مگر پھر بھی جو بادشاہ تخت سلطنت پر بیٹھتا تھا وہ اپنے پیش رو کے نظریہ کے مطابق آپ کو دوبارہ قید کرنے پر تیار ہوجاتا تھا۔ اس طرح آپ کی مختصر زندگی جو دور ُ امامت کے بعد اس کا بیشتر حصہ قید وبند ہی میں گذرا۔ اس قید کی سختی معتمد کے زمانے میں بہت بڑھ گئی تھی , اگر چہ وہ قتل دیگر سلاطین کے آپ کے مرتبہ اور حقانیت سے خوب واقف تھا چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک مسیحی راہب کے دعوے کے ساتھ پانی برسانے کی وجہ سے مسلمانوں میں ارتداد کا فتنہ برپا ہوا اور لوگ عیسائت کی طرف دوڑنے لگے تو مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے وہ امام حسن عسکری علیہ السّلام ہی تھے جو قید خانے سے باہر لائے گئے ،آپ نے مسلمانوں کے شکوک کو دور کرکے انھیں اسلام کے جادہ پر قائم رکھا۔ اس واقعہ کااثر اتنا ہوا کہ اب معتمد کو آپ کے پھر اسی کو قید خانے میں واپس کرنے میں خجالت دامنگیر ہوئی۔ اس لیے آپ کی قید کو آپ کے گھر میں نظر بندی کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا مگر آزادی پھر بھی نصیب نہ ہو سکی۔

سفرائی کا تقرر[ترمیم]

ائمہ اہل بیت جس حال میں بھی ہوں ہمیشہ کسی نہ کسی صورت سے امامت کے فرائض کو انجام دیتے رہتے تھے۔ امام حسن عسکری علیہ السّلام پر اتنی شدید پابندیاں عائد تھیں کہ علوم ُ اہل بیت علیہ السّلام کے طلبگاروں اور شریعت ُ جعفری کے مسائل دریافت کرنے والوں کا آپ تک پہنچنا کسی صور ت ممکن نہیں تھا۔ اس لیے حضرت علیہ السّلام نے اپنے زمانہ میں یہ انتظام کیا کہ ایسے افراد جو امانت ودیانت نیزعلمی و فقہی بصیرت کے اس درجہ حامل تھے کہ امام علیہ السّلام کے محل اعتماد ہوسکیں انھیں اپنی جانب سے آپ نے نائب مقرر کر دیا تھا۔ یہ حضرات جہاں تک کہ خود اپنے واقفیت کے حدود میں دیکھتے تھے اس حد تک مسائل خود ہی بتادیتے تھے اور وہ اہم مسائل جوان کی دسترس سے باہر ہوتے تھے انھیں اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے او ر کسی مناسب موقع پر امام علیہ السّلام کی خدمت میں رسائی حاصل کرکے ان کو حل کرالیتے تھے کیونکہ ایک شخص کا کبھی کبھی امام علیہ السّلام سے ملاقات کو اجانا حکومت کے لیے اتنا ناقابل برداشت نہیں ہو سکتا تھا جتنا کہ عوام کی جماعتوں کو مختلف اوقات میں حضرت علیہ السّلام تک پہنچنا۔ ان ہی سفرائ کے ذریعے سے ایک اہم خدمت بھی انجام پائی جاتی تھی۔ وہ یہ کہ خمس جو حکومت ُ الٰہیہ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس نظام ُحکومت کو تسلیم کرنے والے ہمیشہ ائمہ معصومین علیہ السّلام کی خدمت میں پہنچاتے رہے او ران بزرگوں کی نگرانی میں وہ ہمیشہ دینی امور کے انصرام اور سادات کی تنظیم وپرورش میں صرف ہوتا رہا اب وہ راز دارانہ طریقہ پر ان ہی نائبوں کے پاس اتا تھا اور یہ امام علیہ السّلام سے ہدایت حاصل کرکے انھیں ضروری مصارف میں صرف کرتے تھے یہ افراد اس حیثیت میں بڑے سخت امتحان کی منزل میں تھے کہ ان کو ہ وقت سلطنت وقت کے جاسوں کی سراغرسانی کا ا ندیشہ رہتا تھا۔ اسی لیے عثمانرض بن سعید اور ان کے بیٹے ابو جعفر محمدرض بن عثمان نے جو امام حسن عسکری علیہ السّلام کے ممتاز نائب تھے ا ور عین دارلسلطنت بغداد میں مقیم تھے اپنے اس متعلقہ افراد کی امدورفت کو حق بجانب قرار دینے کے لیے ایک بڑی دکان روغنیات کی کھول رکھی تھی۔ اس طرح حکومت جو رکے شدید شکنجہ ظلم کے اندر بھی حکومتِ الٰہیہ کا ائینی نظام چل رہا تھا اور حکومت کا کچھ بس نہ چلتا تھا۔

