زیارت اربعین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
زیارت اربعین
 

انتظامی تقسیم
ملک عراق  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر

زیارت اربعین (عربی:زيارة الإمام الحسين ( عليہ السلام ) يوم الأربعينروز اربعین کے ساتھ ایک مخصوص زیارت نامہ ہے اور شیعہ عقائد کی رو سے ائمۂ معصومین نے اس کی بہت تاکید کی ہے جس کی بنا پر شیعیان اہل بیت اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

شیعیان عراق روز اربعین کربلائے معلی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر عراقی اور دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ یہ راستہ پیدل طے کرتے ہیں۔شیعیان عالم کے اربعین کے جلوس جنہیں مشی چہلم بھی کہا جاتا ہے دنیا کے عظیم ترین اجتماعات میں شمار ہوتے ہیں۔

ہدایات[ترمیم]

روز اربعین امام حسین علیہ السلام 20 صفر ہی کا دن ہے۔ اربعین ہی کے دن اسیران کربلا شام سے کربلا لوٹے ہیں اور سب نے شہدائے کربلا کی زیارت کی۔ اربعین یعنی چہلم امام حسین کے دن، محبان اہل بیت، کسب وکار چھوڑ کر، سیاہ پوش ہوکر مجلس عزا وسینہ زنی کرتے ہوئے حضرت فاطمہ زہرا کو ان کے لال کا پرسہ دیتے ہیں ۔ آج کے دن حضرت امام حسین- کی زیارت کرنے اور پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔

زیارت اربعین پڑھنا[ترمیم]

شیخ طوسی کتاب تہذیب الاحکام اور مصباح المتہجد میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:

  • ہر شب و روز میں 51 رکعتیں نماز (یعنی 17 رکعتیں واجب اور نوافل کی 34 رکعتیں) بجا لانا
  • زیارت اربعین پڑھنا
  • انگشتری داہنے ہاتھ میں پہننا
  • سجدے میں پیشانی خاک پر رکھنا
  • نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھنا"۔[1]

اربعین حسینی کے روز زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا دو صورتوں میں وارد ہوا ہے۔

پہلی صورت[ترمیم]

یہ وہ زیارت ہے جو شیخ طوسی نے اپنی دو کتابوں تہذیب الاحکام [2] اور مصباح المتہجد (کتاب)[3] میں صفوان جمّال سے روایت نقل کی ہے۔ صفوان جمال کہتے ہیں: میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے زیارت اربعین کے بارے میں مجھ سے فرمایا: "جب دن کافی چڑھ جائے تو یہ زیارت پڑھو: متن، ترجمہ فارسی، زیارت اربعین مع اردو ترجمہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tvshia.com (Error: unknown archive URL)۔

پس دو رکعت نماز بجا لاؤ اور جو چاہتے ہو اللہ سے مانگو اور (اگر کربلا میں زیارت امام حسین کا شرف ملا ہے تو دعا کے بعد) واپس چلے آؤ۔

روایت و ترجمہ زیارت اربعین[ترمیم]

معتبر روایت میں ہے کہ فرزند رسول ص حضرت امام جعفر صادق علیه ‌السلام کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھتا ہے کہ مولا ہم تو کربلا نہیں جا سکے اب ہم کیا کریں؟

امام جعفر صادق علیہ سلام نے فرمایا: اربعین کے دن کیا کرتے ہو؟ کہا کہ: میرا دل قبر امام حسین علیہ سلام کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کو زیارت اربعین بتائی اور فرمایا: حتی اگر دور سے بھی یہ زیارت پڑھو گے خدا وندہ عالم اپنے فرشتوں کو اربعین کے دن صبح سویرے سے غروب تک زمین پر بھیجتا ہے اور اس کائنات پر دنیا کے جس کونے سے بهی جو شخص یہ کلمات جو میں نے تمھیں بتائے ہیں (یعنی زیارت اربعین) دل سے پڑھے، ملائکہ آتے ہیں اور زیارت کے کلمات کو لے کے غروب تک سیدالشهدا علیه ‌السلام کے پاس لے جاتے ہیں اور حضرت سیدالشهدا علیه‌ السلام ملائکہ کو حکم دیتے ہیں کہ لکھ کر شمار کر لو کہ فلاں شخص یہاں آیا تھا اور اس نے زیارت کی ۔

