یحییٰ بن اکثم
محدث | |
---|---|
یحییٰ بن اکثم | |
معلومات شخصیت | |
تاریخ وفات | سنہ 857ء |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | مرو ،حجاز |
شہریت | خلافت امویہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عملی زندگی | |
ابن حجر کی رائے | ثقہ |
ذہبی کی رائے | ثقہ |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
درستی - ترمیم |
یحییٰ بن اکثم بن محمد بن قطن بن سمعان مروزی روایات میں ہے کہ مامون الرشید کے دربار سے وابستہ تھے اور بہت ذہین آدمی تھے۔
ولادت
[ترمیم]ابو محمد یحیٰ بن اکثم کی ولادت 159ھ میں ہوئی ابو محمد کنیت تھی اکثم مرد عظیم البطن کو کہتے ہیں
روایت حدیث
[ترمیم]بڑے علامہ فقیہ محدث صدوق عارف تھے۔ آپ نے حدیث کو امام محمد و ابن مبارک و سفیان بن عینیہ وغیرہ سے سنا اور روایت کیا اور آپ سے بخاری نے اور ترمذی نے روایت کی ۔خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ آپ بدعت سے بالکل سلیم اور بڑے مضبوط اہل سنت و جماعت تھے۔ طلحہٰ بن محمد نے کہا ہے کہ آپ دنیا کے اعلام میں سے تھے ،امر آپ کا مشہو اور نیکی معروف تھی۔ آپ کا فضل و علم دریاست و سیاست کسی پر پوشیدہ نہ تھا۔
قاضی القضاۃ
[ترمیم]بیس سال کی عمر میں بعد وفات اسمٰعیل بن حماد بن امام ابو حنیفہ کے بصرہ کے قاضی ہوئے۔ کہتے ہیں کہ اہل بصرہ نے آپ کو بسبب صغر سنی کے صغیر سمجھا۔ آپ نے یہ حال معلوم کر کے فرمایا کہ میں عتاب بن اسید سے عمر میں بڑا ہوں جن کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ کا قاضی بنایا تھا اور نیز معاذ بن جبل سے بڑا ہوں جن کو آنحضرت نے یمن کا قاضی ہنا کر بھیجا تھا۔ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل سے کہا گیا کہ لوگ یحییٰ بن اکثم پر تہمت لگاتے ہیں کہ، آپ نے فرمایا کہ خدا کو پاکی ہے کون ایسا کہتا ہے؟ پھر اس تہمت سے سخت انکار کیا۔
تصنیف
[ترمیم]آپ نے فقہ میں ایک بہت بڑی کتاب لکھی تھی مگر لوگوں نے بسبب طوالت کے اس کو ترک کیا اور ایک کتاب اصول فقہ میں اور ایک تنبیہ نام عراقیوں کے لیے تصنیف فرمائی
وفات
[ترمیم]یحیٰ بن اکثم کی وفات 242ھ میں مدینہ کے گاؤں ربذہ میں ہوئی۔[1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ موسوعہ فقہیہ ،جلد3 صفحہ 496، وزارت اوقاف کویت، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا