حسین احمد مدنی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حسین احمد مدنی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 6 اکتوبر 1879ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اناؤ ضلع،  اتر پردیش،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 اکتوبر 1957ء (78 سال)[2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیوبند  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خلیل احمد انبہٹوی،  محمود حسن دیوبندی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد سرفراز خان صفدر،  عبد الحمید خان سواتی،  مولانا مجاہد الحسينى،  سید سیاح الدین کاکاخیل،  منت اللہ رحمانی،  احتشام الحق تھانوی،  مولانا جمشید علی خان،  قاری فخر الدین گیاوی،  نعمت اللہ اعظمی،  نصیر احمد خان بلند شہری  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم،  امام،  سیاست دان،  حریت پسند  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
دستخط
 

مولانا سیدحسین احمد مدنی

آپ کا اصل نام حسین احمد تھا اور آپ کی ولادت کا تاریخ نام چراغ محمد تھا اور آپ اسیر مالٹہ شیخ الھند مولانا محمود الحسن کے جا نشین تھے۔ 19 شوال 1296ھ بمطابق 1879ء بمقام بانگڑ میو ضلع اناؤں، اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ دار العوام دیوبند کے شیخ الحدیث تھے اور شدھی ارتداد کے خلاف میدان عمل میں اترنے والی جماعت جمعیۃ تبلیغ السلام صوبجات متحدہ آگرہ کے 1931ء میں نائب صدر و جمعیۃ تبلیغ السلام صوبۂ متحدہ کانپور کے 1941ء میں ممبر تھے، [4]۔[5]

شجرہ نسب[ترمیم]

حسین احمد مدنی سید ہیں۔ آپ کا شجرہ حسین بن علی سے جا ملتاہے۔ آپ کا شجرہ کچھ یوں ہے:

حسین احمد بن سید حبیب اللہ بن سید پیر علی بن سید جہانگیر بخش بن شاہ انور اشرف بن شاہ مدن الیٰ شاہ نور الحق۔

شاہ نور الحق،، مخدوم شاہ سید احمد توختہ تمثال رسول ترمزی جوزجانی لاہورہ کی اولاد میں سے تھے اور وہ سید محمد مدنی المعروف بہ سید ناصر حکیم ترمذی کی اولاد سے تھے اور وہ تاج العارفین سید حسین اصغر بن امام الساجدین زین العابدین ابن امام الشہید کربلا حسین بن علی کی اولاد سے تھے۔[6]

خاندان[ترمیم]

سید حسین احمد مدنی کے 4 بھائی تھے۔ سیدمحمد صدیق،سید احمد،سید جمیل احمد،سیدمحمود، بھائیوں میں آپ درمیانے تھے۔

آپ کی تین بہنیں تھیں۔

  • سیدہ زینب  (4 برس کی عمر میں فوت ہوئی)
  • سیدہ نسیم زہرہ  (ڈیڑھ سال کی عمر میں فوت ہوئی)
  • سیدہ ریاض فاطمہ (24 سال کی عمر میں مدینہ میں فوت ہوئیں)

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

آپ کے والد اسکول ہیڈ ماسٹر تھے۔ جب آپ کی عمر 3 سال کو پہنچی تو والد کی تبدیلی قصبہ ٹانڈہ میں ہو گئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم یہاں حاصل کی۔ قاعدہ بغدادی اور پانچویں سیپارے تک والدہ سے پھر پانچ سے اخیر تک والد سے ناظرہ قرآن پڑھا۔

عصری بنیادی نصابی کتب[ترمیم]

آمد نامہ، دستور الصبیاں، گلستان کا کچھ حصہ مکان پر اور اسکول میں دوم درجہ تک پڑھنا ہوا۔ حساب، جبرو مقابلہ تک مساحت اور اقلیدس مقالہ اولیٰ، تمام جغراقفیہ عمومی و خصوصی، تاریخ عمومی و خصوصی، مساحت علمی (تختہ جریب وغیرہ سے زمین ناپ کر باقاعدہ نقشہ بنانا) اور ہر چیز آٹح سال کی عمر تک بخوبی یاد ہو گئی تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں والد نے 1309ھ میں دارالعلوم دیوبند بھیج دیا۔ دو بھائی پہلے سے وہیں مقیم تھے چنانچہ انہی کے زیر سایہ بھائیوں کمرہ میں رہنے لگے۔ یہ کمرہ مولانا محمود الحسن کے مکان کے بالکل قریب واقع تھا۔