اخلاق و اوصاف[ترمیم]

آپ اسی سلسلہ عصمت کی ایک لڑی تھے جس کا ہر حلقہ انسانی کمالات کے جواہر سے مرصع تھا , علم وحلم , عفو وکرم , سخاو ت وایثار سب ہی اوصاف بے مثال تھے۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ ا س زمانے میں بھی کہ جب آپ سخت قید میں تھے معتمد نے جس سے آپ کے متعلق دریافت کیا یہی معلوم ہوا کہ آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوائے ذکر الٰہی کے کسی سے کوئی کلام نہیں فرماتے , اگرچہ آپ کو اپنے گھر پر آزادی کے سانس لینے کا موقع بہت کم ملا۔ پھر بھی جتنے عرصہ تک قیام رہا اور دور دراز سے لوگ آپ کے فیض و عطا کے تذکرے سن کر اتے تھے اور بامراد واپس جاتے تھے۔ آپ کے اخلاق واوصاف کی عظمت کا عوام وخواص سب ہی کے دلوں پر سکہ قائم تھا۔ چنانچہ جب احمد بن عبد الله بن خاقان کے سامنے جو خلیفہ عباسی کی طرف سے شہر قم کے اوقات وصدقات کے شعبہ کا افسر اعلیٰ تھا سادات علوی کاتذکرہ اگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے کوئی حسن علیہ السّلام عسکری سے زیادہ مرتبہ اور علم دورع , زہدو عبادت ،وقار وہیبت , حیاوعفت , شرف وعزت اور قدرومنزلت میں ممتاز اور نمایاں نہں معلوم ہوا۔ اس وقت جب امام علیہ السّلام علی نقی علیہ السّلام کا انتقال ہوا اور لوگ تجہیز وتکفین میں مشغول تھے تو بعض گھر کے ملازمین نے اثاث اللبیت وغیرہ میں سے کچھ چیزیں غائب کر دیں اور انھیں خبر تک نہ تھی کہ امام علیہ السّلام کو اس کی اطلاع ہو جائے گی۔ جب تجہیز اور تکفین وغیرہ سے فراغت ہوئی تو آپ نے ان نوکروں کو بلایا اور فرمایا کہ جو کچھ پوچھتا ہوں اگر تم مجھ سے سچ سچ بیان کرو گے تو میں تمھیں معاف کردوں گا اور سزا نہ دوں گا لیکن اگر غلط بیانی سے کام لیا تو پھر میں تمھارے پاس سے سب چیزیں بر امد بھی کرالوں گا اور سزا بھی دوں گا۔ اس کے بعد آپ نے ہر ایک سے ان اشیا ئ کے متعلق جو اس کے پا س تھیں دریافت کیا اور جب انھوں نے سچ بیان کر دیا تو ان تمام چیزوں کو ان سے واپس لے کر آپ نے ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی اور معاف فرمادیا۔

علمی مرکزیت[ترمیم]

