پاکستانی درسی کتب تنازع

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پاکستانی درسی کتب تنازع پاکستانی ٹیکسٹ بکوں کی مبینہ نادرستی اور ان میں تواریخی ترمیم پسندی (رویژنزم) کا وجود کا حوالہ دیتا ہے۔ پاکستان کے سرکاری ٹیکسٹ بکوں کے شاملات پر اکثر تنقید ہوئی ہے مختلف جانبوں سے، بشمول جو پاکستان میں ہوں، بسبب مذاہبی ناروداری اور ہند ترسی (انڈوفوبیا) کو فروغ دینا، جس کے نتیجے میں کُورکُولم کی سدھار کا طلب ہوا ہے۔

پس منظر[ترمیم]

حسین حقانی کے مطابق ایوب خان کے زمانے سے پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں صرف سرکاری طور پر شائع شدہ ٹیکسٹ بک مستعمل ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان حکومت کی طرف سے پاکستان کی تواریخ کا معیاری بیانیہ ساز کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ محمد ضیاء الحق کی حکمرانی کے دوران، ٹیکسٹ بک سمیت، ملک کی اسلامی کردگی (اسلامائزیشن) کا ایک پروگرام شروع کیا گیا۔ جنرل ضیا کی 1979 تعلیمی پولیسی ذکر کرتی ہے کہ "اعلیٰ ترین فوقیت کورکولم کی اصلاح کو دیا جائے گا، تمام شاملات کو اسلامی سوچ کے گرد ترتیبِ نو کرنے کے ارادے پر اور تعلیم کو نظریہ سازانہ (آئڈیولوجکل) رجحان دینے کے لیے تاکہ اسلامی نظریہ سازی (آئڈیولوجی) نوجوانوں کی پیڑی کے طرزِ خیال میں داخل ہو اور انھیں اسلامی نقطوں کے مطابق سماج کو تجدید کرنے کے لیے ضروری اعتماد اور قابلیت میں مدد دے۔

سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ پولیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، پاکستانی اسکول ٹیکسٹ بکوں باقاعدہ طور پر بھارت اور ہندوؤں کے خلاف نفرت دلاتے رہے ہیں بذریعہ تواریخی ترمیم پسندی (رویژنزم)۔ متعدد جلدیں یہ خیال دلاتی ہیں کہ قدیم ہندوستانی ورثہ افغانیوں اور ترکوں سے تباہ نہیں کیا گیا، بلکہ مسلمانی ورثہ ہندوستانیوں سے تباہ کیا گیا، جو بین الاقوامی تواریخ دانوں کی فرضیت کے خلاف ہے۔

تنقید[ترمیم]

انٹرنیشنل جرنل آف مڈل ایسٹ سٹدیز میں شائع شدہ پیپر میں، تواریخ دان عائشہ جلال نے بیان کیا کہ"پاکستان کے تواریخ کے ٹیکسٹ بک ساروں میں سے بہترین ہیں اقتدار اور کٹر پن کے بیچ میں وابستگی تشخیص کرنے کے لیے، ایک قومی ماضی کے تخلیقی تصوروں میں۔" وہ مصنفوں کا اشارہ کرتی ہے جن کے "وصیع اور ہمہ اسلام (پین اسلامک) تصور" عرب جزیرہ نما میں اسلام کی پیدائش کے وقت پاکستان کا شروعات کا سراغ اٹھاتے ہیں۔ اے ٹیکسٹ بک آف پاکستان سٹڈیز یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان "قائم ہوا جب محمد بن قاسم کے ماتحت عربوں نے سندھ اور ملتان کا قبضہ لیا"؛ تیرہویں صدی تک "پاکستان تمام شمالی ہند اور بنگال شامل کرتے ہوئے پھیل چکا تھا" اور پھر سلسلہ خجلی کے تحت پاکستان مزید جنوب تر پھیلا، وسط ہند کا وصیع تر حصہ اور دکن شامل کرتے ہوئے"۔ اورنگزیب کے تحت "پاکستان کے روح نے طاقت جمع کی" اور اس کی موت نے "پاکستان کے روح کو کمزور کر دیا"۔ جلال واضح کرتی ہے کہ جمیل جلیبی جیسا نامور عالِم بھی ایک قومی تواریخ کی معقولیت پر شک ڈالتا ہے جو "پاکستان کی ماقبل اسلامی ماضی کا حق جتانے" کی کوشش کرے، بھارت کی تواریخی قدامت سے مقابلہ کرنے کے جتن میں۔ کے علی کی بی اے سٹوڈنٹوں کے لیے دو جلد تاریخ 'ہند و پاک' بر صغیر کی ماقبل تواریخ کا خاکہ قدیم پتھری دور تک کھینچتی ہے اور بااصول طور پر مابعد 1947 پاکستان کے سر حد کے حوالے دیتا ہے دراوڑیوں اور آریاؤں پر کلام کرتے ہوئے۔

