برصغیر میں شیعیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(پاکستان میں شیعیت سے رجوع مکرر)

170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

وادئ سندھ میں مسلمان افغانستان، ایران اور بحر ہند کے راستے داخل ہوئے۔ آنے والوں کو دو بنیادی چیلنج درپیش تھے۔ اول یہ کہ اقلیت ہونے کے سبب مقامی ہندو اکثریت کے درمیان میں اپنا تشخص کیسے قائم رکھیں دوم یہ کہ خود مسلم سماج کے اندر سماجی، سیاسی، نسلی اور فرقہ وارانہ تضادات کو کیسے قابو میں رکھیں۔

تاریخ

ہندوستان میں شیعہ اسلام کی تاریخ کومختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ابتدائی دور

شیعہ اسلام کا برصغیر سے تعلق اسلام کے اوائل میں ہی پیدا ہو گیا تھا۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں حضرت علی علیہ السلام کی اجازت سے حارث بن مرہ عبد ی کا 656 ء  ( 36 ہجری)[1]  یا 658ء    ( 38 ہجری) کے آخر میں آنا اور فوجی کامیابیوں کی بدولت مکران، قندابیل اور قیقان کے علاقوں تک چلے جانا، نیز 662ء  ( 42 ہجری ) میں ان کا قتل مذکور ہے۔[2]

فائل:Ashura-map.jpg
قافلہ حسینی کا مدینہ سے شام تک سفر: لحظہ بہ لحظہ، شہر بہ شہر، مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: قیام حسینی کا خط الوقت اور سفر کربلا۔

اسلام  کے ابتدائی سالوں میں  عراق  اور ایران شیعہ نشین علاقے بن چکے تھے، جبکہ حجاز اور شام میں کعب الاحبار کے طرز فکر کو رواج مل چکا تھا۔ 680ء  میں یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کرنے کے بعد امام حسین نے تین ماہ مکہ  میں ٹھہر کر مصر سے آذربائیجان اور شام سے یمن تک پھیلی امت مسلمہ تک اپنا پیغام پہنچایا تو صرف کوفہ کے لوگوں نے ہی آپ کا ساتھ دینے کی ہامی بھری۔ اگرچہ بعد میں  باقی  تمام شہروں میں یزید  کی جبری بیعت کو قبول کرنے کے بعد اکثر کوفہ والے خود کو اکیلا پا کر خوفزدہ ہو گئے لیکن کربلا کےشہداء میں اہل بیت کے شہداء  کے بعد سب سے زیادہ تعداد کوفہ کے لوگوں کی  ہی تھی۔ کربلا کے بعد ایران اور عراق کا علاقہ ہمیشہ بنی امیہ کی بادشاہت کے خلاف انقلاب کا مرکز بنا رہا، توابین اور ان کے بعد مختار نے"  یا لَثاراتِ الحسین" (اے خون حسین کا انتقام لینے والو!)کے نعرے کو مرکزی خیال بنا کر بنی امیہ کے خلاف قیام کیا۔ 736ء میں امام حسین کے پوتے زید بن علی نے بنی امیہ کے خلاف قیام کیا تو کوفہ کو ہی اپنا مرکز بنایا اور وہاں چار سال کے لیے حکومت بھی قائم کی۔ ان کے پیروکار زیدی کہلائے اور  یہاں سے زیدی شیعہ اور اثنا عشری شیعوں کا راستہ جدا ہوا۔ زید بن علی کی والدہ کا تعلق وادئ سندھ (موجودہ پاکستان)سے تھا اور وہ چوتھے شیعہ امام زین العابدین کی دوسری زوجہ تھیں[3]۔ 740ء   میں بنی امیہ کے ہاتھوں  زیدی حکومت کو شکست ہوئی اور کچھ مزید شیعہ ایران اور وادئ سندھ کی طرف  ہجرت کر گئے۔ 743ء  میں بنی عبّاس نے ایران کے صوبے خراسان سے ایک مرتبہ پھر  "  یا لَثاراتِ الحسین" کا نعرہ لگایا اور ابومسلم خراسانی  نامی ایرانی شیعہ کی قیادت میں ایران اور عراق کے شیعوں   اور عجمی سنیوں کا لشکر بنا کر 750ء  میں بنی امیہ کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ بنی عبّاس  نے اقتدار اہل بیت کے نام پر حاصل کیا تھا  لیکن وہ  اپنی خاندانی بادشاہت کو برقرار کرنا چاہتے  تھے۔    اپنی مراد پوری ہو جانے کے بعد دوسرے عبّاسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے 755ء  میں ابو مسلم خراسانی کو قتل کر کے اس کی لاش  دریائے دجلہ میں بہا دی۔768ء میں امام جعفر صادق کو زہر سے قتل کیا  گیا اور شیعوں میں ایک اور گروہ، اسماعیلیہ، نمودار ہوا۔ عباسی دور میں ہی سنی مکتب فکر کا باقاعدہ ظہور ہوا۔امام جعفر صادق کے بعض شاگردوں، جیسا کہ فرج سندھی اور ابان سندھی، کا تعلق وادئ سندھ سے تھا[3]۔

ابن خلدون کے بقول خلیفہ منصور کے زمانے میں سندھ کا عامل عمر بن حفص تشیع کی جانب میلان رکھتا تھا۔ محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبد اللہ اشتر، جن کو عبد اللہ شاہ غازی عبداللہ شاہ غازی کے نام سے جانا جاتا ہے، 400 افراد پر مشتمل زیدیوں کی ایک جماعت کے ساتھ اس کے پاس آئے اور عباسی خلیفہ منصور نے ہشام بن عمر ثعلبی کی سربراہی میں لشکر بھیج کر آپکو شہید کرا دیا۔ طبری نے یہ واقعات 768ء (151 ہجری) میں نقل کیے ہیں۔[4]

جب نویں اور دسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مبلغین اور صوفیوں کی آمد کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوا تب تک سنیوں کے چار فقہی مکاتب ( حنفی، حنبلی، مالکی، شافعی ) تشکیل پا چکے تھے اور اہلِ تشیع تین شاخوں ( زیدی، اثنا عشری، اسماعیلی ) میں بٹ چکے تھے۔ شیعوں میں چھٹے امام جعفر صادق کی مرتب کردہ فقہ جعفریہ کے اثنا عشری پیروکار زیادہ تھے۔ نویں صدی عیسوی کے آخر(893ء )    میں یمن کے شمال میں زیدی شیعوں کی حکومت قائم ہوئی جو مختلف نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے 1962ء  میں گیارہ سو سال   بعد ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوئی۔   اس حکومت کے ہوتے ہوئے زیدی شیعوں کی  وادئ سندھ کی طرف ہجرت رک گئی۔

دسویں صدی عیسوی کے اختتام پر مشرق وسطیٰ کا سیاسی جغرافیہ
بو علی سینا ؒکی کتاب "القانون" کے آٹھ سو سال پرانے  نسخے کا عکس

دسویں صدی عیسوی میں ایران اور عراق میں اثناء عشری شیعہ  خاندان آل بویہ  (934ء –1062ء )اور مصر، شام اور حجاز  میں  اسماعیلی شیعہ فاطمیوں ( 909ء –1171ء )کی حکومت قائم ہوئی ۔  یوں حضرت علی کے دور حکومت  کے بعد پہلی مرتبہ شیعوں کو اجتماعی اور علمی فعالیت کے لیے آزاد فضا میسر آئ۔ آل بویہ کی حکومت کم و بیش سو سال تک قائم رہی اور اس دوران میں بو علی سینا، فارابی، البیرونی  اور ابن الہیثم  جیسے  سائنس دان اور فلسفی پیدا  ہوئے۔  اس دوران میں اثنا عشری  شیعہ مسلک کو  ایران اور عراق جبکہ اسماعیلی شیعہ مسلک کو شام اور مصر  اور وادئ سندھ  میں فروغ ملا۔ بو علی  سینا نے اپنی معروف کتابیں " الشفاء" اور "القانون"  اور  دسیوں مقالے اسی دوران میں  لکھے۔شیخ صدوق نے شیعہ مسلک کی ا ہم کتب تصنیف کیں جن میں بنیادی عقائدکی کتاب "رسالہ اعتقادیہ"[5] سرفہرست ہے۔بو علی سینا نے اپنی کتب میں شیعہ عقیدۂ امامت کے فلسفے کو بھی واضح کیا۔ ابن الہیثم کی "کتاب المناظر"بھی آل بویہ کی علم پروری کا ایک پھل ہے، جس کی پہلی اشاعت کے ہزار سال مکمل ہونے پر 2015 ء کو  اقوام متحدہ نے روشنی پر تحقیق کا سال قرار دیا تھا۔    اسی عرصے میں اسماعیلی شیعہ  مبلغین ملتان تک پھیل گئے چنانچہ دسویں صدی کے وسط میں وہاں اسماعیلی قرامطہ حکومت قائم ہوئی جو مصر کی فاطمی حکومت سے ملحق تھی۔   مصر میں فاطمیوں نے جامعہ الزہرا کے نام سے اسلامی دنیا کی پہلی یونیورسٹی قائم کی جس کو آج کل جامعہ الازہر کہا جاتا ہے۔ انہی دو شیعہ حکومتوں کے  ادوار میں عزاداری  اور تعزیہ کے جلوسوں کو فروغ حاصل ہوا۔
گیارہویں صدی کے شروع میں محمود غزنوی  نے ایران پر حملہ کر کے رے کو آل بویہ سے چھین لیا  اور شیعوں کا قتل عام کیا۔ اس دوران میں بہت سے شیعہ وادئ سندھ کی طرف ہجرت کے گئے۔  محمود غزنوی نے   شیعہ سائنس دانوں کو زبردستی اپنے لشکر کا حصہ بنایا چنانچہ البیرونی نے زمین کا قطر ماپنے کے لیے شروع کی گئی تحقیق کو پوٹھوہار کے قصبے پنڈ دادن خان کے قریب مقام پر پایۂ تکمیل تک پہنچایا جبکہ  وہ بادشاہ محمود  غزنوی کی حملہ آور فوج میں طبیب کے طور پر  شامل کیے گئے تھے۔انہی حملوں کے دوران میں البیرونی نے معروف "کتاب الہند" بھی لکھی۔   محمود غزنوی کے دو حملوں میں ملتان سے سیہون تک پھیلی قرامطہ حکومت ختم ہو گئی[6]۔ ان حملوں میں ملتان کی اسماعیلی آبادی کا قتلِ عام ہوا۔ قرامطہ حکمران ابوفتح داؤد کو قیدی بنایا گیا۔ ملتان کے شہریوں سے لگ بھگ دو کروڑ دینار تاوان وصول کیا گیا اور بچے کچھے اسماعیلی بالائی پنجاب اور زیریں سندھ کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے جن میں سونا، ہیرے اوردیگر قیمتی سرمایہ لوٹا تاکہ افغانوں کو خرید کر لشکر بنا سکے۔   دوسری طرف 1060ء    میں سلجوقیوں نے عراق پر حملہ کر کے آل بویہ کی حکومت کا مکمل خاتمہ کر دیا اورشیعوں کا قتل عام ہوا۔  گیارہویں صدی عیسوی  کے آخری سالوں میں ہی معروف  ایرانی سنی عالم امام غزالی نے  "تہافۃ الفلاسفۃ" نامی کتاب  لکھی اورعقلی و تجربی علوم  کے کفر کا فتویٰ دیا  جس کے نتیجے میں آنے والی کئی صدیوں تک  سائنس دان   اور فلسفی قتل ہوتے رہے۔ فلسفے کے اٹھائے گئے  بنیادی سوالات پر تحقیق نہ کرنے کی بدولت سائنسی ترقی کے دروازے بند ہو گئے۔  محمود غزنوی کے بعد قرامطہ حکومت پھرمختصر عرصے کے لیے قائم ہوئی تاہم بارہویں صدی میں شہاب الدین غوری نے اس کا مستقل خاتمہ کر دیا اور بعد ازاں صوبہ ملتان دہلی سلطنت کا حصہ بن گیا۔گیارہویں صدی عیسوی میں ہی مصر اور شام کی فاطمی سلطنت داخلی شکست و ریخت کے بعد زوال کا شکار ہو گئی تھی اور اسماعیلی  بھی اہل سنت کی طرح متعدد فرقوں میں بٹ گئے تھے۔  اس دوران موقع غنیمت جان کر یورپ سے فلسطین پر  صلیبی حملوں کا آغاز ہو گیا اور دوسری طرف ترکوں نے شام پر حملے شروع کیے۔  با الاخر  بارہویں صدی عیسوی میں صلاح الدین ایوبی نامی ایک سنی وزیر نے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ صلاح الدین ایوبی نے عباسی خلافت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور  داخلی استحکام پیدا کرنے کے بعد صلیبی حملہ آوروں کو شکست دی۔ البتہ یہاں سے مصر اور شام کے شیعوں  سے امتیازی سلوک کے طویل سلسلے کا آغاز ہو گیا  جو ترکوں کی خلافت عثمانیہ کے زوال تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں  شیعہ لبنان اور شام کے پہاڑی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور کچھ ہجرت کر کے ہندوستان چلے آ ئے۔

تیرہویں صدی عیسوی میں  اسلامی دنیا پر چنگیز خان کے حملوں کے نتیجے میں کچھ شیعہ وادئ سندھ کی طرف اور کچھ  ایران میں شہروں سے دور قائم اسماعیلی قلعوں میں چلے گئے۔ وہاں انھوں نے  چنگیز کے خلاف تو کامیاب مزاحمت کی البتہ چنگیز کے بیٹے ہلاکو خان نے اسماعیلی مزاحمت کو شکست سے دوچار کیا۔ منگول بھی محمود غزنوی  اور غوری کی طرح لٹیرے تھے۔ ماضی میں  منگولوں نے  چین کی فتح کے بعد وہاں کے  سائنس دانوں کے علم سے  بہت فائدہ اٹھایا تھا اس لیے انھوں نے شیعہ علما کو  قتل کرنے کی بجائے یرغمال بنا لیا۔ ان علما میں  خواجہ نصیر الدین طوسی  (1201ء –1274ء)سب سے اہم تھے۔ انھوں نے منگولوں میں اثر و رسوخ پیدا کر کے  ایک بڑی رصد گاہ اور کتب خانہ تعمیر کرایا۔ انھوں نے جغرافیہ، فلسفہ، فلکیات، منطق، اخلاق اور ریاضی پر بیش قیمت کتابیں لکھیں۔   خواجہ نصیر الدین طوسی کی  وجہ سے ہی شیعہ تہذیب کے آثار مکمل تباہی سے بچ گئے۔  آپ کی علمی عظمت سے متاثر ہو کر ہلاکو خان کے بیٹے تکودار نے اسلام قبول کر لیا۔  آپ کے شاگرد علامہ حلی نے شیعہ فقہ میں انقلابی نظریات پیش کیے۔ ان کے دور میں ایران  و عراق میں شیعیت کو مزید فروغ ملا، اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے معروف سلفی عالم شیخ ابن تیمیہ نے شیعوں کے خلاف ایک  کتاب "منہاج السنۃ "لکھی۔

جونپور کی تاریخی عطااللہ مسجد جسے شیعہ سلطان ابراہیم شاہ نے تعمیر کرایا

1374ءمیں شمالی ہندوستان میں پہلی شیعہ حکومت "جون پورسلطنت"(1374ء –1479ء)  قائم ہوئی۔ اس نے علم و فن کی سرپرستی کی جس کے نتیجے میں جون پورکوشیراز ہند کہا جانے لگا۔

جموں و کشمیر  اور گلگت بلتستان میں شیعیت

چودہویں صدی عیسوی میں  میر سید علی ہمدانی نے کشمیر میں قدم رکھا اور اسلام کی تبلیغ شروع کی۔انھوں نے وسیع پیمانے پر جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان  میں سفر کیا اور بیس کے قریب شاگرد مختلف علاقوں میں ٹھہرائے۔ وہ ایک صوفی تھے، انھوں نے مقامی آبادی میں اہلبیت کی محبت کو عام کیا۔  میر سید علی ہمدانی نے دو کتابیں، "مودت القربیٰ " اور” اربعین فی فضائل امیر المومنین "لکھیں۔کشمیر میں شیعہ اثنا عشری مسلک کی تبلیغ میر سید شمس الدین عراقی نے کی۔ ان کے دادا میر سید محمد نور بخش(نور بخشیہ سلسلے کے روحانی پیشوا)، میر سید علی ہمدانی کے سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اور کشمیر، افغانستان اور ایران میں ان کے مریدوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔میر شمس الدین عراقی پہلی بار 1481 ء میں کشمیر آئے  اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس ایران چلے گئے۔ 1501 ءمیں آپ ایران سے دو سو شیعہ علما اور عرفا ء کو لے کر دوبارہ کشمیر آ ئے۔کشمیر کے چک قبیلے نے شیعیت قبول کر لی۔اس موقعے پر سرینگر کے سنی علما نے آپ کے خلاف مہم چلائی  جس کے نتیجے میں آپ سکردو چلے گئے۔سکردو اور لداخ میں آپ نے بدھ مت اور ہندو مت کے ہزاروں پیروکاروں کو شیعہ اسلام میں داخل کیا۔ 1505ء میں  کشمیر کے بادشاہ نے شیعیت  قبول کی اور ہزاروں ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کیا۔ اس دوران میر شمس الدین عراقی بھی سرینگر واپس آ گئے۔ 1516ء میں چک سلطنت قائم ہوئی۔1532ء میں کاشغر کے سلطان سعید خان نے  ایک ترکمن جنگجو سردار مرزا حیدر دگلت  کو ایک لشکر کے ہمراہ کشمیر پر حملے کے لیے بھیجا۔ مرزا حیدر دگلت شیعوں سے شدید نفرت کرتا ہے چنانچہ اس نے عام لوگوں کا قتل عام کیا جس کے نتیجے میں عام لوگوں نے چک سلطنت سے مل کر اس کو شکست دی۔  کشمیر میں شکست کے بعد مرزا حیدر دگلت لاہور میں شہنشاہ  ہمایوں سے آ ملا۔ اس نیو دہلی کے سنی علما سے شیعوں اور نور بخشی سلسلے کے خلاف فتوے لیے اور دوبارہ کشمیر پر حملے کی تیاری شروع کر دی۔ 1541 ء  میں  مرزا حیدر دگلت نے کشمیر پر حملہ کیا اور  چک سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔1550ء میں مرزا حیدر دگلت  نے میر شمس الدین عراقی  کے فرزند میر دانیال کو شہید کیا جس کے بعد کشمیر میں اس کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی اور اسی سال کے آخر میں کشمیری شیعوں نے مرزا حیدر دگلت کو قتل کر کے انتقام لیا۔ چک سلطنت دوبارہ بحال ہو گئی 1586 ء میں چک سلطنت نے اکبر اعظم کے ساتھ الحاق کر لیا۔  چک سلطنت کے خاتمے کے بعد کشمیر میں  بیرونی حملہ آوروں  اور سنی علما نے   "تاراج شیعہ" کے نام سے معروف شیعہ مسلمانوں کے قتل، ان کی جائیدادوں کی لوٹ، ان کے  کتب خانوں کو آگ لگانے اور مقدس مقامات کو تباہ کرنے  کی متعدد مہمات  چلائیں[7]۔ آج کوہ ہمالیہ کے اطراف میں  صرف کارگل، بلتستان اور گلگت ہی وہ علاقے ہیں جہاں شیعہ اکثریت ہے، کیونکہ یہ علاقے ہندوستان یا افغانستان کے  تکفیری حملہ آوروں کی پہنچ سے دور تھے۔ایک اعتبار سے کوہ ہمالیہ کے شیعوں کی تاریخ  لبنان میں جبل عامل کے شیعوں کی تاریخ سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔

پنجاب میں شیعیت

سولہویں صدی عیسوی میں پنجاب میں شیعہ اسلام تیزی سے پھیلا۔ اس سلسلے میں نمایاں ترین کردار ملتان کے  سید جمال الدین یوسف شاہ گردیزی اور اچ شریف کے سید جلال الدین حیدر نقوی کے  گدی نشینوں   اور جھنگ کے سید محب عالم شاہ جیونہ اور راجن پور کے سید محمد راجو شاہ بخاری نے ادا کیا۔ البتہ پنجاب میں انگریزوں کی آمد تک شیعہ ہمیشہ حکومتی عتاب کا شکار رہے، جس کی شدت میں کمی بیشی ہوتی رہی۔

مغلیہ دور

بابر اور ہمایوں ایرانی صفوی بادشاہوں کے قریب ہونے کی وجہ سے شیعہ سنی تعصب سے پاک تھے۔ "تزک بابری"[8] میں بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کے لیے وصیت کی تھی کہ:۔

٭ تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی رسوم کا خیال رکھتے ہوئے اور رعایت کے بغیر سب لوگوں کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔

٭ شیعہ سنی اختلافات کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہو، کیونکہ ان سے اسلام کمزور ہوجائے گا۔

آگرہ میں قاضی سید نور اللہ شوشتری ؒکا مزار

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بابر سے لے کر شاہ جہاں تک مغلوں کا طرزِ حکومت کم و بیش اسی حکمت عملی کے محور پر رہا۔  جب اورنگ زیب نے اس  حکمت عملی سے روگردانی کی تو نتیجہ شورش اور ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں نکلا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلیہ اقتدار تیزی سے مٹتا چلا گیا۔ شروع شروع میں اکبر کا مذہبی رویہ خاصا سخت گیر رہا۔ اس نے بااثر عالم شیخ عبدالنبی کے مشورے پر حضرت امیر خسرو کے پہلو میں دفن ایک شیعہ عالم میر مرتضی شیرازی کی قبر اکھڑوا دی۔ اکبر کے زمانے میں بعض سنی  علما کی سفارش پر متعدد شیعہ رہنما قتل بھی ہوئے، جن میں لاہور کےملا احمد ٹھٹھوی[9]  خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔بعد ازاں یہی اکبر مذہبی و فرقہ وارانہ لحاظ سے غیر جانبدار ہو گیا، چنانچہ اسی دور میں ہمیں شاہ حسین، گرو نانک اور بھگت کبیر ملتے ہیں۔ اکبر دور میں ایک شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوستری [10] نے ہر فقہ کے ماننے والے کے لیے اس کی فقہ کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے سبب بادشاہ کا اعتماد حاصل کر لیا۔اکبر نے نور اللہ شوستری صاحب کوقاضی القضاۃ   کا درجہ دیا۔  اس زمانے میں سنی علما میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی  نمایاں  علمی شخصیت تھے جن کو اکبر کے دربار میں عزت و احترام حاصل تھا۔   شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب "تکمیل الایمان"[11] اہل سنت کے بنیادی عقائد کے لیے دستاویز  کی حیثیت رکھتی ہے۔  اسی زمانے میں ایک اور شیعہ عالم میر یوسف علی استر  آبادی  اخباری روش  کے پیروتھے۔اخباری  شیعہ  بدلتے زمانے کے تقاضوں کے مطابق آیات و احادیث  کی روشنی میں عقل کے استعمال سے اجتہاد  کرنے والی اصولی روش کے خلاف تھے۔قاضی نور اللہ شوستری ؒنے شیعوں میں تنگ نظری  اور جمود کی اس لہر کے خلاف بھی کام کیا اور میر یوسف علی استر آبادی   کی الجھنوں کا جواب "رسالہ اسئلۃ یوسفیہ"  کے عنوان سے  کتاب لکھ کر دیا۔ اخباری دراصل شیعہ سلفی تھے، مگر شیعہ کتب میں عقل کے حق میں ملنے والی احادیث اور زمانے کے بدلتے تقاضوں کی بدولت یہ گروہ ختم ہو گیا۔ اکبر کی وفات کے بعد سیاسی وجوہات پر جہانگیر نے قاضی نور اللہ شوستری کو کوڑے لگانے کی سزا سنائی جس کے نتیجے میں ستر سال کی عمر میں انکا انتقال ہو گیا[12]۔ البتہ جہانگیر بھی اپنے والد کی طرح فرقہ وارانہ منافرت سے پاک تھا اور اس کا ثبوت اس دور میں شیعہ عوام کو ملنے والی آزادی[13] اور شیعہ دشمن عالم شیخ احمد سرہندی کا پابندسلاسل ہونا ہے[14]۔ شاہجہاں نے بھی شیعوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں برتا البتہ اورنگزیب نے اپنے بھائی داراشکوہ اور دکن کی شیعہ ریاست کے خلاف لشکر کشی کے لیے شیعہ سنی نفرت کو کامیابی سے استعمال کیا۔

ڈھاکہ کی تاریخی امام بارگاہ، حسینی دالان

شمالی ہند پر اورنگزیب عالمگیر کی حکومت کے زمانے میں  وادئ کرم میں افغانستان سے  طوری شیعہ قبائل کی آمد ہوئی جن کی تبلیغ کی وجہ سے بہت سے مقامی  بنگش اور اورکزئی پختون شیعہ اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ بہادری اور سوجھ بوجھ کے اعتبار سے پختون شیعہ  وادئ سندھ کے شیعوں میں سب سے آگے رہے ہیں۔  1717ء میں بنگال میں ایک نومسلم شیعہ نواب مرشدقلی خان کی حکومت قائم ہوئی جس نے حاجی شفیع اصفہانی نامی شیعہ تاجر کے ہاتھ اسلام قبول کیا تھا۔ اس دوران میں دہلی کی مغل حکومت کمزور ہو چکی تھی لہٰذا بنگال کے نواب اگرچہ کہنے کو مغل سلطنت کے ماتحت تھے لیکن امور حکومت کو چلانے میں مکمل آزاد تھے۔ مرشد قلی خان کے خاندان کی حکومت 1740ء میں ایک اور شیعہ نواب علی وردی خان افشار کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ افشار سلطنت کا خاتمہ 1757ء کی جنگ پلاسی میں انگریزوں کے ہاتھوں نواب سراج الدولہ کی شکست سے ہوا۔نواب سراج الدولہ ایک مذہبی شیعہ تھے اور انھوں نے اپنے دار الحکومت مرشد آباد میں ہندوستان کی سب سے بڑی امام بارگاہ "نظامت امام باڑہ" تعمیر کرائی جو اب بھی سیاحوں اور زائرین کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس دوران میں بنگال میں شیعہ اسلام متعارف ہوا اور قیام پاکستان کے وقت بنگال کی تقریباً پانچ فیصد آبادی ا س مسلک سے تعلق رکھتی تھی۔ آزادی کے وقت مرشد آباد ہندوستان کا حصہ قرار پایا، یہ شہر آج بھی بنگال میں شیعیت کا مرکز ہے۔ بنگال میں شیعہ سنی تعلقات مثالی رہے ہیں، البتہ 2015ء میں شیعوں پر بنگالی داعش نے دو حملے کیے[15][16]-

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے  شیعہ سنی نفرتوں کوبڑھایا اور ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز  دہلوی نے 1790ء میں شیعہ اعتقادات کے خلاف "تحفۃ اثنا عشریۃ"  نامی کتاب لکھی۔اس طرح  برصغیر میں شیعہ مخالف کتب لکھنے کے سلسلے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔

جنوبی ہندوستان میں شیعیت

دکن کی ریاستیں(1490ء –1687ء)

یہاں جنوبی ہندوستان میں شیعیت   کااجمالی تذکرہ بھی مناسب ہے۔1347ء   میں جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن کے سنی والی علا الدین بہمن نے دہلی سلطنت سے علیحدگی اختیار کر کے بہمنی سلطنت کو قائم کیا- 1421ء    میں تخت نشین ہونے والے احمد شاہ اول نے شیعہ مسلک اختیار کیا۔یہ سلطنت بعد میں بیجاپور، احمدنگر، گولکنڈہ، برار اور بیدر سلطنتوں میں بٹ گئی۔ اس دوران میں جنوبی ہندوستان میں شیعہ علما کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جن میں میر مومن، محمود گوان اور شیخ بہائی کے داماد محمد ابن خاتون آملی قابل ذکر ہیں۔میر مومن1581 ء میں گولکنڈہ آئے اور سلطان محمد قلی قطب شاہ نے آپ کو حیدرآباد شہر کی تعمیر کا کام سونپا۔آپ نے شہر کے مرکزمیں چار مینار نامی خوبصورت چوک بنوایا، جس کے قریب ایک خوبصورت جھیل میں دو ہاتھی اور دو شیر کی شکل کے فوارے تعمیر کرائے۔ اس کے علاوہ آپ نے شہر میں ایک بڑی جامع مسجد، ایک ہسپتال اور عزاداری کے لیے ایک عاشور خانہ تعمیر کرایا، جو برصغیر کا پہلا امام بارگاہ ہے۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا باقاعدہ شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، نیز آپ نے ہی پہلی بار اردو زبان میں مرثیہ لکھا۔ دکن  میں شیعہ اقتدار  کسی نہ کسی شکل میں 1687 ء   تک قائم رہا۔ 1636 ء  میں شاہجہاں نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے شہزادہ اورنگزیب کی قیادت میں دکن پر حملے کا آغاز کیا لیکن اس کو خاص کامیابی نہ ملی۔ باپ کی بیماری کے دوران میں اس کے تخت پر قبضہ کرنے اور بھائیوں کو قتل کرنے کے بعد اورنگزیب نے دوبارہ دکن پر حملوں کا آغاز کیا۔ یہ جنگیں 27 سال تک ہوتی رہیں اور باالآخر 1687 ء   میں اورنگزیب حیدرآباد شہر پر قابض ہوا۔اس نے شہر کے چوک میں نصب فواروں کو شرک قرار دے کر توڑ دیا اور دو دن تک شہر میں لوٹ مار ہوئی۔یہیں سے اس نے کوہ نور ہیرا بھی لوٹا۔ اس نے عزاداری اور شیعہ اذان پر پابندی لگا دی۔یہ پابندی پہلے نظام حیدرآباد قمر الدین خان کی وفات تک برقرار رہی۔

سلطنت خداداد میسور

1765ء میں  میسور کے ہندو راجا کے سپاہ سالار حیدر علی نے بغاوت کر کے  سلطنت خداداد   میسور قائم کی جو انگریزوں کے ساتھ مسلسل جنگوں کے نتیجے میں  1799ء میں  فتح علی ٹیپو کی شکست کے ساتھ ختم ہو گئی۔خود ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی صوفی مشرب سنی تھے[17] لیکن انہی کے دور میں  ایران سے آنے والے جنگی  گھوڑے پالنے والے  تاجروں اور شیعہ علما  کی بدولت شیعہ مسلک میسور میں متعارف ہوا اور  سرنگا پٹم کے قلعے میں عزاداری ہونے لگی  تھی[18]۔سلطنت خداداد   کے سپاہ سالار سید غفور شیعہ تھے اور آخری وقت میں سادات  کے باوفا  دستے کے ہمراہ سلطان کا دفاع کرتے ہوئے   شہید ہوئے۔ سرنگا پٹم کے اجڑنے کے بعد شہید ہونے والے  سادات کے خاندان  میسور شہر چلے گئے، جہاں 1812ء  میں اس علاقے کی پہلی امامبارگاہ "عاشور خانہ رشک بہشت" قائم ہوئی، جو آج بھی موجود ہے۔ ٹیپو سلطان  نے جہاں  خلفائے  راشدین کے نام پر  کرنسی کے سکے جاری کیے وہیں  بارہ ائمہؑ کے نام کے سکے بھی جاری کیے۔  اکبر اعظم کی طرح سلطان بھی سیکولر مسلمان تھے۔ انھوں نے مساجد کے ساتھ ساتھ مندر اور چرچ بھی بنوائے، غیر مسلموں کو ذمی قرار دینے  کی بجائے برابر کا شہری قرار  دیا[19]۔ انھوں نے جدید علوم کی سرپرستی کی، راکٹ پہلی بار سلطنت خداد میسور میں بنا تھا۔جس وقت ٹیپو سلطان انگریزوں کے ساتھ جنگوں میں مشغول تھے، اس وقت دہلی میں شاہ ولی اللہ کے  بیٹوں نے ان کی حمایت میں کوئی فتویٰ جاری نہ کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ جب انھوں نے اپنی مدد کے لیے سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ عبد الحمید اول کو خط لکھا تو خلیفہ نے ان کی مدد سے انکار کر دیا۔  فرانس کے نپولین  کی طرف سے  سلطان ؒکو لکھا گیا  خط مسقط میں انگریزی نمائندوں کے حوالے کر دیا گیا۔ سلطان امریکا کی  جنگ آزادی کی طرز پر فرانس کے ساتھ اتحاد کر کے ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔ اس خط کی اطلاع  ملنے پر ہی  ایسٹ انڈیا کمپنی نے حیدرآباد دکن کے حکمران  اور مرہٹوں کے ساتھ مل کر سلطان پر بھرپور حملے کی تیاری شروع کی تھی۔

ریاست حیدرآباد میں شیعیت

لکھنؤ کے عظیم اردو شاعر میر انیس 1871ء میں حیدرآباد دکن کے دورے پر، مرثیہ خوانی کرتے ہوئے

1757ءمیں بنگال کے شیعہ نواب سراج الدولہ کی شہادت کے بعد متعدد شیعہ علما اور ملازمین اودھ اوردکن چلے گئے-اس طرح ریاست حیدرآباد میں دوبارہ شیعہ مسلک کی رسومات پر عمل ہونے لگا۔ان مہاجرین میں ایک شیعہ عالم مہدی اقبال نے اپنے گھر کو عاشور خانہ قرار دیا اور یوں گھروں میں عزاداری کا سلسلہ جاری ہوا۔ریاست حیدرآباد میں شیعوں کو مکمل آزادی 1860ء کی دہائی میں میر محبوب علی خان کے دور میں نصیب ہوئی۔اس دوران میں عراق سے آیت اللہ سید نیاز حسین حسینی حیدرآباد آئے اور شیعہ مساجد میں اذان ہونے لگی۔1871ء میں میر انیس حیدرآباد آ ئے اور مرثیہ پڑھا۔

ساتویں نظام میر عثمان علی خان نے بھی شیعوں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا۔ انھوں نے حیدرآباد میں ایک جدید تعلیمی ادارہ "عثمانیہ یونیورسٹی " قائم کیا۔معروف شیعہ عالم علامہ رشید ترابی نے جدید فلسفے کی تعلیم اسی درسگاہ سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے حیدرآباد میں اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لیے ایک امام بارگاہ بنام "عاشور خانہ زہرا" تعمیر کرائی۔ وہ علامہ رشید ترابی کی مجالس باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ لکھنؤمیں شیعہ مخالف فسادات کے دوران میر عثمان علی خان نے وائسرائے کو خط لکھ کر اقدام کرنے کے لیے زور ڈالالیکن انگریز حکومت نے ان کی ایک نہ سنی[20]۔میر عثمان علی خان نے حیدرآباد میں مدح صحابہ جلوس اور تبرا پر سختی سے پابندی لگائی[21]۔قیام پاکستان اور بعد میں ہندوستانی فوج کی طرف سے حیدرآباد پر حملے میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد بہت سے شیعہ پاکستان آ گئے۔

تالپور سلطنت

1783ء  میں سندھ میں بلوچ شیعہ سردار میر فتح علی شاہ تالپور نے تالپور سلطنت کوقائم کیا،  جس نے مرہٹوں اور سکھوں کے خلاف کامیابی سے سندھ کا دفاع کیا۔ میر خاندان نے  متعدد مساجد اور امام بارگاہیں قائم کیں۔  یہ سلطنت 1843 ء   میں انگریزوں کے  ساتھ پے در پے جنگوں  کے  نتیجے میں ختم ہو گئی۔ البتہ خیرپور کے میر علی مراد انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کے نتیجے میں ایک چھوٹی سی ریاست بچانے میں کامیاب ہو گئے جس کو 1953ء  میں باقی ریاستوں کی طرح پاکستان میں ضم کر لیا گیا۔سندھ  میں پختہ صوفی روایات کی وجہ سے شیعہ سنی تعلقات مثالی رہے ہیں۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست نے  عزاداری کے لیے مرثیے بھی لکھے۔

سلطنتِ اودھ

دہلی کی مغلیہ سلطنت  کی شکست و ریخت کے دوران میں جو نیم آزاد اور خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سے ایک ریاست اودھ (1722ء تا 1857ء)بھی تھی۔ اودھ کی ریاست بھی دہلی کی بالادستی تسلیم کرتی تھی اور اس کے کئی حکمران مغل بادشاہ  کے عہدیدار تھے۔ آصف الدولہ کے زمانے (1775ء تا 1797ء)  میں ایران  و عراق سے اصولی شیعہ علما کی آمد ہوئی جنھوں نے لکھنؤ میں علمی مرکز قائم کیا۔ آصف الدولہ کے وزیرِ اعظم حسن رضا خان نے نہ صرف شیعہ علما کی خصوصی سرپرستی کی بلکہ عراق میں نجف اور کربلا کی دیکھ بھال کے لیے بھی اودھی خزانے سے لگ بھگ دس لاکھ روپے سالانہ بجھوائے جانے لگے جبکہ پانچ لاکھ کے صرفے سے دریائے فرات سے نہرِ ہندی نکلوائی گئی جس نے نجف تا کربلا کا علاقہ سرسبز کر دیا۔

سکھ دور

پنجاب میں سکھوں کے دور میں تمام مسلمانوں بشمول شیعوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے مجالس اور عزاداری کا سلسلہ بھی متاثر ہوا  تھا البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اس انتقام کی شدت میں کمی آتی گئی تھی  جس کی ایک وجہ شیعوں کی جانب سے عزاداری پر پابندی کی کوشش کے خلاف مزاحمت تھی۔ اس زمانے میں پیر سید لال شاہ نے پنجاب بھر میں  عزاداری کی بقا کے لیے جدوجہد کی۔رنجیت سنگھ نے سکھ سلطنت قائم کی تو اس پچاس سالہ دور (1799 ء  – 1849 ء  ) میں انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ رکا اور لاہور کے شیعہ  فقیر خاندان اور  جھنگ کے شاہ جیونہ  خاندان نے سیکولر سکھ حکومت میں اثر و رسوخ پیدا کر لیا۔

شیعہ اور جدیدیت

انہی دنوں کچھ لوگوں نے ہندوستان کی علمی روایت کو جدید علمی انکشافات سے جوڑنے کی کوشش کی۔ بزرگ  شیعہ عالم علامہ  تفضل حسین کشمیری نے آئزک نیوٹن کی کتاب “Principia”کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اودھ کے سرکاری افسر  مرزا ابو طالب خان نے 1798ءسے 1803ءتک یورپ کا طویل دورہ کیا اور مغربی معاشرے کا  مفصل  مطالعہ  اپنے سفر نامے"مسیر طالبی فی بلاد افرنجی" میں پیش کیا۔ اس تاریخی دستاویز کا انگریزی ترجمہ "Travels of Mirza Abu Taleb Khan"کے عنوان سے میسر ہے۔تاہم سیاسی عدم استحکام کے اس دور میں ہندوستان میں علمی ارتقا کی رفتار تیز نہ ہو سکی۔

1857ءکی جنگ آزادی اور دہلی اردو اخبار

جنگ آزادی کے آغاز کے بعد 17 مئی 1857ء  کے شمارے میں  مولانا محمد باقر دہلوی نے تاریخ کے ان  طاقتور  ظالموں کی نابودی کا ذکر کیا، جن کو شکست دینا نا ممکن سمجھا جاتا تھا۔اس شمارے میں درج عربی کے خطبے میں رسولؐ اور ان کی آل ؑکے ساتھ ساتھ صحابہؓ پر بھی درود و سلام بھیجا گیا ہے۔

1857ءکی جنگ آزادی میں ہندوستان کے سب طبقات نے مذہب ومسلک سے بالاتر ہو کر کردار ادا کیا لیکن کچھ لوگوں کا کردار غیر معمولی ہے۔ ایسا ہی ایک روشن کردار، اردو صحافت کے بانی  شہید مولوی سید محمد باقر دہلوی ( 1790ء۔ 1857ء) کا ہے، جو دہلی کے شیعہ علما کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔وہ بدلتے ہوئے زمانے میں  ذرائع ابلاغ کی افادیت  کو سمجھ گئے۔ 1836 ء کے آس پاس انھوں نے اپنا  چھاپہ خانہ قائم  کیا اور  1837ء میں اردو کے اخبار  ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کا آغاز کیا۔ آگے چل کر اس اخبار نے بہت اہم کردار ادا کیا-اردو اخبار پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جو دربار شاہی سے لے کر کمپنی کی خبروں تک اور قومی و بین الاقوامی خبریں بھی شائع کررہا تھا۔ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے پہلے صفحہ پر ’’ حضوروالا‘‘  کے عنوان کے تحت مغل بادشاہ وشہزادوں کی خبروں کے ساتھ قلعۂ معلی کی نقل و حرکات اور ’’ صاحب کلاں ‘‘ عنوان کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں چھپتی تھیں۔ اخبار میں مذہبی مضامین کے ساتھ ادبی گوشہ بھی ہوتا تھا جس میں مومن، ذوق،    غالب،   بہادرشاہ ظفر،   زینت محل  اور دیگر شعرا کا کلام چھپتا۔ وہ ہندوستان میں جدید تعلیم کے فروغ کی اہمیت پر بھی زور دیا کرتے تھے۔

درگاہ پنجہ شریف دہلی کے قریب ہی ان کی تعمیر کردہ امام بارگاہ تھی جسے" آزاد منزل "کے نام سے جانا جاتاتھا۔انھوں نے اکتوبر 1843ء میں ’’مظہر الحق ‘‘کے نام سے بھی ایک اردو اخبار نکالاتھا، جس میں شیعہ مسلک سے مخصوص مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے  جن میں غلامی کے خلاف شیعہ نظریہ کی وضاحت کی جاتی تھی ۔

1857ءمیں انھوں نے  فکری قیادت کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اخبار کو آزاد ئ ہند کے لیے وقف کردیاتھا[22]۔ 1857ء کی بغاوت شروع ہونے  کے کچھ عرصہ بعد  ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کا نام بدل کر ’’اخبار الظفر‘‘ کر دیا گیا تاکہ  تحریک آزادی کو بادشاہ  بہادر شاہ ظفر اور لال قلعہ دہلی کی شکل میں ایک مرکز میسر ہو۔اخبار میں دہلی، میرٹھ، سہارنپور، انبالہ اور دیگر علاقوں کی سیاسی و ثقافتی خبریں شایع ہونے لگیں۔ انھوں نے سہارنپور، انبالہ، جھجر، کٹک، لاہور، ملتان، کلکتہ، بھوپال، میسور، جھانسی  اورمیرٹھ جیسے علاقوں کی خبریں اور حالات معلوم  کر کے شائع کیے۔

دہلی اردو اخبار کا ایک شمارہ

معلوم ہوتا ہے کہ  مولوی محمد باقرکا  صحافتی  نیٹ ورک اتنا وسیع تھاکہ دوردراز کے شہروں کی خبریں انھیں بروقت مل جاتی تھیں۔ ہوسکتاہے وہ ان خبروں کے حصول کے لیے  باغی فوجی دستوں اورانقلابی  نظم  کا سہارا لیتے ہوں۔ کیونکہ اس کے بغیر دور دراز کے علاقوں سے صحیح حالات کا علم ہونا ممکن نہیں تھا۔   تحریک آزادی کے عروج  کے وقت  جب دہلی شہر میں ہندوؤں کے خلاف جہاد کے اعلان پر مبنی  اشتہار  لگا ئے  گئے جن میں انگریزوں کو اہل کتاب بھائی کہا گیا تھا،    تو مولوی محمد باقر   ؒ نے تحریک آزادی کی صفوں میں  انتشار اور داخلی جنگ پیدا کرنے کی اس سازش  کو پہچان لیا اور  اپنے اخبار میں اس سازش کے خلاف لکھا۔ آپ نے خصوصی طور پر آزادی کے لیے لڑنے والے  فوجیوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی۔ انگریزوں کے ذرائع ابلاغ  نے لکھنا شروع کیا  کہ کارتوسوں پر  سور کی چربی  استعمال نہیں ہوئی  ہے۔   اس کا مقصد مسلمانوں سپاہیوں کو  یہ  کارتوس  اپنے ہم وطن ہندوؤں کے خلاف استعمال  کرنے کے لیے راضی کرنا تھا۔    مولوی محمد باقر نے اپنے اخبار میں لکھا کہ آج اگر ہندوؤں کی باری ہے تو کل ہماری باری ہو گی، انھوں نے مزید لکھا کہ ہندو تو مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ انگریزوں کے خلاف  لڑ رہے ہیں۔   انھوں نے رئیسوں اور راجاؤں کے لیے لکھا کہ انھیں اپنے ہم وطن عوام کے خلاف انگریزوں کا ساتھ نہیں دینا چاہئیے اور یاد رکھنا چاہئیے کہ انگریز دھوکے باز ہیں۔ انھوں نے ہم وطنوں میں اتحاد پر زور دینے کے لیے  شیخ سعدی کے مشہور اشعار کا بھی حوالہ دیا:۔

بنی آدم اعضای یک پیکرند

کہ در آفرينش ز یک گوہرند

عید الاضحیٰ آئی تو مغل شہنشاہ  بہادر شاہ ظفر نے گائے کی قربانی پر پابندی لگائی تاکہ انگریز اس سے فائدہ اٹھا کر ہندو مسلم فساد نہ کروا  سکیں، کیونکہ گائے ہندوؤں کے ہاں مقدس ہے۔ البتہ معلومات، خبروں، قیادت اور نظم و ضبط کی اس جنگ میں انگریز جیت گئے۔     چار ماہ بعد دہلی پر انگریزوں کا دوبارہ قبضہ ہو گیا تو  مولوی محمد باقر پر  ایک انگریز کے قتل کا  مقدمہ چلا کر گولی مار  دی گئی، جس کو دہلی میں ہجوم  نے پیٹ کر ہلاک کر ڈالا تھا۔   یوں یہ تحریک آزادی  ہند کے پہلے شہید صحافی بن گئے۔ ان کے بیٹے مولانا محمد حسین آزاد لاہور چلے گئے اور وہ  بھی اردو کے مایہ ناز ادیب ہوئے۔

انگریز دور

انگریزوں کی طرف سے بنگال میں مغلوں کے شیعہ گورنر، سلطنت اودھ اور تالپور سلطنت کا خاتمہ شیعیت کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ علامہ  سید محمد باقر دہلوی سمیت متعدد شیعہ علما  1857 ء کی جنگ آزادی میں کردار ادا کرنے کی وجہ سے توپوں کے آگے باندھ کر شہید کر دیے گئے۔  1849 ء  میں سکھ سلطنت کے زوال میں پنجاب کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اور اس کے آٹھ سال بعد ہونے والی جنگ آزادی میں بھی پنجاب پر سکون رہا تھا۔  اس وجہ سے پنجاب میں مسلمانوں کو انگریز حکومت کی طرف سے نوازا گیا۔ اس طرح پنجاب میں پہلی بار شیعوں کو حکومتی  مداخلت  سے نجات ملی اور انھوں نے آزادی سے اپنی رسومات بجا لانا شروع کیں۔پنجاب بھر میں متعدد امامبارگاہوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس دوران میں افغانستان سے نواب علی رضا خان قزلباش نے لاہور کی طرف ہجرت کی اور  موچی دروازہ لاہور میں علامہ سید ابو القاسم الحائری کی زیر سرپرستی ایک شیعہ مدرسہ قائم کیا۔اسی دوران میں لاہور میں عزاداری کو عروج  ملا۔ قزلباش خاندان نے پشاور میں بھی عزاداری کو فروغ دیا۔انگریز دور میں اہم سماجی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

1. اپنی ایجاد کے چار سو سال بعد چھاپہ خانہ (پرنٹنگ پریس) ہندوستان پہنچ چکا تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان میں جدید تعلیمی نظام تو نافذ کیا کیونکہ اس کے بغیر علمی اور صنعتی دریافتوں پر مبنی قدرتمند ریاست کو چلانا ممکن نہ تھا، لیکن انھوں نے تعلیمی بجٹ نہایت کم رکھا اور بہت کم جدید یونیورسٹیاں قائم کیں۔لہٰذا چھاپہ خانہ ہندوستان میں  عوامی سطح پر سائنسی مکالمے کے آغاز کا باعث نہ بن سکا۔ چھاپہ خانہ کتنی بڑی اور گہری تبدیلی تھا، اس کا اندازہ دس سال قبل فیس بک، گوگل اور یو ٹیوب کے عام ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانے میں فرق کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ تحریریں لکھنا اور نشر کرنا سستا اور عام ہو گیا۔نیز جس طرح آج کل سوشل میڈیا کو بہت سے لوگوں نے کمائی کا ذریعہ بنایا ہے، اسی طرح چھاپہ خانوں کی توجہ بھی ایسا مواد نشر کرنے پر زیادہ ہوئی جو بک سکتا تھا۔ جنتریاں، معجزات، کرامات، ٹوٹکے ہی نہیں بلکہ نفرت انگیز پمفلٹ اور کتابیں بھی چھپنے لگیں۔

2.ریل گاڑی اور ٹیلی گرام نے مختلف علاقوں میں رہنے والے ایک مکتب فکر کے افراد کو آپس میں رابطہ کرنے اور مل کر اقدام اٹھانے کے قابل بنا دیا۔ بہت سی تنظیمیں بن گئیں، بہت سے مدراس بن گئے۔ہر محلے میں انجمن سازی شروع ہوئی۔ ہندوؤں میں بھی اس زمانے میں شدھی تحریک جیسی جماعتیں قائم ہونے لگیں۔ مسلم مسیحی، مسلم ہندو مناظرے بھی عام ہو گئے۔

3.انگریز وں نے ہندوستان کو ایک مستقل قانون دیا۔ اب عدالتوں میں اس کے مطابق فیصلے ہوتے تھے۔ اس سے پہلے ہندوستان میں کوئی مستقل قانون نہیں تھا۔ علما قاضی ہوتے اور ہر مقدمے میں اپنی فہم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ایسے میں اکثر کسی مجرم کو کوئی شرعی حیلہ لگا کر چھوڑ نا یا بے گناہ کو سزا دینا ممکن تھا۔علما کے پاس قرون وسطیٰ کے  یورپ کے  پوپ جیسے اختیارات تھے، وہ اپنے علاقے میں بادشاہ کے بعد سب سے زیادہ طاقتور ہوتے۔ اسی طرح جب انگریز جدید ادویات لائے  اور ہسپتال قائم کیے تو وہ علما جو حکیم بن کر یا دم کر کے مریضوں کا علاج کیا  کرتے، ڈاکٹر زکے بہتر طریقہ ء علاج کی وجہ سے جزوی طور پر  گاہکوں سے محروم ہو گئے ۔ یہی معاملہ جدید تعلیمی اداروں کا تھا:اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہونے سے  جدید علوم  ہندوستان آ گئے۔ علما کا اقتدار چھن گیا تو وہ انگریزوں کے دشمن ہو گئے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے فتاویٰ سے ظاہر ہے کہ انھیں انگریزوں سے یہ اختلاف تھا کہ عدالتوں میں مقدمات کے فیصلوں کا اختیار مذہبی علما کے پاس نہیں رہا تھا۔  انھیں عوام کو وبائی بیماریوں سے نجات دلانے، ان کی غربت دور کرنے یا ان کو جدید علمی پیشرفت سے آشنا کروانے کی کوئی فکر نہ تھی۔ انگریزوں سے انکا اختلاف اپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے تھا۔    علما کی دشمنی  انگریزوں سے نہیں بلکہ جدت اور پیشرفت سے تھی۔

4. راجے مہاراجاؤں کا زمانہ جزوی طور پر ختم ہونے سے مدارس و علما کی معاش کا انحصار عوامی چندے پر ہونے لگا۔ جو عالم کوئی نیا رواج  قائم کرتا، کچھ لوگ اس کو چندہ دینے لگتے۔ پھر وہ دوسروں کو بدعتی، جہنمی، کافر، گستاخ،   اسلام دشمن وغیرہ قرار دے کر اپنے حلقۂ اثر کو بڑھاتا۔ سنیوں میں علمائے فرنگی محل کی جگہ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور نیچری (دین کی سائنسی تفسیر کرنے والے) آ گئے۔مولانا غلام احمد قادیانی نے دو قدم آگے بڑھ کر نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنی کتابوں کو وحی قرار دیا۔ شیعوں میں انیس و غالب اور مجتہدین کی بجائے خود ساختہ قصہ  گو  ذاکرین اور گرما گرم مناظرانہ بحثوں والے خطبا منظر عام پر آ گئے۔محرم میں زنجیر زنی اور ذو الجناح کا رواج اسی دور میں  شروع ہوا۔

5.انگریزوں نے امریکا اور افریقہ میں اپنے تجربات کی روشنی میں ہندوستان کی دولت لوٹنے کے لیے طرح طرح کی پابندیاں لگائیں جن کی وجہ سے ہندوستان کا کام برطانیہ کی صنعت کو خام مال فراہم کرنا رہ گیا۔  ہندوستان میں پہلے سے موجود صنعتوں کو بھی بزور قوت ختم کیا، مثلا کپڑے کاتنے والوں کی انگلیاں کاٹی گئیں۔ ہندوستان برطانوی کمپنیوں کی منڈی بن گیا اور  غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ غربت میں پسنے والے کے پاس اتنا وقت اور توانائی نہیں تھی کہ کتاب پڑھ کر غور و فکر کر سکے۔ غربت نے عام آدمی کو منطقی اور تجربی علوم  کی بجائے پروپیگنڈے پر مشتمل اخباروں، افواہوں اور اشتہارات کا چارہ بنا دیا۔غربت کا ہی ایک نتیجہ یہ نکلا کہ عالم اسلام کی تمام ناکامیوں کو مسلم سماج کی اقلیت، یعنی اہل تشیع، کے ذمے لگایا جانے لگا۔ معاشی بحران میں کمزور گروہ کو ساری ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دینا عام ہوتا ہے، صاحبان اقتدار کے کاموں کی ذمہ داری کسی چالاک "ابن سبا " یا "یہودی جرمن"پر ڈال دی جاتی ہے۔

6.اس دور میں عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے جعلی کرامات اور معجزات بھی پھیلائے گئے۔ اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن چھاپہ خانے  کی طاقت اور مقابلہ بازی کی فضا میں ان باتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

تحریک پاکستان میں شیعوں کا کردار

فائل:Nikahnama-jinah.png
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے نکاح نامے کا عکس جس میں  ان کا مسلک "اثنا عشری "لکھا  ہے۔ دلہن محترمہ رتن بائی ؒ  کے وکیل علامہ ابو الحسن نجفی ؒ  تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح

یوں تو تحریک پاکستان میں سبھی اہل تشیع نے حصہ لیا لیکن کچھ شخصیات ایسی ہیں جن کے بغیر پاکستان کی تاریخ نامکمل رہتی ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح جنہیں قائد اعظم اور بابائے قوم کے لقب سے نوازا گیا، 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ کے اسماعیلی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بعد میں آپ نے اثنا عشری مکتب کو قبول کیا [23]۔[24][25] دوسری اہم ترین شخصیت سر آغا خان سوم کی ہے جو 1906ء سے 1912ء تک مسلم لیگ کے پہلے صدر رہے۔1906ء میں انھوں نے 35 نامور مسلمانوں کے ایک ممتاز وفد کی شملہ میں قیادت کی اور برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے ایک یادداشت پیش کی۔ اپنے تاریخی خطاب میں انھوں نے برطانوی وائسرائے پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم کے طور پر تسلیم کیا جائے اور ان کی تکریم کی جائے نیز انھیں لوکل باڈیز اور قانون ساز کونسل دونوں میں نمائندگی دی جائے۔ 1930ء اور1931ء میں گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ سر آغا خان کولندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے لیے مسلمانوں کے ترجمان کے طور پر مدعو کیا گیا جہاں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے سر آغا خان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے کانفرنس کے روبرو یہ مطالبات آغا خان کی رہنمائی میں پیش کیے ہیں جنہیں ہم سب دل سے سراہتے ہیں اور برصغیر کے مسلمان ان سے محبت کرتے ہیں ‘‘۔ تیسری اہم ترین شخصیت راجا امیر حسن خان آف ریاست محمود آباد (جس کی آمدنی کا اندازہ ان دنوں ماہانہ 40لاکھ روپیہ تھا) کی بھر پور مالی مدد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند امیر احمد خان راجا بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سنہ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس اوربعدکی رابطہ عوام مہم کا خرچہ راجا صاحب نے اٹھایا۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر رہے نیز اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی بھی تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے۔ حبیب بینک والے سیٹھ محمد علی نے بھی متعدد موقعوں پر تحریک پاکستان کی مالی مدد کی 1948ء میں نو زائیدہ ریاست کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے 80 ملین روپے کا چیک قائد اعظم کو دیا۔ پی آئی اے کی بنیاد رکھنے والے مرزا احمد اصفہانی ؛مسلم کمرشل بینک کے بانی سر آدم جی؛ راجا غضنفر علی خان اور نواب فتح علی خان قزلباش تک شیعہ رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح خواتین میں سے فاطمہ جناح مادر ملت، ملکۂ اوَدھ، صغریٰ بیگم، لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر پاکستان کا پرچم لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمہ صغریٰ کے نام قابل ذکر ہیں۔

1947ء میں جن علاقوں میں پاکستان بنا وہاں صوبہ سرحد کو چھوڑ کر ہر جگہ سنی بریلوی مکتبہِ فکر کے پیروکاروں کی اکثریت تھی۔ چونکہ بریلوی مسلک میں تصوف کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور تصوف کا روحانی سلسلہ حضرت علی سے شروع ہوتا ہے۔ لہذا بریلویوں اور اہلِ تشیع کے درمیان میں اختلاف کے باوجود رواداری کی فضا ہی رہی ہے۔

برصغیر میں عزاداری کی روایت

برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی[26]۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری "تذکر" کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا- مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کو بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا، لکھتا ہے:۔

"سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے، تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریباً 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے"[27]۔

کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:۔

"محرم کے دوران میں شیعہ فرقے کے لوگ ماتم کرتے ہیں- ان دنوں میں مرد اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں اور دن میں فاقے کرتے ہیں۔ عورتیں مرثیے پڑھتی ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتی ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں کہ جنھیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کو ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے"[28]۔

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[29]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[30]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[31]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انھوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [32]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ گوالیار ایک ہندؤ ریاست میں محرم عظیم الشان نمائش کے ساتھ منایا جاتا تھا[33]۔ سیاحوں نے ہندوؤں کو ریاست اودھ میں سبز لباس میں حسین کے فقیر بنے دیکھا۔ ایک ہندی اخبار نے جولائی 1895ء میں خبر دی۔' محرم بنارس میں مکمل طور پہ امن و امان سے گذرا۔جب ہندؤ ہی سب سے زیادہ اس کے منانے والے تھے تو پھر خوف کیسا ہونا تھا؟[34] مرہٹہ راجا شیو پرشاد نے ایک خصوصی تعزیہ بہانے کے لیے تیار کیا تھا۔ محرم کے دسویں روز، آدمی جتنا بلند قامت روشن کاغذوں سے بنا تعزیہ نما مقبرہ اور اور اس سے لٹکی زنجیریں جلوس میں دفنانے کے لیے لائی جاتی تھیں، مسلم خادم سوز خوانی کرتے، جبکہ شیو پرشاد اور اس کے بیٹے ننگے پاؤں اور ننگے سر احترام میں ان کے پیچھے چلتے تھے[35]۔

ہندوؤں میں ایک گروہ حسینی براہمن بھی کہلاتا ہے جن کے مطابق ان کے آبا و اجداد میدان کربلا میں امام حسین ابن علی کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے اور جاں بحق ہوئے۔ یہ گروہ باقاعدگی سے کربلا کی یاد مناتا ہے۔ ہندوستان کے سابق رجواڑوں میں بھی ہندو حضرات کے یہاں امام حسین علیہ السلام سے عقیدت اور عزاداری کی تاریخی روایات ملتی ہیں جس میں راجستھان، گوالیار، مدھیہ پردیش، اندھرا پردیش[36] قابل ذکر ہیں۔

پرانے لاہور میں عزاداری کا نقشہ

بیسویں صدی کے ادیب، مولوی نور احمد چشتی،   نے لاہور کی تہذیب کے بارے میں  اپنی کتاب ”یادگارِ چشتی“   (سنِ تصنیف  1859ء) میں  اس صدی  کے لاہور میں عزاداری کا نقشہ  بھی پیش کیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

لاہور میں عزاداری، سال 1857

” اہل اسلام کا سالِ نو ماہِ غم، یعنی محرم، جس کو پنجابی زبان میں ”دہے “ کہتے ہیں، سے شروع ہوتا ہے۔ یہ مہینا ہمارے نزدیک بہت غم و الم کا ہے کیوں کہ اس میں جناب حضرت امام حسین سید الشہداء رضی اللہ عنہ نے مع اپنے وابستگان کے، جو جملہ بہتر تن ایک نسل کے تھے، میدان کربلا میں شربتِ شہادت پیا اور یہ جنگ یزید ِ پلید سے ہوا“[37]۔

”اول محرم سے دہم محرم تک ہر رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں اور مرثیہ خوان اور سامعین کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور مرثیہ خوان کو کچھ نقد اور دستاریں بھی دیتے ہیں۔ اس مرثیہ خوانی کا نام ”مجلس“ ہے جو دوقسم کی ہوتی ہے: ایک سنی کی، ایک شیعہ کی۔

شیعہ کی مجلس کا دستور یہ ہے کہ وہ ایک بڑے مکان میں فرش مکلف بچھاتے ہیں اور سائبان بھی تانتے ہیں اور شمعدانِ  فانوسِ قندیل روشن  کرتے ہیں۔ اور ایک منبرِ سیاہ رنگ بچھاتے ہیں اور ایک تکیہ اور مسند بھی بیچ میں رکھتے ہیں۔ اور تکیے پر پھولوں کے سہرے ادب کے واسطے رکھتے ہیں۔ اور تمام رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں۔ مرثیہ خوان تین تین، چار چار آدمی مل کر مرثیہ پڑھتے ہیں۔ اور مرثیہ خوانی کو مرثیہ خوانوں کی چوکی کہتے ہیں۔ چونکہ شہادت جناب امام حسین کی واقعہٴ پر غم ہے، لہذا جب مرثیہ خوانی ہوتی ہے تو ہر کہ و مہ گریہ و بکا کرتا ہے۔ اور اہلِ شیعہ پگڑین اتار کے ماتم کرتے ہیں اور تبرے کہتے ہیں۔

اور سنی لوگ بھی اکثر عشرہ اور مجلس کرتے ہیں اور مجلس کو شب کہتے ہیں۔ اس میں سب رسمیں برابر ہیں مگر یہ لوگ منبر نہیں رکھتے اور تبرا نہیں بولتے۔

شیعہ لوگوں میں، متصل منبر کے، شدے (علم) بھی رکھتے ہیں۔ اور شدے سے یہ مراد ہے کہ ایک بانس پر بہت اچھے اچھے کپڑے باندھتے ہیں۔ اور بعض بانسوں پر کمان باندھ کر ساتھ اس کے تلواریں لٹکاتے ہیں۔ اور منبر پر گاہ گاہ ایک ان کا فاضل آدمی بیٹھ کر وقائع حضرت کے نثر میں پڑھتا ہے اور مرثیہ نظم میں۔ اور مرثیے کی یہ رسم ہے کہ جب مرثیہ خوان آتے ہیں تو مسند پر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں ”فاتحہ“۔ پھر سب حاضرینِ مجلس ہاتھ کھڑے کر کے درود حضرتِ سید الشہداء پر پہنچاتے ہیں۔ پھر مرثیہ خوانی ہوتی ہے۔ سب لوگ سن کر روتے ہیں اور اگر بہت غم ہو تو ماتم کے واسطے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک آدمی کہتا ہے”ماتمِ حسین“۔ پھر سب شیعہ لوگ سینہ زنی کرتے ہیں اور ”حسین حسین حسین حسین“ بولتے ہیں۔بعد پاؤ گھنٹے کے ایک شخص کہتا ہے ”ایک نعرہٴ حیدری!“ پھر سب کہتے ہیں: ”یا علی“ اور ماتم بلند ہوتا ہے۔ پھر مرثیہ خوانی ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح ایک دو دفعہ ماتم کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور رات بھر مرثیہ خوانی ہوتی رہتی ہے“[38]۔

سلطنت اودھ میں عزاداری

برصغیر میں مسلم تہذیب نوابان اودھ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ لکھنؤ کی عزاداری کے بارے میں عبد الحلیم شرر اپنی کتاب ”گذشتہ لکھنؤ“ میں یوں منظر کشی کرتے ہیں:۔

”محرم میں اور اکثر مذہبی عبادتوں کے ایام میں لکھنؤ کے گلی کوچوں میں تمام گھروں سے پر سوز و گداز تانوں اور دلکش نغموں کی عجیب حیرت انگیز صدائیں بلند ہوتی تھیں اور کوئی مقام نہیں ہوتا تھا جہاں یہ سماں نہ بندھاہو۔ آپ جس گلی میں کھڑے ہو کے سننے لگئے، ایسی دلکش آوازیں اور ایسا مست و بے خود کرنے والا نغمہ سننے میں آ جائے گا کہ آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ ہندوؤں اور بعض خاص خاص سنیوں کے مکانوں میں تو خاموشی ہوتی تھی، باقی جدھر کان لگائیے نوحہ خوانی کے قیامت خیز نغموں ہی کی آوازیں آتی ہوتی تھیں۔تعزیہ داری چونکہ نوحہ خوانی کا بہانہ ہے اس لیے سنی اور شیعہ دونوں گروہوں کے گھروں میں نوحہ خوانی کے شوق میں تعزیہ داری ہونے لگی اور سنی مسلمان ہی نہیں، ہزارہا ہندو بھی تعزیہ داری اختیار کر کے نوحہ خوانی کرنے لگے“[39]۔

”مجلس کی نشست کی شان یہ تھی کہ لکڑی کا ایک ممبر جس میں سات آٹھ زینے ہوتے، دالان یا کمرے کے ایک جانب رکھا ہوتا اور لوگ چاروں طرف دیوار کے برابر پر تکلف فرش پر بیٹھتے۔ اور اگر مجمع زیادہ ہوا تو بیچ کی جگہ بھی بھر جاتی۔ جب کافی آدمی جمع ہو جاتے تو ذاکر صاحب ممبر پر رونق افروز ہو کر پہلے ہاتھ اٹھا کر کہتے، "فاتحہ“۔ ساتھ ہی تمام حاضرین ہاتھ اٹھا کر چپکے چپکے سورہ فاتحہ پڑھ لیتے۔ اس کے بعد اگر وہ حدیث خوان یا واقعہ خوان ہوتے تو کتاب کھول کر بیان کرنا شروع کرتے اور اگر مرثیہ خوان ہوتے تو مرثیے کے اوراق ہاتھ میں لے کر مرثیہ سنانے لگتے۔ مجتہدوں اور حدیث خوانوں کے بیان کو لوگ خاموشی اور ادب سے سنتے اور رقت کے موقعوں پر زار و قطار روتے۔ مگر مرثیوں کے سنتے وقت مجمع حاضرین سے، بجز رقت کے بندوں کے جبکہ رونے سے فرصت نہیں ملتی، برابر صدائے آفرین و مرحبا بلند ہوتی رہتی تھی۔سوز خوان ممبر پر نہیں بیٹھتے بلکہ لوگوں کے بیچ میں ایک جانب بیٹھ کر نوحے اور مرثیے سناتے اور اکثر داد بھی پاتے تھے۔

نوابی دور میں مجلس عزا کی عکاسی

اکثر مجلسوں میں مختلف ذاکر یکے بعد دیگرے پڑھتے اور عموما حدیث خوانی کے بعد مرثیہ خوانی اور اس کے بعد سوز خوانی ہوتی تھی۔ سوز خوانی چونکہ دراصل گانا ہے اس لیے اس کا رواج اگرچہ لکھنؤ ہی نہیں، سارے ہندوستان میں کثرت سے ہو گیا ہے۔  مگر مجتہدین اور ثقہ اور پا بند شرع بزرگوں کی مجلسوں میں سوز خوانی نہیں ہوتی تھی۔ مجتہدین کے وہاں کی مجلسوں میں پابندی دین کا بہت خیال رہتا تھا۔ خصوصا یہاں غفران مآب کے امام باڑے میں نویں محرم کو جو مجلس ہوتی تھی وہ خاص شان اور امتیاز رکھتی تھی۔ اس کی شرکت کے شوق میں لوگ دور دور سے آتے تھے۔ اس میں اثنائے بیان میں اونٹ حاضرین کے سامنے لائے جاتے جن پر کجاوے یا محملیں ہوتیں اور ان پر سیاہ پوششیں پڑی ہوتیں۔ اور مومنین کو یہ منظر نظر آ جاتا کہ دشت کربلا میں اہلبیت کا لوٹا مارا اور تباہ شدہ قافلہ کس مظلومیت اور ستم زدگی کی شان سے شام کی طرف چلا تھا۔  حاضرین پر اس المناک منظر کا ایسا اثر پڑتا کہ ہزارہا حاضرین سے دس بیس کو غش ضرور آ جاتا۔ جو بڑی مشکل سے اٹھا کر اپنے گھروں کو پہنچائے جاتے“[40]۔

وادئ سندھ میں شیعہ مخالف تشدد

اگرچہ وادئ سندھ میں اسلام اپنے ظہور کے کچھ عرصے بعد ہی عرب تاجروں یا حکومتوں کے زیر عتاب مسلمانوں کی ہجرت سے متعارف ہو چکا تھا لیکن یہاں مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت بنی امیہ کے دور میں حجاج بن یوسف کے بھتیجے محمد بن قاسم کے حملے کے بعد قائم ہوئی۔ محمد بن قاسم  کا  شیعوں کے بارے میں  طرز عمل  بزرگ  تابعی حضرت عطیہ بن سعد عوفؓی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے معلوم ہو جاتا ہے:-

تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجر عسقلانی[41]، طبقات الکبریٰ میں ابن سعد[42] اور تاریخ طبری میں ابن جریر طبری [43]، لکھتے ہیں کہ:-

"حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن سعد عوفی کو طلب کر کے ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے ان کو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علی پر سب و شتم کریں۔ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے۔ اس واقعے کے بعد وہ خراسان چلے گئے۔ وہ حدیث کے ثقہ راوی ہیں"۔ اس واقعے کو جدید مورخین نے بھی نقل کیا ہے[44]۔

کراچی میں حضرت عبد اللہ شاہ غازی کا مزار

وادئ سندھ میں   شیعہ کشی کا پہلا نمایاں  واقعہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور دوانیقی کے لشکر کے ہاتھوں امام حسنؑ کے پڑ پوتے محمد نفس ذکیہ کے فرزند حضرت عبد اللہ شاہ غازی ؑاور ان کے چار سو  ساتھیوں کا قتل تھا۔ ابن خلدون کے بقول خلیفہ منصور کے زمانے میں سندھ کا عامل عمر بن حفص تشیع کی جانب میلان رکھتا تھا۔ محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبد اللہ اشتر، جن کو عبداللہ شاہ غازی کے نام سے جانا جاتا ہے، 400 افراد پر مشتمل زیدیوں کی ایک جماعت کے ساتھ اس کے پاس آئے تو اس نے انھیں خاصے احترام سے نوازا۔ عباسی خلیفہ منصور کو جب اس کی خبر پہنچی تو اس نے ہشام بن عمر ثعلبی کو ان کا تعاقب کرنے کے لیے سندھ روانہ کیا جہاں ہشام کے بھائی اور ان کے درمیان میں قتال ہوا جس کے نتیجے میں عبد اللہ شاہ غازی شہید ہوئے اور ان کے ساتھی  اس علاقے میں بکھرگئے[45] ذہبی اور ابو الفرج اصفہانی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے[46] طبری نے یہ واقعات 768ء (151 ہجری) میں نقل کیے ہیں۔[47] ۔  عباسی سلطنت  کے زوال کے  زمانے  میں اسماعیلی شیعہ  مبلغین ملتان تک پھیل گئے چنانچہ دسویں صدی کے وسط میں یہاں خود مختار  اسماعیلی حکومت قائم ہوئی جو مصر کی فاطمی سلطنت  سے ملحق تھی۔گیارہویں صدی کے شروع میں محمود غزنوی   کے دو حملوں میں ملتان سے سیہون تک پھیلی قرامطہ حکومت ختم ہو گئی۔ محمود غزنوی کے بعد قرامطہ حکومت پھرمختصر عرصے کے لیے قائم ہوئی تاہم بارہویں صدی میں شہاب الدین غوری نے اس کا مستقل خاتمہ کر دیا اور بعد ازاں صوبہ ملتان دہلی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ سلاطین دہلی(1206ء – 1526ء) اگرچہ فقہ حنفی کی ترویج کے لیے ریاستی طاقت استعمال کیا کرتے تھے، لیکن  اس  دور  کی  عرب دنیا کے برعکس برصغیر کے شیعہ شہریوں  کے خلاف  امتیازی سلوک کی مثالیں  بہت کم ہیں، جس کی ایک وجہ شیعوں کا خوف کی وجہ سے  تقیہ پر عمل کرنا  ہے [14]۔

سولہویں صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت کے قیام کے بعد فرقہ وارانہ تشدد میں کافی کمی آئی کیونکہ مغل شہنشاہ صلح کل کے سیکولر طرز حکومت کے داعی تھے۔جس زمانے میں سلطنت عثمانیہ لبنان سے ترکی تک شیعوں کا خون بہا رہی تھی اور سلطنت صفویہ  بغداد اور آذربائیجان میں سنیوں  کو تلوار کے زور پر  مسلک بدلنے   پر مجبور  کر رہی تھی اور یورپ میں مسیحی فرقوں میں خونریز جنگ ہو رہی تھی، اس وقت برصغیر میں مغل شہنشاہ اکبر نے  فتح پور سکری میں ہونے والے بین المذاہب مکالمے کے بعد سیکولر ازم پر مبنی حکمت عملی ترتیب دی جس کو "صلح کل" کا نام دیا گیا اور اس کے نتیجے میں سب فرقوں اور مذاہب کو آزادی ملی۔  یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اکبر کے طرز حکومت کے بارے میں یورپی  سیاحوں کی کتب میں لکھے مواد نے ہی مغرب میں سیکولر ازم کی بنیاد فراہم کی۔

اس زمانے میں کئی شیعہ مخالف کتب پھیلی ہوئی تھیں۔    1548 ء  میں ایران کے شہر مشہد پر ازبکستان سے عبد اللہ خان ازبک نے حملہ کیا اور شیعوں کا قتل عام کیا۔شیخ احمد سرہندی نامی متعصب سنی عالم ( مجدد الف ثانی)نے اس قتل عام کی وکالت کرتے ہوئے "رد روافض " کے عنوان سے رسالہ لکھا۔ البتہ اکبر اعظم کی انصاف پر مبنی حکومت نے شیعہ علما کو اس پروپیگنڈے کا جواب دینے کی آزادی دی اور قاضی نور اللہ شوستری اور ملا احمد ٹھٹھوی جیسے علما نے اپنا موقف صراحت سے پیش کیا۔ اس سلسلے میں قاضی نور اللہ شوستری کی کتاب "احقاق الحق"کو بہت پزیرائی ملی۔ جب ملا احمد ٹھٹھوی کو لاہور میں شہید کیا گیا تو ان کے قاتل کو گرفتار کر کے سزائے موت دی گئی۔ اس دور کا ایک عجیب واقعہ یہ ہے کہ شیخ عبد النبی نے قندھار میں شہنشاہ کے خلاف بغاوت برپا کی تو شیعہ عالم ملا یزدی نے ان کا ساتھ دیا اور دونوں موت سے ہمکنار ہوئے۔ اکبر کے بعد جہانگیر اور شاہجہاں بھی صلح کل کی حکمت عملی پر کاربند رہے۔ جہانگیر نے شروع میں شیعہ رہنما قاضی نور اللہ شوستری اور سکھوں کے پانچویں گرو، ارجن سنگھ جی کو قتل کیا، لیکن ان فیصلوں کی وجوہات مذہبی سے زیادہ سیاسی معلوم ہوتی ہیں۔لیکن اس غلطی نے مسلمانوں اور سکھوں میں دوریاں پیدا کیں۔

البتہ مغل دور میں بھی کوہ ہمالیہ کے دامن میں  کشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوتا رہا ہے۔کشمیر کے   معروف سنی مؤرخ پیر غلام حسن کویہامی   کی کتاب" تاریخ حسن" کی پہلی جلد میں "تاراج شیعہ" کے عنوان سے ایک پورا باب موجود ہے جس  میں 1548 ء، 1586ء، 1635ء، 1686ء، 1719ء، 1741ء، 1762 ء، 1801ء، 1830ء اور  1872ء  کے سالوں میں شیعہ   کشی کی مہمات کا تفصیل سے  ذکر موجود ہے[48] جن میں نہ صرف انھیں قتل کیا گیا بلکہ ان کے اعضاء کاٹے، عصمتیں لوٹی  اور مردوں کو قبر سے نکال کر جلایا گیا۔  ان مہمات کے نتیجے میں کشمیری شیعہ عوام اور علما   شمالی ہندوستان اور وادئ سندھ کی طرف ہجرت پر مجبور ہوتے رہے۔  متعدد شیعہ دیہات اور کتب خانے صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔  کئی  کشمیری سادات  تقیہ پر مجبور ہوئے۔

شیعہ دار الحکومت گولکنڈہ پر اورنگزیب عالمگیر کے حملے کی عکاسی

برصغیر میں شیعہ مخالف تشدد کو نئی زندگی اس وقت ملی جب شاہ جہاں کے بعد  اورنگزیب عالمگیر  نے اپنے دور حکومت ( 1658ء۔ 1707ء)  میں صلح کل  کو ترک کر کے مذہبی استبداد کو اپنایا۔  اس کا پہلا نتیجہ گجرات میں شیوا جی بھوسلے کی قیادت میں ہندو قوم پرست مرہٹہ ریاست کے قیام کی شکل میں نکلا۔اورنگزیب کے زمانے کی سرکاری دستاویزات شیعہ مسلک کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی ہیں۔ اورنگزیب کے زمانے میں ہی تینتیس جلدوں پر مشتمل فقہی احکام کا مجموعہ بعنوان "فتاویٰ عالمگیری" مرتب کیا گیا جس میں شیعہ عقیدے کو گمراہانہ بتایا گیا۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں سرکاری طور پر شیعوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا اور شیعہ مسلک کی توہین کی جاتی تھی۔ اورنگزیب نے بوہری اسماعیلیوں کے داعیء مطلق سیدنا قطب الدین  اور سکھوں کے گرو تیغ بہادر جی کو عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے   قتل  کیا۔ اورنگزیب کے مذہبی استبداد کے جواب  میں سکھ گرو گوبند سنگھ جی نے سکھ خالصہ کو قائم کیا اور سکھوں اور مسلمانوں میں مسلح جنگوں کا آغاز ہوا۔  دوسری طرف اورنگزیب نے ستائیس سال مسلسل حملے کر کے دکن سے شیعہ اقتدارکا خاتمہ کیا، اس طویل جنگ پر مغل سلطنت کا کثیر سرمایہ ضائع  ہوا۔ اگرچہ اورنگزیب کے دور میں بہت سے سرکاری عہدیدار شیعہ تھے لیکن اکثر کا شیعہ ہونا  ان کے نکاح یا ان کی وفات اور تدفین   کے طریقے سے ہی  ثابت ہوتا ہے۔شیعہ مسلمانوں کو برابری کے حقوق کے حصول کے لیے اپنا مسلک چھپانا (تقیہ کرنا) پڑتا تھا۔  بادشاہ کی شیعہ مسلک سے نفرت نے تنگ نظر علما کی حوصلہ افزائی کی جس کا خمیازہ ہندوستان کو بھگتنا پڑا۔  حالیہ شیعہ مخالف تشدد  کی تاریخ کو دس ادوار میں تقسیم کیاجا سکتا ہے۔

پہلا دور: امرا کی سرد جنگ

اٹھارویں صدی عیسوی جہاں مغل سلطنت کے مغرب میں افغان حملہ آوروں اور مشرق و جنوب میں انگریزوں کے سامنے عسکری کمزوری دکھانے سے عبارت ہے، وہیں دہلی میں شیعہ اور سنی امرا کے بیچ سرد جنگ اس سلطنت کے زوال کا دوسرا اہم عامل ہے۔   مغل سلطنت میں بادشاہ کی موت کے بعد وہی شہزادہ تخت نشین ہوتا تھا جس کے ساتھ زیادہ امرا شامل ہو جاتے کیوں کہ مغل فوج دراصل کوئی قومی فوج نہ تھی بلکہ ہر جنگ میں امرا اپنے لشکر فراہم کیا کرتے تھے۔1707ء میں  اورنگزیب کی وفات کے بعد شیعہ امرا نے طاقت کے کھیل میں کردار ادا کرنا چاہا تو سنی امرا نے سیاسی رسہ کشی کو مسلکی رنگ دیا تاکہ اپنے حریفوں کو اقلیت تک محدود کر کے کمزور کر سکیں۔ سید برادران اور نظام الملک میں رسہ کشی طاقت اور نفوذ کی جنگ تھی۔ اگرچہ شیعہ امرا کو شیعہ عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہ تھی، لیکن مسلکی بنیادوں پر شیعہ امرا کو نشانہ بنانے کی کوششوں نے شیعہ عوام کی زندگی کو بھی متاثر کیا۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کی شکست و ریخت کے زمانے میں دہلی میں جامعہ رحیمیہ کے گدی نشین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( 1703ء۔ 1762ء) نے  دہلی کے اہلسنت میں بہت مقام پیدا کیا۔ شاہ ولی اللہ 1731ء میں حج کرنے گئے اور دس سال وہاں گزار کر  شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک جس کو عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے، کے اثرات اپنے ساتھ لائے۔آپ نے شیخ احمد سرہندی کی کتاب "رد روافض" کا عربی میں ترجمہ بعنوان"المقدمۃ الثانیہ فی الانتصار للفرقۃ السنیہ"کیا۔ 1739ء میں ایران میں مغل دوست صفوی سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ایران کے نئے ترک نژاد سنی بادشاہ "نادر شاہ افشار "نے ایران کے معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی کو لوٹ مار اور قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ اس قتل عام میں اس کے افغان سالار "احمد شاہ ابدالی" نے خون کے دریا بہا دیے۔

1747ء میں نادر شاہ کے قتل کے بعد اس کے افغان دستے کے سربراہ احمد شاہ ابدالی نے افغانستان نامی  ملک کی بنیاد رکھی۔ تاریخی طور پر کابل و قندھار وادئ سندھ (موجودہ پاکستان)کا حصہ ہوتے تھے اور فارسی زبان والے علاقے ایران کی حکومت کا حصہ ہوتے تھے۔1747ء میں احمد شاہ ابدالی نے دوبارہ دہلی پر حملہ کرنا چاہا تو اس کو سرہند کے مقام پرمغل سلطنت کی طرف سے اودھ کے شیعہ نواب صفدر جنگ نے شکست دی۔ اس کے نتیجے میں صفدر جنگ کے مرتبے اور عزت میں اضافہ ہوا تو دہلی میں اس کے خلاف سنی امرا کی سازشیں عروج پر پہنچ گئیں اور 1753ء میں اس کو دہلی چھوڑ کر اودھ جانا پڑا۔ اس ماحول میں سنی امرا  کے  تنخواہ دار شاہ ولی اللہ نے  شیعہ امرا کے خلاف مہم چلانے  کے لیے  اپنے خوابوں کو بنیاد بنا کر اہل تشیع  اور حضرت علیؑ کے خلاف "فیوض الحرمین"، "قراۃ العینین"، "ازالۃ الخفا" اور "حجۃ اللہ البالغہ" جیسی کتابوں میں تنقید کی۔حضرت علیؒ کے خلاف ان کی مہم کے جواب میں سنی علما میں سے دار العلوم فرنگی محل کے مولانا  عبد الحلیم فرنگی محلی اور  مولانا محمد  معین ٹھٹھوی نے کتابیں لکھیں۔   شاہ ولی اللّہ   نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ رسول اللهؐ نے ان کو خواب میں آ کر بتایا کہ شیعہ گمراہ ہیں۔البتہ انھوں نے شیعوں کی تکفیر سے پہلو بچایا۔ شاہ ولی اللہ نے بادشاہ  اور سنی  اشراف کو خط  لکھا، جس میں کہا:۔

"تمام اسلامی شہروں میں سختی سے احکامات جاری کیے جائیں، جس میں رسوم کفر جیسے ہولی اور گنگا اشنان کی عوامی مقامات پہ ادائیگی ممنوع قرار دی جائے۔ دس محرم کو روافض کو اعتدال سے آگے نہ گزرنے دیا جائے، نہ ہی ان کو گلیوں اور بازاروں میں بے ادبی اور احمقانہ اقدامات کی اجازت دی جائے "[14]۔

مرشد آباد کا نظامت امام باڑہ، جس کی بنیاد نواب سراج الدولہ نے رکھی

مرشد آباد میں موجود برصغیر کی سب سے بڑی امام بارگاہ، "نظامت امام باڑہ"کی بنیاد نواب سراج الدولہ نے رکھی تھی۔ سراج الدولہ ؒنے انگریزوں سے جنگ کی لیکن ان کا مسلک شیعہ ہونے کی وجہ سے انھیں شاہ ولی اللہ کی طرف سے وہ حمایت نہ ملی جو احمد شاہ ابدالی جیسے بدیسی کو میسر رہی۔ یہی مسئلہ میر قاسم اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ کو درپیش تھا، انھیں بھی بکسر کے میدان میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں دہلی کے سنی امرا یا شاہ ولی اللہ کی طرف سے کوئی حمایت نہ ملی۔

احمد شاہ ابدالی نے کل سات حملے کیے جن میں سے چوتھے اور پانچویں حملے میں دہلی پہنچا۔ دہلی پر 1757ء کے حملے میں افغانوں نے منظم انداز میں شہر کو لوٹا، شہر کے محلوں میں الگ الگ ٹولیاں بھیجی گئیں جنھوں نے نہ صرف گھروں کا سامان لوٹا بلکہ فرش اکھاڑ کر بھی تلاشی لی تاکہ کسی کا چھپایا گیا زیور باقی نہ رہ جائے۔دہلی کے علاوہ لاہور، سرہند، متھرا اور کشمیر میں بھی  لوٹ مار اور قتل عام ہوا۔ مندروں اور گردواروں کو تباہ کیا گیا۔   افغانوں نے بے شمار ہندو، سکھ اور مسلمان خواتین کی عصمت لوٹی۔ مغل شہزادیوں  سمیت ہزاروں لڑکیوں کو لونڈیاں بنا  کر واپس جا رہے تھے کہ ہشیار پور کے مقام پر سکھوں نے متحد ہو کر احمدشاہ ابدالی کے لشکر پر حملہ کیا اور  لڑکیوں کو آزاد کرایا۔ اس مجرمانہ غارت گری کے باوجود دو سال بعد شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو دوبارہ دعوت دی[49]۔ اس مرتبہ اس نے دہلی کے شیعہ خصوصی طور پر قتل اور شہر بدرکئے، شاہ ولی اللہ کے بیٹے کے بقول انھوں نے ایک سال پہلے اس کو بتایا تھا کہ اگلے سال دہلی میں ایک بھی شیعہ باقی نہیں بچے گا[50]۔

اس کی افواج نے لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ ہندوستان کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہو گئی۔ احمد شاہ ابدالی نے حسن و جمال میں معروف ایک انیس سالہ مغل شہزادی "حضرت بیگم" کو  اس کی مرضی کے خلاف اپنی بیوی بنایا اور قندھار لے گیا، جہاں وہ دو سال ذہنی اذیت کے بعد انتقال کر گئی۔ اس نے صوبہ ملتان، صوبہ لاہور اور کشمیر کو افغانستان کی کالونی بنا لیا۔ افغان فوج نے  کشمیر میں  شیعوں کا قتل عام کیا اور میر شمس الدین عراقی کی درگاہ کو تباہ کیا۔ پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے احمد شاہ ابدالی کی لوٹ مار کے بارے میں کہا:۔

کھادا پیتا وادے دا

باقی احمد شاہے د ا

یعنی کسان کے  مال و اسباب میں اس کا حصہ وہی ہے جو وہ استعمال کر لے ورنہ  باقی تو  احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ اسی لوٹ مار کے تناظر میں میر تقی میر نے کہا:-

دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں امداد الملک کو مختار کل بنا یا نجیب الدولہ کودہلی اور اودھ کے درمیان میں روہیل کھنڈ میں افغانوں کی حکومت بنا دی۔یہاں سے بھی اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ شاہ ولی اللہ کی طرف سے احمد شاہ ابدالی کو دعوت کا مقصد سنی امرا کے مفادات کا تحفظ تھا تاکہ دہلی اور اودھ کے بیچ فاصلہ پیدا کیا جائے۔ 1762ء میں شاہ ولی اللہ انتقال فرما گئے۔

دوسرا دور: شاہ عبد العزیز اور تحفہ اثنا عشریہ

شاہ ولی اللہ کے بیٹوں میں سے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ( 1746ء۔ 1823ء) فرقہ وارانہ نفرت میں آگے تھے۔ ان کو مستقل معدے میں جلن کی شکایت رہتی تھی۔ پچیس برس کی عمر ہی میں ان کو جذام ہو گیا اور نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔ احمد شاہ ابدالی کے جانے کے بعد شیعہ دوبارہ دہلی میں آ کر بسنے لگے تھے، اس واپسی نے شاہ عبد العزیز اور ان کے آقاؤں کو سیخ پا کر دیا۔ انھوں نے شیعہ اثر و نفوذ میں اضافے کا واویلا کیا، ان کے لیے دہلی  میں  شیعوں کا وجود  قابل قبول نہ تھا ۔ 1790ء میں شاہ عبد العزیز نے شیعہ مسلمانوں  کے خلاف "تحفۃ اثنا عشریۃ" نامی کتاب لکھی۔ اس کے جواب میں شیعہ علما میں سے علامہ سید محمد قلی موسوی نے "الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ"،    آیت اللہ میر سید حامد حسین موسوی نے "عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار"[51] اور علامہ سید محمّد کمال دہلوی نے" نزھۃ اثنا عشریۃ"[52] کے عنوان سے کتابیں لکھیں۔ ریاست جھاجھڑ کے راجا نے علامہ سید  محمّد کمال دہلوی کو  بطور طبیب علاج کروانے کے بہانے سے  بلوایا اور دھوکے سے زہر پلا  کر قتل کر دیا۔ شاہ عبد العزیز نے  اپنی کتاب "فتاویٰ عزیزی "میں  علامہ تفضل حسین کشمیری کو کافر قرار دے  کر امام غزالی کی طرف سے بو علی سینا کی تکفیر کی تاریخ دہرا دی۔ انھوں نے شیعہ مسلمانوں کے خلاف کئی ایک فتوے دیے اور مغلیہ سلطنت کے زوال کے دورمیں مسلمان معاشرے کو غیر ضروری جھگڑوں میں مبتلا کیا۔

تیسرا دور:سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی

بالا کوٹ میں سید احمد بریلوی کی قبر

وادئ سندھ میں قیام پاکستان سے پہلے عوام میں شیعہ سنی تصادم ایجاد کرنے کی کوشش سب سے پہلے 1820ء کی دہائی میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے کی۔ ان دو نیم خواندہ حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں بہت اہم ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی مگر پنجاب اور پختون خواہ کے علاقوں میں سکھوں کا دور چل رہا تھا۔1786ء میں پیدا ہونے والے سید احمد رائے بریلی نے پہلے عالم دین بننے کی کوشش کی مگرآٹزم (Autism)کا مریض ہونے کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ 1811ء میں امیر خان نامی ڈاکو کی فوج میں شامل ہوئے جس نے سات سال بعد انگریزوں سے معاہدہ کر کے ہتھیار ڈال دیے اور آپ بے روزگار ہو گئے۔ 1817ء سے 1820ء تک مختلف شہروں میں پھر کر مذہبی رہنما بننے کی کوشش میں ناکامی کے بعد سید احمد بریلوی1821ء کو حج کرنے چلے گئے[53]- 1820ء میں سید احمد رائے بریلی نے لکھنؤ میں اہل سنت کو عزاداری پر حملے کے لیے اکسایا اور کہا کہ تعزیہ توڑنے کا ثواب بت شکنی جیسا ہے[54]۔شاہ عبد العزیز اپنی زندگی کے آخری سالوں میں تھے، ان کے ہاں نہ صرف محرم میں مجلس ہوتی تھی[55] بلکہ وہ بی بی فاطمہؑ کی نیاز بھی دیا کرتے اور انھوں نے  اپنی کتاب "سر الشہادتین " میں کربلا کی یاد  منائے جانے کو خدا کی طرف سے  پیدا کردہ اسباب شہرت قرار دیا تھا۔ سید احمد نے ان کے گھر میں نیاز دلانے کے سلسلے کو بھی بند کروا دیا حج کے  دوران میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تحریک توحید والعدل، جو وہابیت کے نام سے معروف تھی، سے متاثر ہوئے اور  شیخ محمد بن عبد الوہاب کی کتاب، ''کتاب التوحید'' سے آشنا ہوئے۔ کتاب التوحید کے مفاہیم کو ان حضرات نے اپنی کتابوں ''تقویۃ الایمان '' اور ''صراط مستقیم'' میں پیش کیا۔ ان کتابوں کو انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی نے شائع اور تقسیم کرنے میں مدد دی نیز انگریزوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی محرومیوں کو سکھوں کے خلاف استعمال کر نے کے لیے سید احمد اورشاہ اسماعیل دہلوی کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں لشکر سازی کی مکمل آزادی دی[56][57][58]۔ اس سے پہلے محرم میں تعزیہ، اہلبیت کا ذکرا ور نیاز شیعہ و سنی کے لیے مشترک عمل تھا۔سید احمد بریلوی نے سہارن پور میں تعزیے کو آگ لگوا دی۔ اس توہین کی وجہ سے اہل تشیع میں اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے اس فتنے کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس تیاری کی خبر ملنے پر انگریزوں نے سید احمد اور ان کے مریدوں کو سہارن پور سے علاقہ بدر کر دیا۔ سید احمد جب بریلی گئے تو وہاں بھی عزاداری کے خلاف جلسے اور تقریریں کیں جن کے رد عمل میں اہل تشیع نے تبرا کا جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا۔ صفوی دور کی شروع کردہ بدعت ہندوستان میں بھی آنے والی تھی مگر اودھ کے نواب غازی الدین حیدر اور آیت اللہ سید دلدار علی نقویؒ نے اہل تشیع کو اس حرکت سے باز رکھا۔ 1817ء سے 1820ء تک مختلف شہروں میں پھر کر فساد پھیلانے کے بعد چار سو عقیدت مندوں کو لے کر سید احمد1821ء میں حج کرنے چلے گئے۔راستے میں بنارس کے مقام پر اہلسنت کے زیر انتظام امام بارگاہوں پر حملہ کیا اور تعزیے جلائے۔ پٹنہ میں بھی یہی کام کیا اور وہاں کے انگریز مجسٹریٹ نے اہل تشیع کے احتجاج کے باوجود اس ٹولے کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی[54]۔ سواد اعظم کی نمائندگی کرتے ہوئے متعدد حنفی علما نے سید احمد رائے بریلی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے انحراف کے خلاف کتب تحریر کیں جن میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا عبد المجید بدایونی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا محمد موسیٰ اورمولانا ابوالخیر سعید مجددی نمایاں تھے۔ان بزرگوں کے پیروکار بعد میں امام احمد رضا خان کی نسبت سے بریلوی کہلائے۔

یہ لوگ شمالی ہندوستان میں لشکر بنا کر جہاد کے لیے راجستھان، بلوچستان اور افغانستان کا تین ہزار میل لمبا سفر کر کے سکھوں کی کمر میں خنجر مارنے پختون علاقوں میں پہنچ گئے۔ اس وقت سندھ میں شیعہ تالپور خاندان انگریزوں سے بر سر پیکار تھا مگر ان مجاہدین نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ شاہ اسماعیل دہلوی کے الفاظ میں:۔

"انگریزوں سے جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں۔ ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں"[56]۔

ادھر افغان حکمران طبقہ بھی ان حضرات سے چوکنا ہو گیا تھا، ان کی تشویش کو دور کرنے کے لیے سید احمد نے شہزادہ کامران کے نام خط میں لکھا:۔

"اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا تاکہ اسے کفر و شرک سے پاک کیا جائے، اس لیے کہ میرا اصلی  مقصد ہندوستان پر جہاد ہے نہ کہ خراسان (افغان سلطنت کا مرکز) میں سکونت اختیار کرنا"[59]۔

اس خط سے واضح ہے کہ سید احمد ایک تو یہ چاہتے  تھے کہ افغان حکمران ان کو اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھ کر سکھوں سے اتحاد نہ کر لیں، دوسرے ان کی توجہ  ہندوستان میں انگریزوں کی معاشی لوٹ مار سے آزادی اور عوام کی زندگی میں بہتری لانے کی بجائے  وہاں محمد ابن عبد الوہاب کی طرز پر شرک و کفر کے نام پر مسلمانوں کے اندر جھگڑا کرنے پر  تھی، جیسا کہ پختون علاقوں میں آنے سے قبل وہ یہی کام کرتے تھے۔1826ء میں یہ لوگ پختون علاقوں میں  طالبانی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ کوئی ایسی ریاست نہیں تھی جو انسانی سرمائے کو استحکام اور آزادی کی فضا مہیا کر کے عوام کی زندگی میں بہتری لاتی، غربت اور بیماریوں کا خاتمہ کرتی۔  پشتون علاقوں میں انھوں نے فقہ حنفی کو  وہابی عقائد کے ساتھ ملا کر نافذ کیا۔ پختون تہذیب پر حملے کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم دیا کہ کوئی بالغ لڑکی شادی کے بغیر نہیں ہونی چاہئیے۔سید احمد کے کارندے باجماعت نماز میں شریک نہ ہو سکنے والے شخص کو کوڑے لگاتے۔ انھوں نے   بنگال و بہار سے لائے گئے "مجاہدین "کی مقامی لڑکیوں سے زبردستی شادیاں کیں۔ پختون علاقوں میں عوام آہستہ آہستہ ان کے خلاف ہو گئے  تو شاہ اسماعیل دہلوی نے کہا:۔

"آن جناب (سید احمد بریلوی) کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہو گئی ہے۔ جس کسی نے آں جناب کی امامت قبول کرنے سے انکار کیا تو وہ باغی ہے، اس کا خون حلال ہے اور اس کا قتل کفار کے قتل کی طرح عین جہاد ہے اور اس کی ہلاکت تمام اہل فساد کی ہلاکت کہ یہی اللہ کی مرضی ہے۔ چوں کہ ایسے اشخاص کی مثال حدیثِ متواترہ  کی رو سے  جہنم کے کتوں اور ملعون شریروں جیسی ہے۔ یہ اس ضعیف کا مذہب ہے، پس اس ضعیف کے نزدیک اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کا جواب تلوار کی ضرب ہے"[60]۔

1831 ء میں سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کی طالبانی  حکومت سے اکتائے ہوئے مسلمانوں اور سکھوں کے اشتراک عمل کے نتیجے میں بالاکوٹ کے مقام قتل ہوئے لیکن ان کی بھڑکائی ہوئی آگ دہکتی رہی۔  مثال کے طور پر 22 مارچ 1840ءکو ان کے پیروکاروں کی طرف سے عزاداری پر حملے کی کوشش کی خبر دہلی اردو اخبار میں یوں شائع ہوئی:۔

’’سنا گیاکہ عشرۂ محرم میں باوجود اس کے کہ ہولی کے دن بھی تھے اس پر بھی بسبب حسن انتظام صاحب جنٹ مجسٹریٹ اور ضلع مجسٹریٹ کے بہت امن رہا۔ کچھ دنگا فساد نہیں ہوا۔ صرف ایک جگہ مسمات امیر بہو بیگم بیوہ شمس الدین خان کے گھر میں، جو شیعہ مذہب ہے اور وہاں تعزیہ داری ہوتی ہے، کچھ ایک سنی مذہبوں نے ارادہء فساد کیاتھا لیکن کچھ زبانی تنازع ہوئی تھی کہ صاحب جنٹ مجسٹریٹ کے کان تک یہ خبر پہنچی۔ کہتے ہیں کہ صاحب ممدوح جو رات کو گشت کو اٹھے تو خود وہاں کے تھانہ میں جاکے داروغہ کو بہت تاکید کی اور کچھ اہالیان پولس تعین کیے کہ کوئی خلاف اس کے گھر میں نہ جانے پاوے۔ سو خوب انتظام ہو گیا اور پھر کہیں کچھ لفظ بھی نزاع کا نہ سنا گیا ‘‘[61]۔

ان حضرات کی تحریک کا دوبارہ ظہور 30 مئی 1867ء میں دار العلوم دیوبند کے قیام کی شکل میں ہوا۔انگریزوں نے اس گروہ کا بڑی دقت سے مطالعہ کیا اور کئی مفصل رپورٹس مرتب کی تھیں۔ جب انگلستان عالمی طاقت نہ رہا اور اس کی جگہ امریکا نے لے لی تو اسے ایک بار پھر سید احمد بریلوی کی تحریک مجاھدین کی ضرورت پڑی جب 1980ء کی دہائی میں روس کے خلاف جنگ کے لیے افغانستان کا انتخاب کیا گیا۔ سکھوں کے خلاف جنگ کی ہو بہو نقالی کے لیے افغان جہاد کے سلسلے میں جن افراد کو اتارا گیا انکا مرکز اکوڑا خٹک کا مدرسہ تھا۔ یہی وہ قصبہ تھا جہاں سید احمد بریلوی نے پہلی فتح حاصل کی تھی۔ موجودہ دور میں برصغیر کی جہادی تنظیموں کی سید احمد بریلوی سے وابستگی غیر معمولی ہے۔ 1990ء میں جب پاکستان نے جہاد کشمیر کا آغاز کیا تو مجاھدین کے لیے ٹریننگ کیمپ بالا کوٹ میں قائم کرنے کا مقصد بھی ان میں سید احمد بریلوی کی سوچ پیدا کرنا تھا۔ اگرچہ سید احمد بریلوی مزارات اور مکانی مناسبتوں کو شرک قرار دیتے تھے لیکن جو مقامات ان سے منسوب تھے انکا فائدہ اٹھایا جاتا رہا۔

چوتھا دور: انگریز دور کا آغاز اور دار العلوم دیوبند

اس دور میں اہلسنت میں کئی نئے مسالک بنے، انھوں نے اپنے آپ کو پکا اور اصلی سنی ثابت کرنے کے لیے شیعوں کو تختۂ مشق بنایا۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے تحفہ اثنا عشریہ کا خلاصہ بعنوان " ہدیۃ الشیعہ" لکھا، اس میں شیعہ علما کی طرف سے لکھی گئی وضاحتوں پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ سر سید احمد خان نے تحفہ اثنا عشریہ کے دو ابواب کا ترجمہ بعنوان "تحفہ حسن " کیا۔البتہ سر سید احمد خان ؒکو جلد ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ فرقہ واریت کا حصہ بن کر وہ کوئی خدمت نہیں کر رہے، انھوں نے جدید تعلیم کے لیے اینگلو اورینٹل کالج بنایا جس کو راجا صاحب محمود آبادؒ، مولانا چراغ علیؒ، سید امیر علیؒ، وغیرہ جیسے با اثر شیعوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل رہی۔ دیوبندی اکابر کے سرتاج مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے شیعوں کے خلاف جو کتاب لکھی اس کا عنوان تھا، "مطرقۃالکرامہ" یعنی کرامت والا ہتھوڑا، جواب میں مولانا سجاد حسین نے کتاب کا نام رکھا، "اعجاز داؤدی"، جس میں حضرت داؤد ؑکے لوہا پگھلانے والے معجزے کی طرف اشارہ تھا۔

دار العلوم دیوبند

علامہ شبلی نعمانی کی ندوۃالعلماء کو یہی سوچ لے ڈوبی کیوں کہ اس کے اجلاسوں میں امام احمد رضا خان بریلوی نے شیعوں کے خلاف ہنگامہ کیا جس کے نتیجے میں شیعہ مجتہدین نے اپنے آپ کو الگ کر لیا۔ ندوۃالعلماء کے فرقہ وارانہ جماعت بننے کے بعد شیعہ مجتہدین نے "انجمن صدر الصدور" نامی پہلی شیعہ جماعت قائم کی۔ شیعوں کو نشانہ بنا کر عوام میں قبولیت پیدا کرنے کی نفسیات بعد میں پرویزی فرقے(منکرین حدیث) میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو اپنے مخالفین کو عجمی شیعہ سازش کے پیچھے لگا کر خود کو اصلی مسلمان ثابت کرتا ہے۔

بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد  گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ :۔

"محرم میں ذکر شہادت حسین کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے"۔[62]

اسی دوران میں مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے بھی عزاداری پر شرک کا فتویٰ لگایا اور شیعوں کو اسلام کے آنگن میں پڑی نجاست قرار دیا[63][64]۔  علامہ سید علی الحائری نے "وسیلۃ  المبتلا"، "تبصرۃ العقلا"، "مہدی موعود" اور "مسیح موعود" کے عنوان سے مختصر  اردو کتابچے اور ایک چار جلدوں پر مشتمل فارسی  کتاب "غایۃ المقصود" لکھ کر مرزا غلام احمد قادیانی کو جواب دیا۔  دوسری طرف شیعہ علما نے متعدد مناظرے کیے جس کے نتیجے میں شیعہ مکتب فکر کو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا نے  اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موقع ملا اور اس طرح شمالی ہند میں شیعیت کو  مزید فروغ حاصل ہوا۔    اس سلسلے میں علامہ سید محمد باقر چکڑالوی کا نام خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔عزاداری پر سب سے پہلا حملہ مولانا قاسم نانوتوی کی قیادت میں دار العلوم دیوبند کے طلبہ نے کیا۔ دیوبند قصبے کے رہائشی اہل سنت محرم میں یاد کربلا مناتے تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے طلبہ کا جتھہ بنا کر دیوبند کے رہائشی اہل سنت کو دہشت زدہ کیا اور کربلاکی یاد منانے سے روک دیا۔[65]

امیر عبد الرحمن خان

انیسویں صدی عیسوی میں شیعہ مخالف پروپیگنڈے کا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اوران کو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس  کے نتیجے میں افغانستان کے ہزارہ قبیلے کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی۔[66] امیر عبد الرحمن خان نے اپنی  حکومت کا نظام چلانے کے لیے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنھوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔  یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے   کوئٹہ میں آ گئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوا۔  کرم ایجنسی کے شیعہ قبائل  افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کارروائیوں کے خوف سے ہندوستان کی انگریز حکومت سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کا بندوبست عمل میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قانون کی مساوات  اور بہتر انتظامی  اقدامات کی بدولت  اس سوچ کو قتل عام کا دائرہ وادی سندھ تک پھیلانے کا موقع نہ مل سکا۔ کرم ایجنسی کے بعد باقی قبائل نے بھی انگریز حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی عمل جس کاآغاز شیعہ دشمنی سے ہوا، نے مستقبل میں بننے والے ملک پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو متعین کیا۔ اس تاریخ کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاض بسرا سے لے کر ملک اسحاق اور داود بادینی تک جیسے تربیت یافتہ قاتلوں کو قندھار کے دیوبندی علاقوں میں پناہ ملتی رہی ہے۔

پانچواں دور:لکھنؤ میں پہلا فساد

فرقہ وارانہ منافرت کا جو بیج شاہ ولی اللہ نے امرا کی جنگ کا فریق بن کر بویا تھا، وہ غربت اور کم علمی کے دور میں تناور درخت بن چکا تھا۔اس دوران میں لکھنومیں مولانا عبد الشکور لکھنوی سامنے آئے۔یہ بھی اس دور کے عوامی علما کی طرح نیم خواندہ تھے۔ انھوں نے شیعہ مخالف مہم میں نیا جوش پیدا کیا۔ متعہ کو قدیم کتب اہلسنت میں نکاح کی ایک قسم قرار دیا جاتا تھا، انھوں نے اس کو زنا قرار دیا۔تقیہ کو نفاق کے برابر کہا اور شیعوں کو قرآن و نبوت کا منکر قرار دیا۔اسی دور میں ایک نیا رواج یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص اپنا مسلک تبدیل کرتا تو اس کو دوسرے مسلک کی فتح قرار دیا جاتا۔ اصلی مشکلات کو شکست نہ دے سکنے والے ایسی" فتوحات "پر غصہ ٹھنڈا کرنے لگے۔1900ء کے عشرے میں مولانا عبد الشکور لکھنوی اور مولانا مقبول دہلوی کے مناظرے عام تھے۔ ابھی تک اہلسنت میں تعزیہ داری کا رواج موجود تھا، لہذا مولانا عبد الشکور لکھنوی نے اس بات پر زور دیا کہ عاشورا چونکہ امام حسینؑ کی فتح کا موقع ہے لہذا اس دن خوشی منانی چاہئیے۔ یہ شرارت بہت کامیاب ہوئی۔اب روز عاشورا کو جب شیعہ جلوس تال کٹورا کے مقام پر " درگاہ امام حسین و کربلا" نامی مشترکہ امامبارگاہ جاتا تو ماتم اور نوحے اور غم کا اظہار کر رہا ہوتا، جبکہ سنی جلوس میں عید میلاد النبی ؐ کی طرز پر خوشی کا اظہار ہوتا۔ عاشورا کے دن بچوں کے جھولنے کے لیے پینگیں اور خریداری کے لیے مختلف قسم کے سٹال لگائے جانے لگے، ایک میلے کا سماں پیدا ہونے لگا۔ غریب ہندو بھی اس موقعے پر اشیائے خور و نوش بیچنے کے لیے ریڑھیاں لگانے لگے[67]۔ مولانا عبد الشکور اور ان کے ساتھیوں نے 1906 ءمیں  تال کٹورا کے سامنے   پھول کٹورا کے مقام پر الگ سنی امام بارگاہ بنام "کربلا" قائم کی۔ انھوں نے اگلی بات یہ کہی کہ اہلسنت عاشورا کے دن کالے کپڑے پہننا ترک کریں اورسفید، زرد یا سرخ لباس پہنا کریں۔شیعہ روایات کے مطابق سرخ لباس لشکر شام کا تھا، اس سے شہر میں شیعہ سنی تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ مولانا نے تعزیے کے ساتھ چار یاری پرچم متعارف کرایا اور کربلا کی بجائے " مدح صحابہ "کے عنوان سے جلوس نکالنا شروع کیا۔ چنانچہ محرم   میں، جو سب مسلمانوں کے لیے  اختلافات بھلا کر شہدائے کربلا کو یاد کرنے کا مہینہ تھا،   شیعہ سنی اختلاف کو نمایاں کیا جانے لگا۔حالانکہ ان کا اس ماہ سے کوئی تعلق نہ تھا، اختلافی واقعات اس ماہ میں رونما نہ ہوئے تھے۔ 1907 ء اور 1908 ء میں عاشورا کے موقعے پر لکھنؤ میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے[68]۔

انگریز حکومت نے پیگوٹ کمیٹی کے نام سے انکوئری کمیشن بنایا جس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے عشرہ محرم، عید میلاد النبی ؐ اور یوم علی ؑ کے مواقع پر  مدح صحابہ کے جلوس کو بد نیتی پر مبنی شرارت قرار دے کر پابندی لگا دی۔ ساتھ ہی انھوں نے عزاداری کے جلوسوں کو رجسٹر کر کے لائسنس جاری کیے تاکہ حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی جلوس نہ نکلے۔ مولانا  لکھنوی نے  تو محرم میں ہی فساد کرنا تھا، انھوں نے دوسرے مہینوں کی بجائے محرم میں  بزم صدیقی، بزم فاروقی اور بزم عثمانی کے عنوان سے محافل کا انعقاد شروع کر دیا۔ ان محافل میں مسئلہ خلافت جیسے اختلافی مسائل پر تقریریں ہوتیں اور خلافت راشدہ کے زوال کا ملبہ ابن سبا پر ڈال کر شیعوں کو اس کا  وارث  قرار دیا جاتا۔محرم میں کربلا کی بجائے اختلافی مسائل پر گفتگو نے اشتعال پھیلا دیا۔یہ ماحول شیعوں میں مولوی مقبول دہلوی جیسے لوگوں کے پھلنے پھولنے کے لیے نہایت سازگار تھا۔ چنانچہ انھوں نے  محرم سے تین دن پہلے حضرت عمر ؓ کے یوم وصال پر بزم فیروزی کا انعقاد شروع کر دیا۔علمائے فرنگی محل نے خود کو مولانا عبد الشکور لکھنوی سے دور رکھا البتہ بعض دیوبندی علما نے ان کی بھرپور حمایت کی۔ 1920ء میں دیوبندی عالم مرزا حیرت دہلوی نے "کتاب شہادت" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں حضرات علی ؑو حسنین ؑکی توہین اور ملوکیت بنی امیہ کی وکالت کی گئی تھی۔ بات شیعہ دشمنی سے نکل کے اہلبیتؑ کو نشانہ بنانے تک پہنچ گئی۔

1925ء میں حجاز وہابیوں کے قبضے میں چلا گیا اور تیل کی دولت کی کشش میں دیوبندی علما  کی طرف سے وہابیت کے خلاف لکھی گئی کتابوں (المہند علی المفند  اور شہاب ثاقب)کے مصنفین نے ہی وہابیت کی حمایت شروع کر دی۔دیوبندی عالم مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے 1926ء میں دیوبندی مکتب فکر کو ترویج دینے کے لیے تبلیغی جماعت قائم کی۔ 1927ء میں پشاور میں سلطان الواعظین سید محمد شیرازی نے اہلسنت علما سے مناظرہ کیا جس کے نتیجے میں پشاور میں شیعیت کو فروغ ملا۔اس مناظرے کی روداد "شب ہائے پشاور" کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے۔ 1929ء میں افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کے خلاف بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں حبیب اللہ کلکانی، جو اپنے لقب "بچہ سقا" سے مشہور تھا، نے کابل پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ افغانستان میں اس عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پختون دیوبندی قبائل نے منظم ہو کر وادئ کرم پر حملہ اور قتل عام کیا۔ بچہ سقا کی حکومت نو ماہ بعد ظاہر شاہ کے والد نادر شاہ کے حملے کے نتیجے میں ختم ہو گئی۔

چھٹا دور:لکھنؤ میں دوسرا فساد: مجلس احرار اور مولانا حسین احمد مدنی

موجودہ شیعہ مخالف تشدد کی تمام جہتیں 1930ء کی دہائی میں جلوہ گر ہو گئی تھیں۔ ناکام تحریک خلافت نے جہاں مسلمانوں میں گاندھی جی کا حامی طبقہ پیدا کیا وہیں دیوبندی علما کو مذہبی معاملات پر ہنگامے کر کے چندہ اکٹھا کرنے کا فن آ گیا۔ 1920 ء کی دہائی میں لکھنؤ اور دوسرے بڑے شہروں میں نئے کارخانے لگے جس کی وجہ سے دیہات سے بہت لوگ شہروں کی نئی آبادیوں میں آ کر رہنے لگے۔دیہات سے ہجرت کر کے شہروں میں آنے والوں کے ذہنی عدم استحکام سے غنڈہ گرد عناصر نے ناجائز فائدہ اٹھایا۔اپنے ماحول، دوستوں اور برادری سے دور شہر آنے والے دیہاتیوں کے لیے مذہبی تنظیمیں سماجی رابطے بنانے اور جدت و تہذیب کے خوف سے نبٹنے کا وسیلہ ہوتی ہیں۔ دیہاتی نوجوان شہر آ کر شہری تہذیب کے خلاف اپنا غصہ مذہبی تنظیموں کا حصہ بن کر نکالتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال:۔

امرا نشہء دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غرباء کے دم سے

1929ء میں تحریک خلافت سے ریٹائر ہونے والے مولانا عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا مظہر علی اظہر اور مولانا ظفر الملک وغیرہ نے "مجلس احرار" نامی غنڈہ گرد تنظیم بنائی۔مولانا مظہر علی اظہر سابقہ شیعہ تھے جنھوں نے بعد میں دیوبندی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ یہ سپاہ صحابہ عنصر کا ابتدائی ظہور تھا۔ مجلس احرار نے محرم میں مدح صحابہ جلوس کی بدعت پر پابندی کے خلاف تقاریر اور ہنگامے شروع کیے، ان ہنگاموں کا مرکز لکھنؤ کی نئی آبادیاں تھیں جہاں دیہاتوں سے آنے والا مزدور طبقہ رہائش پزیر تھا۔1931ء میں مولانا عبد الشکور لکھنؤی کے فرزند مولانا عبد الشکور فاروقی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ"دار المبلغین" قائم کیا اور دوبارہ محرم کے دنوں میں بزم صدیقی اور بزم فاروقی کا آغاز کر دیا۔ اپنے والد کے برعکس مولانا فاروقی ناصبی تھے، انھوں نے اہلسنت کے تعزیے کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا اور حضرت علیؑ اور دیگر شیعہ ائمہؑ کے خلاف متعدد تحریریں لکھیں۔مولانا فاروقی ان محفلوں کو شیعہ مدرسہ الواعظین اور عزاداری کے مرکزی روٹ کے سامنے "ڈیوڑھی آغا میر" میں منعقد کیا کرتے۔ 1936ء میں مجلس احرار نے محرم کے موقع پر مدح صحابہ کا جلوس بحال کروانے کے لیے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ اس مرتبہ اہلسنت سے ایک نیا گروہ الگ ہو کر سامنے آیا جنھوں نے مجلس احرار کے جلوسوں میں  کھلم کھلا اہلبیت کے قاتلوں کی مدح  اور حضرت علی ؑ پر لعنت بھیجنا شروع کر دی۔ ان میں سے کچھ لوگ خود کو فخر سے" خارجی" کہتے تھے[69]۔یہ لوگ بنی امیہ کے خلاف  مزاحمت کو ابن سبا نامی نومسلم کی سازش قرار دیتے لیکن بنی امیہ کے خلاف آل ابوبکرؓ  میں سے حضرت عائشہ ؓ، حضرت عبد الرحمن ابن ابوبکرؓ، حضرت محمدابن ابو بکرؓاور حضرت عبدللہ ابن زبیر ؓسمیت حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ، حضرت عمار یاسرؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت عبد اللہ ابن عبّاسؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کی مزاحمت کو چھپا تے تھے۔ مولانا مظہر علی اظہر نے عین روز عاشور کو قصیدہ:

ولیوں کے سر کا تاج ہے معاویہ

  چبھتا ہے رافضی کو نظام معاویہ

پڑھ کر اہل تشیع کو اشتعال دلایا۔انھوں نے شیعوں کے خلاف ایک کتاب بعنوان "تحریک مدح صحابہ"بھی لکھی۔اس دوران میں کانگریس کی حکومت بن چکی تھی، جس نے عید میلاد النبی ؐ کے موقعے پر مدح صحابہ جلوس کی اجازت دی، جبکہ وہ بھی شیعہ سنی کا مشترکہ تہوار تھا۔1937ء میں لکھنؤ کے شیعوں نے اشتعال انگیزی  اور اس کی حکومتی سرپرستی کے رد عمل میں تبرے کے جلوس نکالنا شروع کر دیے۔محرم میں خلافت کے اختلاف پر جھگڑا کرنا اور جنونی انداز میں لعن طعن کرنا اصل میں 1900ءمیں اس فتنے کا آغاز کرنے والوں کی منشا کو پورا کرنا تھا۔اس ماہ کا تعلق ان اختلافات سے نہ تھا۔اس موقع پر شیعہ مجتہد سید ناصر حسین موسوی نے ہوشمندی کا ثبوت نہ دیا اور اہلسنت کی مقدس ہستیوں کی توہین کو حرام قرار دینے کی بجائے  اس بے ادبانہ احتجاج کا حصہ بن گئے۔    اس سے سو سال قبل  جب سید احمد بریلوی  اور ان کے پیروکاروں کی طرف سے عزاداری پر حملے کیے  جاتے تھے تو آیت اللہ سید دلدار علی نقوی اور مولوی سید محمد باقر دہلوی شیعوں کو برائی کا جواب برائی سے دینے اور  صفوی انداز میں تبرا کرنے سے  منع کرتے تھے۔ 1938ء میں جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی نے مدح صحابہ بدعت کی قیادت سنبھال لی۔1938ء میں عاشورا کے موقعے پر  لکھنؤ میں شیعہ سنی جنگ ہوئی اور متعدد افراد قتل ہوئے۔شہر کے شیعہ اور سنی شہریوں نے آپس میں بول چال، خریداری، آنا جانا بند کر دیا۔ قائد اعظم ؒ، جو مسلمانوں کے حقوق کے لیے متحرک ہو چکے تھے، اس فساد کو کانگریس کی سازش سمجھتے تھے کیوں کہ اس کو ہوا دینے والے جمعیت علمائے ہند کے مولانا حسین احمد مدنی کانگریس کے اتحادی تھے۔ قائد اعظم ؒکے خیال میں شیعہ سنی جھگڑے کروانے کا مقصد مسلم لیگ کی طرف سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے شروع کی جانے والی تحریک کو پردے کے پیچھے دھکیلنا تھا۔ چونکہ مسلم لیگ کی قیادت ایک شیعہ  وکیل کر رہا تھا[23] اس لیے کانگریس بھی شیعہ سنی فساد سے امیدیں لگائے  بیٹھی تھی۔ علامہ اقبالؒ، جو صوفی مشرب  حنفی سنی  تھے، انھوں نے اس حساس موقعے پر شیعہ سنی جھگڑوں سے خبردار کرتے ہوئے کہا:-

ای کہ نشناسی خفی را از جلی، ہشیار باش

ای گرفتار ابو بکر و علی، ہشیار باش

حیرت کی بات یہ تھی کہ اس زمانے میں کانگریسی وزیروں کی مسلم دشمنی سامنے آنے کے باوجود مولانا حسین احمد مدنی ہندو مسلم اتحاد کی تو وکالت کرتے تھے مگر مسلمانوں کا داخلی اتحاد توڑنے میں لگے رہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے آنے والے اکثر شیعہ دشمن علما، مولانا سرفراز خان صفدر، مفتی محمود، مولانا منظور احمد چنیوٹی اور مولانا عبد الستار تونسوی  وغیرہ  انہی کے شاگرد تھے۔ان دنوں   ہندوستان کے تعلیم یافتہ افراد  تاریخ کا تجزیہ کرنے اور آزادی کے خواب دیکھنے لگے تو  نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کا ذکر اچھے عنوانات سے ہونے لگا۔ شیعہ دشمن علما نے   ہندوستان کے اہل تشیع کی تاریخ کو مسخ کر کے سنیوں  کو شیعوں سے بدظن کرنے کے سلسلے کا آغاز کر دیا[68]۔سراج الدولہ سے غداری کرنے والے میر جعفر کا مسلک شیعہ تھا، اس کے مسلک  کو جلسوں اور تحریروں میں نمایاں کیا جانے لگا۔ لیکن یہ بات چھپا دی جاتی کہ خود نواب سراج الدولہ بھی شیعہ تھے  اور شاہ ولی اللہ  نے اسی لیے ان کی حمایت میں ایک فتویٰ بھی جاری نہ کیا۔ دوسری طرف ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والے پورنیا اور میر صادق میں سے میر صادق کو شیعہ کہا جانے لگا حالانکہ وہ سلطان کا رشتہ دار اورانکی طرح صوفی مشرب سنی تھا۔ سب غداروں کو شیعہ قرار دینا اور سراج الدولہ اور سید غفور جیسے شیعہ ہیروز کا مسلک چھپانا تنگ نظر علما کا وتیرہ  رہاہے۔

اکتوبر 1939ءکومولانا ابو الکلام آزاد کلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش  کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے[70] البتہ مولانا عبد الشکور لکھنؤی  پھر بھی صحابہ کے نام پر فتنہ انگیزی سے باز نہیں آ ئے اور نتیجتا حکومت کو اس سلسلے پر پابندی لگانا پڑی۔ 1940ء میں دہلی میں جب مولانا محسن علی عمرانی (ڈیرہ اسماعیل خان) مجلسِ عزا سے خطاب کر رہے تھے تب عزاداری کے جلوس پر بم سے حملہ کیا گیا [71]۔ اس حملے کو محرم کے جلوسوں پر ہونے والا پہلا بم دھماکا کہا جا سکتا ہے- مولانا عبد الشکور  1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو  گئے۔[72]

1930 ء کی دہائی میں ہونے والے فسادات میں نئی باتیں یہ تھیں:۔

1.محرم کے علاوہ باقی مہینوں میں بھی فسادات ہونے لگے۔

2.فسادات لکھنؤ کے گرد و نواح تک محدود نہ رہے بلکہ پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ پنجاب میں انگریز دور میں کئی مقامات پر شیعہ تقریبات پر پتھراؤ اور حملے ہوئے۔ ریاست حیدرآباد  دکن کے نظام میر عثمان علی خان نے وائسرائے کو خط لکھ کر اقدام کرنے کے لیے زور ڈالالیکن انگریز حکومت نے ان کی ایک نہ سنی[20]۔میر عثمان علی خان نے حیدرآباد میں مدح صحابہ جلوس اور تبرا پر سختی سے پابندی لگائی[21]۔

ساتواں دور: پاکستان اور تنظیم اہل سنت

جنگ عظیم دوم  کی وجہ سے کمزور ہونے والے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے  اور   مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں  ہندوستان کے شمال مغرب  میں ایک مسلمان ریاست کے ممکنہ قیام کی آہٹ پا کر علما دیوبند میں سے کچھ نے اس وجہ سے قیام پاکستان کی مخالفت کی کہ اس تحریک کو چلانے والے محمد علی جناح[73][25] اور اخراجات برداشت کرنے والے راجا صاحب محمود آباد شیعہ تھے[23]، [74][75][76]۔ دیوبندی مفتی کفایت ﷲ دہلوی صاحب کے مطابق قائد شیعہ اور جدت پسند ہونے کی وجہ سے صرف نام کے مسلمان تھے[25]۔چنانچہ مولانا عطا اللہ بخاری نے جہاں مولانا آزاد کے غیر متعصب سیاسی موقف کو نقل کیا وہاں گاہے گاہے اپنی مخالفت کی اصلی وجہ بھی بیان کی۔  مولانا صاحب کے الفاظ میں  محمد علی، غضنفر  علی اور دوسرے علی نام والے لوگ نیا ملک  اس لیے نہیں بنا رہے کہ اس کو ہمارے حوالے کر دیں۔1940ء کی دہائی کی سیاسی گہما گہمی میں   مسلمان عوام فسادی علما سے دور ہو گئے لیکن جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار نے  اپنے تئیں فرقہ وارانہ آگ لگانے کی کوششوں کو جاری رکھا۔قائد اعظم ؒ کے چودہ نکات اور گول میز کانفرنسوں کے نتیجے میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آ رہی تھی لیکن مجلس احرار اور جمعیت علمائے ہند نے مسلم لیگ کے خلاف گھٹیا مہم چلائی۔ قائد اعظم کی مرحومہ زوجہ رتی جناح، جنھوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور جن کی وفات کے بعد ان کو شیعہ طریقے سے بمبئی کے خوجا اثنا عشری قبرستان میں دفن کیا گیا تھا، کو جمعیت علمائے ہند نے کافرہ کہنا شروع کیا۔مولانا حسین احمد مدنی نے "سول میرج اور لیگ" کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں قائد اعظم پر الزام لگایا کہ انھوں نے سول میرج ایکٹ کے مطابق ایک غیر مسلم عورت سے شادی کی تھی، جس کے جواب میں مسلم لیگ نے محترمہ رتی جناح کے قبول اسلام کے ثبوت شائع کیے۔ یہ سب ایسے ماحول میں ہو رہا تھا جب کانگریس اور جمعیت کے کئی مسلم ارکان نے ہندو خواتین سے شادیاں کر رکھی تھیں۔ مثال کے طور پر جمعیت علمائے ہند کے رکن بیرسٹر آصف علی نے بنگالی ہندو خاتون، محترمہ ارونا، سے شادی کر رکھی تھی جو کبھی مسلمان نہ ہوئیں۔ باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ایک انگریز خاتون، جو علیٰ الاعلان غیر مسلم تھیں،   سے شادی کر رکھی تھی اور ان کی بیٹی نے ایک سکھ لڑکے سے"سول میرج ایکٹ" کے تحت  شادی کی تھی۔ وہ چونکہ کانگریس کے اتحادی تھے اس لیے مولانا مدنی نے ان کی  شادیوں  پر کوئی اعتراض نہ کیا۔بعد ازاں جب مولانا آزاد کی زوجہ فوت ہوئیں تو مسلم لیگ کے نوجوانوں نے لوگوں کو ان کے جنازے میں شرکت سے باز رہنے کا کہہ کر اس توہین کا بدلہ لیا، یہ بھی ایک غیر اخلاقی حرکت تھی لیکن پھر بھی وہ کانگریسی علما جتنے نہ گرے کہ کافرہ کہتے۔

مجلس احرار کے  مولانا  مظہر علی اظہر نے مولانا مدنی کے اسی پروپیگنڈے کو ہی  آگے بڑھاتے ہوئے  اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری میں  قائد اعظم کو کافر اعظم  کہا:۔

اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا

محترمہ رتی جناح

یہ قائد اعظم ہے کہ  کافر اعظم ؟

مولانا مودودی  نے قائد اعظم کو رجل فاجر اور احمقوں کی جنت کا بانی قرار دیا[77]۔ لیکن تحریک خلافت اور لکھنؤ کے فسادات کے ڈسے ہوئے مسلمان ان پر دوبارہ اعتماد کرنے کی غلطی نہیں کر سکتے تھے۔ 1944ء میں مہاتما گاندھی قائد اعظم ؒ سے مذاکرات کرنے بمبئی آ ئے تو قائد اعظم ؒ نے 7 ستمبر کو حضرت علی ؑ کے یوم شہادت کی وجہ سے ملاقات سے معذرت کی اور مذاکرات 9 ستمبر کو شروع ہوئے۔ اس بات پر لکھنؤ میں مجلس الاحرار کے رہنما مولانا ظفر الملک بھڑک اٹھے اور قائد اعظم ؒ کو کھلا خط لکھ کر کہا:۔

"مسلمانوں کا 21 رمضان سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ خالص شیعہ دن ہے۔ اسلام کسی قسم کے سوگ کی اجازت نہیں دیتا۔ در حقیقت اسلام کی روح اس قسم کے یہودی تصورات کے بالکل خلاف ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ خوجا کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک شیعہ گروہ ہے، لیکن آپ کو مسلمانوں پر ایک شیعہ عقیدہ تھوپنے کا کوئی حق نہیں"[78]۔

قائد اعظم ؒ نے اس خط کے جواب میں لکھا:۔

"یہ شیعہ عقیدے کی بات نہیں، حضرت علی ؑچوتھے خلیفہ بھی تھے۔ اور میں جانتا ہوں کہ حقیقت میں اکیس رمضان کا دن اکثر مسلمان، شیعہ سنی اختلاف سے بالاتر ہو کر مناتے ہیں۔ مجھے آپ کے رویے پر تعجب ہوا ہے"[78]۔

محترمہ فاطمہ جناح اور دینا جناح قائد اعظم کی تدفین کے موقعے پر غم سے نڈھال ہیں

اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ قائد اعظم ؒ کی مذہبی آزادی کا بھی احترام نہیں کرتے تھے، ان کے غم و خوشی کے ذاتی جذبات کو بھی اپنی سوچ کے تابع کرنا چاہتے تھے۔ فرنگی محل لکھنؤ سے اہلسنت نے آپ کو خط لکھ کر مولانا ظفر الملک کی اس حرکت کی مذمت کی اور آپ کو مکمل حمایت کا یقین دلایا [79]۔ 26  اگست 1941ء کو لاہور میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔[80] مولانا مودودی اگرچہ روایتی فرقہ پرست عالم  نہیں تھے مگر اپنی جماعت اسلامی کے پیغام کو قبول نہ کرنے والوں کو نام نہاد مسلمان سمجھتے تھے۔ اس طرح جماعت اسلامی بھی ایک قسم کا فرقہ بن گئی۔  البتہ  جماعت اسلامی محدود تعداد مگر  منظم  ارکان  کا حامل   فرقہ ہے، جس کو انگریزی زبان میں کلٹ[81] کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ 1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں تنظیم اہل سنت  کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 26اکتوبر 1946ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ کے متوازی سیاسی جماعت تھی، کیونکہ دیوبندی علما محمد علی جناح کے جدید نظریات پر مبنی تصورپاکستان کو غلط سمجھتے تھے[82]۔ جب قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ریاست کی نظر میں سب شہریوں کوبلا تفریق مذہب مساوی قرار دیا تو 1 ستمبر 1947ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی اس تقریر کی مخالفت پر مبنی تھا[83]، یوں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علما نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے[72]- لہٰذا قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی[73] مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئ تو حکومت نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا تاکہ بعد میں جنازہ پڑھنے والوں کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود "فتاویٰ مفتی محمود" میں شیعہ حضرات کا جنازہ نہ پڑھنے کے فتووں ذیل میں قائد اعظم کے شیعہ ہونے کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے[75]۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انھوں نے اپنے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا۔[84] دوسری طرف دیوبندی علما مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی دیوبندی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا۔[85] لہٰذا قیام پاکستان کے بعد  ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے۔

1948ء میں روزنامہ احسان نے اپنے اداریے میں شیعوں کے عقائد اور ثقافت پر تنقید کی اور ان  کو تلقین کی کہ انگریز دور کو بھول کر نئے ملک میں مسلمانوں کی طرح رہنا سیکھیں۔  اس اخبار کو سرکاری اداروں میں بھی منگوایا جاتا تھا، چنانچہ اس اداریے کے خلاف شیعوں  نے ملک گیر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں حکومت نے نفرت پھیلانے کے جرم میں اخبار پر تین ہزار روپیہ جرمانہ عائد کیا۔ 1949ء میں چوٹی زیریں اور 1950ء میں نارووال میں عزاداری پر حملے ہوئے۔ 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں شیعہ امیدواروں کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر مہم چلائی گئی اور انھیں کافر قرار دیا گیا[70]۔ ستم ظریفی  یہ  کہ 24جنوری 1951ء میں کراچی میں سب مکاتب فکر بشمول شیعہ کے علما نے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے 22 نکات ترتیب دیے، [86] جبکہ عملی حقائق کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔ 1953ء میں قادیانیوں  کے خلاف چلنے والی مہم میں شیعہ رہنما بھی شامل ہوئے۔  دو سالوں کے لیے دیوبندی علما کی توجہ ختم نبوت کے معاملے پر مرکوز رہنے کی وجہ سے شیعوں  پر کوئی حملہ نہ ہوا۔ شیعہ مخالف حملوں کا دوبارہ آغاز 1955ء میں ہوا جب پنجاب میں پچیس مقامات پر عزاداری کے جلوسوں اور امام بارگاہوں  پر حملے کیے گئے جن میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔  اسی سال کراچی میں ایک مولانا صاحب نے افواہ اڑائی کہ شیعہ ہر سال ایک سنی بچہ ذبح کر کے نیاز پکاتے ہیں، اس افواہ کے زیر اثر کراچی میں ایک بلتی امامبارگاہ پر حملہ ہوا اور بارہ افراد شدید زخمی ہو گئے[70]۔ پاکستان میں شیعہ کشی کی پہلی واردات 1950 ء میں وادئ کرم پر دیوبندی قبائل کے حملے کی صورت میں ہوئی، جو 1948ء میں جہاد کشمیر کے نام پر اسلحہ اور مال غنیمت سمیٹ کر طاقتور ہو گئے تھے۔ 1956ء میں وادئ کرم دوبارہ حملوں کا نشانہ بنی۔ پنجاب میں شیعہ کشی کی پہلی واردات 1957ء میں ملتان کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں ہوئی جہاں جلوس پر حملہ کر کے تین عزاداروں کو قتل کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا اور اس واردات میں ملوث پانچ دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئی۔ اسی سال احمد پور شرقی میں عزاداری کے جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں ایک شخص جان بحق اور تین شدید زخمی ہوئے۔ جون 1958ء میں بھکر میں  ایک شیعہ خطیب آغا محسن کو  قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے اعترافی بیان میں  کہا کہ مولانا نور الحسن بخاری کی تقریر  نے اس کو اس جرم پر اکسایا تھا جس میں شیعوں کو قتل کرنے  والے کو غازی علم دین شہید سے نسبت دی گئی تھی اور جنت کی بشارت دی گئی تھی[70]۔ مولانا نور الحسن بخاری کوکوئی سزا نہ ملی۔ جوں جوں پاکستان میں نفاذ  اسلام کی تحریک زور پکڑتی گئی، معاشرے کو دیوبندی قسم کے مذہبی سانچے میں ڈھالنے کے عمل میں اضافہ ہوتا گیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ شیعہ علما بھی نفاذ اسلام کی تحریکوں کا ساتھ دیتے رہے۔

پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں 1963ء کا سال سب سے زیادہ خونریز ثابت ہوا۔ اسی سال جنرل ایوب نے علما کے احتجاج کے دباؤ میں آ کر پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا۔ 3 جون 1963ء کو بھاٹی دروازہ لاہور میں عزاداری کے جلوس پر  پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو عزادار قتل اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔[87] نارووال، چنیوٹ اور کوئٹہ میں بھی عزاداروں پر حملے ہوئے۔  اس سال دہشت گردی کی بدترین واردات سندھ کے ضلعے خیر پور کے گاؤں ٹھیری میں پیش آئ جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 120 عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں کی مدد سے ذبح کیا گیا۔[88][89]  متعدد زخمیوں نے خود کو مردہ ظاہر کر کے جان بچائی۔ یہ  لوگ   ایک چھوٹے سے امام بارگاہ میں یوم عاشور  کی مناسبت سے ماتم اور گریہ و زاری کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جھنگ، کراچی، لاہور، چکوال، ڈیرہ غازی خان، ملتان، شیخوپورہ، پاراچنار اور گلگت میں عزاداروں پر حملے ہوئے۔ اس وقت تک شیعہ دشمنی میں اتنی شدت آ چکی تھی کہ 11 جولائی 1967ء میں محترمہ فاطمہ جناح کے جنازے پر دیوبندی عناصر نے اعتراض کیا اور ایک شدت پسند طلبہ تنظیم نے پتھراؤ شروع کر دیا جس کے خلاف پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ مادر ملت کے سیاسی مخالف جنرل ایوب خان نے اپنی یاداشتوں میں اس ہنگامے پر افسوس کا اظہار کیا ہے[90]۔

بات صرف قتل و غارت تک محدود  نہیں تھی، فرقہ وارانہ لٹریچر کا تنور بھی دہک رہا تھا جس میں اکثر شیعوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔ مرزا حیرت دہلوی  اور  عبد الشکورفاروقی  کی کتابیں کم تھیں کہ  محمود احمد عباسی[91] اور ابو یزید بٹ[92] کی کتابوں نے اشتعال انگیزی کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔  بعد میں علامہ احسان الہی ظہیر نے جلتی پر مزید تیل چھڑکا[93] ان لوگوں کی گندی زبان کا رد عمل  قیام پاکستان کے تقریباً چالیس سال بعد  اس صورت میں آیا جب پنجاب کے ایک دیہاتی شیعہ مولوی غلام حسین نجفی نے بعض صحابہ کرام (رض) کے بارے میں بھی ایسی ہی زبان استعمال کی[94][95]۔

قیام پاکستان سے ہی یہ تاثر عام تھا کہ دیوبندی علما قادیانیوں کے بعد شیعوں کے خلاف مہم چلائیں گے۔1965ء سے 1977ءتک کے سالوں میں شیعہ کشی کی مہم دیوبندی علما کے پیپلز پارٹی کے سوشلزم، بنگلہ دیش کی تحریک آزادی اور بعد میں ختم نبوت کی تحریک جیسے مسائل میں الجھ جانے کی وجہ سے ماند پڑ گئی۔  1974ء میں جب قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ زیر بحث آیا تو مرزا ناصر صاحب کی طرف سے شیعہ عقائد پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ شیعہ ایم این اے سید عبّاس حسین گردیزی نے اپنے مکتب فکر کے علما سے رابطہ کر کے 2 ستمبر 1974ء کو دس صفحات پر مشتمل وضاحتی بیان داخل کرایا۔[96]

آٹھواں دور : افغانستان میں عدم استحکام اور ایران میں انقلاب

افغانستان نے 1973ء میں پشتونستان کے نام پر پاکستان  کے پختونون کو استعمال کر کے ملک توڑنے کی سازش بنائی  جس کے جواب میں پاکستان نے افغان حکومت کے مخالف اخوان کو مدد دینا شروع کی تھی۔ اس طرح "افغان  مجاہدین"  کے ساتھ پاکستانی حکومت کے تعلقات 1974 ء میں ہی استوار ہو گئے۔ پاکستان کے پختونوں نے انگریزوں کے دور میں ہی وادئ سندھ کو سنگلاخ افغانستان پر ترجیح دی تھی اور پنجاب، سندھ اور بلوچستان  کے ساتھ اپنے معاشی اور تاریخی تعلق کی وجہ سے ہی قیام پاکستان کے بعد ہونے والے ریفرنڈم میں پاکستان سے الحاق کیا تھا۔اسی گہرے تعلق کی بدولت پاکستان کے پختون عوام میں افغانستان  کی حمایت سے چلنے والی اس تحریک کو خاطر خواہ حمایت نہ مل سکی۔جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب "فریب ناتمام" میں ان سب واقعات  اور افغانستان کی پسماندگی کی تفصیل لکھی ہے۔اسی دوران میں ایران میں مذہبی انقلاب کی تحریک آیت اللہ خمینی کی قیادت میں چل رہی تھی - پاکستان کے شیعہ علماءکی اکثریت اس تحریک کے خلاف تھی اورآیت اللہ شریعت مدار[97] نامی شاہ نواز مرجع تقلید کی حامی تھی - پاکستان میں شیعہ عوام یا تو نجف میں مقیم عراقی مرجع آیت اللہ محسن الحکیم کے پیرو تھے یاقم کے آیت اللہ شریعت مدار کی تقلید کرتے تھے - پاکستان میں سب سے پہلے جس نے ایران میں مذہبی انقلاب کی تحریک کی حمایت کی وہ مولانا مودودی تھے[98] جونومبر 1963ء میں حج کے سفر کے دوران میں آیت اللہ خمینی سے ملاقات کر چکے تھے [99]- آیت اللہ خمینی ان کی کتاب " اسلامی ریاست " سے متاثر تھے۔ پاکستان کے روایتی شیعہ علما آیت اللہ خمینی کی طرف سے فلسفے اور تصوف کی تعلیم اور شاہ ایران کی مخالفت کی وجہ سے ان کو گمراہ سمجھتے تھے[100]۔ البتہ لاہور کے مولانا صفدر حسین نجفی نے ان کی توضیح المسائل کا ترجمہ کر کے عوام میں ان کی تقلید کو رواج دینے کی محدود کوشش کی۔

پاکستان میں شیعہ کشی کے واقعات میں شدت اس وقت آئی جب27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں انقلاب ثور آیا[101] اور اس سے اگلے سال  کمیونسٹ حکومت نے روس کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس اقدام کے نتیجے میں افغانستان غیر مستحکم ہو گیا۔ جب کوئی ریاست ٹوٹتی ہے تو وہ ڈاکووں اور دہشت گردوں کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ پختون قبائل میں پہلے ہی امیر عبد الرحمن خان کے زمانے سے شیعہ اور بریلوی مخالف جذبات پائے جاتے تھے۔  اگلے سال فروری 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا جس نے شیعہ مسلک کو ایک مسلمان مسلک کے طور پر متعارف کرایا۔ ایران کی مذہبی قیادت نے انقلاب کی کامیابی کے بعد سب سے پہلے ایران سے باہر جس شخصیت سے رابطہ کیا وہ جماعت اسلامی کے علیل رہنما مولانا مودودی تھے [102]۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد پاکستان کا انقلابی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنا بھی مولانا مودودی کی کوشش سے ممکن ہوا- پاکستانی شیعوں میں آیت اللہ خمینی کی باقاعدہ حمایت سنہ 1985ء میں علامہ عارف حسین الحسینی کے منظر عام پر آنے سے پیدا ہوئی جو مذہبی نظام حکومت پر یقین رکھتے تھے اور جماعت اسلامی اور جمیعت علما اسلام کی قیادت کے کافی قریب تھے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی طرف سے کھلے عام آیت اللہ خمینی کی حمایت نے بعض دیوبندی حلقوں میں تشویش کی لہر پیدا کی جوشاہ کے زمانے میں "الحق" جیسے مجلات میں ایران کی مذہب سے دوری کو شیعہ مسلک کی بے راہ روی قرار دیا کرتے تھے۔ افغانستان میں جاری جنگ کے ضمن میں جنگی تربیت، مالی وسائل اور پناہ گاہیں ملنے کے نتیجے میں پاکستان میں شیعہ ثقافت کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والی  تنظیم اہل سنت اب سپاہ صحابہ کی شکل میں زیادہ متحرک ہو گئی۔ گذشتہ سو سال میں اردو زبان میں لکھا گیا نفرت انگیز لٹریچر کافی مقدار میں پھیل چکا تھا۔ تحریر و تقریر کے ذریعے شیعہ مسلک کو کافر قرار دینے کی مہم اب جہاد افغانستان کے ضمن میں ملنے والے فنڈز کی بدولت زیادہ تیز ہو گئی اور اس کے ساتھ ساتھ شیعہ کشی بھی بڑھنے لگی۔ پاکستان کے کونے کونے میں دیوبندی مدارس کھلنے لگے۔ ایک اندازے کے مطابق  آج کل ان مدارس میں طلبہ کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی زمانے میں پاکستان کے در و دیوار پر کافر کافر شیعہ کافر کے نعرے درج ہو گئے۔

جب جولائی 1977ء میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا تو اگلے محرم، فروری 1978ء میں لاہور میں 8 جبکہ کراچی میں 14 شیعہ قتل ہوئے۔[103] جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت میں سرکاری اسکولوں میں شیعہ بچوں کے لیے منظور کی جانے والی شیعہ دینیات کے مضمون پر پابندی لگا دی۔جماعت اسلامی کے قیام کے ابتدائی سالوں سے ہی دیوبندی علما بالعموم اور مولانا منظور احمد چنیوٹی بالخصوص، مولانا مودودی سے پیشہ وارانہ مخاصمت رکھتے تھے اور ان کے خلاف کئی مضامین اور کتابیں لکھ چکے تھے۔ انھوں نے "ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت" کے عنوان سے کتاب لکھ کر شیعہ سنی منافرت کو ہوا دی جس کے نتیجے میں جہاں جماعت اسلامی کی مقبولیت میں کمی آئی وہاں پاکستان میں شیعہ کشی میں مزید تیزی آئی۔

1984ء میں مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد کچھ عرصہ "تنظیم اہلسنت"  کی باقیات کو "سواد اعظم" پکارا گیا اور اس کی سرپرستی مولانا سمیع الحق نے کی۔ 1985ء میں  یہ جماعت پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں "انجمن سپاہ صحابہ" کے نئے نام سے سامنے آئی۔کچھ سالوں بعد جب اس نام کے انگریزی مخفف (ASS) کا مذاق اڑایا جانے لگا تو اس کا نام بدل کر "سپاہ صحابہ پاکستان" رکھ دیا گیا۔

جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں کوئٹہ، کراچی، پاراچنار اور گلگت  میں شیعوں پر بڑے    حملے ہوئے۔1981 ء  میں کرم ایجنسی کے سارے  دیوبندی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر  پاراچنار کے راستے پر موجود قصبہ "صدہ "میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول دیا  اور فلسطین  پر اسرائیلی قبضے کی طرز پر   شیعوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا۔ کیونکہ اس وقت تک انگریز وں کے زمانے  میں تشکیل دی گئی  کرم ملیشیا وادئ کرم میں موجودتھی  لہذا جنگ صدہ تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک پھیلنے  نہ دی گئی۔1983ء   میں کراچی میں شیعہ آبادیوں پر حملے ہوئے جن میں 60 افراد شہید کر دیے گئے۔5 جولائی 1985ء کو کوئٹہ میں تکفیری دہشت گردوں نے اپنے دو پولیس والے سہولت کاروں کے ہمراہ پولیس کی وردیاں پہن کر  شیعوں کے احتجاجی جلوس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 25 شیعہ قتل ہو ئے۔ البتہ چونکہ یہ دو بدو مقابلے کی کوشش تھی، لہذا  11 دہشت گرد جوابی کارروائی میں ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ہلاک شدگان میں سے دو کی شناخت پولیس اہلکاروں کے طور پر ہوئی، باقی 9 جعلی وردیاں پہن کر آ ئے تھے۔ 24 جولائی 1987 ء کوپاراچنار میں شیعہ آبادیوں پر افغان مجاہدین کا حملہ شیعوں کی بھرپور تیاری کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ 80ء کی دہائی میں پاکستان بھر میں 700 کے لگ بھگ شیعہ قتل ہوئے، جن میں سے 400کے قریب لوگ 1988ء میں گلگت کی غیر مسلح شیعہ آبادیوں پر حملے کے نتیجے میں قتل ہوئے[104]۔

نواں دور:سٹریٹیجک ڈیپتھ، یعنی تزویراتی گہرائی

جس وقت روس افغانستان سے نکلا اسی وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے تنگ عوام نے احتجاجی مظاہروں کا آغاز کر دیا۔ پاکستان کی انتظامیہ نے افغان جہاد کے بچے ہوئے جہادیوں کو کشمیر میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان جہادیوں نے کشمیر جا کر مقامی آبادی کوبدعتی سمجھا، مزارات پر حملے کیے اور بریلوی اور شیعہ کشمیریوں کے گھروں میں لوٹ مار کی۔ جہاد کشمیر کے نام پر جیش محمد کے  مولانا مسعود ازہر لڑکوں کو بھرتی کر کے ٹریننگ دیتے اور مولانا اعظم طارق اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی ان کو شیعہ کشی کا راستہ دکھاتے۔ بعد ازاں کشمیر جہاد وہاں کی مقامی آبادی کے جہادیوں سے خوفزدہ ہو جانے کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ آزادی کی کوئی بھی تحریک باہر سے سمگل شدہ جنگجوؤں کے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہوتی۔ چی گویرا جیسے عالمی شہرت یافتہ انقلابی کے آخری ایام اس بات پر گواہ ہیں۔

نوے کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کی انتظامیہ نے ہندوستان کے ممکنہ حملے کا سامنا کرنے کے لیے" تزویراتی گہرائی "کے تصور کو محور بنا کر سوچنا شروع کیا۔ اس مفروضے کے خالق جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل حمید گل یوسفزئی  تھے۔ اس کے مطابق اگر ہندوستان راجستھان سے حملہ کر کے پاکستان کو دو حصوں میں کاٹنا چاہے تو فوج کی پشت پناہی کے لیے کٹر قسم کی مذہبی جماعتوں کے کارکنان کا جنوبی پنجاب اور طالبان کا قندھار میں ہونا ضروری تھا[105]۔ ان منصوبہ سازوں نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا تھا کہ کسی بھی فوج کی آخری دفاعی لکیر عوام ہوتے ہیں نہ کہ فسطائی  گروہ، دنیا بھر میں قابض افواج کے خلاف عام عوام نے ہی مزاحمت کی ہے۔ نیز اس وقت پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا اور اس قسم کے کسی منصوبے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ جنرل حمید گل تاریخ کے حقائق سے ناواقف اور نسیم حجازی جیسے لکھاریوں کی فرضی کہانیوں کے قاری تھے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں تشکیل دیے گئے "البدر" اور"الشمس" جیسے مذہبی لشکر وں کے ناکام تجربے سے سبق سیکھا گیا ہوتا تو یہ غلطی نہ دہرائی جاتی۔ شیعوں کے لیے یہ سوچ بھٹو اور ضیاء کے فیصلوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی اور اس کے نتیجے میں شیعہ کشی کا عمل پاکستان کے ہر ضلعے میں تیز ہو گیا۔ جیش محمد کا نعرہ کشمیر جہاد کا تھا لیکن اس کا  ہیڈ کوارٹر رحیم یار خان میں تھا۔ سپاہ صحابہ جیسے مسلح گروہوں نے اس مبہم منصوبے کا بھرپور فائدہ اٹھا کر بہاولپور اور رحیم یار خان سے لے کر ملتان اور ڈیرہ غازی خان تک اپنے اثر و نفوذ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ بعد کے سالوں میں پاکستان کو اس جاہلانہ تصور کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ غنڈہ گرد عناصر کی سرپرستی کے نتیجے میں عوام کی یکجہتی کو ٹھیس پہنچی اور منشیات، غربت اور جرائم میں اضافہ ہوا۔ افغان طالبان نے پاکستان میں دیوبندی انقلاب لانے کی غرض سے دیوبندی تنظیموں کے کارکنان کو فراخدلی سے پناہ اور ٹریننگ فراہم کی۔ پاکستان میں شیعہ قتل کر کے یہ لوگ افغانستان بھاگ جاتے۔ ملک کے کئی نامور ڈاکٹر، انجنیئر اور قانون دان محض شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل کر دیے گئے۔ ان کی عورتیں بیوہ، والدین بے سہارا اور بچے یتیم ہو گئے[106][107]۔اس دوران میں نفرت انگیز تحریروں اور تقریروں کا سیلاب آ گیا۔

1993ء میں لاہور میں سپاہ محمد کے نام سے ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم کا قیام ہوا جس نے سپاہ صحابہ کے حملوں کے جواب میں دیوبندی حضرات پر حملے کرنا شروع کیے۔ چنانچہ اگر کسی شیعہ مسجد پر حملہ ہوتا تو کچھ ہی دنوں میں کسی دیوبندی مسجد میں بے گناہ لوگ قتل کیے جاتے۔ حکومت نے صورت حال خطرناک ہوتے دیکھ کر دونوں تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہا تو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کے عسکری حصے کو لشکر جھنگوی کا نام دے کر لا تعلقی کا اعلان کر دیا، اگرچہ لشکر جھنگوی کے کارکنوں کی گرفتاری کی صورت میں سپاہ صحابہ ہی قانونی اور مالی امداد مہیا کرتی۔ یہ ایسا ہی فیصلہ تھا جیسا مجلس احرار کی طرف سے تنظیم اہلسنت کو قائم کرنا، تاکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔  لشکر جھنگوی کے بانی مولانا ضیاء الرحمن فاروقی جنوری 1997ء میں سپاہ محمد کی طرف سے کیے گئے ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔چونکہ یہ تنظیم سٹریٹجک اثاثوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی لہذا لاہور پولیس نے آپریشن کر کے سپاہ محمد کا خاتمہ کر دیا، اسی عرصے میں سپاہ صحابہ کے متعدد دہشت گرد پولیس مقابلوں میں ہلاک ہو ئے مگر سپاہ صحابہ کے خلاف کبھی کوئی فیصلہ کن آپریشن نہیں ہو سکا۔

80ء کی دہائی میں  مولانا نور الحسن بخاری کی وفات کے بعد شیعہ کشی کی سرپرستی کا بیڑا اٹھانے  والے مولانا حق نواز جھنگوی اور ان کے پیشرو مولانا ایثار القاسمی کو جھنگ میں سیاسی خطرہ بننے کے باعث شیخ اقبال ایم این اے نے قتل کرا دیا، جو خود بعد میں سپاہ صحابہ کی انتقامی کارروائی میں قتل ہو گئے۔[108] 1993ء میں لاہور میں سپاہ محمد کے نام سے ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم کا قیام ہوا جس نے سپاہ صحابہ کے حملوں کے جواب میں دیوبندی حضرات پر حملے کرنا شروع کیے۔ چنانچہ اگر کسی شیعہ مسجد پر حملہ ہوتا تو کچھ ہی دنوں میں کسی دیوبندی مسجد میں بے گناہ لوگ قتل کیے جاتے۔ حکومت نے صورت حال خطرناک ہوتے دیکھ کر دونوں تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہا تو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کے عسکری حصے کو لشکر جھنگوی کا نام دے کر لا تعلقی کا اعلان کر دیا، اگرچہ لشکر جھنگوی کے کارکنوں کی گرفتاری کی صورت میں سپاہ صحابہ ہی قانونی اور دیگر امداد مہیا کرتی۔ لشکر جھنگوی کے بانی مولانا ضیاء الرحمن فاروقی جنوری 1997 میں ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔[109] ادھر لاہور پولیس نے آپریشن کر کے سپاہ محمد کا خاتمہ کر دیا[70]۔ 90ء کی دہائی میں ہی کراچی میں  سپاہ صحابہ اور جماعت اسلامی کی طرف سے بریلوی مساجد پر قبضے کے خلاف سنی تحریک کے نام سے ایک اور مزاحمتی گروہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ چنانچہ تکفیری علما نے اب بریلویوں پر قاتلانہ حملے کرنے کا آغاز کر دیا۔   بریلویوں پر پہلا نمایاں حملہ 2001ء میں ہوا جب سنی تحریک کے بانی  جناب  سلیم قادری کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔[110]اسی دوران میں سپاہ صحابہ کی طرف سے دیگر مذاھب کے ماننے والوں پر بھی حملے شروع ہو ئے۔ مثال کے طور پر اکتوبر 2001ء میں سپاہ صحابہ کے چھ کارکنان نے بہاولپور میں سینٹ ڈومینک چرچ میں فائرنگ کر کے اٹھارہ نہتے اور بے گناہ مسیحیوں کو قتل کر دیا۔

دسواں دور: مفتی نظام الدین شامزئی اور خودکش حملے

90ء  کی دہائی کے آخر میں افغان طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا جس کی تنظیم نے 1998ء میں مشرقی افریقہ میں دو امریکی سفارت خانوں پر بم سے حملے کیے تھے اور ایک امریکی  بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش کی تھی[105]۔اسامہ بن لادن دراصل اپنے ملک سعودی عرب میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف تھا مگر اپنے ملک میں سیاسی تحریک چلانے  کے بجا ئے اس قسم  کی  کارروائیوں  میں ملوث ہو گیا تھا۔کراچی میں مقیم ایک بڑے نام والے دیوبندی عالم مفتی نظام الدین شامزئی سعودی عرب میں امریکی موجودگی کے خلاف پاکستان میں پورے اخلاص کے ساتھ سرگرم تھے[111]۔11 ستمبر  2001 ء کو القاعدہ نے کچھ مسافر بردار طیارے اغوا کر کے امریکا کے شہر نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی  میں عمارتوں سے ٹکرا دیے۔7 اکتوبر 2001ءکو امریکا نے افغان طالبان پر حملہ کر دیا۔  پاکستان کی حکومت نے القاعدہ کی جنگ اپنے سر لینے کے بجا ئے  امریکا کو راستہ دینے کا فیصلہ کیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی  نے  پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جہاد کا فتویٰ جاری کیا[112]۔ مفتی شامزئی دیوبندی مسلمانوں میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے اور ان کے فتوے کو پاکستان بھر میں خصوصا قبائلی علاقہ جات میں جہاں حکومتی رٹ کمزور تھی، بہت پزیرائی ملی۔ افغان طالبان چند دنوں میں امریکا کے  ہاتھوں شکست کھا گئے اور بہت سے طالبان اور القاعدہ کے جنگجو پاکستانی  علاقوں میں آ گئے۔ اس طرح ریاست اور طالبان کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی۔ ادھر 2002ء کے الیکشن میں خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت اور کراچی کی شہری حکومت متحدہ مجلس عمل کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان حکومتوں نے سرکاری نوکریاں ایسے مذہبی مہم جو افراد کو دیں جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں  طالبان کے سہولت کار بنے۔ اس جنگ کے ماحول میں شیعہ مخالف تنظیموں نے شیعہ کشی میں خودکش دھماکے کا استعمال شروع کیا جس کے نتیجے میں اعداد و شمار کے مطابق 2000ء سے 2017ء  تک تقریباً تین ہزار شیعہ قتل ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہو کر زندہ لاش بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کوئٹہ[113]، کراچی اور ڈیرہ اسماعیل خان[114] کے شیعہ ہیں۔ متاثرین کو  مدد کی بجائے شیعہ علما اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے  استحصال کی کوششوں  کا سامنا ہے۔

مفتی شامزئی کے فتوے کے بعد شیعہ کشی کے واقعات [115]
سال بم دھماکے ٹارگٹ کلنگ شہداء کی تعداد زخمیوں کی تعداد
2001 0 3 31 6
2002 0 6 29 47
2003 1 4 83 68
2004 4 4 130 250
2005 2 4 91 122
2006 2 3 116 غیر متعین
2007 2 11 442 423
2008 6 10 416 453
2009 8 27 381 593
2010 7 16 322 639
2011 2 33 203 156
2012 11 310 630 616
2013 20 283 1222 2256
2014 7 262 361 275
2015 11 99 369 400
2016 2 54 65 207
2017 4 34 308 133
2018 1 28 58 50
2019 2+ 15+ 38+ 9+

مفتی شامزئی صاحب کے فتوے کے بعد پنجاب اور سندھ میں متشدد مدارس نے مسلح ہونے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ کئی مرتبہ تبلیغی جماعت کے سامان میں چھپایا گیا بارود پھٹ چکا ہے[116][117] جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ قبائلی علاقہ جات سے پنجاب اور سندھ کے قصبوں میں  بارود اور اسلحے کی منتقلی کا عمل کس تیزی سے جاری ہے؟

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. خلیفہ بن خیاط عصفری، تاریخ خلیفہ بن خیاط ص139 سنہ 36 ہجری کے واقعات کا آخر۔
  2. بلاذری، فتوح البلدان، ج 3 صص، 531،530 فتوح السند کے ذیل میں دیکھیں۔ذہبی، تاریخ الاسلام بشار ج2 ص331۔ عاملی، اعیان الشیعہ، ج4 صص374/375
  3. ^ ا ب Rizvi, "A A Socio Intellectual History of the Isna Ashari Shias n in India"، Vol. I, pp. 138–142, Ma’rifat Publishing House, Canberra, Australia (1986)
  4. طبری، تاريخ الطبری - ج 6 - ص 291
  5. https://books.shiatiger.com/2015/11/Aeteqadaat.html
  6. Daftary, "The Ismailis: their history and doctrines"، pp. 125, 180.
  7. Zaheen, "Shi'ism in Kashmir, 1477-1885"، International Research Journal of Social Sciences, Vol. 4(4)، 74-80, اپریل (2015)۔
  8. تزک بابری۔ اردو ترجمہ صفحہ 23
  9. Rizvi, "A Socio۔Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India"، Vol. I, pp. 178–80, 212.
  10. نور اللہ شوشتری
  11. mohrasharif.com – Takmil al-Iman (تکمیل الایمان) Urdu
  12. Rizvi, ""A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India""، Vol. I, pp. 377–83.
  13. ڈاکٹر مبارک علی، "جہانگیر کا ہندوستان"، صفحہ 87، تاریخ پبلیکیشنز لاہور (2016)۔
  14. ^ ا ب پ Syed Ali Nadeem Rezavi, “The state, Shia‘s and Shi‘ism in medieval India”، Studies in People’s History, 4, 32-45 (2017)۔
  15. One killed and scores wounded in attack at Shia site in Bangladesh capital | World news | The Guardian
  16. Deadly attack on Shia mosque in Bangladesh | News | Al Jazeera
  17. The most important clue to the question if Tipu Sultan was Shia or Sunni was given by himself through his coinage.https://toshkhana.wordpress.com/2012/06/04/the-light-of-islam-tipu-sultan-as-a-practising-muslim/
  18. J. J. Bijarboneh,"The Socio-Economic Study Among The Shia Muslims In Mysore City"، LAP Lambert Academic Publishing (2014)۔
  19. https://toshkhana.wordpress.com/2016/11/08/tipu-sultan-as-protector-of-hindu-temples/
  20. ^ ا ب Nizam of Hyderabad to Lord Linlithgow, 25 اپریل، 1939, Linlithgow Papers MSS EUR. F125/121.
  21. ^ ا ب Toby Howrath,” The Twelver Shiá as a Muslim Minority in India: Pulpit of Tears”، Chapter.1,Routledge, Taylor and Francis, London (2005)۔
  22. Rana Safvi, “Maulavi Muhammad Baqar: Hero or Traitor of 1857?”، The Wire, 16 ستمبر 2016. https://thewire.in/history/forgotten-hero-of-1857
  23. ^ ا ب پ Abul Hassan Isphani, "Quaid-e-Azam Jinnah, as I Knew Him "، Forward Publications Trust Karachi (1967)۔
  24. کتاب "محمد بن قاسم سے محمد علی جناح تک" صفحہ 501، نفیس اکیڈمی، کراچی۔
  25. ^ ا ب پ کتاب " کفایت المفتی"، جلد نہم، کتاب السیاسیات، فتاویٰ نمبر: 539، 538، 554، 555.
  26. ابن تغری بردی، جمال الدين ابي المحاسن يوسف، النجوم الزّاهرہ في ملوك مصر و القاہرہ ج 4، ص 126.
  27. محمد بلخی، بحر الاسرار، مرتبہ ریاض الاسلام، کراچی، 1980،ص 7-10
  28. ڈاکٹر مبارک علی، "جہانگیر کا ہندوستان"، صفحہ 87، تاریخ پبلیکیشنز لاہور (2016)۔
  29. Cole, "Roots of North Indian Shiísm"، pp. 105
  30. C.A. Bayly, The Local Roots of Indian Politics-Allahabad, 1880–1920 (Oxford, 1975)، p. 81;
  31. W. Crooke, "The North-Western Provinces of India: their History ، Ethnology, and Administration"، p. 263
  32. Cole, "Roots of North Indian Shiísm"، pp. 116-7
  33. P.D. REEVES (ed.)، Sleeman in Oudh: An Abridgement of W.H. Sleeman' s Journey Through the  Kingdom of Oude in 1849–50 (Cambridge, 1971)، pp. 158-9
  34. Nita Kumar The Artisans of Bañaras: Popular Culture and Identity 1880–1986 (Princeton New Jersey, 1988)، p. 216.
  35. Attia Hosain. Phoenix Fled (Ruper Paperbacks. 1993)۔ p. 176
  36. Syed Akbar Journalist: Muharram: Hussaini Brahmins of Telangana
  37. مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 230، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  38. مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 230 ۔ 232، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  39. عبد الحلیم شرر، گذشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 215،نسیم بک ڈپو، 1974
  40. عبد الحلیم شرر، گذشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 358،نسیم بک ڈپو، 1974
  41. حافظ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد ہفتم، صفحہ 226، شمارہ راوی 413
  42. ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج6، ص:305
  43. طبری، تاریخ الطبری، ج11، ص:641
  44. Derryl N. MacLean, "Religion and Society in Arab Sind"، page 126, E. J. Brill (1989)۔
  45. تاريخ ابن خلدون - ابن خلدون - ج 3 - صص 198، 199۔
  46. ذہبی - تاريخ الإسلام - ج 9 ص 352 - - أبو الفرج الأصفہانی، مقاتل الطالبيين ص 207 – 208
  47. طبری، تاريخ الطبری - ج 6 - ص 291
  48. Zaheen, "Shi’ism in Kashmir, 1477-1885"، International Research Journal of Social Sciences, Vol. 4(4)، 74-80, اپریل (2015)۔
  49. ڈاکٹر مبارک علی، 'گمشدہ تاریخ'، باب 18، صفحہ 101 – 107، فکشن ہاوس، لاہور، (2005)۔
  50. ملفوظات شاہ عبد العزیز، صفحہ 54، میرٹھ، 1314 ہجری، ( 1896)۔
  51. Download – Abaqat al-Anwar – عبقات الأنوار في إمامة الأئمة الأطهار
  52. نزھہ اثنا عشریہ جلد یکم : maablib : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive
  53. ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک" تاریخ پبلیکیشنز لاہور 2012
  54. ^ ا ب Barbara Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860-1900"، pp. 52 – 58, Princeton university Press, (1982)۔
  55. فتاویٰ عزیزی میں 1238 ہجری یعنی سنہ 1818ء میں ایک سوال کے جواب میں ایسی مجلس کا ذکر موجود ہے۔
  56. ^ ا ب مرزا حیرت دہلوی، "حیات طیبہ"‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260 شاہ اسماعیل دہلوی کے الفاظ میں: "انگریزوں سے  جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں"۔
  57. مقالات سرسید حصہ نہم 145-146
  58. مولانا جعفر تھانیسری، "حیات سید احمد شہید" ‘، ص 171 ، 293
  59. مولانا ابو الحسن علی ندوی، "سیرت سید احمد شہید"، جلد اول، ص 412
  60. مکاتیبِ سید احمد شہید، مخطوطہ عکسی ایڈیشن، صفحہ 75
  61. مرتبہ خواجہ احمد فاروقی، ’’دہلی اردو اخبار ‘‘، 22 مارچ 1840ء، شائع کردہ شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، جمال پرنٹنگ پریس دہلی، 1972.
  62. فتاوٰی رشیدیہ ص 435مصنف :رشید احمد گنگوہی دیوبندی
  63. روحانی خزائن جلد 18، صفحہ 233 اور 423 تا 428
  64. روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 193
  65. دار العلوم دیوبند اور ردِّشتوٹ
  66. Afghanistan: Who are the Hazaras? | Taliban | Al Jazeera
  67. Government Gazetteer of the United Provinces, Extraordinary (Lucknow, 1938)، GAD No. 113/1939, UPSA, page 2-4.
  68. ^ ا ب Mushirul Hasan,"Traditional Rites and Contested Meanings: Sectarian Strife in Colonial Lucknow"، Economic and Political Weekly, Vol. 31, No. 9, pp. 543-550 (1996)۔
  69. Jasbir Singh to G. M. Harper, 15 and 18 اپریل 1939, Political Department No. 65/1939, Uttar Pradesh State Archives.
  70. ^ ا ب پ ت ٹ Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority"، Oxford University Press, (2015)۔
  71. The Statesman, Delhi Edition, 21 فروری 1940.
  72. ^ ا ب جامعہ فاروقیہ کراچی۔۔ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی
  73. ^ ا ب آپ کا پہلا جنازہ گورنر ہاؤس میں شیعہ طریقے پر ہوا، آپ کی جائداد بھی محترمہ فاطمہ جناح کو شیعہ طریقے پر منتقل کی گئی، تفصیل اس کتاب میں: Khalid Ahmed, "Sectarian War: Pakistan's Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East"، Oxford University Press, 2011.
  74. راجہ صاحب محمود آباد
  75. ^ ا ب فتاویٰ مفتی محمود، جلد سوم، کتاب الجنائز، صفحہ 67
  76. مسلک دیوبند کے اکابر میں سے مفتی کفایت ﷲ دہلوی صاحب کے مطابق قائد شیعہ ہونے کی وجہ سے رسمی مسلمان ہیں، حقیقی نہیں- حوالہ: کتاب " کفایت المفتی"، جلد نہم، کتاب السیاسیات، فتاویٰ نمبر: 539، 538، 554، 555۔
  77. محمد علی جناح جنت الحمقاء (احمقوں کی جنت) کا بانی اور رجل ِ فاجر (گنہگار انسان) ہے- پاکستان جنت الحمقاء اور مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہے۔ (مولانا مودودی، ترجمان القران فروری 1946 ص -154-153) مسلم لیگ کی نامراد تحریک کا مقصد ناپاکستان کا قیام ہے ( ترجمان القرآن، اپریل 1946ء)
  78. ^ ا ب Liaqat H. Merchant, “Jinnah: A Judicial Verdict”، East and West Publishing Company, Karachi (1990)۔
  79. Jinnah Papers, second series, volume XI (1 اگست 1944-31 جولائی 1945); page 174.
  80. جماعت اسلامی پاکستان
  81. Cult – Wikipedia
  82. "قائد اعظم لکھنؤ تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے حکمت سے جواب دیا ’ چند سال پہلے میں حج کے لیے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہازایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور مسیحی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں؟ جب عرب کا ساحل قریب آیا ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا۔ اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے"۔ عبید الرحمن، ’یاد ہے سب ذرا ذرا ‘، صفحہ 49، طبع کراچی
  83. "میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علمائے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی" مولانا شبیر احمد عثمانی، 1 ستمبر 1947ء
  84. قائد اعظم کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ”قائد اعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول قائد اعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔“
  85. مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ | مولانا زاہد الراشدی
  86. https://juipak.org.pk/22-اسلامی-نکات/
  87. Sharaabtoon: 'The Most Unfortunate Incident': The Theri Massacre and Fifty years of Sectarian Violence in Pakistan
  88. Shaheed Foundation Pakistan
  89. 6 جون 1963 Martyrs of Therhi (Khairpur) – Saneha e Therhi – YouTube
  90. Mohammad Ayub Khan, "Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan"، 9 جولائی 1967 and 11 جولائی 1967, Oxford University Press, (2008)۔ "میجر جنرل رفیع میرے ملٹری سیکرٹری تھے۔ وہ میری نمائندگی کے لیے کراچی گئے اور مس جناح کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔اُن کا بیان ہے کہ اہل فہم لوگ اس بات پر خوش ہوئے کہ حکومت نے مس فاطمہ کی عزت و تکریم کا خیال رکھا۔   اس لیے یہ امر حکومت کے لیے بھی خوش کن ہے۔ تاہم وہاں بہت سے ایسے لوگ  بھی تھے جنھوں نے بہت برا سلوک کیا۔ اُن کی پہلی نمازہ جنازہ مہتہ پیلس میں شیعہ رسوم کے مطابق ادا کی گئی۔ عوام کے لیے دوسری نماز جنازہ پولوگراؤنڈ میں ہوئی تو یہ سوال کیا گیا کہ امام سنی ہو یا شیعہ؟ تاہم بدایونی کو امامت کے لیے آگے کر دیا گیا۔ جونہی امام نے اللہ اکبر کہا آخری صفوں میں کھڑے لوگ ہٹ گئے اور جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ لاش کو بڑی مشکل سے ایک گاڑی میں رکھا گیا اور قائد اعظم کے مزارپر لے گئے اور انھیں دفن کیا گیا۔ وہاں ایک ہجوم اکٹھاہوگیا جنھوں نے کہا کہ قبر کی جگہ بدلی جائے، اس پر عمل نہ کیا گیا۔طلبہ کے ہمراہ غنڈے تھے جنھوں نے پتھر برسائے۔  تب پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ غنڈوں کو آنسو گیس کی مدد سے ہٹایا گیا تو جنازہ کا میدان پتھروں سے اٹا پڑا تھا۔ لوگوں نے جس بے حسی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اس پر افسوس ہوتا ہے۔  نماز جنازہ  عبرت کا مقام ہوتا ہے  لیکن یہ لوگ  یہاں  بھی بازنہ آئے۔"
  91. محمود احمد عباسی، "تحقیق مزید بسلسلہ خلافت معاویہ و یزید"، الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی
  92. ابو یزید محمد دین بٹ، "خلافت رشید ابن رشید امیر المومنین سیدنا یزید"، طبع لاہور
  93. احسان الہی ظہیر، "الشیعہ و اہل بیت"
  94. غلام حسین نجفی، "قول سدید در جواب وکلا یزید" https://books.shiatiger.com/2016/03/Qol-e-Sadeed.html
  95. غلام حسین نجفی، "کیا ناصبی مسلمان ہیں" https://books.shiatiger.com/2016/03/Kya-Nasbi-Musalmaan-Hain.html
  96. [Urdu]Shia_Stance_on_Qadiani_Issue_in_National_Assembly
  97. Shariat Madari, Ayatollah Muhammad Kazim – Oxford Islamic Studies Online
  98. ترجمان القرآن اکتوبر 1963ء کے شمارہ میں ایک مضمون’’ایران میں دین اور لادینی کشمکش‘‘ شائع ہوا جس کے بعد رسالے پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔
  99. افتخار احمدپروفیسر، عالمی تحریک اسلامی کے قائدین ( فیصل آبادالمیزان پبلیکیشنز، امین پورہ بازار، 1984)
  100. بطور مثال ملاحظہ ہو کتاب "خمینیت اور شیعیت میں فرق" از علامہ محمد حسین برستی
  101. Saur Revolution – Wikipedia
  102. 20جنوری 1979ء کو آیت اللہ خمینی کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی سے ملاقات کی۔ وہ ان کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں" میں درج کی ہیں۔ ارشاد احمد حقانی نے بھی مولانا مودودی اور آیت اللہ خمینی کے روابط کا ذکر کیا ہے۔
  103. http://www.thefridaytimes.com/tft/shiaphobia/
  104. In مئی 1988, low-intensity political rivalry and sectarian tension ignited into full-scale carnage as thousands of armed tribesmen from outside Gilgit district invaded Gilgit along the Karakoram Highway. Nobody stopped them. They destroyed crops and houses, lynched and burnt people to death in the villages around Gilgit town. The number of dead and injured was in the hundreds. But numbers alone tell nothing of the savagery of the invading hordes and the chilling impact it has left on these peaceful valleys https://www.outlookindia.com/website/story/the-aq-khan-proliferation-highway-iii/261824
  105. ^ ا ب جان آر شمٹ، "گرِہ کھلتی ہے: جہاد کے دور کا پاکستان" ترجمہ: اعزاز باقر http://mashalbooks.org/product/the-unraveling-pakistan-in-the-age-of-jihad/
  106. https://lubpak.net/archives/132675
  107. Sectarian Violence in Pakistan
  108. Hassan Abbas, "Pakistan's Drift Into Extremism: Allah, the Army, and America's War on Terror"، Routledge, (2015)۔
  109. CNN – Blast kills at least 26 outside Pakistani courtroom – Jan. 18, 1997
  110. محمد سلیم قادری
  111. مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ | مولانا زاہد الراشدی
  112. مفتی نظام الدین شامزئی  صاحب کا پاکستانی تاریخ کا رخ موڑنے والا فتویٰ حسب ذیل ہے:۔ أ۔       تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال میں صرف افغانستان کے آس پاس کے مسلمان امارتِ اسلامی افغانستان کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں اور یہودیوں اور امریکا کا اصل ہدف امارتِ اسلامی افغانستان کو ختم کرنا ہے دارالاسلام کی حفاظت اس صورت میں تمام مسلمانوں کا شرعی فرض ہے۔ ب۔     جو مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اور کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہو وہ اگر اس صلیبی جنگ میں افغانستان کے مسلمانوں یا امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف استعمال ہوگا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ ت۔     اللہ تعالی کے احکام کے خلاف کوئی بھی مسلمان حکمران اگر حکم دیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اسلامی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہے، تو ماتحت لوگوں کے لیے اس طرح کے غیر شرعی احکام مانناجائز نہیں ہے، بلکہ ان احکام کی خلاف ورزی ضروری ہوگی۔ ث۔    اسلامی ممالک کے جتنے حکمران اس صلیبی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں اور اپنی زمین، وسائل اور معلومات ان کو فراہم کر رہے ہیں، وہ مسلمانوں پر حکمرانی کے حق سے محروم ہو چکے ہیں، تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کر دیں، چاہے اس کے لیے جو بھی طریقہ استعمال کیاجائے۔ ج۔      افغانستان کے مسلمان مجاہدین کے ساتھ جانی ومالی اور ہر قسم کی ممکن مدد مسلمانوں پر فرض ہے، لہذا جو مسلمان وہاں جا کر ان کے شانہ بشانہ لڑ سکتے ہیں وہ وہاں جا کر شرکت کر لیں اور جو مسلمان مالی تعاون کرسکتے ہیں وہ مالی تعاون فرمائیں اللہ تعالی مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمانوں کاحامی و ناصر ہو۔ اس فتویٰ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کرکے دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں فقط و سلام مفتی نظام الدین شامزئی https://sadaehaqq.wordpress.com/2013/11/14/مفتی-شامزئی-رحمہ-اللہ-کا-فتویٰ-جس-کی-بنا/
  113. 'Hell on Earth': Inside Quetta's Hazara community – BBC News
  114. ’’لہولہو‘‘ دیرہ کی ایک اور کہانی (قسط نمبر4) – UNN News
  115. "Shia Genocide Database: A detailed account of Shia killings in Pakistan" 
  116. دھماکے کے بعد امیر صاحب نے میڈیا کو بتایا کہ گیس کا سلنڈر پھٹا ہے۔بعد میں جب زخمی ہسپتال گئے تو ان کے جسم میں بم کے ٹکڑے ملے۔نیز مرنے والوں کی تعداد بھی امیر صاحب کے جھوٹ کی چغلی کھا رہی تھی۔ امیر صاحب کی اسی بات کو لے کر پولیس نے بھی میڈیا کو یہی بتایا تھا کہ سلنڈر پھٹا ہے۔ https://tribune.com.pk/story/492458/blast-at-swat-tableeghi-markaz-kills-22/
  117. یہ بہت عجیب واقعہ ہے کیوں کہ اس دھماکے کے بعد جب پولیس مرکز میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے تومرکز کی  انتظامیہ اس کو کچھ گھنٹے کے لیے داخل نہیں ہونے دیتی۔بعد کی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ وہ دھماکا کسی تبلیغی کے سامان میں موجود بارود کے حادثاتی طور پر پھٹنے کی وجہ سے ہوا تھا۔  کمرے میں سردی کی وجہ سے جب کسی لا علم تبلیغی نے ہیٹر  جلایا تو پاس پڑے سامان میں موجود بارود چل گیا۔تفتیشی اداروں کو آلات کی مدد سے تبلیغی مرکز کی لیٹرین میں بارود بہا دینے کے شواہد بھی ملے۔بارود چھپانے کا کام اس وقت کے دوران میں کیا گیا جب دھماکے کے بعد پولیس کو مرکز میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔کئی گھنٹوں کی تاخیر کے باوجود تفتیشی اداروں کو اس مرکز سے بارود کے تین کنستر ملے۔ کیا  اس بات میں کوئی شک ہے کہ یہ بارود کسی بازار یا کسی دوسرے فرقے کی مساجد یا سرکاری دفاتر پر حملے کے لیے لے جایا جا رہا تھا؟ https://www.dawn.com/news/1080731