امام جعفر صادق علیه ‌السلام مزید فرماتے ہیں: دل برداشتہ نہ ہونا کہ تم کربلا نہ پہنچ سکے، اس دن دل سے کربلا کو یاد کرو اور کربلا کے غم کو یاد کرنا یعنی تم کربلا میں ہی ہو، دل سے آہ و بکا تو کر ہی سکتے ہو؟ ممکن ہے تمھارے اس ایک آه و بکا کا ثواب زیارت کے ثواب سے زیادہ ہو۔

جب سورج بلند ہو جائے تو حضرت کی زیارت کرو اور کہو:

اَلسَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ ﷲِ وَحَبِیبِہِ اَلسَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ ﷲِ وَنَجِیبِہِ اَلسَّلَامُ عَلَی 

سلام ہو خدا کے ولی اور اس کے پیارے پر سلام ہو خدا کے سچے دوست اور چنے ہوئے پر، سلام ہو خدا کے

صَفِیِّ ﷲِ وَابْنِ صَفِیِّہِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی 

پسندیدہ اوراس کے پسندیدہ کے فرزند پرسلام ہو حسین (ع) پرجوستم دیدہ شہید ہیں سلام ہو حسین (ع) پر

ٲَسِیرِ الْکُرُباتِ وَقَتِیلِ الْعَبَرَاتِ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَشْھَدُ ٲَنَّہُ وَلِیُّکَ وَابْنُ وَلِیِّکَ، وَصَفِیُّکَ 

جو مشکلوں میں پڑے اور ان کی شہادت پر آنسو بہے۔ اے معبود میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ فرد

وَابْنُ صَفِیِّکَ، الْفَائِزُ بِکَرَامَتِکَ، ٲَکْرَمْتَہُ بِالشَّھَادَۃِ، وَحَبَوْتَہُ بِالسَّعَادَۃِ، وَاجْتَبَیْتَہُ 

اور تیرے پسندیدہ فرد کے فرزند ہیں جنھوں نے تجھ سے عزت پائی تونے انھیں شہادت کی عزت دی ان کو خوش بختی نصیب کی اور انھیں

بِطِیبِ الْوِلادَۃِ، وَجَعَلْتَہُ سَیِّداً مِنَ السَّادَۃِ، وَقَائِداً مِنَ الْقَادَۃِ، وَذَائِداً مِنَ الذَّادَۃِ،

پاک گھرانے میں پیدا کیا، تو نے قرار دیا انھیں سرداروں میں سردار اور پیشوائوں میں پیشوا اور مجاہدوں میں مجاہد اور انھیں

وَٲَعْطَیْتَہُ مَوَارِیثَ الْاََنْبِیَائِ، وَجَعَلْتَہُ حُجَّۃً عَلَی خَلْقِکَ مِنَ الْاََوْصِیَائِ، فَٲَعْذَرَ فِی

نبیوں کے ورثے عنایت کیے تو نے، ان کو اوصیاء میں سے اپنی مخلوقات پرحجت قرار دیا۔ پس انھوں نے تبلیغ کا

الدُّعَائِ، وَمَنَحَ النُّصْحَ، وَبَذَلَ مُھْجَتَہُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَھَالَۃِ، وَحَیْرَۃِ 

حق ادا کیا بہترین خیرخواہی کی اورتیری خاطراپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی وگمرا ہی کی پریشانیوں سے

الضَّلالَۃِ، وَقَدْ تَوَازَرَعَلَیْہِ مَنْ غَرَّتْہُ الدُّنْیا، وَبَاعَ حَظَّہُ بِالْاََرْذَلِ الْاََدْنیٰ، وَشَرَیٰ

جب کہ ان پران لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنھوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اوراپنی

آخِرَتَہُ بِالثَّمَنِ الْاََوْکَسِ، وَتَغَطْرَسَ وَتَرَدَّیٰ فِی ھَوَاہُ، وَٲَسْخَطَکَ وَٲَسْخَطَ نَبِیَّکَ

آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انھوں نے سرکشی کی اورلالچ کے پیچھے چل پڑے انھوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی(ص) کو

 وَٲَطَاعَ مِنْ عِبادِکَ ٲَھْلَ الشِّقاقِ وَالنِّفاقِ، وَحَمَلَۃَ الْاََوْزارِ، الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ،

ناراض کیا انھوں نے تیرے بندوں میں سے ان کی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کرجہنم کی طرف چلے گئے

فَجاھَدَھُمْ فِیکَ صابِراً مُحْتَسِباً حَتَّی سُفِکَ فِی طَاعَتِکَ دَمُہُ وَاسْتُبِیحَ حَرِیمُہُ۔ 

پس حسین(ع) ان سے تیرے لیے لڑے جم کرہوشمندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرماں برداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور ان کے اہل حرم کو لوٹا گیا

اَللّٰھُمَّ فَالْعَنْھُمْ لَعْناً وَبِیلاً، وَعَذِّبْھُمْ عَذاباً ٲَلِیماً۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲِ،

اے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اورعذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسول(ص) کے فرزند

 اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ سَیِّدِ الْاَوْصِیائِ ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ ٲَمِینُ ﷲِ وَابْنُ ٲَمِینِہِ عِشْتَ سَعِیداً 

آپ پرسلام ہو اے سرداراوصیاء کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اوراس کے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے

وَمَضَیْتَ حَمِیداً، وَمُتَّ فَقِیداً، مَظْلُوماً شَھِیداً، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ ﷲَ مُنْجِزٌ 

قابل تعریف حال میں گذرے اور وفات پائی وطن سے دورکہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا

مَا وَعَدَکَ، وَمُھْلِکٌ مَنْ خَذَلَکَ، وَمُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَکَ، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ 

جس کا اس نے وعدہ کیا اوراس کو تباہ کرے گا وہ جس نے آپ کا ساتھ چھوڑا اوراس کو عذاب دے گا جس نے آپ کو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ

وَفَیْتَ بِعَھْدِ ﷲِ، وَجاھَدْتَ فِی سَبِیلِہِ حَتّی ٲَتَاکَ الْیَقِینُ، فَلَعَنَ ﷲُ مَنْ قَتَلَکَ،

آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی آپ نے اس کی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہو گئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپ کو قتل کیا

وَلَعَنَ ﷲُ مَنْ ظَلَمَکَ، وَلَعَنَ ﷲُ ٲُمَّۃً سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِہِ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی 

اور خدا لعنت کرے جس نے آپ پرظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پرجس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی و رضایت ظاہر کی۔ اے معبود میں

ٲُشْھِدُکَ ٲَنِّی وَلِیٌّ لِمَنْ والاہُ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداہُ بِٲَبِی ٲَنْتَ وَٲُمِّی یَابْنَ رَسُولِ ﷲِ

تیری ذات کو گواہ بناتا ہوں کہ میں ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں میرے ماں باپ قربان آپ پراے فرزند رسول خدا

ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاََصْلابِ الشَّامِخَۃِ، وَالْاََرْحامِ الْمُطَھَّرَۃِ، لَمْ تُنَجِّسْکَ

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میں رہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست

الْجاھِلِیَّۃُ بِٲَنْجاسِھا وَلَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَھِمَّاتُ مِنْ ثِیابِھا وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ مِنْ دَعائِمِ الدِّینِ

سے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی جاہلیت نے اپنے کوئی بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں

وَٲَرْکانِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ الْاِمامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ

مسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام (ع) ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ

الزَّکِیُّ الْھادِی الْمَھْدِیُّ وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ الْاََئِمَّۃَ مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَۃُ التَّقْوی وَٲَعْلامُ الْھُدیٰ

پاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیزگاری کے ترجمان ہدایت کے پرچم

وَالْعُرْوَۃُ الْوُثْقی وَالْحُجَّۃُ عَلَی ٲَھْلِ الدُّنْیا وَٲَشْھَدُ ٲَنِّی بِکُمْ مُؤْمِنٌ وَبِإیابِکُمْ مُوقِنٌ

