محمد منیر نانوتوی
محمد منیر نانوتوی | |
---|---|
دار العلوم دیوبند کے مہتمم | |
قلمدان سنبھالا 1894 – 1895ء | |
پیشرو | فضل حق دیوبندی |
جانشین | حافظ محمد احمد |
ذاتی | |
پیدائش | 1247 ھ / 1831ء نانوتہ، برطانوی ہند |
وفات | 1321 ھ / 1904ء (تقریباً) |
مذہب | اسلام |
معتقدات | حنفی دیوبندی |
تحریک | دیوبندی |
بنیادی دلچسپی | اسلامی علوم، تصوف |
قابل ذکر کام | سراج السالکین، فوائد غریبہ |
اساتذہ | مملوک علی نانوتوی، صدر الدین خان آزردہ، عبد الغنی مجددی دہلوی |
پیشہ | اسلامی عالم، صوفی، منتظم |
مرتبہ | |
محمد منیر نانوتوی (1831–1904) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین اور مجاہد آزادی تھے۔ وہ مملوک علی نانوتوی، صدر الدین خان آزردہ اور عبد الغنی مجددی دہلوی جیسے ممتاز علما کے شاگرد تھے۔ انھوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں فعال حصہ لیا اور جہاد شاملی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جنگ کے بعد، انھوں نے خود کو تدریس کے لیے وقف کر دیا اور بریلی کالج میں استاد مقرر ہوئے۔ 1894ء میں، انھیں دار العلوم دیوبند کا چوتھا مہتمم مقرر کیا گیا، لیکن ایک سال بعد 1895ء میں وہ مستعفی ہو گئے۔ فقہ حنفی اور تصوف کے موضوعات پر انھوں نے تصانیف چھوڑی ہیں۔
ابتدائی و تعلیمی زندگی
[ترمیم]محمد منیر نانوتوی 1831ء میں نانوتہ، اتر پردیش، بھارت میں پیدا ہوئے۔[1][2]
وہ محمد مظہر نانوتوی کے چھوٹے بھائی تھے۔[3] انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد حافظ لطف علی سے حاصل کی اور بعد میں مملوک علی نانوتوی، صدر الدین خان آزردہ اور عبد الغنی مجددی دہلوی جیسے جید علما سے اکتسابِ علم کیا۔[4][5]
علمی و عملی زندگی
[ترمیم]جنگ آزادی 1857ء میں کردار
[ترمیم]وہ ایک مجاہد آزادی تھے، وہ جنگ آزادی 1857ء کے حصے، "جہاد شاملی" میں شریک رہے اور انگریزوں سے معرکہ آرا ہوئے۔[6][7]
معرکے کے دوران، انھیں باغی لشکر کے بائیں بازو (میسرہ) کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ مزید برآں، محمد طیب قاسمی کے مطابق، جو میاں منصور انصاری کا حوالہ دیتے ہیں، نانوتوی کو محمد قاسم نانوتوی کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ امداد اللہ مہاجر مکی نے خاص طور پر انھیں ہدایت دی کہ وہ نانوتوی کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور تاکید کی: "مولانا محمد قاسم بالکل آزاد اور جری ہیں، ہر صف صف میں بے محابا گھس جاتے ہیں؛ آپ کسی وقت ان کا ساتھ نہ چھوڑیں۔"[8] [9]
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ نانوتوی نے بغاوت کے دوران اے ڈی سی یعنی یاور کے طور پر محمد قاسم نانوتوی کی خدمت انجام دی۔ تاہم، یہ بھی ممکن ہے کہ اگرچہ انھیں جنگ میں بائیں بازو کی کمان سونپی گئی تھی، لیکن عمومی طور پر ان کا کام قاسم نانوتوی کے قریب رہنا اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔ چونکہ ان کے درمیان قریبی خاندانی تعلقات اور گہری عقیدت تھی، لہٰذا وہ فطری طور پر ان کے ہمراہ رہے۔[10][11]
علمی و انتظامی خدمات
[ترمیم]جنگ کے بعد، جب روپوشی کا دور ختم ہوا، تو نانوتوی بریلی منتقل ہو گئے، جہاں 1861ء میں انھیں بریلی کالج میں تدریس کی ملازمت ملی۔[12] تدریسی فرائض کے ساتھ ساتھ، وہ اپنے بڑے بھائی محمد احسن نانوتوی کے ساتھ 'مطبعِ صدیقی' میں بھی کام کرتے رہے، جو ایک طباعتی ادارہ تھا جسے وہ دونوں مل کر چلاتے تھے۔[13]
1894ء میں، انھیں فضل حق دیوبندی کے بعد دار العلوم دیوبند کا چوتھا مہتمم مقرر کیا گیا۔ وہ اس منصب پر ایک سال سے کچھ زائد عرصہ فائز رہے اور 1895ء میں مستعفی ہو گئے۔[14][15][16]
