جماعت اسلامی پاکستان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بانیابوالاعلی مودودی
امیرسراج الحق
نائب امیرلیاقت بلوچ
نائب امیرخورشید احمد
تاسیسبرطانوی ہند میں 26 اگست 1941ء (1941ء-08-26)
پاکستان میں 1947؛ 77 برس قبل (1947)
صدر دفترمنصورہ، لاہور
نظریاتاسلام پسندی
سماجی قدامت پسندی
اتحاد عالم اسلام
اسلامی جمہوریت پسندی
بین الاقوامی اشتراکاخوان المسلمون
جماعت اسلامی ہند
بنگلہ دیش جماعت اسلامی
جماعت اسلامی کشمیر
ایوان بالا
1 / 100
قومی اسمبلی
1 / 342
بلوچستان اسمبلی
0 / 65
خیبر پختونخوا اسمبلی
1 / 124
سندھ اسمبلی
1 / 168
پنجاب اسمبلی
0 / 371
گلگت بلتستان اسمبلی
0 / 33
آزاد کشمیر اسمبلی
0 / 49
انتخابی نشان
ترازو
ترازو
ویب سائٹ
www.jamaat.org
جماعت کے بانی - سید ابوالاعلیٰ مودودی

جماعت اسلامی پاکستان یا جے آئی ملک کی سب سے بڑی اور پرانی نظریاتی اسلامی احیائی تحریک ہے جس کا آغاز بیسویں صدی کے اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی، جو عصر حاضر میں اسلام کے احیاء کی جدوجہد کے مرکزی کردار مانے جاتے ہیں ،[1] نے قیام پاکستان سے قبل3 شعبان 1360 ھ (26اگست 1941ء) کو لاہور میں کیا تھا۔ سید ابولاعلیٰ مودودی اور دیگر 74 افراد نے ملک میں اسلامی انقلاب لانے کی مشترکہ جدوجہد کے لیے اس کی بنیاد رکھی۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ اس کی وکالت کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا سیاست اور ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا چاہیے۔

جماعت اسلامی پاکستان نصف صدی سے زائد عرصہ سے دنیا بھر میں اسلامی احیاء کے لیے پر امن طور پر کوشاں چند عالمی اسلامی تحریکوں میں شمار کی جاتی ہے۔


دعوت

جماعت اسلامی لوگوں کو اپنی پوری زندگی میں اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت اور منافقت، شرک چھوڑنے کی تلقین کرتی ہے۔ مزید جماعت سیاست میں خدا سے پھرے لوگوں کی بجائے زمام کار مومنین و صالحین کو سونپنے کا کہتی ہے۔ تا کہ نظام سیاست کے ذریعے خیر پھیل سکے اور لوگ اسلامی طریقہ پر آزادانہ چل سکیں اور اس کی خیر وبرکت سے مستفید ہو سکیں۔[2]

تنظیم اور قیادت

سابقہ امیر - قاضی حسین احمد

جماعت اسلامی، پاکستان کی بہترین منظم سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی واحد سیاسی و مذہبی جماعت ہے جو اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔[3] جماعت میں اہم ذمہ داران اور شوری کا چُناؤ بذریعہ انتخاب کیا جاتا ہے جس میں صرف اراکین جماعت حصہ لیتے ہیں جبکہ دیگر ذمہ داریاں استصواب رائے کے ذریعے طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت میں موروثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جماعت اپنے اندر نظم و ضبط، کارکنوں کے اخلاص، جمہوری اقدار اور بدعنوانی سے پاک ہونے کی شہرت رکھنے کے باعث دیگر جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے۔[4]

جماعت اسلامی میں اعلیٰ ترین تنظیمی ذمہ داری یا عہدہ امارت کہلاتا ہے اور اس ذمہ داری پر مامور شخص کو امیر کہا جاتا ہے۔ امیر جماعت کو جماعت کے اراکین آزادانہ رائے سے منتخب کرتے ہیں۔ یہ انتخاب کسی بھی قسم کے نسلی، خاندانی اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہوتا ہے۔ امیر جماعت کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔[5] اب تک جماعت اسلامی پاکستان کے امرا کی تفصیل کچھ یوں ہے:

  1. سید ابوالاعلیٰ مودودی26 اگست 1941ء تا 4 نومبر 1972ء
  2. میاں طفیل محمدنومبر 1972ء تا اکتوبر 1987ء
  3. قاضی حسین احمداکتوبر 1987ء تا اپریل 2009ء
  4. سید منور حسناپریل 2009ء تا مئی 2014ء
  5. سراج الحقجون 2014ء تا حال

26اگست 1941ء تا 4 نومبر 1972ء تاسیسی اجتماع میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کو جماعت اسلامی کا امیر بذریعہ آزادانہ انتخاب منتخب کیا گیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی مسلسل خرابی صحت کی بنا پر 4 نومبر 1972ء کو جماعت اسلامی کی امارت سے مستعفی ہو گئے۔ ان کے بعد اراکین جماعت نے نومبر 1972ء تا اکتوبر 1987ء میاں طفیل محمد اور ان کے مستعفی ہونے کے بعد اکتوبر 1987ء تا اپریل 2009ء قاضی حسین احمد کو امیر جماعت منتخب کیا گیا۔

سابق امیر - سید منور حسن

قاضی حسین احمد نے جنوری 2009ء میں عارضۂ قلب اور خرابی صحت کی بنا پر مجلس شوریٰ کے اجلاس میں معذرت کر لی تھی کہ ان کا نام ان تین ناموں میں شامل نہ کیا جائے جو مرکزی شوریٰ امیر جماعت کے انتخاب کے لیے ارکان جماعت کی رہنمائی کے لیے منتخب کرتی ہے۔[6]

اراکین جماعت اسلامی پاکستان نے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے مارچ 2009ء میں سید منور حسن کو پانچ سال کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کر لیا۔[7] وہ جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے، جنہیں 2009ء تا 2014ء پانچ سال کے لیے منتخب کیا گیا۔

سرگرمیاں

جماعت اسلامی اپنی دعوت، نصب العین اور مقاصد کے حصول کے لیے دعوتی، تربیتی، تنظیمی، خدمتی، جہادی، سیاسی اور علمی سرگرمیوں کو منظم کرتی یا حصہ لیتی ہے۔

دعوتی و علمی سرگرمیاں

دروس قرآن، حلقہ ہائے حدیث، اجتماعی مطالعہ جات، اسٹڈی سرکلز، لیکچرز، تربیت گاہیں اور مطالعہ کتب، نا صرف کارکنان جماعت اور عام لوگوں کی دعوت و تربیت کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ جماعت کی تنظیم کو مزید دوام بخشنے کا سبب بنتے ہیں۔[8]

خدمتی سرگرمیاں

جماعت اسلامی پاکستان کے تحت بہت سے علمی و رفائہ عامہ کے کام کیے جاتے ہیں۔ رضاکارانہ انتقال خون (Blood Donation)، مراکز دستکاری، رفاعی مطب خانے، ایمبولینسز، کتب خانے، تعلیمی ادارے، ہسپتال، وغیرہ کے نیٹ ورک پورے ملک میں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت مختلف رضاکارانہ مہمات جن میں امداد برائے قدرتی آفات نمایاں ہیں بھرپور انداز میں سر انجام دیتی ہے۔ ملکی سطح پر مستحقین کے لیے چرم ہائے قربانی اکھٹا کرنے کا کام جماعت اسلامی نے شروع کیا۔[9]

سیاسی سرگرمیاں

جماعت قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں بلامبالغہ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ مگر کم امیدوار ایسے ہوتے ہیں جن کو کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ البتہ نوازشریف اور بے نظیر کی جلا وطنی کے دور میں اپنے امریکا مخالف ایجنڈے کے باعث جماعت نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ عام طور پر سیاسی اتحاد جماعت اسلامی کو انتخابات اور ملکی سیاست میں عوامی پزیرائی بخشنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔[8]

اہم رہنما

سراج الحق لیاقت بلوچ ڈاکٹر معراج الہدیٰ پروفیسر ابراہیم میاں مقصود مشتاق احمد خان فرید پراچہ عبد الحق ہاشمی عبد الغفار عزیز

پارٹی منشور

اسلامی انقلاب اسلامی فلاحی ملک اتحاد بین المسلمین کرپشن سے پاک ملک جمہوریت

انتخابات 1970

سال 1970 میں جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی 4 جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ایک، ایک نشست حاصل کی۔

انتخابات 1977

1977 میں جماعت اسلامی نے پاکستان نیشنل الائنس کا حصہ بن کر انتخابات لڑے جس نے قومی اسمبلی کی 36 نشستیں جیتیں۔

انتخابات 1990

1990 میں پارٹی نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن کر انتخابات لڑے لیکن یہ اتحاد کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکا اور مشکل سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کی۔

انتخابات 1993

1993 میں جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 3، پنجاب کی 2 اور خیبر پختونخوا کی 4 نشستیں جیتیں۔

انتخابات 1997

1997 میں پارٹی نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا انتخاب کرتے ہوئے حکمرانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔

انتخابات 2002

سال 2002 میں جماعت اسلامی، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ تھی جس نے قومی اسمبلی کی 45 نشستیں سمیٹیں۔ اس اتحاد نے خیبر پختونخوا میں 48 نشستیں حاصل کرکے حکومت قائم کی۔

انتخابات 2008

2008 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کا حصہ بننے کا انتخاب کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔

انتخابات 2013

پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس نے قومی اسمبلی کے 166 حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے تھے جہاں سے اسے 9 لاکھ 67 ہزار 651 یا 2.13 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ پنجاب میں پارٹی صرف ایک سیٹ حاصل کرسکی جہاں اس نے 208 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ پنجاب میں پارٹی نے 4 لاکھ 90 ہزار 706 ووٹ حاصل کیے جو کاسٹ کیے گئے کُل ووٹوں کا 2 فیصد تھا۔ سندھ اور بلوچستان میں جماعت اسلامی نے بالترتیب 46 اور 19 امیدوار کھڑے کیے لیکن کسی نشست پر اسے کامیابی نہیں ملی۔ پارٹی نے سندھ میں ایک لاکھ 31 ہزار 140 اور بلوچستان میں 3 ہزار 627 ووٹ حاصل کیے۔ تاہم خیبر پختونخوا میں پارٹی کے لیے کچھ رغبت دکھائی دی اور جماعت اسلامی نے وہاں سے 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ صوبے میں پارٹی نے 86 امیدوار کھڑے کیے جنھوں نے 4 لاکھ 5 ہزار ووٹ حاصل کیے۔[10]

احتجاجی سیاسی سرگرمیاں

ملکی اور دینی مسائل پر احتجاجی مظاہرے، جلسے، جلوس، ٹرین مارچ، لانگ مارچ، ریفرنڈم، ہڑتالیں، کارنر میٹنگز اور دھرنے جماعت کے موَقف کے لیے عوامی تائید پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور حکومت وقت پر دباوَ کا باعث بنتے ہیں۔ اس قسم کی سرگرمیوں کے باعث جماعت کو ملک کی احتجاجی سیاست میں ناگزیر عنصر تصور کیا جاتا ہے اور اکثر حکومت وقت کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اگر یہ سرگرمیاں پرتشدد رخ اختیار کر جائیں تو عوام میں بدنامی اور ذرائع ابلاغ میں ختم نہ ہونے والی تنقید جماعت کے تصور اور دعوت کو نقصان پہچانے سبب بن جاتی ہیں۔[11]

جہادی سرگرمیاں

ناقدین کے مطابق جماعت اسلامی نے ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت میں، امریکی و پاکستانی سرپرستی میں ہونے والے جہاد افغانستان اور بعد ازاں جہاد کشمیر میں بھرپور حصہ لیا۔ اس حوالے سے جہاد کے لیے مالی و افرادی قوت کی فراہمی اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے بیشمار جہادی فنڈ اسٹالز، جہادی کانفرنسز، مذاکرے اور مباحثوں کا اہتمام کیا۔[12]