باوجود یہ کہ آپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علمائ کو سیراب ہونے کا موقع دیا نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ ان میں ایک اسحٰق کندی کاواقعہ یہ ہے کہ یہ شخص قران مجید کے ایات کے باہمی تناقص کے متعلق ایک کتاب لکھ رہاتھا۔ یہ خبر امام حسن عسکری علیہ السّلام کو پہنچی اور آپ موقع کے منتظر ہو گئے۔ اتفاق سے ایک روز ابو اسحٰق کے کچھ شاگرد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی اتنا سمجھدارادمی نہیں جو اپنے استاد کندی کو ا س فضول مشغلے سے روکے جو انھوں نے قران کے بارے میں شروع کر رکھا ہے , ان طلاّب نے کہا , حضور! ہم تو ان کے شاگرد ہیں , ہم بھلا ان پر کیا اعتراض کرسکتے ہیں؟ حضرت علیہ السّلام نے فرمایا! اتنا تو تم کرسکتے ہو جو کچھ باتیں میں تمھیں بتاؤں وہ تم ان کے سامنے پیش کردو , طلاب نے کہا!جی ہاں ہم اتنا کرسکتے ہیں۔ حضرت نے کچھ ایتیں قران کی جن کے متعلق باہمی اختلاف کا تو ہم ّ ہو رہا تھا پیش فرما کر ان سے کہا کہ تم اپنے استاد سے اتنا پوچھو کہ کیا ان الفاظ کے بس یہی معنی ہیں جن کے لحاظ سے وہ تنا قص ثابت کر رہے ہیں اور اگر کلام ُ عرب کے شواہد سے دوسرے متعارف معنٰی کل ائیں جن کے بنا پر الفاظ قران میں باہم کوئی اختلافات نہ رہے تو پھر انھیں کیا حق ہے کہ وہ اپنے ذہنی خود ساخة معنی کو متکلم قرآنی کی طرف منسوب کرکے تناقص واختلاف کی عمارت کھڑی کریں , اس ذیل میں آپ نے کچھ شواہد کلامِ عرب کے بھی ان طلاّب کے ذہن نشین کرائے۔ ذہین طلاّ ب نے وہ پوری بحث اور شواہد کے حوالے محفوظ کرلیے اور اپنے استاد کے پاس جا کر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد یہ سوالات پیش کر دیے۔ آدمی بہرحال وہ منصف مزاج تھا اس نے طلاّ ب کی زبانی وہ سب کچھ سنا اور کہا کہ یہ باتیں تمھاری قابلیت سے بالا تر ہیں۔ سچ سچ بتانا کہ یہ تمھیں معلوم کہاں سے ہوئیں پہلے تو ان طالب علموں نے چھپانا چاہا اور کہا کہ یہ چیزیں خو د ہمارے ذہن میں ائی ہیں مگر جب اس نے سختی کے ساتھ انکار کیا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں ابو محمد، حسن عسکری علیہ السّلام نے یہ باتیں بتائی ہیں یہ سن کر اس نے کہا کہ سوائے اس گھرانے کے اور کہیں سے یہ معلومات حاصل ہی نہیں ہو سکتے تھے۔ پھر اس نے اگ منگوائی اور جو کچھ لکھا تھا ،نذر اتش کر دیا ایسے کتنے ہی علمی اور دینی خدمات تھے جو خاموشی کے ساتھ انجام پا رہے تھے اور حکومت وقت جو محافظت اسلام کی دعویدار تھی۔ اپنے عیش وطرب کے نشے میں مدہوش تھی یا پھر چونکتی تھی بھی تو ایسے مخلص حامی اسلام کی طرف سے اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرکے ان پر کچھ پابندیاں بڑھادیے جانے کے احکام نافذ کرتی تھی , مگر اس کو هِ گراں کے صبرو استقال میں فرق نہ ایا تھا۔ جو امع حدیث میں محدثین اسلام نے آپ کی سند سے احادیث نقل کیے ہیں ان میں سے ایک خاص حدیث شراب خواری کے متعلق ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ شارب الخمر کعابد الصنم«» شراب پینے والا مثل بت پرست کے ہے۔ اس کو ابن الجوزی نے اپنی کتاب تحریم الخمر میں سند ُ متصل کے ساتھ درج کیا ہے اور ابو نعیم فضل بن وکیل نے کہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ثابت ہے جس کی اہلبیت علیہ السّلام طاہرین نے روایت کی ہے اور صحابہ میں سے ایک گروہ نے بھی اس کی رسول خدا سے روایت کی ہے جیسے ابن عباس , ابو ہریرہ , احسان بن ثابت , سلمی اور دوسرے حضرات۔ سمعانی نے کتاب النساب میں لکھا ہے کہ »ابو محمد احمد بن ابراہیم بن ہاشم علوی بلاذری حافظ واعظ نے مکہ معظمہ میں امام اہل بیت ابو محمد حسن بن علی بن محمد بن علی موسیٰ الرضا علیہ السّلام سے احادیث سن کر قلم بند کیے - ان کے علاوہ حضرت علیہ السّلام کے تلامذہ میں سے چند باوقار ہستیوں کے نام درج ذیل ہیں جن میں سے بعض نے حضرت علیہ السّلام کے علمی افادات کو جمع کرکے کچھ کتابیں بھی تصنیف کیں۔

