مندرجات کا رخ کریں

مسئلہ کشمیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مسئلہ کشمیر

بھارت دعوی کرتا ہے پوری ریاست ہماری ہے Jammu and Kashmir based on an instrument of accession signed in 1947. Pakistan claims Jammu and Kashmir issue based on its majority Muslim population, whereas China claims the ماورائے قراقرم علاقہ and اکسائی چن۔
تاریخ22 اکتوبر 1947 – ongoing
(77 سال, 11 مہینے, 3 ہفتے اور 5 ایام)
مقامکشمیر
حیثیت جاری تنازعات کی فہرست*پاک بھارت جنگ 1947*پاک بھارت جنگ 1965ء*Insurgency in Jammu and Kashmir*کارگل جنگ
مُحارِب

 پاکستان پاکستان رینجرز
پاک فوج
انٹر سروسز انٹلیجنس Supported by

 چین

 بھارت بھارتی فوج فائل:BSF Emblem.svg Border Security Force سنٹرل ریزرو پولیس فورس

را

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ
حرکتہ الجہاد الاسلامی
لشکر طیبہ
جیش محمد
حزب المجاہدین
حرکتہ المجاہدین
Al-Badr
Supported by:

 پاکستان[1]
کمان دار اور رہنما
General Raheel Sharif

General Dalbir Singh Suhag
General Pranav Movva
Lt Gen P C Bhardwaj
Air Marshal Arup Raha

Pranay Sahay

امان اللہ خان
حافظ محمد سعید
محمد مسعود اظہر
Sayeed Salahudeen
Fazlur Rehman Khalil
Farooq Kashmiri
Arfeen Bhai (until 1998)

Bakht Zameen
طاقت
617,000 متحرک سپاہی 1,325,000متحرک سپاہی 325-850
ہلاکتیں اور نقصانات
~16,000 قتل ~10,000 قتل ~20,000 قتل
~40,000 شہری قتل

مسئلہ کشمیری، پاکستان، بھارت اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔ یہ مسئلہ تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اور آخری چوتھی 1999ء میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند گروپوں میں کچھ گروپ کشمیر کے مکمل خود مختار آزادی کے حامی ہیں تو کچھ اسے پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی کشمیر میں بھی کچھ لوگ پاکستان سے الحاق کے حامی ہیں تو کچھ ریاست جموں کشمیر کو پھر سے خود مختار ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان پورے جموں اور کشمیر پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ 2010 میں ہندوستان کا کنٹرول 43 فیصد حصے پر تھا جس میں مقبوضہ کشمیر، جموں، لداخ اور سیاچن گلیشئر شامل ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 37 فیصد حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شکل میں ہے۔

بنیادی وجہ

[ترمیم]

پاکستان اور بھارت دونوں مسئلہ کشمیر پر ایک بنیادی نظریے پر کھڑے ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ تقسیم ہند کے دوران میں جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔ جس کی آبادی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب ہندوستان کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دیے گئے۔ پر کشمیر میں اکثریتی آبادی تو مسلمان تھے لیکن یہاں کا حکمران ایک سکھ تھا اور سیکھ حکمران چاہتا تھا کہ بھارت کے ساتھ ہو جائے۔ لیکن تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کیا۔ آج بھی پاکستان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں مسلمان زیادہ ہیں اس لیے یہ پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت کا ماننا ہے کہ اس پر سکھ حکمران تھا جو بھارت سے الحاق کرنا چاہتا تھا اس لیے یہ بھارت کا حصہ ہے۔

مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ثالثی

[ترمیم]

مسئلہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد شروع ہوا جب 1947 میں جموں و کشمیر کے مہاراجا نے حالات کے دباؤ میں بھارت سے الحاق کر لیا۔ پاکستان نے اس کو غیر منصفانہ قرار دیا کیونکہ ریاست کی اکثریت مسلمان تھی اور اُسے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا۔ یہ تنازع دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بنا اور بالآخر پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔

اقوام متحدہ نے اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے 1948 اور 1949 میں متعدد قراردادیں پاس کیں۔ ان قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا کہ کشمیر کے عوام کو استصواب رائے کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ بھارت اور پاکستان دونوں نے ابتدائی طور پر ان قراردادوں کو قبول کیا لیکن بعد میں بھارت نے اس پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔

اقوام متحدہ نے اس مقصد کے لیے UNCIP (United Nations Commission for India and Pakistan) تشکیل دی اور پھر نگران فورس بھیجی، لیکن عملی طور پر یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ بھارت نے وقت گزرنے کے ساتھ کشمیر کو اپنا "اٹوٹ انگ" قرار دینا شروع کر دیا جبکہ پاکستان اس کو متنازع علاقہ کہتا رہا۔

اقوام متحدہ کی ثالثی کی ناکامی کی بڑی وجہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور بڑی طاقتوں کے مفادات تھے۔ امریکا اور برطانیہ اگرچہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے حق میں تھے لیکن سرد جنگ کے تناظر میں بھارت کے ساتھ تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتے تھے۔ دوسری طرف روس نے ہمیشہ بھارت کی حمایت کی جس کی وجہ سے سلامتی کونسل میں پیش رفت رک گئی۔

اس وقت بھی اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کا حل عوامی رائے شماری کے ذریعے ہونا چاہیے۔ لیکن بھارت اس پر عمل درآمد کی بجائے فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ثالثی اگرچہ اصولی طور پر درست اور انصاف پر مبنی تھی، لیکن عالمی سیاست اور طاقتور ممالک کے مفادات کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہو سکا۔ مسئلہ کشمیر آج بھی برصغیر کے امن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرواتا، خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Sumit Ganguly؛ Paul Kapur (7 اگست 2012)۔ India, Pakistan, and the Bomb: Debating Nuclear Stability in South Asia۔ Columbia University Press۔ ص 27–28۔ ISBN:978-0-231-14375-2