خلاف ہند احساسات اور خلاف ہندو بد گمانیاں پاکستان کے قائم ہونے کے وقت سے وہاں وجود میں رہی ہیں۔ ٹفٹس یونورسٹی کے پروفیسر سیّد ولی رضا نصر کے مطابق پاکستان میں ہند ترسی (انڈوفوبیا) سیّد ابو العل مودودی کے تحت جنگجو تنظیم جماعت اسلامی کی طلوع کے ساتھ بڑھنے لگی۔ ہند ترسی (انڈوفوبیا) اور ساتھ خلاف ہندو اور نسل پرستانہ نظریے، مثلاً مارشل ریس تھیوری، دونوں پاکستان میں اسکول کے ٹیکسٹ بکوں کی تحریرِ نو کے محرک تھے (سیکولر اسکولوں اور اسلامی مدرسوں دونوں میں) ہند بر صغیر کی ایک جانب دار اور ترمیم پسندانہ (رویژنسٹ) تاریخ نویسی (ہسٹوریوگرافی) کو فروغ دینے میں، جو ہند ترسانہ (انڈوفوبک) اور خلاف ہندو بد گمانیوں کا پرچار کرتی تھی۔ یہ بیانیوں اسلامسٹ پروپاگنڈا سے ملی ہوئی ہیں، پاکستان کی تواریخ کے وصیع ترمیم میں۔ جہاد، غیر مسلمانوں کی کمتری اور بھارت کی ادراک شدہ گہری دشمنی جیسے تصوروں کا پرچار کرنے سے، سب سرکاری اسکولوں سے مستعمل ٹیکسٹ بک بورڈ کے مطبوعات ایک جہل پسندانہ (ابسکیورنٹسٹ) ذہنیت کو فروغ دیتے ہیں۔

تواریخ دان پروفیسر مبارک علی کے مطابق، پاکستان میں ٹیکسٹ بک اصلاح 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو سے بطور لازمی مضمون، نیشنل کورکولم میں پاکستان سٹڈیز اور اسلامک سٹڈیز کی رواج دہی کے ساتھ شروع ہوئی۔ سابق فوجی آمر محمد ضیاء الحق نے، اسلامی کردگی (اسلامائزیشن) کی طرف عمومی اکساؤ کے تحت، سرگرمی سے تواریخی ترمیم شروع کی اور اس اقدام سے استفادہ کیا۔ "پاکستانی عملے نے عین شروع سے ہی اپنے بچوں کو سکھایا کہ یہ ریاست مذہب کے بنیاد پر قائم ہوئی ہے – اسی لیے تو انھیں دیگر مذہبوں کی کوئی رواداری نہیں ہے اور ان ساروں کو ستیاناس کر ڈالنا چاہتے ہیں"۔