  1. ابو ہاشم داؤد بن قاسم جعفری سن رسیدہ عالم تھے۔ انھوں نے امام رضا علیہ السّلام سے امام حسن عسکری علیہ السّلام تک چار اماموں کی زیارت کی اور ان بزرگواروں سے فیوض بھی حاصل کیے وہ امام کی طرف سے نیابت کے درجہ پر فائز تھا۔
  2. داؤد بن ابی زید نیشاپوری امام علی نقی علیہ السّلام کے بعد امام حسن عسکری علیہ السّلام کی صحبت سے شرف یاب ہوئے۔
  3. ابو طاہر محمد بن علی بن بلال۔
  4. ابو العباس عبد الله بن جعفر حمیری قمی بڑے بلند پائہ عالم بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔ جن سے قرب السناد کتاب اس وقت تک موجود ہے اور کافی وغیرہ کے ماخذوں میں سے ہے۔
  5. محمد بن احمد جعفر قمی حضرت علیہ السّلام کے خاص نائبین میں سے تھے۔
  6. جعفر بن سہیل صقیل۔ یہ بھی نائب خاص ہونے کا شرف رکھتے تھے۔
  7. محمد بن حسن صفارقمی , بڑے بلند مرتبہ کے عالم متعدد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے بصائر الدرجات مشہور کتاب ہے , انھوں نے امام حسن عسکری علیہ السّلام کی خدمت میں تحریر ی مسائل بھیج کر ان کے جوابات حاصل کیے۔
  8. ابو جعفر ہامنی برمکی نے امام حسن عسکری علیہ السّلام سے مسائل ُ فقہ کے جوابات حاصل کرکے کتاب مرتب کی۔
  9. ابراہیم بن ابی حفص ابو اسحٰق کاتب حضرت علیہ السّلام کے اصحاب میں سے ایک کتاب کے مصنف ہیں۔
  10. ابراہیم بن مہر یار مصنف کتاب البشارت۔
  11. احمد بن ابراہیم بن اسمعٰیل بن داؤد بن حمدان الکاتب الندیم علم لغتوادب کے مسلّم استاد تھے اور بہت سی کتابوں کے مصنف تھے , حضرت امام حسن عسکری علیہ السّلام سے خاص خصوصیت رکھتے تھے۔
  12. احمد بن اسحٰق الاشعری ابو علی القمی بڑے پایہ کے مستند ومسلّم عالم تھے،ان کی تصانیف میں سے علل الصوم اور دیگر متعدد کتابیں تھیں۔ یہ چند نام بطور مثال درج کیے گئے ہیں اگر تمام ان افراد کاتذکرہ کیا جائے تو اس کے لیے مستقل تصنیف کی ضرورت ہے , خصوصیت کے ساتھ تفسیر قران میں ابو علی حسن بن خالد بن محمد بن علی برقی نے آپ کے افادیت سے ایک ضخیم کتاب لکھی جسے حقیقت میں خود حضرت علیہ السّلام ہی کی تصنیف سمجھنا چاہیے یعنی حضرت علیہ السّلام بولتے جاتے تھے اور وہ لکھتے جاتے تھے , علمائ نے لکھا ہے کہ یہ کتاب ایک سوبیس اجزا پر مستمل تھی۔