کارہائے نمایاں

  • جماعت اسلامی بر صغیر کی وہ پہلی جماعت ہے جس نے اسلام کو بطور جدید سیاسی نظام متعارف کرایا۔
  • جماعت نے مسلمانان ہند کو دو قومی نظریہ کی بنیاد فراہم کی۔
  • جماعت نے عقلیت اور مغربیت سے متاثر جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو عقلی و علمی استدلال (Logic) کے ذریعے اسلام سے متاثر کیا۔ اور جدید مثائل کا حل اسلام کی روشنی میں پیش کیا۔
  • جماعت نے لادین پاکستان بننے کی مخالفت کی۔
  • تقسیم پاکستان کے وقت کارکنان جماعت اسلامی نے رضاکارانہ کارروائیوں میں بھرپور حصہ لے کر ثابت کیا کہ جماعت آنے والے مشکل وقتوں میں پاکستان کے لیے تن من دھن سے کام کرنے کی اہل ہے۔
  • جماعت نے پاکستان بننے کے بعد اس کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ اور لادین (secular) حلقوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
  • پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے خواب کو تعبیر دینے اور قرارداد مقاصد میں ریاست کو اصولی طور پر اسلامی قرار دینے کے لیے عوام میں رائے عامہ ہموار کرکے تحریک چلائی اور اس میں کامیابی حاصل کی۔
  • کارکنان و رہنمائے جماعت نے قوم کی فکری رہنمائی کرتے ہوئئے شرعی طور پر ثابت کیا کہ قادیانی ختم نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نفی کرنے کے باعث دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اس وقت قادیانی پاکستانی انتظامیہ میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے نیز طبقہ اشرافیہ میں نمایاں حثیت کے حامل تھے۔ اس اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئئے انھوں نے ابلاغ عامہ کے ذریعے جماعت کو بدنام اور فوجی عدالت کے ذریعے بانیَ جماعت کو تختہ دار پر چڑھانے کی کوشش بھی کی۔ الزام یہ لگایا کہ جماعت نے فرقہ وارانہ فسادات کرائے۔ جبکہ جماعت ایسے کسی فساد میں شامل نہیں تھی۔ تشدد کے زیادہ تر واقعات کے ذمہ دار قادیانی اور حکومت وقت تھی جس نے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے پر پس و پیش سے کام لیا۔ بانی جماعت تقریباً 3 سال پابند سلاسل رہے۔ انھیں اس دوران میں پیشکش کی گئی کہ ان کی پھانسی کی سزا ختم ہو سکتی ہے اگر وہ قادیانیوں کے متعلق اپنے موَقف سے دستبردار ہو جائیں مگر بانیَ جماعت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ملکی و عالمی دباوَ کے باعث حکومت نے پہلے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا۔ بعد ازاں رہا کر دیا۔
  • جماعت اسلامی نے 1958ء میں آمریت کی بھرپور مخالفت کی۔
  • ایوبی دور آمریت میں حکومتی سر پرستی میں ایسا طبقہ سامنے آیا جس کا کہنا تھا کہ اسلام میں حدیث کی کوئی حیثیت نہیں حتیٰ کہ ایک جج نے حدیث کو سند ماننے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر بانیَ جماعت نے اسلام میں حدیث کی بنیادی حیثیت کو شرعی و عقلی دلائل سے ثابت کیا اور دونوں کو اسلامی قانون کا سرچشمہ قرار دیا۔ انھوں نے فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف "ترجمان القرآن" کا "منصب رسالت نمبر" بھی شائع کیا۔
  • ایوب خاں نے آمریت کو جمہوری چولہ پہنانے کے لیے صدارتی الیکشن کا ڈھونگ رچایا۔ اس وقت محترمہ فاطمہ جناح نے وطن عزیز کی خاطر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ملک کی جمہوریت پسند قوتوں کو جابر فوجی آمر کے خلاف مدد کے لیے پکارا تو جماعت نے وطن عزیز کو آمریت سے بچانے کی خاطر مادر ملت کا ساتھ دینے کا اصولی فیصلہ کیا۔
  • 6 جنوری 1964ء میں ایوب خان نے تنگ آکر جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا اور نمایاں کارکنان جماعت اسلامی کو سید ابوالاعلیٰ مودودی سمیت پابند سلاسل کر دیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور 65 رہنمائے جماعت نے 9 ماہ تک ثابت قدمی سے قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔
  • 1967ء میں عید کے چاند کے مسئلے پر شریعت کا مسئلہ بتانے کے جرم میں بانیَ جماعت کو پھر گرفتار کر لیا اور دو ماہ تک بنوں جیل میں رکھا گیا۔
  • مشرقی پاکستان کے اشتراکی رہنما مولانا بھاشانی نے یکم جون 1970ء کو پورے ملک میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اعلان کیا تب سید ابوالاعلیٰ مودودی اور کارکنان جماعت نے پورے ملک میں عوام کو متحرک کیا اور 31 مئی 1970ء کو "یومِ شوکتِ اسلام" منایا اور سینکڑوں جلوس نکال کر مولانا بھاشانی کے اشتراکی انقلاب زمین بوس کر دیا۔
  • 1970ء کے انتخابات میں مجیب الرحمان وغیرہ نے علیدگی پسند تحریک کو اس کے عروج پر پہنچا دیا تھا۔ جماعت اسلامی وہ جماعت تھی جس نے سالمیت وطن کے لیے مشرقی و مغربی پاکستان میں اپنے نمائندے کھڑے کیے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے صرف مغربی پاکستان اور مجیب نے صرف مشرقی پاکستان میں اپنے نمائندے کھڑے کر کے پہلے ہی علیحدگی کا بیج بو دیا۔
  • بھارت اور مجیب الرحمان نے باہمی گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور مکتی باہنی بنائی۔ یحییٰ خان نے بغاوت کچلنے کے لیے فوج کو آپریشن کا حکم دیا۔ فوج میں دور انگریز کے وقت سے زیادہ پنجابی تھے جس کے باعث وہ بنگال کی سر زمین، ثقافت اور زبان سمجھنے سے قاصر تھے۔ کارکنان جماعت اسلامی مشرقی پاکستان نے سازش کو رفو کرنے اور اسلام کے قلعے کو سلامت رکھنے کے لیے پاک فوج کی بھرپور معاونت کی۔ جس میں جماعت کے بے شمار کارکن مکتی باہنی کے ہاتھوں وطن عزیز پر شہید ہوئئے بعد ازاں مغربی پاکستان میں "ادھر ہم ادھر تم" کا نعرہ لگانے والوں نے ازلی تعصب کے باعث جماعت کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور خود بنگلہ دیش کو سرکاری طور پر قبول کر لیا۔
  • 1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات اور دیگر رہنما اصول شامل کرانے کے لیے جماعت اسلامی نے بھرپور کردار ادا کیا۔
  • قادیانیوں کے خلاف دیگر مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھر پور عوامی مہم چلائی اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوایا۔
  • نظام مصطفٰی کی تحریک چلائی۔ جس کو بعد ازاں ضیاءالحق نے جھوٹے وعدوں کی نظر کرتے ہوئئے سبو تاز کر دیا۔
  • روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو جماعت اسلامی نے امریکا اور ضیاءالحق سے پہلے اس کی بھرپور مذمت کی اور مجاہدین کو فکری، اخلاقی اور مالی امداد فراہم کی۔ نیز پاکستان میں جہاد کی حمایت کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا۔
  • جہاد افغانستان میں بھرپور کردار ادا کیا اور وطن عزیز کی طرف بڑھتے ہوئئے "سرخ طوفان" واپس اس کے مرکز کی طرف دھکیل دیا۔
  • مسئلہ کشمیر پر قوم کی رہنمائی کی۔
  • اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعے وطن عزیز میں ایک بار پھر نظام مصطفٰی نافذ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ مگر اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بعد ازاں انتخابی منشور پر عملدرامد پر تیار نہ ہوئی اور جماعت اسلامی کو اس اتحاد سے علاحدہ ہونا پڑا۔
  • ملک کی دیگر اسلامی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اسلامک فرنٹ بنایا تاکہ وطن عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ ان انتخابات میں اسلامی فرنٹ ووٹ کے لحاظ سے تیسری بڑی جماعت ثابت ہوئی مگر اسلامک فرنٹ صرف دو یا تین نشستیں حاصل کر پائی۔

الزامات

  • علمائے ہند اور مذہبی حلقوں نے جماعت کے قیام پر کڑی تنقید کی اور جماعت اسلامی کے قیام کو مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ بنانے کی کوشش قرار دیا۔
  • جماعت اسلامی کی اصطلاحات مثلا "امیر"، "بیت المال" اور "جماعت اسلامی" کے نام وغیرہ پر شدید تنقید ہوئی۔ اسلامی اصطلاحات ہونے کے باعث نقاد نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جماعت اسلامی صرف خود کو مسلمان سمجھتی ہے۔
  • دو قومی نظریہ کی بنیاد فراہم کرنے کے باوجود اس وقت جماعت اسلامی نے پاکستان بننے کی مخالفت کی۔ اور خدشہ ظاہر کیا کہ اگر اس حالت میں پاکستان بنا تو مسلمانان ہند کو قربانیوں کے باوجود عملا ہندوَں اور لادین عناصر سے چھٹکارہ نہیں ملے گا۔ نیز جماعت اسلامی نے اسلام اور مسلمان کی قیادت کرنے والوں کی اسلامی قابلیت پر شک کا اظہار کیا۔[13]
  • پاکستان کو ملا اسٹیٹ بنانے کی بھرپور کو شش کر کے اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
  • جہاد کشمیر کی مخالفت کی۔
  • قادیانیوں کے خلاف شر انگیز مواد شائع کر کے فرقہ وارانہ فساد کو بھڑکایا۔
  • عورت کی حکمرانی کے خلاف اور اسلامی ہونے کے دعووَں کے باوجود انخابات میں جنرل ایوب کے خلاف مادر ملت فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔
  • سقوط ڈھاکہ سے قبل مکتی باہنی اور مقامی علیحدگی پسند بنگالیوں کے خلاف افواج پاکستان کا ساتھ دیا۔ اور قتل و غارت میں حصہ لیا۔
  • افغانستان میں اسلامی تحریک کو منظم کرنے اور روس کی خلاف جہاد شروع کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
  • مذہبی شدت پسندی کو ہوا دی۔
  • جہاد کے لیے امریکا سے امداد لے کر خردبرد کی۔ اور پاکستان میں کلاشنکوف ثقافت کو پروان چڑھایا۔
  • حکومت کا حصہ بن کر ضیاءالحق کی آمریت کے دست و بازو بنے۔
  • تعلیمی اداروں میں شدت پسند کلچر کو پروان چڑھایا۔
  • اسلام کے نام پر اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر ملک میں مقبول قیادت کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
  • ماضی میں فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کے باوجود، بے نظیر بھٹو کی مخالفت میں عورت کی حکمرانی کو حرام قرار دیا۔
  • کشمیری مجاہدین کی پشت پناہی کرکے ہمسایہ ملک میں شر انگیزی کی۔
  • اسلامک فرنٹ بنا کر دائیں بازو کی مسلم لیگ کا راستہ روکا جس کی وجہ سے بائیں بازو اور لادین طبقے کی ہر دل عزیز قا ئد بے نظیر بھٹو کو کامیابی نصیب ہوئی۔
  • جماعت اسلامی جمہوریت میں حصہ لے کر کفر کے نظام کا حصہ بن چکی ہے۔[14]

اندرونی جمہوریت

پاکستان کی موروثی سیاسی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی میں ہر سطح کے رہنما کا انتخاب جمہوری طریقہ سے ووٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

مزید دیکھیے

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. Pioneers of Islamic revival By ʻAlī Rāhnamā
  2. جماعت اسلامی کا ذاتی موقع آن لائن آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jamaat.org (Error: unknown archive URL)
  3. Islam outside the Arab world By David Westerlund, Ingvar Svanberg
  4. The Idea of Pakistan By Stephen P. Cohen ISBN 0-8157-1502-1, 9780815715023
  5. بی بی سی کا آن لائن
  6. روزنامہ جنگ[مردہ ربط]
  7. بی بی سی کی آن لائن ویب گاہ
  8. ^ ا ب قومی اخبارات و رسائل اور The Vanguard of the Islamic Revolution By Seyyed Vali Reza Nasr
  9. Social Capital as a Policy Resource By John D. Montgomery, Alex Inkeles, Pacific Basin Research Center
  10. "جماعت اسلامی"۔ Dawn News Television۔ 2018-07-14۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2021 
  11. قومی اخبارات اور رسائل
  12. Pakistan By Ḥusain Ḥaqqānī، Carnegie Endowment for International Peace
  13. Social capital as a policy resource By John D. Montgomery, Alex Inkeles, Pacific Basin Research Center
  14. Partisans of Allah By Ayesha Jalal

سانچہ:اسلامی اوکیہ جوت