اور نشان ہیں اور محکم تر سلسلہ ہیں اور دنیا والوں پرخدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا ہوں

بِشَرائِعِ دِینِی وَخَواتِیمِ عَمَلِی وَقَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ وَ ٲَمْرِی لاََِمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ

اپنے دینی احکام اورعمل کی جزا و سزا پر یقین رکھنے والا ہوں میرا دل آپ کے دل کے ساتھ پیوستہ میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع

وَنُصْرَتِی لَکُمْ مُعَدَّۃٌ حَتَّی یَٲْذَنَ ﷲُ لَکُمْ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لاَ مَعَ عَدُّوِکُمْ صَلَواتُ

اور میری نصرت و مدد آپ کے لیے حاضر ہے حتی کہ جب خدا آپ کو اذن قیام دے پس آپ کے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ ہوں نہ کہ آپ کے دشمن کے ساتھ۔ رحمتیں ہوں

ﷲِعَلَیْکُمْ وَعَلَی ٲَرْواحِکُمْ وَ ٲَجْسادِکُمْ وَشاھِدِکُمْ وَغَائِبِکُمْ وَظَاھِرِکُمْ وَبَاطِنِکُمْ

خدا کی، آپ پر اور آپ کی پاک روحوں پر اور آپ کے جسموں پر، آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر

آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ۔

ایسا ہی ہو اے جہانوں کے پروردگار۔

پس دو رکعت نماز بجا لاؤ اور جو چاہتے ہو اللہ سے مانگو اور (اگر کربلا میں زیارت امام حسین کا شرف ملا ہے تو دعا کے بعد) واپس چلے آؤ۔

دوسری صورت[ترمیم]

یہ وہ زیارت ہے جو جابر بن عبداللہ انصاری سے مروی ہے اور اس کی کیفیت وہی ہے جو عطاء سے نقل ہوئی ہے۔ (عطاء ظاہرا وہی عطیۂ عوفی کوفی ہیں جو پہلے اربعین کے موقع پر جابر کے ہمراہ تھے، جب وہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے لیے کربلا جا رہے تھے)۔ عطاء کہتے ہیں:

میں 20 صفر کو جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ تھا، جب ہم غاضریہ پہنچے تو انھوں نے آب فرات سے غسل کیا اور ایک پاکیزہ پیراہن، جو ان کے پاس تھا، پہن لیا اور پھر مجھ سے کہا: "اے عطاء! کیا عطریات میں سے کچھ تمھارے پاس ہے؟" میں نے کہا: میرے پاس "سعد"۔[4] ہے۔ جابر نے اس میں سے کچھ لے لیا اور اپنے سر اور بدن پر مل لیا؛ ننگے پاؤں روانہ ہوئے حتی کہ قبر مطہر پر پہنچے اور قبر کے س رہانے کھڑے ہو گئے اور تین مرتبہ "اللہ اکبر" کہا اور گر کر بے ہوش ہوئے۔ ہوش میں آئے تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا: "السلام علیکم یا آل اللہ۔۔۔" جو درحقیقت وہی نصف رجب کو وارد ہونے والی زیارت ہے۔[5] متن، ترجمہ اور آواز زیارت امام حسین (ع) در نیمہ ماہ رجب۔ اربعین کی دوسری غیر معروف زیارت مع اردو ترجمہ[مردہ ربط]

اربعین کے جلوس[ترمیم]

مفصل مضمون: اربعین

چونکہ ائمہ(ع) نے زیارت اربعین کی بہت تاکید فرمائی ہے لہذا شیعیان عالم بالخصوص شیعیان عراق ہر سال یوم اربعین حسینی ملک کے تمام علاقوں سے کربلائے معلی کا رخ کرتے ہیں۔ اکثر زائرین پائے پیادہ سفر کرتے ہیں اور اربعین کے یہ جلوس شیعیان عالم کے عظیم ترین اجتماعات میں شمار ہوتے ہیں۔ سنہ 2013 ء میں پہلے ہی پیشین گوئی ہوئی تھی کہ تقریباً دو کروڑ زائرین کربلا پہنچیں گے[6] بعض رپورٹوں میں کہا گیا کہ سنہ 1435 ھ (بمطابق 2013 ء) میں ڈیڑھ کروڑ زائرین کربلا میں جمع ہوئے تھے۔[7]