دیوبند میں تعلیم کا آغاز[ترمیم]

یہان پہنچنے کے بعد گلستان اور میزان شروع کی۔ بڑے بھائی صاحب نے محمود الحسن سے ابتدا کی درخواست کی چنانچہ مجمع میں انھوں نے مولانا خلیل احمد سے فرمایا آپ شروع کرادیں انھوں نے ابتدا کروادی۔ پھر بھائی سے میزان، منشعب پڑھی۔

حسین احمد مدنی کی زبانی:

دیوبند پہنچنے کے بعد وہ ضعیف سی کھیل کود کی آزادی جو مکان پر تھی۔ وہ بھی جاتی رہی۔ دونوں بھائی صاحبان بالخصوص بڑے بھائی صاحب سب سے زیادہ سخت تھے۔ خوب مارا کرتے تھے۔ اس تقید اور نگرانی نے مجھ میں علمی شغف زیادہ سے زیادہ اور لہو لعب کا شغف کم سے کم کر دیا۔[7]

اساتذہ سے حصول علم[ترمیم]

نمبرشمار نام استاذ کیفیت استاذ کتب کا حاصل کردہ علم
1 مولانا محمود حسن دیوبندی دارلعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد اور مولانا قاسم نانوتوی

سے علم حدیث حاصل کیا، حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے خلافت حاصل کی اور دار العلوم دیوبند کے صدر مدرس

دستور المبتدی، زرادی، زنجہانی، مراح الارواح، قال

اقوال، مروات، تہذیب قطبی تصدیقات، قطبی تصورات، میر قطبی، مفید الطالبین، نفحۃ الیمن، مطول، ہدایہ اخیرن، ترمذی شریف، بجاری شریف، ابوداؤد، تفسیر بیضاوی، نخبۃ الفکر، شرح عقائد نسفی، حاشیہ خیالی، موطا امام مالک، مؤطا امام محمد

2 مولانا ذو الفقار علی مولانا محمود الحسن کے والد اور دار العلوم دیوبند کے بانیوں میں سے تھے فصول اکبری
3 مولانا عبد العالی مولانا قاسم نانوتوی کے شاگردوں میں سے تھے، دارلعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کرکے دورالعلوم میں مدرس مقرر ہوئے مسلم شریف، نسائی شریف، ابن ماجہ، سبعہ معلقہ، صدرا، شمس بازغہ،توضیع تلویح
4 مولانا خلیل احمد سہارنپوری دار العلوم دیوبند کے اولین فضلا میں سے تھے۔ ابو داؤد شریف کی شرح بذل المجہود پانچ جلدوں میں لکھی تخلیص المفتاح
5 مولانا حکیم محمد حسن مولانا محمود الحسن کے چھوٹے بائی تھے۔ آُکے دور مین دار العلوم دیوبند نے بہت ترقی کی۔43 سال تک دیوبند میں تدریس کی پنج گنج، صرف میر، نحو میر، مختصر المعانی، سلم العلوم، ملا حسن، جلالین شریف، ہدایہ اوّلین
6 مفتی عزیز الّحمٰن دار العلوم دیوبند میں معین المدرس تھے، 40 سال تک دیوبند کے مفتی رہے، آپ کے فتاویٰ کی تعداد 1،18،000 (ایک لاکھ اٹھارہ ہزار) ہے شرح جامی، کافیہ، ہدایۃ النحو، منیۃ المصلّیٰ، کنز الدقائق، سرح وقایہ، شرح مائۃ عامل، اصول الشاشی
7 ،مولانا غلام رسول بفوی علوم عقلیہ و نقلیہ کے حافظ،1208ھ میں دار العلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے، نور الانوار، حسامی، قاضی مبارک، شمائل ترمذی
8 مولانا حافظ محمد احمد مولانا قاسم نانوتوی کے فرزند، دارلعلوم دیوبند کے مدرس