افسوس ہے کہ یہ علمی ذخیرہ اس وقت ہاتھوں میں موجود نہیں ہے۔ ممکن ہے وہ اسی سے ماخوذ ہوں لیکن ایک کتاب جو تفسیر اما م حسن عسکری علیہ السّلام کے نام سے شائع شدہ موجود ہے اگر وہ مذکورہ بالاذخیرئہ علمی سے الگ ہے۔ اس کا پتہ صرف چوتھی صدی ہجری سے چلتا ہے اور شیخ صدوق محمد بن بابو یہ قمی رحمة الله نے اس کو معتبر سمجھا ہے مگر ان کے پیش رو افراد جن سے موصوف نے اس تفسیر کو نقل کیا ہے بالکل مجہول الحال ہیں۔ بہرحال اس تفسیر کے متعلق علامہ رجال مطمئن نہیں ہیں۔ جہاں تک غور کیا جاتا ہے اس کی نسبت امام حسن عسکری علیہ السّلام طرف صحیح نہیں معلوم ہوتی , ہاں بے شک آپ کا ایک طویل مکتوب اسحٰق بن اسمٰعیل اشعری کے نام اور کافی ذخیرہ مختصر حکیمانہ مقولات اور مواعظ وتعلیمات کتاب تحف العقول میں محفوظ ہے جو اس وقت بھی اہل نظر کے لیے سرمئہ چشم بصیرت ہے۔ یہ علمی کارنامے اس حالت میں ہیں جب کہ مجموعی عمر آپ کی 28 برس سے زیادہ نہ ہو سکی اور اپنے والد بزرگوار کے بعد صرف چھ برس امامت کے منصب پر فائز رہے اور وہ بھی ان مشکلات کے شکنجہ میں جن کاتذکرہ ہو چکا ہے۔

شہادت[ترمیم]

العسکری مسجد، سامراء, عراق,2006ء سے پہلے

علمی و دینی مشاغل میں مصروف انسان کو سلطنت وقت کے ساتھ کبھی بھی مزاحمت کا کوئی خیال پیدا نہیں ہو سکتا، تبلیغ دین اور اسلام و انسانیت کا فروغ ان کا مقصد زیست ہوتا ہے ان کا بڑھتا ہوا روحانی فیض اور علمی مرجعیت لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے حق و صداقت اور عدل و انصاف ان کا خوگر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی سلاطین وقت کو ان کی شخصیت ناقابل ُبرداشت ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی یہی چیز ان کی موت کا موجب بھی بنتی ہے حضرت حسن عسکری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت میں یہی چیز کار فرما تھی. معتمد باللہ عباسی خلیفہ کے بھجوائے ہوئے زہر سے 8 ربیع الاوّل 260ھ میں آپ نے شہادت پائی اور اپنے والد بزرگوار کی قبر کے پاس سامرا میں دفن ہوئے جہاں حضرت حسن عسکری کا روضۂ مبارک آج بھی زیارت گاہ خلائق بنا ہوا ہے۔ آپ کے بعد آپ کی زوجہ نے ام البنین کے فرزند کے ہاں پناہ حاصل کی جو نسل در نسل سادات کی خدمت و معیت و نصرت اور اعوانیت میں مشغول رہے

حوالہ جات[ترمیم]

  1. شواہد النبوۃ: صفحہ 210۔
  2. صواعق محرقہ: صفحہ 124۔
  3. نورالابصار: صفحہ 110۔
  4. جلاء العیون: صفحہ 295۔
  5. نجم الحسن کراروی: چودہ ستارے، صفحہ 531۔ مطبوعہ لاہور، 1393ھ/ 1973ء

مراجع[ترمیم]