محمد علی قاضی طباطبائی شہرت قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ اربعین کے دن کربلا کا سفر اختیار کرنا شیعیان اہل بیت(ع) کے درمیان میں ائمہ معصومین کے دور سے رائج تھا اور حتی کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانے میں بھی اہل تشیع اس سفر کے پابند تھے۔[8]

زیارت اربعین کا عربی متن[ترمیم]

زیارت کو یوں عربی میں پڑھنا ضروری ہے۔

_بسم اللہ الرحمٰن الرحیم_

اَلسَّلَامُ عَلٰى وَلِيِّ اللّٰهِ وَ حَبِيْبِهِ اَلسَّلَامُ عَلٰى خَلِيْلِ اللّٰهِ وَ نَجِيْبِهِ اَلسَّلَامُ عَلٰى صَفِيِّ اللّٰهِ وَ ابْنِ صَفِيِّهِ اَلسَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُوْمِ الشَّهِيْدِ اَلسَّلَامُ عَلٰى اَسِيْرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيْلِ الْعَبَرَاتِ اَللّٰهُمَّ اِنِّيۤ اَشْهَدُ اَنَّهُ وَلِيُّكَ وَ ابْنُ وَلِيِّكَ وَ صَفِيُّكَ وَ ابْنُ صَفِيِّكَ الْفَاۤئِزُ بِكَرَامَتِكَ اَكْرَمْتَهُ بِالشَّهَادَةِ وَ حَبَوْتَهُ بِالسَّعَادَةِ وَ اجْتَبَيْتَهُ بِطِيْبِ الْوِلَادَةِ وَ جَعَلْتَهُ سَيِّدًا مِنَ السَّادَةِ وَ قَاۤئِدًا مِنَ الْقَادَةِ وَ ذَاۤئِدًا مِنَ الذَّادَةِ وَ اَعْطَيْتَهُ مَوَارِيْثَ الْاَنْبِيَاۤءِ وَ جَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلٰى خَلْقِكَ مِنَ الْاَوْصِيَاۤءِ فَاَعْذَرَ فِيْ الدُّعَاۤءِ وَ مَنَحَ النُّصْحَ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيْكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ الضَّلَالَةِ وَ قَدْ تَوَازَرَ عَلَيْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْيَا وَ بَاعَ حَظَّهُ بِالْاَرْذَلِ الْاَدْنٰى وَ شَرٰى اٰخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الْاَوْكَسِ وَ تَغَطْرَسَ وَ تَرَدَّى فِيْ هَوَاهُ وَ اَسْخَطَكَ وَ اَسْخَطَ نَبِيَّكَ، وَ اَطَاعَ مِنْ عِبَادِكَ اَهْلَ الشِّقَاقِ وَ النِّفَاقِ وَ حَمَلَةَ الْاَوْزَارِ الْمُسْتَوْجِبِيْنَ النَّارَ [لِلنَّارِ] فَجَاهَدَهُمْ فِيْكَ صَابِرًا مُحْتَسِبًا حَتّٰى سُفِكَ فِيْ طَاعَتِكَ دَمُهُ وَ اسْتُبِيْحَ حَرِيْمُهُ اَللّٰهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْنًا وَبِيْلًا وَ عَذِّبْهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ سَيِّدِ الْاَوْصِيَاۤءِ اَشْهَدُ اَنَّكَ اَمِيْنُ اللّٰهِ وَ ابْنُ اَمِيْنِهِ عِشْتَ سَعِيْدًا وَ مَضَيْتَ حَمِيْدًا وَ مُتَّ فَقِيْدًا مَظْلُوْمًا شَهِيْدًا وَ اَشْهَدُ اَنَّ اللّٰهَ مُنْجِزٌ مَا وَعَدَكَ وَ مُهْلِكٌ مَنْ خَذَلَكَ وَ مُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَكَ وَ اَشْهَدُ اَنَّكَ وَفَيْتَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ جَاهَدْتَ فِيْ سَبِيْلِهِ حَتّٰىۤ اَتَاكَ الْيَقِيْنُ فَلَعَنَ اللّٰهُ مَنْ قَتَلَكَ وَ لَعَنَ اللّٰهُ مَنْ ظَلَمَكَ وَ لَعَنَ اللّٰهُ اُمَّةً سَمِعَتْ بِذٰلِكَ فَرَضِيَتْ بِهِ، اَللّٰهُمَّ اِنِّيۤ اُشْهِدُكَ اَنِّي وَلِيٌّ لِمَنْ وَالَاهُ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُ بِاَبِيۤ اَنْتَ وَ اُمِّيْ يَا ابْنَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اَشْهَدُ اَنَّكَ كُنْتَ نُوْرًا فِي الْاَصْلَابِ الشَّامِخَةِ وَ الْاَرْحَامِ الْمُطَهَّرَةِ [الطَّاهِرَةِ] لَمْ تُنَجِّسْكَ الجاهِلِيَّةُ بِأَنْجاسِها وَلَمْ تُلْبِسْكَ المُدْلَهِمَّاتِ مِنْ ثِيابِها، وَأَشْهَدُ أَنَّكَ مِنْ دَعائِمِ الدِّينِ وَأَرْكانَ المُسْلِمينَ وَمَعْقِلِ المُؤْمِنِينَ، وَأَشْهَدُ أَنَّكَ الإمام البَرُّ التَّقِيُّ الرَّضِيُّ الزَّكِيُّ الهادِي المَهْدِيُّ، وَأَشْهَدُ أَنَّ الأَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِكَ كَلِمَةُ التَّقْوى وَأَعْلامِ الهُدى وَالعُرْوَةُ الوُثْقى وَالحُجَّةُ على أَهْلِ الدُّنْيا، وَأَشْهَدُ أَنِّي بِكُمْ مُؤْمِنٌ وَبِإِيَّابِكُمْ مُوقِنٌ بِشَرايِعِ دِينِي وَخَواتِيمِ عَمَلِي وَقَلْبِي لِقَكْبِكُمْ سِلْمٌ وَأَمْرِي لاَمْرِكُمْ مُتَّبِعٌ وَنُصْرَتِي لَكُمْ مُعَدَّةٌ حَتّى يَأْذَنَ الله لَكُمْ ؛ فَمَعَكُمْ مَعَكُمْ لا مَعَ عَدُوِّكُمْ، صَلَواتُ الله عَلَيْكُمْ وَعَلى أَرْواحِكُمْ وَأَجسادِكُمْ وَشاهِدِكُمْ وَغائِبِكُمْ وَظاهِرِكُمْ وَباطِنِكُمْ آمِينَ رَبَّ العالَمِينَ. [9]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. طوسی، تہذیب الاحكام، ج 6، ص 52۔
  2. طوسی، تہذیب الاحکام، ج 6، ص 113۔
  3. مصباح المتہجد، ص 787۔
  4. ایک قسم کی خوشبو۔
  5. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، باب سوم، زيارت امام حسین در روز اربعين
  6. سایت خبری فردا[مردہ ربط]
  7. سايت خبري فردا[مردہ ربط]
  8. قاضی طباطبایی، تحقيق دربارہ اول اربعين حضرت سيدالشہدا(ع)، ص2۔
  9. مفاتیح الجنان باب زیارات از عباس قمی

مآخذ[ترمیم]

  • طوسی، محمد بن الحسن، تہذيب الاحكام، دار الكتب الاسلاميہ، تہران، 1407 ھ۔
  • قاضی طباطبایی، سيد محمد علی، تحقيق دربارہ اول اربعين حضرت سيدالشہدا(ع)، بنياد علمی و فرہنگی شہید آيت اللہ قاضی طباطبايی، قم، 1368ہجری شمسی۔
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان۔

نگار خانہ[ترمیم]

یرونی ربط[ترمیم]