محمد اسلام قاسمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا، مفتی
محمد اسلام قاسمی
معلومات شخصیت
پیدائش 16 فروری 1954
راجا بِھیٹا، ضلع دُمکا، بہار
وفات 16 جون 2023(2023-60-16) (عمر  69 سال)
دیوبند، ضلع سہارنپور، اترپردیش، بھارت
قومیت بھارت
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی
پیشہ مقالہ نگار، مصنف، عالم، خطیب
کارہائے نمایاں خانوادۂ قاسمی اور دار العلوم دیوبند، خلیجی بحران اور صدام حسین، درخشاں ستارے: میرے اساتذہ، میری درسگاہیں

محمد اسلام قاسمی (1954–2023ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم، مفتی، خطاط اور مصنف تھے۔ انھوں نے تقریباً چالیس سال دار العلوم وقف دیوبند میں بہ حیثیت مدرس خدمات انجام دیں۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

محمد اسلام قاسمی 12 جمادی الاخریٰ 1373ھ بہ مطابق 16 فروری 1954ء کو ضلع دمکا، بہار کے راجا بِھیٹا میں پیدا ہوئے۔[1][2]

انھوں نے ابتدائی ناظرہ و فارسی کی تعلیم؛ اپنی نانیہال یعنی ضلع دمکا، بہار کے موضع بِھٹرا (جو اب ضلع جامتاڑا، جھارکھنڈ میں آتا ہے) میں محمد لقمان دمکاوی کے پاس حاصل کی،[3] اس کے بعد انھوں نے 1962ء میں جامعہ حسینیہ، گریڈیہ میں داخلہ لے کر وہاں فارسی، اول و دوم عربی اور ابتدائی انگریزی پڑھی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں محمد ایوب مظاہری، عبد الحق اعظمی، بلال احمد بھاگلپوری، محمد ابراہیم مفتاحی اور محمد عباس چتراوی بھی شامل تھے۔[4][5]

اس کے بعد ایک سال مدرسہ اشرف المدارس، کُلٹی، ضلع بردوان، مغربی بنگال میں رہے، وہاں پر ان کے اساتذہ میں محمود الحسن گیاوی اور انوار الحق ندوی شامل تھے۔[6]

مدرسہ اشرف المدارس، کُلٹی کے بعد 1967ء میں شرح جامی کے سال؛ انھوں نے مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لے کر محمد صدیق کشمیری، محمد ظریف سہارنپوری، عبد القیوم رائے پوری اور محمد اللہ مظاہری جیسے اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔[7]

جس وقت وہ مظاہر علوم میں زیر تعلیم تھے، اُس وقت وہاں محمد یعقوب سہارنپوری اور محمد سلمان مظاہری؛ درجۂ فنون کے طالب علم تھے اور ان کے ایک سال سینئر طلبہ میں سابق امیر تبلیغی جماعت زبیر الحسن کاندھلوی (متوفی: 2014ء)، امینِ عام مظاہر علوم جدید محمد شاہد سہارنپوری اور سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ وسیم احمد سنسار پوری (متوفی: 2020ء) بھی شامل تھے۔[8]

1388 بہ مطابق 1968ء میں دار العلوم دیوبند میں ان کا داخلہ ہوا، اس وقت تک چوں کہ دار العلوم دیوبند میں درجہ بندی نہیں ہوئی تھی، تو ان کا داخلہ مختصر المعانی، شرح وقایہ اور مقامات حریری کی جماعت میں ہوا، 1391ھ بہ مطابق 1971ء میں دورۂ حدیث سے ان کی فراغت ہوئی۔[9]

دورۂ حدیث کے بعد 1392ھ بہ مطابق 1972ء میں انھوں نے دار العلوم ہی سے تکمیل ادب کیا، اس کے بعد 1973 و 1974ء میں وہ شعبۂ خوش نویسی میں رہے، پھر 1395ھ بہ مطابق 1975ء میں انھوں نے وہیں سے تکمیل افتا بھی کیا۔[10]

دار العلوم دیوبند میں ان کے درجات عربی کے اساتذہ میں بہاء الحسن مرادآبادی، اعزاز الاسلام عرف حامد میاں دیوبندی (ابنِ اعزاز علی امروہوی)، فخر الحسن مرادآبادی، سید فخر الدین احمد مرادآبادی، سید اختر حسین دیوبندی، اسلام الحق اعظمی، محمد نعیم دیوبندی، شریف حسن دیوبندی، خورشید عالم دیوبندی، محمد حسین بہاری، وحید الزماں کیرانوی، محمد سالم قاسمی، انظر شاہ کشمیری، نصیر احمد خان بلند شہری، عبد الاحد دیوبندی، قمر الدین احمد گورکھپوری بھی شامل تھے۔[11]