پاکستانی فزکس دان پرویز ہودبھائی کے مطابق، پاکستان کے اسکولوں میں تواریخی ترمیم 1976 میں شروع ہوئی جب پارلیمان کا جاری قانون نے لازمی بنایا کہ سارے سرکاری اور نجی اسکول (سوائے وہ جو گریڈ 9 سے برطانوی او لیول پڑھاتے تھے) ایک کورکولم پڑھائیں جو وفاقی طور پر منظور شدہ گریڈ 5 سوشل سٹڈیز کلاس کے تدریسی نتائج شامل کرے، جیسے کہ: "طاقتیں جو شاید پاکستان کے خلاف کارروائی کر رہی ہوں انھیں تسلیم اور شناخت کریں"، "جہاد پر مبنی تقریریں کریں"، "پولیس والوں، سپاہیوں اور نیشنل گارڈوں کی تصویریں اکٹھے کریں" اور " پاکستان کے خلاف بھارت کی بد نیت سازشیں"۔ اسی طرز پر، اِیویٹ روسر پاکستانی ٹیکسٹ بکوں پر تنقید کرتی ہے بسبب پاکستان کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں جارحانہ (جنگوئسٹک) اور رجوعی (ارّیڈنٹسٹ) یقینوں کا پرچار کرنا اور سیاسی اسلام کی تصویر کشی نیز ہندو اور مسیحی جیسے اقلیتی گروہوں کی طرف سلوک کے بارے میں نفی پسند (نگیشنسٹ) ہونا۔ "ابدی پاکستان" کے دعوے (باوجودیکہ ملک 1947 میں برطانوی ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بنا تھا)، اسلام کی تنگ اور فرقہ وارانہ ترجمانیاں، مذہب کے روادار پہلوؤں کو نظر انداز کرنا اور انتہا پسندانہ ترجمانیوں (جیسے بنکوں کو غیر اسلامی قرار دینا) پر غور کرنا اور ہندو و مسیحی اقلیتی گروہوں پر غداری کے الزامات لگانا، ساروں سے رجوعیت (اِرّیڈنٹزم) آشکار ہوتی ہے۔

پاکستانی پروفیسر طارق رحمٰن کے مطابق پاکستانی ٹیکسٹ بک ہندوؤں کا بیان نہیں کر سکتے بغیر انھیں چال باز، فریبی یا سازشی وغیرہ ٹھہرانا۔ وہ پاکستان کی ماقبل اسلامی تواریخ نظر انداز کرتے ہیں، سوائے ہندوؤں کو بدنام کرنے کے لیے۔

ایک اور پاکستانی تواریخ دان، خورشید کمال عزیز نے اسی انداز سے پاکستانی تواریخ کے ٹیکسٹ بکوں پر تنقید کیا ہے۔ اس نے بیان کیا کہ ٹیکسٹ بک تواریخی غلطیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور تجویز کیا کہ لازمی پڑھائی "مشروع افسانے" پڑھانے کے برابر ہے۔ 66 ٹیکسٹ بکوں پر غور کرنے کے بعد جو تعلیم کے مختلف درجوں پر مستعمل تھیں، عزیز نے استدلال کیا کہ ٹیکسٹ بک پاکستان میں فوجی حکومت کو حمایت دیتے ہیں، ہندوؤں کی طرف نفرت کو فروغ دیتے ہیں، جنگوں کی تعریف کرتے ہیں اور پاکستان کی ماقبل 1947 تواریخ کو مسخ کرتے ہیں۔ لانگ آئلینڈ یونورسٹی کے افتخار احمد کی ایک سٹڈی، جو 2004 میں کرنٹ اِشُوز اِن کمپیریٹِو ایجوکیشن میں شائع ہوئی، نے پاکستان کے سوشل سٹڈیز ٹیکسٹ بکوں کے تجزیے سے پانچ نتیجے نکالے۔

  1. ٹیکسٹ بکوں میں مستعمل مادوں کی انتخاب اور ترتیب اسلام کو نہ صرف بطور ایمان پیش کرتے ہیں، بلکہ بطور ایک سیاسی نظریہ بھی اور ایک عظیم متحد کُن نظرِ جہان جسے تمام شہریوں کو قبول کرنی چاہیے۔
  2. اسلامی نظریہ سازی (آئڈیولوجی) کو بطور دفعۂ ایمان قرار دے کر مقدس بنانے کے لیے، قوم کے ثقافتی اور سیاسی ورثے کو مسخ کرتے ہیں۔
  3. پاکستان کے غیر مسلمان شہریوں کا جانب دار سلوک کرتے ہیں۔
  4. ان کا مرکزی ارادہ ہے بچوں کو تصوری اسلامی ریاست کی نظریاتی تعلیم دینا، جیسے علما نے تصور کیا ہے۔
  5. حالانکہ کتابوں میں مستعمل اصطلاحات اسلامی اقدارات پر غور دلاتے ہیں، مثلاً تقویٰ، شرافت اور فرماں برداری، مگر تنقیدی خیال، شہری حصہ داری یا جمہوری اقدارات، جیسے کہ آزادئ تقریر، برابریت اور ثقافتی پُر انواعی (تنوع) کا لحاظ، ساروں کے بارے میں بہت کم ذکر کیا ہوا ہے۔

سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ پولیسی انسٹی ٹیوٹ کے نیّر اور سلیم کا 2003 میں ہونے والے سٹڈی نے نتیجہ نکالا کہ ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے کہ بچوں کو پاکستان سٹڈیز پڑھایا جا رہا ہے بطور تاریخ اور جغرافیہ کا متبادل۔ پہلے بچوں کو جنوبی ایشیا کی بہت قدیم ماقبل اسلامی تواریخ پڑھائی جاتی تھی اور اس کی جدید پاکستان کے باثمر ورثے کی طرف امداد۔ یہ آج کل کی پاکستان سٹڈیز کے ٹیکسٹ بکوں میں ناموجود ہے۔ اس کے بجا، بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی تواریخ شروع ہوئی اسی دن جب پہلے مسلمان نے ہند میں قدم رکھا۔ سٹڈی نے یہ بھی بیان کیا کہ ٹیکسٹ بکوں میں بہتیرا جنس پر مبنی استیروتیپ تھے اور دوسرے نظریے بھی جو بد گمانی، کٹر پن اور تفریق اکساتے ہیں، ہم وطن پاکستانیوں اور دیگر اقوام کی طرف بھی؛ نیز ان تصوروں کی غفلت کا جو سٹوڈنٹوں میں تنقیدی خود آگاہی دلا سکیں۔

روبینا سہگل، ایک امریکا میں تعلیم یافتہ ماہر نے کہا ہے، "میں طویل عرصے سے دلیل پیش رہی ہوں کہ دراصل ہمارا ریاستی نظام سب سے بڑا مدرسہ ہے؛ ہم مدرسوں کو ہر کچھ کا قصور وار ٹھہراتے ہیں اور بے شک، وہ بہت سارے کام کرتے ہیں جن سے میں اتفاق نہیں کرتی۔ مگر نفرت اور پُر تشدد بد نیت قومیت پسندی کے ریاستی نظریے وہاں پہنچ رہے ہیں جہاں مدرسوں کو پہنچنے کا آس بھی نہ ہو"۔

این سی ای آر ٹی کی 2004 میں بھارت کی ٹیکسٹ بکوں کی وصیع نظرِ ثانی کا حوالہ دیتے ہوئے، وارگیس نے بھارت میں ٹیکسٹ بکوں میں تکثیری اور جمہوری اقدارات کی بردگی اور پاکستان میں تواریخ کی مسخ، دونوں کو اشارہ سمجھا کہ پاکستانی، بھارتی اور بنگلادیشی تواریخ دانوں کے آپس میں ربط دہی کی ضرورت ہے، ایک مخلوط تواریخ رچنے کے لیے، ایک شاملاتی جنوب ایشیائی کتاب کی شکل میں۔

تاہم بین الاقوامی عالِموں نے چیتاؤنی دی ہے کہ کوئی بھی تعلیمی سدھار جو بین الاقوامی دباؤ یا طلبِ بازار کے تحت ہو اسے مقامی سطح پر لوگوں کی توقعوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