معاویہ بن حدیج
| معاوية بن حديج | |
|---|---|
| معلومات شخصیت | |
| مقام پیدائش | جزیرہ نما عرب |
| وفات | سنہ 670ء مصر |
| شہریت | سلطنت امویہ |
| عملی زندگی | |
| پیشہ | عسکری قائد ، والی |
| مادری زبان | عربی |
| پیشہ ورانہ زبان | عربی |
| عسکری خدمات | |
| وفاداری | خلافت راشدہ ، سلطنت امویہ |
| شاخ | خلافت راشدہ کی فوج |
| لڑائیاں اور جنگیں | جنگ یرموک ، اسلامی فتح مصر ، المغرب کی اسلامی فتح |
| درستی - ترمیم | |
معاویہ بن حدیج التجیبی [1] الکندی [2] ، عرفی نام ابو نعیم [1] امویوں کا اتحادی فوجی کمانڈر۔ اور ساتھی تھا۔ اسی نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کیا تھا۔اکثر روایات کے مطابق،اسی نے مصر کی فتح کا مشاہدہ کیا تھا اور یہ وہی تھا جو اسکندریہ کو فتح کرنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تھا۔ [3] [4] اس نے 15 ہجری میں جنگ یرموک دیکھی، پھر 20 ہجری میں مصر کی فتح کا مشاہدہ کیا۔ اس نے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کو بربروں سے لڑتے ہوئے بھی دیکھا اور مغرب میں بہت سی جنگوں کی قیادت کی، وہ افریقہ کی فتح میں بٹالین کا شہزادہ اور کمانڈر تھا اس نے نوبیا پر حملہ کیا تو اس کی آنکھ وہاں زخمی ہو گئی اور وہ کانا ہو گیا۔ 44 ہجری میں سسلی پر اچانک حملہ کیا اور 47 ہجری میں سائرینیکا پر قبضہ کر لیا۔ وہ مصر میں علی بن ابی طالب کے دور میں ایک عثمانی تھا اور اس نے علی کی مکمل بیعت نہیں کی تھی۔ جب معاویہ نے مصر پر قبضہ کیا تو اس کی عزت کی اور پھر عبد اللہ بن عمرو بن العاص کے بعد اسے وہاں کا مندوب مقرر کیا، وہ اپنے والد کے بعد دو سال تک اس کا نمائندہ بنا رہا، پھر معاویہ نے اسے برطرف کر کے معاویہ بن حدیج کو گورنر مقرر کیا اور وہ مصر میں ہی رہے۔ مصر یہاں تک کہ سنہ 52 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔[5]
نسب
[ترمیم]معاویہ بن حدیج بن جفنہ بن قتیرہ بن حارثہ بن عبد شمس بن معاویہ بن جعفر بن اسامہ بن سعد بن اَشرَس بن شَبیب بن سُکون بن اَشرَس بن کِندہ۔ [6]
حدیث روایت
[ترمیم]معاویہ بن حدیج بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: "اللہ کے راستے میں صبح یا شام کا ایک لمحہ پوری دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہے۔" اسی طرح ان سے روایت ہے: نبی ﷺ نے ایک دن نماز پڑھی، سلام پھیرا اور مسجد سے باہر تشریف لے گئے، حالانکہ ایک رکعت باقی تھی۔ ایک شخص آپ ﷺ کے پیچھے آیا اور کہا: "آپ سے ایک رکعت رہ گئی ہے۔" آپ ﷺ واپس تشریف لائے اور بلالؓ کو حکم دیا، انھوں نے اقامت کہی اور آپ ﷺ نے لوگوں کو ایک رکعت نماز پڑھائی۔ میں نے لوگوں کو یہ بات بتائی، تو انھوں نے پوچھا: "کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہو جس نے یاد دلایا؟" میں نے کہا: "نہیں، مگر اگر میں دیکھوں تو پہچان سکتا ہوں۔" جب وہ میرے پاس سے گذرا تو میں نے کہا: "یہ وہی ہے۔" لوگوں نے کہا: "یہ طلحہ بن عبید اللہ ہیں۔"[5]
ان کے بارے میں کہا گیا
[ترمیم]عفّان کے واسطے سے، جریر بن حازم روایت کرتے ہیں، حرملہ بن عمران، عبد الرحمٰن بن شُماسہ سے روایت کرتے ہیں: میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا، تو انھوں نے پوچھا: "تم کہاں سے ہو؟" میں نے کہا: "مصر سے ہوں۔" انھوں نے پوچھا: "تم نے اس غزوہ میں ابنِ حدیج کو کیسا پایا؟" میں نے کہا: "بہترین امیر، ہمارے کسی سوار یا اونٹ والے کا جانور کھڑا نہیں ہونے دیتا جب تک اس کے بدلے دوسرا جانور نہ دے دے اور ہر غلام کا بدلہ بھی غلام سے دیتا ہے۔" حضرت عائشہؓ نے فرمایا: "اگرچہ اس نے میرے بھائی کو قتل کیا، مگر میں تم سے وہ بات کہوں گی جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