اور آپ کی تاریخ میں دیوبند کی ترقیوں کا زریں دور آپ کا زمانہ سمجھا جاتا ہے

ملا جامی بحث اسم
9 مولانا حبیب الرّحمٰن دار العلوم دیوبند کے نائب مہتمم مقامات حرہری، دیوان متنبنی
10 مولانا سید محمد صدیق سید حسین احمد مدنی کے برے بھائی۔ 1331ھ میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے گلساتن، میزان منشعب

حجاز میں درس و تدریس[ترمیم]

علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔

شوال 1318ھ تک آپ کا درس امتیازی مگر ابتدائی پیمانے پر رہا۔ 1318ھ میں ہندوستان آئے۔ ماہ محرم 1320ھ واپس دوبارہ مدینہ حاضری ہو گئے۔ اس کے بعد آپ کا حلقہ درس بہت وسیع ہو گیا۔ آپ کے گرد طلبہ کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ اس وقت آپ کی عمر 24 سال تھی آپ کے حلقہ درس میں اس قدر توسیع ہوئی کہ مشرق وسطیٰ، افریقا، چین، الجزائر، مشرق الہند تک کے تشنگان علم آپ کی طرف کھینچے کھینچے چلے آنے لگے اور آپ کے زیر درس و درسیات ہند کے علاوہ مدینہ منورہ، مصر، استنبول کی کتابیں رہیں۔

عرب و ہند کے چند ممتاز شاگرد[ترمیم]

آپ کے شاگردوں میں بہت سے تعلیم و تدریس قضا اور انتظامی محکموں کے بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوئے۔ چند ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں:

  • عبد الحفیظ کردی جو مدینہ منورہ میں محکمہ کبریٰ (ہائی کمانڈ) کے رکن تھے۔
  • احمد بساطی جو مدینہ طیبہ میں نائب قاضی رہے۔
  • محمود عبد الجواد مدینہ میونسپلٹی کے چیئر مین۔
  • مشہورالجزائری عالم شیخ بشیر ابراہیمی۔
  • حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمٰن صاحب نوراللہ مرقدہ بجنوری

درس حدیث کے لیے تکالیف کا تحمل[ترمیم]

شدید گرمیں دوپہر 12 بجے کا زمانہ ہو چھتری پیش کی جائے تو لینے سے انکار کر دیتے۔ بارش کے زمانہ میں راستہ کیچڑ آلود ہوتا لیکن دارالحدیث کی جانب محو سفر ہوتے۔ ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چھتری ہوتی۔ کپڑے کیچڑ آلود ہوتے تو سواری پیش کی جاتی تو انکار کردیتے۔ شاگرد تانگے والے کو لے آتے بار بار اصرار کرنے پر ایک دفعہ کہنے لگے کہ کیچڑ سے ہم پیدا ہوئے، اگر اس میں جا ملیں تو کیا ڈر ہے۔ ایک مرتبہ طلبہ کے اصرار پر تیار ہو گئے۔ دوسرے دن کہیں دور جانا تھا تو تانگہ والا حاضر ہوا تو اس کے تانگہ پر اس وقت سوار ہو گئے جبکہ یہ شرط تسلیم کرالی کہ وہ درس گاہ تک لے جانے کے لیے آئندہ کبھی نہ آئے گا۔[8]

اہلیہ کی تدفین سے فراغت کے بعد درس بخاری[ترمیم]

حکیم ضیاء الدین نبیان کرتے ہین کہ کی اہلیہ کا انتقال ہوا فراغت تدفین کے کچھ دیر بعد نے دارالحدیث کا رخ کیا۔ مجمع میں ہل چل مچ گئی تمام عمائدین نے سمجھایا کہ صدمہ بالکل تازہ ہے اور اس سے دل و دماغ کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے۔ مگر نے دارالحدیث میں پہنچ کر بخاری شریف کا درس شروع کر دیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے دوبارہ جاکر سمجھانے کی کوشش کی تو جواب دیا کہ:

اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اطمینان قلب اور کس چیز سے حاصل ہو سکتا ہے؟[9]

تصوف و طریقت[ترمیم]