  • ابن طلحہ، مطالب السؤول، نجف، 1371ق، ج2، ص78؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، نجف، 1383ق، ص362؛ البتہ بعض مآخذ میں یہ نام امام ھادی ؑ کی والدہ کا مذکور ہوا ہے(نوبختی، فرق الشیعہ، ص93) اور بعض نے یہ نام امام زمانہ کی والدہ کا ذکر کیا ہے (ابن ابی الثلج، «تاریخ الائمہ» مجموعہ نفیسہ، قم، 1396ق، ص26)
  • نوبختی، فرق الشیعہ، نجف 1355ق، ص96؛ کہا گیا ہے کہ اس کنیز کا نام عسفان تھا بعد میں امام ہادی نے اس کا نام تبدیل کر کے حدیث رکھا۔
  • کلینی، کافی، علی اکبر غفاری، تہران، 1391ق، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، قم، 1414ق، ج2، ص313
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، بیروت 1409ق، ص258
  • حسین بن عبد الوہاب، عیون المعجزات، نجف 1369ق، ص123
  • طبسی، حیاہ الامام العسکری، ص320-324
  • ابن شہر آشوب، مناقب، ج4، ص421.
  • ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج2، ص94.
  • ابن شہرآشوب، ج3، ص526، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص618.
  • دلائل الإمامہ، طبری،ص:424
  • موسوعہ الإمام العسکری(ع)، خزعلی،ج1،ص:32
  • موسوعہ الإمام العسکری(ع)، خزعلی،ج1،ص:32
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، ص258، 266؛ مفید، الارشاد، ج2، ص313
  • ابن حاتم، الدر النظیم، ص737
  • نوبختی، ص95؛ سعد، ص101؛ کلینی، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، ج2، ص313
  • دلائل الامامہ، ص423
  • مفید، مسار الشیعہ، ص52؛ ابن طاووس، الاقبال، ج3، ص149؛ طوسی، مصباح، ص792
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج3، ص523؛ کلینی، ج1، ص503
  • ابن ابی الثلج، ص14؛ ابن خشاب، 199؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، ص258
  • شیخ مفید، الارشاد، ص510.
  • شیخ صدوق؛ کمال الدین، ج2، ص418؛ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص28.
  • مسعودی، إثبات الوصیہ، ص266، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص 618.
  • رک: شیخ صدوق، کمال الدین، ص307 و۔۔.؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ص248؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، 213، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»،ص 618.
  • ابن ابی الثلج، مجموعہ نفیسہ، ص26؛ ابن خشاب، تاریخ موالید، ص201؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج13، ص121، بہ نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص618.
  • طریحی، جامع المقال، ص160، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص 618.
  • ابن شہرآشوب، مناقب، ج3، ص523؛ ابن طولون، الائمہ الاثنا عشر، ص113؛ طبرسی، تاج الموالید، ص59؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج7، ص274؛ ابن صباغ، الفصول المهمہ، ص278؛ شبلنجی، نور الابصار، ص183،نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص618.
  • ابن طلحہ، مطالب السؤول، ج2، ص78.
  • طریحی، جامع المقال، ص190؛ ابوالمعالی، بیان الادیان، ص75، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص 618.
  • زرندی، معارج الوصول الی معرفہ فضل آل الرسول(ص)، ص 176، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، صص 618619.
  • خصیبی، الہدایہ الکبری، ص328.
  • ابن ابی الثلج، مجموعہ نفیسہ، ص 21-22؛ رک: فخر الدین رازی، الشجرة المبارکہ، ص79، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص619.
  • فخر الدین رازی، الشجرة المبارکہ، ص78، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص 619.
  • نک: ابن حزم، جمہرہ انساب العرب، ص61؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج13، ص122، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص619.
  • شیخ مفید، الارشاد، ص495.
  • مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص112.
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، ص259
  • نوبختی، فرق الشیعہ، ص92
  • اربلی، کشف الغمہ، ج3، ص198
  • طبری، دلائل الامامہ، ج1، ص223.
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، ص263
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، ص268
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، ص269
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، ص270؛ رجال کشی، ص560
  • شیخ مفید، الارشاد، ص387.
  • اربلی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، ج2، ص 413.
  • راوندی، الخرائج و الجرائح، ج 1، ص 439.
  • ابن شہر آشوب، مناقب، ج4، ص425؛ شیخ طوسی، الغیبہ، ص 214.
  • شیخ طوسی، الغیبہ، ص272،بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص626.
  • شیخ صدوق، کمال الدین، ص475، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص626.
  • پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص626.
  • روضات الجنان، ج4، ص273 و 274
  • ابن شہرآشوب، المناقب، ج4، ص425(بیروت)
  • مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص94
  • ابن اثیر، الکامل، ج7، ص239-240
  • مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص108
  • تاریخ طبری، ج9، ص410
  • مروج الذہب، ج4، ص108
  • مروج الذہب، ج4، ص108
  • مناقب ابن شہرآشوب، ج4، ص428
  • مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص108
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، ص271
  • ابن بابویہ، کمال الدین، ص43
  • رجال کشی، ص541
  • مناقب ابن شہرآشوب، ج3، ص527
  • مناقب ابن شہرآشوب، ج3، ص526
  • کلینی، کافی، ج1، ص103
  • طریحی، جامع المقال، ص185
  • دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج20، ص630
  • مسعودی،اثبات الوصیہ، ص 217-218.
  • شیخ مفید، الارشاد، ص510.
  • طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص131132.
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکریم، الکامل فی التاریخ، بیروت،دار صادر، 1385ق۔ و بیروت، دار احیاء التراث العربی۔
  • ابن حزم، جمہرة انساب العرب، بیروت:دار الکتب العلمیہ، 1403ق۔
  • ابن خلکان، شمس الدین احمد بن محمد، وفیات الاعیان و انباء ابناء *الزمان، بہ تحقیق احسان عباس، بیروت، دارالثقافہ، [بی تا]۔
  • ابن شہرآشوب، مناقب، قم، کتاب فروشی مصطفوی و بیروت، دارالاضواء، 1412ق۔
  • ابن طلحہ، محمد، مطالب السؤول، نجف، 1371ق/1951م۔
  • ابن طولون، الائمہ الاثنا عشر، بیروت،دار بیروت للطباعہ و النشر، 1377ق۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، بہ تحقیق سیدہاشم رسولی، تبریز، 1381.
  • امین، سید محسن، سیرہ معصومان(ترجمہ اعیان الشیعہ)، مترجم علی حجتی کرمانی، سروش، تہران، 1376ش، چاپ دوم۔
  • پاکتچی، احمد، «حسن عسکری(ع)، امام»، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج20، تہران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، 1391ش۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، قم، دفتر نشر معارف، 1391ش۔
  • حرانی، ابن شعبہ، تحف العقول عن آل الرسول(ص)، بہ تصحیح و تعلیق علی‌اکبر غفاری، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1404ق/1363ش۔
  • حسین بن عبد الوهاب، عیون المعجزات، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1369ق۔
  • خزعلی، الامام العسکری ، مؤسسہ ولی العصر عجّل اللہ تعالی فرجہ الشریف، قم، 1426 ق،چاپ اوّل۔
  • خصیبی، حسین، الہدایۃ الکبری، بیروت: 1411ق/1991م۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنان فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، 1390ق۔
  • سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، بہ تحقیق حسین تقی زادہ، چ1، [بی جا]، المجمع العالمی لاہل البیت (علیہم السلام)، 1426ق۔
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1359ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، تہران، مکتبہ نینوی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن،اختیار معرفة الرجال، مشہد، دانشگاہ مشہد، 1348ش۔
  • شیخ مفید، الارشاد، چ3، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1399ق۔
  • شیخ مفید، مسار الشیعہ، بہ تحقیق مہدی نجف، چ1، بیروت،دار المفید، 1414ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، بہ تحقیق علی *اکبر غفاری، بیروت، دارالمعرفہ، 1399ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بہ تحقیق محمد ابو *الفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، 1387 ق۔ و بیروت، دارسویدان، (بی تا)۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، قم، بعثت، 1413ق۔
  • طبسی،محمد جواد، حیاہ الامام العسکری(ع)، سوم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، 1382ش۔
  • طریحی، فخر الدین، جامع المقال فیما یتعلق باحوال الحدیث و *الرجال، بہ کوشش محمدکاظم طریحی، تہران، 1355ش۔
  • علامہ مجلسی، بحار الأنوار الجامعہ لدرر أخبار الأئمہ الأطہار، تہران، اسلامیہ، 1363ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکنب الاسلامیہ، 1388ق۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، چ2، قم، دارالہجرہ، 1363ق۔ و مصر(بی نا)، 1364ق۔
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیہ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، 1426ق۔
  • نجاشی، ابوالعباس، رجال نجاشی، بہ تصحیح آیت اللہ شبیری زنجانی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1416ق۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، تصحیح سید محمد صادق آل بحر العلوم، نجف، المکتبہ المرتضویہ، 1355ق۔