ان کے خوش خطی کے اساتذہ میں شکور احمد دیوبندی، اشتیاق احمد قاسمی دیوبندی اور وحید الزماں کیرانوی تھے۔[12] اسی طرح ان کے افتا کے اساتذہ میں احمد علی سعید نگینوی، محمود حسن گنگوہی اور نظام الدین اعظمی تھے۔[13] مندرجۂ بالا اساتذہ کے علاوہ انھوں نے محمد طیب قاسمی کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا اور حجۃ اللہ البالغہ جیسی کتاب ان سے پڑھی تھی۔[14]

مدرسے کی تعلیم کے علاوہ؛ الداعی کے معین مدیر رہنے کے درمیان انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی کے انگلش امتحانات دے کر کامیابی حاصل کی، بی اے کی تعلیم بھی مکمل کر لی؛ مگر 1980ء میں دار العلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کی مصروفیات کی وجہ سے بی اے کے آخری امتحان میں شریک نہ ہو سکے۔[15] جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل[16] اور 1990ء میں آگرہ یونیورسٹی (ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ) سے ایم اے (اردو) بھی کیا۔[16][17]

اکتوبر 1993ء میں امام بخاری کانفرنس، تاشقند میں انھوں نے عبد الفتاح ابو غدہ حلبی سے خصوصی اجازت حدیث حاصل کی تھی۔[2]

نور عالم خلیل امینی اور وہ دار العلوم دیوبند کے اندر کئی کتابوں میں ہم سبق رہ چکے تھے تھے۔[18]

عملی زندگی[ترمیم]

دار العلوم دیوبند میں[ترمیم]

تکمیل افتا کے زمانۂ تعلیم ہی میں وحید الزماں کیرانوی نے ان کی اردو و عربی میں خوش نویسی دیکھ کر ان کو خطاطی کی مشق بھی کروائی، پھر بعد میں دعوۃ الحق اور الکفاح رسالوں کی کتابت کی ذمہ داری بھی ان سے متعلق کر دی۔ پھر خوش خطی و افتا نویسی کی تکمیل کے بعد؛ 1976ء میں پندرہ روزہ الداعی (موجودہ ماہنامے) کے معاون مدیر کی حیثیت سے دار العلوم دیوبند میں ان کا تقرر عمل میں آیا، جس ذمے داری کو انھوں نے 1982ء کے انقلاب دار العلوم تک بہ حسن و خوبی انجام دیا۔[19]

دار العلوم وقف دیوبند میں[ترمیم]

انقلاب دار العلوم دیوبند، 1982ء کے وقت انھوں نے محمد طیب قاسمی کے ہم راہ ہوکر دار العلوم وقف دیوبند کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی اور تا دمِ آخر وہیں پر تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور ان کے اس (چالیس سالہ) تدریسی زندگی کے دوران؛ ادب، فقہ و اصول فقہ کی کتابوں کے علاوہ؛ صحیح بخاری (جلد اول کے بعض پاروں) اور صحیح مسلم سمیت، دورۂ حدیث کی اکثر کتابوں کا درس ان سے متعلق رہا۔[20] اخیر میں صحیح مسلم کے علاوہ المختارات العربیہ اور حجۃ اللہ البالغہ جیسی اہم کتابیں ان کے زیر درس تھیں۔[21]

قلمی زندگی[ترمیم]

زمانۂ طالب علمی ہی سے عربی واردو دونوں زبانوں میں لکھنے کا ذوق رکھتے تھے، اپنی تعلیمی زندگی ہی میں وہ طلبۂ صوبہ بہار کی سجاد لائبریری کے ماہانہ دیواری پرچہ البیان کے مدیر رہ چکے تھے، اسی طرح مفتی، اسلاف اور اس جیسے دیگر رسائل و جرائد میں مضامین لکھا کرتے تھے، نیز عربی کے الیقظہ، الروضہ اور الكفاح جیسے جداریوں میں بھی مسلسل ان کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔[16]

1976ء سے 1982ء کے درمیان؛ الداعی کے عربی مقالات کے علاوہ؛ ماہ نامہ دار العلوم دیوبند، پندرہ روزہ اشاعت حق دیوبند، ہفت روزہ ہجوم اور ہفت روزہ الجمعیۃ، دہلی جیسے رسالوں میں ان کے اردو مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔[16]

1983ء میں انھوں نے الثقافہ کے نام سے ایک ماہ نامے کا اجرا کیا، جو دو سالوں کے بعد موقوف ہو گیا؛ 1984ء میں انھوں نے ماہ نامہ طیب کی ادارت کی؛ دس سال سے زائد تک پندرہ روزہ ندائے دار العلوم وقف کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے اور ساتھ ہی ملک کے مختلف رسائل و اخبارات میں مختلف موضوعات پر ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔[16]

تصانیف[ترمیم]

محمد اسلام قاسمی کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:[2][22][23]