جب علومِ ظاہری سے آراستہ ہونے کے بعد علومِ باطنی کی فکر دامن گیر ہو گئی، تو حضرت شیخ الہندؒ سے اظہارِ خیال کیا، تو انھوں نے سید العارفین حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب رہنمائی فرمائی، تو تعمیلِ حکم میں اُن سے بیعت ہو گئے اور روحانی کمالات کا اکتساب کیا، بالآخر ان کے خلیفہ مجاز ہوئے، پھر اس کے بعد آپ کے وعظ و ارشاد ، بیعت و تلقین کے ذریعے لاکھوں افراد کی اصلاح ہوئی اور ہزاروں طالبینِ حق اور رہ نوردانِ سلوک و طریقت آپ کے روحانی و باطنی کمالات و ملکات سے فیض یاب و سیراب ہوئے، 167 حضرات آپ کی طرف سے اجازت و بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے :

کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے

جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں

آپ کے متعدد خلفاء ہوئے، آپ کے ممتاز خلفاء میں مجاز بیعت قاری فخر الدین گیاوی بھی شامل ہیں، جن سے ریاست بہار میں خوب فیض پہنچا۔

مالٹا میں قید[ترمیم]

شیخ الہند محمود حسن دیوبندی کو گرفتار کر کے انگریز کے حوالہ کیا تو ان کے ہمراہ چار شاگرد و ان کے قابل رشک تحریک کے سرگرم اراکین مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، مولانا وحید احمد مدنیؒ ، مولانا عزیزگل پیشاوری ؒ اور سید حکیم نصرت حسین مالٹا بھی تھے۔ شیخ الہند محمود حسن دیوبندی نے کہا انگریزی گورنمنٹ نے مجھ کو تو مجرم سمجھا ہے، تم تو بے قصور ہو اپنی رہائی کی کوششیں کرو تو چاروں نے جواب دیا جان تو چلی جائے گی مگر آپ کی خدمت سے جدا نہیں ہوں گے۔

حسین احمد مدنی جب مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے تو پورا خاندان اور بسا بسایا گھر چھوڑ کر نکلے تھے۔ سفر صرف دو چار دنوں کا تھا مگر تقدیر میں طویل لکھا تھا۔ گرفتار ہوئے مصر کیجانب روانگی ہوئی، سزا ہوئی۔ پھانسی کی خبریں گرم ہوئیں۔ مالٹا کی قید پیش آئی۔ استاد کی قربت اور ان کی پدرانہ شفقت نے ہر مشکل آسان اور قابل برداشت بنادی تھی۔ قیدو بند کی سختیاں صبر و شکر کیساتھ جھیل رہے تھے۔

ایک دن کئی ہفتوں کی رکی ہوئی ڈاک پہنچی تو ہر خط میں کسی نہ کسی فرد خاندان کی موت کی خبر ملتی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں باپ، جواں سال بچی، ہونہار بیٹے، جانثار بیوی، بیمار والدہ اور دو بھائیوں سمیت سات افراد خاندان کی جانکاہ خبر ملی۔ موت بر حق ہے مگر جن حالات میں حسین احمد مدنی کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں انھیں برداشت کرنا پہاڑ کے برابر کلیجا چاہیے تھا۔[10]

حسین احمد مدنی نے مالٹا کی قید کے دوران میں 10 ماہ میں قرآن مجید یاد کرکے محمود الحسن کو تراویح کے بعد نوافل میں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح نصف جمادی اولا سے یاد کرنا شروع کیا اور ربیع الاول میں پورا یاد کر کے محمود الحسن کو اگلے رمضان میں سنادیا۔ اس دوران میں والد کی وفات اور دیگر کنبہ کی موت کی خبر نے بہت گہرا صدمہ و دکھ پہنچایا۔[8]

جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد کل ساڑھے تین سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد شیخ الہند اور ان کے تمام ساتھیوں کو جن میں حسین احمد مدنی بھی شامل تھے آخر کار رہائی مل گئی۔ جب گھر سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئے تھے مگر رہائی کے بعد جب اپنے علاقہ پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ خاندان کے افراد کی اموات اور 40 یا 42 برس کی عمر تھی۔ صدمے پہ صدمہ خاندان تھا نہ گھر۔[11]

تصانیف[ترمیم]

آپ زندگی بھر علم حدیث اور دیگر علوم دینیہ کی تدریس میں مشغول رہے، اس کے ساتھ آپ نے تصنیف وتالیف کا بھی مشغلہ رکھا،کتنے رسالے تحریر کیے اور مجلات وجرائد میں سیکڑوں مضامین قلم بند کیے، باضابطہ چند اہم کتابیں جو آپ کی یاد گار ہیں وہ یہ ہیں:

  • نقشِ حیات 2جلدیں (خود نوشت سوانح)
  • سفرنامۂ شیخ الہند
  • الشہاب الثاقب
  • مکتوباتِ شیخ الاسلام
  • متحدہ قومیت
  • الخلیفۃ المہدي في الأحادیث الصحیحۃ، وغیرہ۔[12]
  • کشف حقیقت
  • اسیر مالٹا
  • نصاب مدنی

سیرت و اخلاق[ترمیم]

ڈاکٹر عبد الرّحمان شاجہان پوری فرماتے ہیں کہ:

علم عمل کی دنیا میں عظیم الشان شخصیات کے ناموں کے ساتھ مختلف خصائل و کمالات کی تصویریں ذہن کے پردے پر نمایاں ہوتی ہیں، لیکن مولانا محمود الحسن حسین احمد مدنی کا نام زبان پر آتا ہے تو ایک کامل درجے کی اسلامی زندگی اپنے ذہن و فکر ، علم اور اخلاق و سیرت کے تمام خصائل و کمالات اور محاسن و مھامد کے ساتھ تصویر میں ابھرتی اور ذہن کے پردوں پر نقش ہوجاتی ہے۔اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ اسلامی زندگی کیا ہوتی ہے؟ تو میں پورے یقین اور قلب کے کامل اطمینان کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ حسین احمد مدنی کی زندگی کو دیکھ لیجئے، اگر چہ یہ ایک قطعی اور آخری جواب ہے ، لیکن میں جانتا ہون کہ اس جواب کو عملی جواب تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ان حضرات کا قلب اس جواب سے مطمئن نہیں ہو سکتا جنہوں نے اپنی دور افتادگی و عدم مطالعہ کی وجہ سے یا قریب ہوکر بھی اپنی غفلت کی وجہ سے ،یا اس وجہ سے کہ کسی خاص ذوق و مسلک کے شغف و انہماک ، یا بعض تعصبات نے انکی نظروں کے آگے پردے ڈال دیئے تھے اور وہ حسین احمد مدنی کے فکر کی رفعتوں ، سیرت کی دل ربائیوں اور علم و عمل کی جامعیت کبریٰ کو محسوس نہ کرسکے تھے اور انکے مقام کی بلندیوں کا اندازہ نہ لگا سکے تھے۔[13]

یتیموں کی سرپرستی اور صلح رحمی[ترمیم]

مولانا فرید الوحیدی خود راوی ہیں کہ مدنیؒ یتیموں اور بیواؤن کی عموما امداد فرماتے تھے۔ ایسے افراد میری نظر میں ہیں جنہیں بے روزگاری کے دور میں مستقل امداد دیتے رہے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم کی قید نہ تھی۔ جو لوگ مفلوک الحال ہوتے ان کی امداد باضابطہ طور پر فرماتے۔ عید کے مواقع پر اگر آبائی وطن ہوتے تو خود رشتہ داروں کے ہاں عید سے پہلے جاتے اور عیدی تقسیم فرماتے۔

مولانا مدنیؒ اپنے یتیم بھتیجے کی شادی کے لیے 25،000 پچیس ہزار روپے جیب کی مالیت سے عالی شن گھر تعمیر کروایا۔ بھتیجے کی وفات کے بعد ان کی اولاد کا کہنا ہے کہ گرفتاری و قید تک ہمیں احساس بھی نہ ہونے دیا کہ ہم یتیم ہیں۔ غرض یہ کہ اس دور نفسا نفسی میں حقیقی پوتوں کے ساتھ پرخلوص مہرو محبت عنقا ہے۔ بھتیجے اور اس کی اولاد کے ساتھ غیر معمولی مہرو محبت کے برتاؤ کی مثال بھی شاید مشکل سے نظر آئے۔[8]

مستحقین کی خبر گیری[ترمیم]

مولانا نجم الدین اصلاحیؒ تحریر کرتے ہیں:

مدنی جب تک زندہ رہے سخاوت کا دریا بہتا رہا اور فیاضی کا سمندر موجزن رہا۔ کا محبوب مشغلہ ہی یہی تھا کہ دولت کو اللہ کے راستہ مین لتایا جائے اور نادار لوگوں کی ضروریوت پوری کی جائیں۔
  • طلبہ کی ایک جماعت ایسی بھی تھی جس کی آپ مدد کیا کرتے تھے۔ میرے ہی کمرے میں ایک صاحب رہتے ے تھے جنہیں اصولا مدرسہ سے کھانا نہیں ملتا تھا میں نے ایک دن پوچھ لیا تا کہا کہ مدنی انتظام فرما دیتے ہیں۔
  • ایک مرتبہ کی خدنت میں حاضر تھا دیگر حاضرین کی کافی تعداد تھی۔ عرضیاں پیش کی جارہی تھیں ایک طالب علم کی عرضی کو غور سے پڑھا پھر اس کے بعد دریافت کیا کہ تمھارے گھر تک سفر کا کرایہ کتنا ہے۔ اس نے کہا 15 روپے۔ پوچھا تمھارے پاس کتنے ہیں یا بالکل نہیں ہیں؟ اس نے جواب دیا 7 روپے، پھر نے جیب سے اسے 8 روپے عنایت کیے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سال بھر میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔[14]

میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا[ترمیم]

مولانا عبد الحق مدنی کا بیان ہے:

مدینہ منورہ والے سید حسین احمد مدنی کی اتنی عزت کرتے تھے کہ دوسرے کسی عالم کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا لیکن مدنی رمضان شریف میں روزہ پر روزہ رکھتے اور کسی کو خبر نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے افطار کا پروگرام رکھا۔ کھانا لے آیا اصرار پر نے تھوڑا سا کھایا۔ میں سمجتا رہا کہ کے گھر سے بھی کھانا آئے گا مگر افطاری تو کجا سحر کو بھی نہ آیا۔ کے پاس چند کھجوریں تھیں جن سے روزہ افطار اور سحر کر لیا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا آنجناب کے گھر سے نہ افطار میں کھانا آیا اور نہ سحر کے لیے کوئی خبر آئی؟

مدنی نے بات ٹالنے کی بہت کوشش کی اور گفتگو کا رخ ادھر ادھر پھیرنا چاہا لیکن میرا صرار برھتا ہی گیا۔ فرمایا عبد الحق! جناب رسول اللہ ﷺ کی سنت تو کبھی پوری ہونی چاہیے۔ اس کے بعد انتہائی بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا: (بار بار آدھ پاؤ مسور کی دال پکا کر سب گھر والوں نے تھوڑی تھوڑی پی کر یا تربوز کے چھلکے سڑک پر سے اٹھا کر دھو کر شب میں پکا کر اس کا پانی پی کر گذرکیا)۔

وفات[ترمیم]

13 جمادی الاول بمطابق 5 دسمبر 1957ء بروز جمعرات کی بوقت دوپہر بمقام دیوبند، بھارت میں انتقال ہوا۔ تاخیر سے بچنے کے لیے ساڑھے بارہ بجے شب محمد طیب قاسمی کے ایما پر محمد زکریا کاندھلوی نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ـ[15]

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://data.bnf.fr/ark:/12148/cb162771195 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2019 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/130563811 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  3. ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/144828 — بنام: Sayyid Ḥusain Aḥmad Madnī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. نوائے حق اردو ایڈیٹر مولوی سید محمد رفیع کمہیڑہ
  5. https://archive.org/details/pyam-e-tabligh
  6. تاریخ آئینہ اودھ صفحہ 64
  7. (تخلیص نقش حیات، صفحہ 54 تا 55)
  8. ^ ا ب پ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، از مولانا عبد القیوم حقانی
  9. شیخ الاسلام صفحہ نمبر 78
  10. شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیایک تاریخی و سوانحی مطالعہ، از فرید الوحید
  11. چراغ محمد، از مولانا زید الحسینی
  12. "شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ . . . حیات وخدمات"۔ جامعہ بنوری ٹاؤن۔ جولائی 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2022 
  13. ایک سیاسی مطالعہ ، از ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری
  14. شیخ الالسلام صفحہ نمبر 232
  15. ابو محمد مولانا ثناء اللہ سعد شجاع آبادی۔ علمائے دیوبند کے آخری لمحات۔ صفحہ: 95