| ” | "اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی کام کا والی ہو اور ان کے ساتھ نرمی کرے، تو تُو بھی اس کے ساتھ نرمی کر اور جو ان پر سختی کرے، تُو بھی اس پر سختی کر۔"[7] | “ |
معاویہ بن حدیج کے صحابہ کے ساتھ اہم واقعات
[ترمیم]- . فتح اسکندریہ کی خبر:
عمرو بن العاص نے فتح اسکندریہ کی خوشخبری لے کر معاویہ بن حدیج کو عمر بن خطاب کے پاس بھیجا۔ وہ دوپہر کو مدینہ پہنچے، مسجد نبوی میں داخل ہوئے، پھر عمر نے انھیں بلایا، خوشخبری سنی، اعلان کروایا، نماز پڑھی، دعا کی اور پھر ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ عمر نے ان سے فرمایا: "اگر دن کو سوؤں تو رعایا ضائع ہوگی اور اگر رات کو سوؤں تو خود ضائع ہو جاؤں گا، پھر کب سوؤں؟"
- . عمرو بن العاص اور خلیفہ معاویہ کے درمیان صلح:
جب خلافت معاویہ کے پاس آئی تو عمرو بن العاص مصر کے حق میں کمی پر ناراض ہوا۔ دونوں میں اختلاف شدت اختیار کر گیا۔ پھر معاویہ بن حدیج درمیان میں پڑے، ان کے درمیان صلح کروائی، شرائط طے کروائیں، گواہ بنائے اور طے ہوا کہ عمرو بن العاص سات سال تک مصر کے گورنر رہیں گے۔
- . افریقیہ کی مہم:
سنت 34 ہجری میں افریقیہ (تیونس و اطراف) کی جانب لشکر کشی کی۔ جلولاء میں قیام کیا، قسطنطنیہ سے آئے رومی لشکر کو قصر احمر میں شکست دی، علاقے فتح کیے اور مال غنیمت حاصل کیا۔
- . عبد اللہ بن سعد کی مصر آمد پر رد عمل:
جب خلیفہ معاویہ نے عبد اللہ بن سعد کو مصر کا گورنر بنا کر بھیجا تو معاویہ بن حدیج نے اسے مصر میں داخل نہ ہونے دیا، کہا: "تم ہمارے ساتھ وہی کرو گے جو اہل کوفہ کے ساتھ کیا!" اس نے اسے واپس بھیج دیا۔ جب وہ خلیفہ معاویہ کے پاس پہنچے تو اس کی بہن (ام الحکم) نے کہا: "اس کا آنا پسند نہیں۔" معاویہ بن حدیج نے سخت جواب دیا اور کہا: "تمھارا بیٹا فاسق ہے، ہم اس کو ہم پر حکومت نہیں کرنے دیں گے۔"[8]
وفات
[ترمیم]جب معاویہ بن ابی سفیان نے مصر کا اقتدار سنبھالا تو انھوں نے معاویہ بن حدیج کا اعزاز و اکرام کیا اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص کے بعد انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا۔ عبد اللہ بن عمرو نے اپنے والد کے بعد دو سال مصر پر حکومت کی، پھر معاویہ (خلیفہ) نے انھیں معزول کر کے معاویہ بن حدیج کو والی بنایا۔ وہ مصر میں مقیم رہے یہاں تک کہ سنہ 52 ہجری میں وہیں وفات پا گئے۔
ابن یونس کہتے ہیں: وہ مصر میں 52 ہجری میں فوت ہوئے اور ان کی اولاد آج تک مصر میں موجود ہے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب أسد الغابة 4 / 383
- ↑ البداية والنهاية/الجزء السابع/ثم دخلت سنة ثمان وثلاثين
- ↑ و في در السحابة فيمن نزل مصر من الصحابة: طبعة المكتبة القيمة - القاهرة ص113 برقم (267)
- ↑ فتوح مصر وأخبارها
- ^ ا ب "معاوية بن حديج"۔ موسوعة رواة الحديث۔ 2020-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
- ↑ هشام بن محمد الكلبي (1988)۔ نسب معد واليمن الكبير۔ الرياض، السعودية: عالم الكتب۔ 2023-03-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
- ↑
- ↑ تاريخ ابن خلدون جزء 4 - صفحة 236