  • دار العلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ
  • دار العلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب
  • مقالات حکیم الاسلام
  • خانوادۂ قاسمی اور دار العلوم دیوبند
  • ازمۃ الخلیج (عربی)
  • خلیجی بحران اور صدام حسین
  • درخشاں ستارے: میرے اساتذہ، میری درسگاہیں
  • رمضان المبارک: فضائل ومسائل
  • زکوۃ و صدقات: اہمیت و فوائد
  • متعلقات قرآن اور تفاسیر
  • ضمیمہ المنجد عربی اردو
  • جمع الفضائل شرح اردو شمائل ترمذی
  • منہاج الابرار شرح اردو مشکوۃ الآثار
  • جدید عربی میں خط لکھیے (عربی اردو)
  • القراءۃ الراشدہ ترجمہ اردو (تین حصے)
  • ترجمہ مفید الطالبین

وفات اور پسماندگان[ترمیم]

محمد اسلام قاسمی کا انتقال؛ 16 جون 2023ء (بہ مطابق 26 ذی قعدہ 1444ھ)، جمعہ کی صبح کو، تقریباً 70 سال کی عمر میں، محلہ خانقاہ، دیوبند میں ہوا۔ نماز جنازہ رات دس بجے، دار العلوم دیوبند کے احاطۂ مولسری میں ادا کی گئی اور قبرستان قاسمی، دیوبند میں تدفین عمل میں آئی۔[24]

پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو صاحبزادے: انجینئر قمر الاسلام، مقیم بنگلور اور بدر الاسلام قاسمی، استاذ حدیث جامعہ امام محمد انور شاہ ہیں۔[25]

حوالہ جات[ترمیم]

مآخذ[ترمیم]

  1. عباسی 2020, p. 220.
  2. ^ ا ب پ اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی (19 جون 2021ء)۔ "حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی: حیات و خدمات کی ایک جھلک"۔ qindeelonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2023ء 
  3. قاسمی 2019, pp. 20–21.
  4. قاسمی 2019, pp. 21–30.
  5. عباسی 2020, p. 221.
  6. قاسمی 2019, pp. 33–39.
  7. قاسمی 2019, p. 46.
  8. قاسمی 2019, pp. 46–47.
  9. قاسمی 2019, pp. 69–70.
  10. قاسمی 2019, p. 70.
  11. قاسمی 2019, pp. 71–127.
  12. قاسمی 2019, pp. 136–142.
  13. قاسمی 2019, p. 145.
  14. قاسمی 2019, pp. 159–161.
  15. قاسمی 2019, p. 8.
  16. ^ ا ب پ ت ٹ نایاب حسن قاسمی (2013ء)۔ "مولانا محمد اسلام قاسمی"۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ صفحہ: 257–258 
  17. عباسی 2020, p. 224.
  18. نور عالم خلیل امینی (2002ء)۔ وہ کوہ کَن کی بات (تیسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارۂ علم و ادب۔ صفحہ: 129–130 
  19. قاسمی 2019, pp. 83–84.
  20. قاسمی 2019, pp. 8–9.
  21. عمر فاروق قاسمی (19 جون 2023ء)۔ "مفتی محمد اسلام قاسمیؒ: سفر حیات کے درخشاں پہلو"۔ urdu.millattimes.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2023ء 
  22. عبد المالک بلند شہری (25 نومبر 2021ء)۔ "مولانا محمد اسلام قاسمی کی دو کتابیں"۔ qindeelonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2023ء 
  23. مظفر حنفی، گوپی چند نارنگ (1996ء)۔ وضاحتی کتابیات (1979–1980ء)۔ 3 (پہلا ایڈیشن)۔ نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ صفحہ: 641 
  24. رضوان سلمانی (16 جون 2023ء)۔ "دارالعلوم وقف کے استاذ حدیث اور مسلم پرسنل لاءبورڈ کے رکن مولانا محمد اسلام قاسمی کی وفات"۔ روزنامہ ہماری دنیا، دہلی۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2023ء 
  25. شاہنواز بدر قاسمی (18 جون 2023ء)۔ "باوقار عالم دین اور بے مثال استاذ، مولانا محمد اسلام قاسمی ؒ"۔ ہمارا سماج۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جون 2023ء 

کتابیات[ترمیم]

  • محمد اسلام قاسمی (اکتوبر 2019)۔ درخشاں ستارے: میرے اساتذہ، میری درسگاہیں (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبۃ النور 
  • ابن الحسن عباسی (مدیر)۔ "میں کیا اور میرا مطالعہ کیا!! از محمد اسلام قاسمی"۔ ماہنامہ النخیل (خصوصی شمارہ: یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ) (اکتوبر 2020 ایڈیشن)۔ کراچی: مجلس تراث الاسلام 

مزید پڑھیے[ترمیم]

  • محمد سفیان قاسمی، محمد شکیب قاسمی، عبد اللہ ابن القمر الحسینی، مدیران (ذی الحجہ 1444ھ بہ مطابق جولائی 2023ء)۔ "گوشۂ اسلام" (PDF)۔ ماہنامہ ندائے دار العلوم وقف دیوبند۔ مکتبہ دار العلوم دیوبند۔ 14 (12)