اپنے دفتری فرائض کے علاوہ، دار العلوم دیوبند کے اندر خارج اوقات میں وہ طلبہ کو عربی ادب پڑھایا کرتے تھے۔[17]
تصانیف
[ترمیم]نانوتوی نے اسلامیات اور تصوف پر متعدد کتب تحریر کیں، جن میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:
- سراج السالکین – امام غزالی کی منهاج العابدین کا اردو ترجمہ (1864ء)۔[4][18]
- فوائد غریبہ – تصوف پر ایک رسالہ۔[6]
- ایک مختصر رسالہ حج کے احکام پر۔[4]
ذاتی دیانت
[ترمیم]نانوتوی اپنی اخلاقی اصولوں کی پاسداری کے لیے مشہور تھے۔ ارواحِ ثلاثہ کے مطابق، ایک مرتبہ وہ دار العلوم دیوبند کی سالانہ روداد کی طباعت کے لیے دہلی گئے، مگر اس مقصد کے لیے مختص رقم چوری ہو گئی۔ انھوں نے اس واقعے سے انتظامیہ کو مطلع کرنے کی بجائے گھر واپس آکر اپنی زمین فروخت کی اور اس سے حاصل شدہ رقم کو رپورٹ کی طباعت پر خرچ کیا۔[19]
بعد میں جب دار العلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے ارکان کو اس واقعے کا علم ہوا، تو انھوں نے رشید احمد گنگوہی سے رہنمائی طلب کی۔ گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ نانوتوی ذاتی طور پر اس نقصان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود، نانوتوی نے ادارے سے کسی بھی قسم کی مالی معاونت لینے سے انکار کر دیا اور مبینہ طور پر کہا کہ خود گنگوہی بھی ایسی صورت حال میں یہ رقم قبول نہ کرتے۔[19]
وفات
[ترمیم]ان کی وفات کی حتمی تاریخ معلوم نہیں، تاہم 1321 ھ (1904ء) تک ان کی حیات کا ذکر ملتا ہے۔[20]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ سید محبوب رضوی (1981)۔ ہسٹری آف دار العلوم دیوبند [تاریخ دار العلوم دیوبند]۔ ترجمہ از مرتضیٰ حسین ایف قریشی۔ ادارۂ اہتمام، دار العلوم دیوبند۔ ج 2۔ ص 169
- ↑ محمد اللہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (3 ایڈیشن)۔ شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 503
- ↑ دیوبندی 1960
- ^ ا ب پ الرحمن 1976
- ↑ مبارکپوری 2021
- ^ ا ب رضوی 1981
- ↑ فیوض الرحمن (1976)۔ مشاہیر علما دیوبند۔ عزیزیہ بک ڈپو، لاہور۔ ص 607
- ↑ مناظر احسن گیلانی (1955)۔ سوانح قاسمی۔ دہلی: الجمیعۃ پریس۔ ج 2۔ ص 137
- ↑ محمد میاں دیوبندی (1960)۔ علمائے ہند کا شاندار ماضی (1857ء اور جانبازان حریت)۔ دہلی: ایم برادرز۔ ج 4۔ ص 303
- ↑ گیلانی 1955، صفحہ 137
- ↑ دیوبندی 1960، صفحہ 303
- ↑ الرحمن 1976، صفحہ 607
- ↑ قاسمی 2020، صفحہ 503
- ↑ قاری محمد طیب (جون 1965)۔ دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی (1st ایڈیشن)۔ دیوبند: دفترِ اہتمام، دارالعلوم دیوبند۔ ص 95
- ↑ قاسمی 2020، صفحہ 503–504, 747
- ↑ الرحمن 1976، صفحہ 608–609
- ↑ رضوی 1972، صفحہ 485
- ↑ محمد عارف جمیل مبارکپوری (2021)۔ موسوعۃ علماءِ دیوبند۔ شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 426
- ^ ا ب سید محبوب رضوی (1972)۔ تاریخِ دیوبند (دوسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: علمی مرکز۔ ص 485–486
- ↑ محمد ایوب قادری (جون 1976)۔ جنگِ آزادی 1857 (واقعات و شخصیات)۔ وحید آباد، کراچی: پاک اکیڈمی۔ ص 607
- Pages using sfn with unknown parameters
- 1831ء کی پیدائشیں
- 1904ء کی وفیات
- ضلع سہارنپور کی شخصیات
- بھارتی سنی مسلمان
- حنفی فقہا
- دیوبندی شخصیات
- انیسویں صدی کے اسلامی مسلم علما
- آزادی ہند کے فعالیت پسند
- جنگ آزادی ہند 1857ء کی شخصیات
- بھارت کے سنی علما
- برطانوی ہند کی شخصیات
- ہندوستانی صوفیا
- انیسویں صدی کی ہندوستانی شخصیات
- بیسویں صدی کی بھارتی شخصیات